بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
.
یہاں ہم ناصبیوں کے وہ دلائل دیکھیں گے جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں اور انکا مختصر جواب پیش کریں گے
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 1
جواب
.
جی ہاں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کیوں کہ آئمہ ع کے مصحف میں اللّه کی طرف سے جو کچھ بھی نازل ہوا تھا یعنی ناسخ و منسوخ آیات بھی موجود تھیں
ہم حجت قائم کرنے کے لئے خود انکے اپنے گھر کی کتب سے دلیل پیش کرتے ہیں
لیجئے جناب علامہ سیوطی صاحب لکھتے ہیں کہ ابن سیرین کہتے ہیں امام علی کے مصحف میں ناسخ و منسوخ درج تھیں
پھر تاریخ الخلفاء کی عبارت دیکھیں کہ
ابن سیرین کہتے گیں اگر وہ قرآن شریف ہم تک پہنچتا تو علم ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا
تبصرہ: آخر کون سا ذخیرہ ہوتا جو اس موجودہ قرآن میں نہیں ہے ؟
جی اہل علم حضرت سمجھ چکے ہیں کہ امام علی ع کے قرآن میں ناسخ و منسوخ درج تھیں اور ترتیب نزولی کے حساب سے آیات درج تھیں
لہذا ناصبیوں کی اس دلیل سے تحریف قرآن ثابت نہیں ہوتی
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 2
جواب
.
اسکا وہی جواب ہے جو اوپر گزر چکا ہے کہ امام علی کے مصحف میں ناسخ و منسوخ درج تھیں
اور وہی قرآن امام زمانہ ع کے پاس ہے ۔
یعنی جب امام مہدی عج تشریف لائیں گے تو انکے پاس مولا علی ع کا جمع کیا ہوا مصحف ہوگا جو ترتیب نزولی کے حساب سے ہوگا اور اس میں ناسخ و منسوخ درج ہوں گی اور مکی و مدنی آیات کی ترتیب کا خیال رکھا گیا
.
شیخ مفید فرماتے ہیں کہ
📜 فأما القول في التأليف فالموجود يقضي فيه بتقديم المتأخر وتأخير المتقدم ومن عرف الناسخ والمنسوخ والمكي والمدني لم يرتب بما ذكرناه
📝 تالیف قرآن کے حوالے سے جو بات ہے وہ کہ موجودہ مصحف میں قدیم آیات کو متاخر کردیا گیا ہے اور متاخر آیات کو پہلے لایا گیا ہے، اور ناسخ، منسوخ، مکی و مدنی کا لحاظ نہیں کیا گیا جمع آوری میں جیسے کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے
📚 حوالہ: اوائل المقالات، ص ۸۱، طبع قم۔
.
لہذا ناصبیوں کی اس دلیل سے بھی تحریف قرآن ثابت نہیں ہوتی
ہمارے اس عقیدے پر اپنے عالم کی گواہی دیکھیں
ناصبیواں کی دلیل نمبر 3
جواب
.
یہ روایت ضعیف ہے
ناصبیواں کی دلیل نمبر 4
ملا باقر مجلسی (م ۱۱۱۰ ھ) باب قائم کرتا ہے کہ :
“انهم عليهم السلام يعلمون علم ما كان وما يكون إلى يوم القيامة”
یعنی ائمہ قیامت تک ماکان وما یکون(جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہوگا) کا علم جانتے ہیں ۔ پھر مجلسی اس باب کے تحت کئی روایات ذکر کرتا ہے ۔ ان میں سے ایک روایت ملاحظہ فرمائیں ۔
”ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں کہ:
یقیناً آسمان اور زمین اور جنت اور دوزخ میں جو کچھ بھی ہے ، وہ میں سب کچھ جانتا ہوں ، اسی طرح کائنات میں جو کچھ ہو چکا اور آئندہ ہوگا میں وہ سب جانتا ہوں ، پھر انہوں نے کچھ توقف کیا تو دیکھا کہ یہ بات سننے والوں پر بڑی گراں گزری ہے تو فرمایا : مجھے کتاب اللّٰه سے اس کا علم ہوا ہے ، کیونکہ اللّٰه نے فرمایا ہے : {فِيْهِ تِبْيَانٌ كُلّ شَيء} یعنی اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے ۔“
جواب
.
کیا نواصب بتانا پسند کریں گے کہ اس حوالے سے تحریف قرآن کیسے ثابت ہوتی ہے ؟
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 5
جواب
.
حدیث نمبر 25،26 یہ دونوں ضعیف ہیں
.
نیز یہ کہ اس روایت میں قرآن کی آیت میں تحریف نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کیلئے ہیں
اصحاب رسول ص بھی قرآن کی آیات میں لکھ دیا کرتے تھے کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
ناصبیواں کی دلیل نمبر 6
جواب
.
اسکا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں ۔ جواب دیکھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے 👇🏼
https://invisibleislaam.com/?cat=63
ناصبیواں کی دلیل نمبر 7
جواب
.
یہ روایت ضعیف ہے
ناصبیواں کی دلیل نمبر 8
جواب
.
یہ روایت مرسل ہے
مزے کی بات یہ ہے کہ انہی ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ خود اہل سنت کتب میں روایت پائی جاتی ہے
ملاحظہ کیجئے 👇🏼
ناصبیواں کی دلیل نمبر 9
جواب
.
یہ حدیث بھی