ناصبیوں کے چند اعتراضات کے جوابات (دوسرا حصہ)

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

اعتراض: قرآن کے تحریف شدہ ہونے پر شیعہ عالم نے کتاب لکھی

.

جواب

.

کوئی شیعہ عالم پوری شیعہ امت پر حجت نہیں بن سکتا ۔ غلطی دنیا کے کسی بھی غیر معصوم سے ہو سکتی ہے

اسکا جواب ہم تین حصوں میں دیں گے

  1.  شیعہ علما نے کتاب فصل الخطاب کے رد پر کئیں کتب لکھی ہیں
  2. علامہ محدث نوری کا رجوع ثابت ہے
  3. خود اہل سنت علما میں بھی ایسے علما موجود تھے جو تحریف قرآن کے قائل تھے اور باقاعدہ کتب بھی لکھی ہیں

.

پہلا حصہ

.

محدث نوری کی کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘    کبھی بھی  شیعوں کے عقیدے کوبیان کرنے والی کتاب نہیں تھی اور نہ ہے۔ چونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ کتاب خود شیعوں کے نزدیک  لائق اعتبار اور اہمیت نہیں  سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ  ایک روائی اور حدیثی کتاب ہے اعتقادی کتاب نہیں ہے  اور اہم بات یہ کہ یہ کتاب ابھی ماضی قریب میں ہی تحریر کی گئی ہے  کہ جس کے مؤلف ۔ میرزا حسین نوری ۔ نے سن ۱۳۲۰ ہجری میں رحلت کی   تو بھلا یہ کتاب کیسے اس مذہب کے عقیدے  کی عکاس ہوسکتی ہے جس کا سابقہ ۱۴۰۰ برس قدیمی ہو ؟ !

اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ کتاب  تیرہویں صدی کے اوائل میں صرف اور صرف  ایک مرتبہ نجف اشرف سے شائع ہوئی ہے  اور جیسی ہی یہ کتاب شائع ہوئی  حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بزرگ علماء کی طرف سے بشدت اس کی تردید کی گئی اور اسی وقت علماء کے حکم سے یہ کتاب اکھٹا کروا لی گئی  اور اس کے بعد  سے اب تک یہ کتاب کبھی  شائع نہیں  ہوئی اور نہ ہی  کسی کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع ہے ۔

.

جن لوگوں نے فصل الخطاب کی تردید میں کتابیں لکھی ہیں:

  1.  بزرگ فقیہ مرحوم شیخ محمود بن ابی القاسم المعروف “معرب الطہرانی” (متوفی 1313 ہجری)، جنہوں نے “کشف الارتیاب في عدم تحريف الکتاب” لکھی۔
  2. مرحوم علاّمه سيّد محمّد حسين شهرستانى (متوفّى 1315 ہجری) نے حاجی نوری کی کتاب “فصل الخطاب” کو رد کرتے ہوئے “حفظ الكتاب الشريف عن شبهة القول بالتحريف” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔
  3. نجف اشرف کے عظیم محقق مرحوم علامہ بلاغی (متوفی 1352) نے اپنی تفسیر “آلاء الرحمن” میں ایک مکمل اور قابل اعتناء فصل “فصل الخطاب” کی تردید کے لئے مختص کی۔ (
  4. ہم نے اپنی کتاب “انوار الاصول” میں عدم تحریف پر مفصل بحث کی ہے اور فصل الخطاب میں مندرجہ شبہات کا دندان شک جواب دیا گیا ہے۔

.

دوسرا حصہ

علامہ محدث نوری کا رجوع ثابت ہے

مرحوم حاجی میرزا حسین النوری گو کہ بہت بڑے عالم تھے لیکن علامہ بلاغی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف روایات کا سہارا لیا کرتے تھے تا ہم وہ فصل الخطاب کی اشاعت کے بعد اپنے اس کام سے نادم ہوگئے تھے جبکہ حوزہ علمیہ نجف کے تمام علماء نے فصل الخطاب کو ان کی واضح خطا قرار دیا تھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ حاجی نوری کو فصل الخطاب کی اشاعت کے بعد ہر طرف سے اعتراض و تنقید کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ انہیں اپنے دفاع میں ایک رسالہ شائع کرنا پڑا اور اس رسالے میں لکھا:

  • “میرا مقصد قرآن میں عدم تحریف کا اثبات کی کوشش کی تھی لیکن میری تعبیرات و عبارات سے غلط تاثر لیا گیا”

ان واضح حقائق کے باوجود کیا حاجی نوری کی کتاب کو پھر بھی شیعہ اعتقاد سمجھنا چاہئے؟

.

علماء امامیہ کی کتب کا موسوعہ جمع کرنے والے اور شیخ محدث محمد نوری کے شاگرد بزرگوار آغا بزرگ طہرانی نے الذريعة إلى تصانيف الشيعة کے جز 16 ص 231 میں فصل الخطاب کتاب کے ذیل میں رقم طراز ہیں کہ

📝 جب علامہ محدث نوری کے جواب میں کتاب لکھی گئی تو علامہ نے اس کتاب کے جواب میں فارسی میں ایک رسالہ لکھا اور یوں گویا ہوئے:

📜 فكان شيخنا يقول: لا ارضى عمن يطالع (فصل الخطاب) ويترك النظر إلى تلك الرسالة

📝 یعنی میں اس بات پر راضی نہیں کہ کوئی شخص میری کتاب فصل الخطاب تو پڑھے اور اس رسالہ کا مطالعہ نہ کرے۔

اس رسالہ میں علامہ محدث نوری نے کہا:

📜 ان الاعتراض مبنى عل المغالطة في لفظ التحريف، فانه ليس مرادى من التحريف التغيير والبديل، بل خصوص الاسقاط لبعض المنزل المحفوظ عند اهله، وليس مرادى من الكتاب القرآن الموجود بين الدفتين، فانه باق على الحالة التى وضع بين الدفتين في عصر عثمان، لم يلحقه زيادة ولا نقصان

📝 یعنی یہ جو جملہ اعتراض کیا جارہا ہے وہ ایک مغلطہ کے تحت ہے جو لفظ تحریف میں پنہاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس لفظ سے مراد تغییر و تبدیلی نہیں، بلکہ بعض اہم منازل کا اسقاط ہے جو ان کے اہل کے ہاں تھی، اور میری مراد اس کتاب سے یہ ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن مجید نہیں، کیونکہ یہ وہی قرآن مجید ہے جو جناب عثمان کے عہد زمانہ سے اب تک بغیر کسی زیادتی و نقصان کے باقی ہے-

آگے ص 232 میں لکھا ہے کہ اس کتاب کا بہتر نام یہ ہونا چاہئے تھا فصل الخطاب في عدم تحريف الكتاب

اسی طرح شیخ بزرگ طہرانی شاگرد رشید نوری فرماتے ہیں اپنے استاد کے بارے میں

📜 وسمعناه من لسانه في أواخر أيامه فإنه كان يقول: أخطأت في تسمية الكتاب وكان الأجدر أن يسمى ب‍ (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب لأني أثبت فيه أن كتاب الاسلام (القرآن الشريف) الموجود بين الدفتين المنتشر في بقاع العالم – وحي آلهي بجميع سوره وآياته وجمله لم يطرأ عليه تغيير أو تبديل ولا زيادة ولا نقصان من لدن جمعه حتى اليوم وقد وصل الينا المجموع الأولي بالتواتر القطعي ولا شك لاحد من الامامية فيه فبعد ذا امن الانصاف أن يقاس الموصوف بهذه الأوصاف –

📝 اور ہم نے ان کی زبانی زندگی کے آخری حصہ میں کہ میں نے اس کتاب کے نام رکھنے میں غلطی کی، زیادہ بہتر ہوتا کہ اگ میں اس کا نام (فصل الخطاب) في عدم تحريف الكتاب رکھتا کیونکہ اسلام کی کتاب قرآن مجید جو بین الدفتین موجود ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں جلوہ افروز ہے، وہی وحی الہی ہے اپنی تمام سورتوں اور آیات سمیت، اور اس کی جمع آوری سے لے کر اب تک اس میں تغیر، تبدیلی، زیادتی اور نقصان نہیں۔ اور یہ ہمارے پاس یہ تواتر قطعی کے توسط سے آیا اور اس میں سے کسی امامی شیعہ کو شک نہیں۔ اس کے بعد بحی لوگوں ان کو اس طرح کے اوصاف سے نوازتے ہیں-

📚 حوالہ: مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، جز 1، ص 50، حاشیہ علامہ بزرگ طہرانی، تحقیق: موسستہ آل بیت

تبصرہ: یہاں بر صراحت سے رجوع کہہ لیجئے یا عدم عقیدہ تحریف قرآن ثابت ہے، اور رجوع کے بعد کسی شخص پر پہلے گناہ کا الزام یا خطاء کا الزام دینا انصاف نہیں

.

اسی طرح آیت اللہ روح اللہ خمینی اپنی کتاب میں رقم طراز ہے:

📜 وأزيدك توضيحا: أنه لو كان الأمر كما توهم صاحب فصل الخطاب الذي كان كتبه لا يفيد علما ولا عملا، وإنما هو إيراد روايات ضعاف أعرض عنها الأصحاب،

📝 اور میں ایک بات کی مزید توضیح کردوں۔ اگر یہ بات ایسی ہے جیسے کہ صاحب فصل الخطاب کو وھم ہوا تو یہ کتاب علم و عمل دونوں میں مفید نہیں بلکہ اس کتاب میں تو ضعیف روایات کا اندراج ہیں جس سے علماء و اصحاب نے قابل اغماض نہیں سمجھا-

📚 حوالہ: انوار الهداية، جز اول، ص 244، مبحث في حجية الظهور، طبع قم۔

.

ہم یہاں مزید علما کی کتب کا ذکر کر دیں کہ

کوئی بھی شیعہ عالم تحریف قرآن کا قائل نہیں بلکہ اس عقیدے کے رد پر درج ذیل کتب لکھی گئی ہیں

1 – السيد حامد حسين : صاحب كتاب عبقات الأنوار المتوفى سنة 1306 هـ له موسوعة في عشرة مجلدات : ( استفتاء الإحكام في أصول الأحكام ) إستقصى فيها البحث في عدم التحريف وأتي فيها بما لا مزيد عليه.

2 – الميرزاء محمود بن أبي القاسم الطهراني : من أعلام القرن الرابع – له كتاب : ( كشف الارتياب عن تحريف كتاب رب الأرباب ) رد فيه على الزاعمين بالتحريف ، أعيان الشيعة ترجمة المذكور أعلاه.

3 – الشيخ رسول جعفريان : له كتاب : ( اكذوبة تحريف القرآن ) ، طبع سنة 1406 هـ.

4 – الميرزاء مهدي البروجردي : له كتاب : ( كتابات ورسالات حول اثبات عدم التحريف ) ، طبع في ايران.

5 – السيد هبه الدين الشهرستاني : له كتاب : ( التنزيه في اثبات صيانة المصحف الشريف من النسخ والنقص والتحريف ) ، معجم ريان الفكر في النجف الأشرف : ( ج2 ص 762 ).

6 – محمد علي بن السيد محمد صادق الأصفهاني : له ( عدم التحريف في الكتاب ) ، المصدر السابق : ( ج2 ص 789 ).

7 – علي محمد الآصفى : له : ( فصل الخطاب في نفي تحريف الكتاب ) ، المصدر السابق : ( ج1ص 46 ).

8 – السيد محمد حسين الجلالي : له : ( نفي التحريف والتصحيف ) ، المصدر السابق : ( ج1 ص 357 ).

9 – السيد مرتضى الرضوي : له : ( البرهان على عدم تحريف القرآن ) ، طبع في بيروت.

10- العلامة الشعراني : رد على الكتاب المؤلف في التحريف ونقضه فصلا فصلا ، طبع ضمن كتاب : ( ثمان رسائل ) عربي.

11- العلامة حسن الآملى : له كتاب : ( فصل الخطاب في عدم تحريف كتاب رب الأرباب ) ، طبع ضمن كتاب ( ثمان رسائل عربي ).

12- السيد علي الميلاني : له كتاب : ( التحقيق في نفي التحريف عن القرآن الشريف ) ، طبع في ايران وهو متداول.

13- الشيخ محمد هادي معرفه : له كتاب : ( صيانة القرآن من التحريف ) ، طبع في ايران وهو متداول.

14- السيد أمير محمد القزويني : له كتاب : ( القائلون بتحريف القرآن ) ، جاء فيه أما الشيعة فقد أثبتوا من عصر نزول القرآن الكريم على النبي (ص) ، وحتى قيام الساعة أنهم يتبرؤون أشد البراءة ممن يقول بتحريفه.

15- المرجع الديني الكبير السيد صدر الدين الصدر : له : ( رسالة في اثبات عدم التحريف ) ، علماء ثغور الإسلام : ( ج2 ص 535 ).

16- الشيخ آغابزرك الطهراني : له : ( النقد اللطيف في نفي التحريف ) ، الذريعة : ( 16 ص 232 ).

17- مؤسسة سلسلة المعارف الإسلامية : ( سلامة القرآن من التحريف ) ، اصدار مركز الرسالة ايران.

18- السيد علاء الدين السيد أمير محمد القزويني : له كتاب : ( شبهة القول بتحريف القرآن عند أهل السنة ) ، طبع في بيروت.

.

جواب کا تیسرا حصہ

.

خود اہل سنت علما میں بھی ایسے علما موجود تھے جو تحریف قرآن کے قائل تھے اور باقاعدہ کتب بھی لکھی ہیں

.

اہل سنت کے وہ علما جنہوں نے تحریف قرآن کے اثبات میں کتب لکھی ہیں

پہلی کتاب

.

تحریف کے قائل مؤلفین کی کتب میں سے ایک مصر کے مشہور عالم دین”ابن الخطیب المصری” کی کتاب “الفرقان فی تحریف القرآن” ہے۔ یہ کتاب 1948 عیسوی (بمطابق 1367 ہجری) میں شائع ہوئی تا ہم الازہر کے علماء نے بر وقت اقدام کرکے اس کے نسخے جمع کرکے ختم کروادیئے لیکن اس کے بعض نسخے غیر قانونی طور پر بعض لوگوں کے ہاتھ لگے۔

.

یہاں آپ online اس کتاب کو محفوظ کر کے پڑھ سکتے ہیں

.

online link

https://www.noor-book.com/en/ebook-0099-%D9%83%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%B1%D9%82%D8%A7%D9%86-%D8%AC%D9%85%D8%B9-%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D9%88%D8%AA%D8%AF%D9%88%D9%8A%D9%86%D9%87-pdf

.

دوسری کتاب

.

اسی طرح ایک اور قدیمی اہل سنت عالم “لابن أبي داود” نے کتاب المصاحف لکھی

جس میں وہ تمام تر روایات نقل کی گئیں جو قرآن کے تحریف شدہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں

اس کتاب کے ایک باب کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام ہے

.

مَا غَيَّرَ الْحَجَّاجُ فِي مُصْحَفِ عُثْمَانَ

یعنی حجاج کا مصحف عثمان میں تغییر و تبدیلی کے بارے میں باب

.

اور آگے پوری تفصیل لکھی گئی ہے روایت میں کہ قرآن میں کیا الفاظ تھے اور کس طرح بدل دئے گئے

.

قال أبو بکر کَانَ فِی کِتَابِ أَبِی: حَدَّثَنَا رَجُلٌ، فَسَأَلْتُ أَبِی: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ صُهَیْبٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِی جَمِیلَةَ، أَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ یُوسُفَ، غَیَّرَ فِی مُصْحَفِ عُثْمَانَ أَحَدَ عَشَرَ حَرْفًا قَالَ: کَانَتْ فِی الْبَقَرَةِ (لَمْ یَتَسَنَّ وَانْظُرْ) فَغَیَّرَهَا {لَمْ یَتَسَنَّهْ} [البقرة: 259] بِالْهَاءِ، وَکَانَتْ فِی الْمَائِدَةِ (شَرِیعَةً وَمِنْهَاجًا) فَغَیَّرَهُ {شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا} [المائدة: 48] ، وَکَانَتْ فِی یُونُسَ (هُوَ الَّذِی یَنْشُرُکُمْ) فَغَیَّرَهُ {یُسَیِّرُکُمْ} [یونس: 22] ، وَکَانَتْ فِی یُوسُفَ (أَنَا آتِیکُمُ بِتَأْوِیلِهِ) فَغَیَّرَهَا {أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ} [یوسف: 45] ، وَکَانَتْ فِی الْمُؤْمِنِینَ (سَیَقُولُونَ لِلَّهِ لِلَّهِ لِلَّهِ) ثَلَاثَتُهُنَّ، فَجَعَلَ الْآخَرَیْنِ (اللَّهُ اللَّهُ) ، وَکَانَ فِی الشُّعَرَاءِ فِی قِصَّةِ نُوحٍ (مِنَ الْمُخْرَجِینَ) ، وَفِی قِصَّةِ لُوطٍ (مِنَ الْمَرْجُومِینَ) ، فَغَیَّرَ قِصَّةَ نُوحٍ {مِنَ الْمَرْجُومِینَ} [الشعراء: 116] ، وَقِصَّةَ لُوطٍ {مِنَ الْمُخْرَجِینَ} [الشعراء: 167] ، وَکَانَتْ فِی الزُّخْرُفِ (نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَعَائِشَهُمْ) فَغَیَّرَهَا {مَعِیشَتَهُمْ} [الزخرف: 32] ، وَکَانَتْ فِی الَّذِینَ کَفَرُوا (مِنْ مَاءٍ غَیْرِ یَسِنٍ) فَغَیَّرَهَا {مِنْ مَاءٍ غَیْرِ آسِنٍ} [محمد: 15] ، وَکَانَتْ فِی الْحَدِیدِ (فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَاتَّقَوْا لَهُمْ أَجْرٌ کَبِیرٌ) فَغَیَّرَهَا {مِنْکُمْ وَأَنْفَقُوا} [الحدید: 7] ، وَکَانَتْ فِی إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ (وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِظَنِینٍ) فَغَیَّرَهَا {بِضَنِینٍ} {التکویر: 24}

.

: سند الرواية ⁦⚠️
سألت أبا دَاوُد عَن عَبّاد بْن صُهَیب فَقَالَ: ” کَانَ قدریاً صدوقًا “.
سؤالات أبی عبید الآجری أبا داود السجستانی فی الجرح والتعدیل،ص229 ط عمادة البحث العلمی
الإِمَامُ، شَیْخُ السُّنَّةِ، مُقَدَّمُ الحُفَّاظِ، أَبُو دَاوُدَ الأَزْدِیُّ، السِّجِسْتَانِیُّ، مُحَدِّثُ البَصْرَةِ.
سیر اعلام النبلاء،ج13،ص203 ط موسسة الرسالة
أَبُو بَکْرٍ عَبْدُ اللهِ بنُ سُلَیْمَانَ بنِ الأَشْعَثِ السِّجِسْتَانِیُّ : الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، الحَافِظُ، شَیْخُ بَغْدَادَ، أَبُو بَکْرٍ السِّجِسْتَانِیُّ، صَاحِبُ التَّصَانِیْفِ.
سیر اعلام النبلاء،ج13،ص221و222 ط موسسة الرسالة
عَوْفُ بنُ أَبِی جَمِیْلَةَ أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ : الإِمَامُ، الحَافِظُ، أَبُو سَهْلٍ الأَعْرَابِیُّ، البَصْرِیُّ، وَلَمْ یَکُنْ أَعْرَابِیاً، بَلْ شُهِرَ بِهِ.
سیر اعلام النبلاء،ج6،ص383و384 ط موسسة الرسالة

یہاں آپ online اس کتاب کو محفوظ کر کے پڑھ سکتے ہیں

https://shamela.ws/book/13067/494

.

تحریفِ قرآن کی روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اہل سنت علما کو الگ سے کتاب لکھنا پڑی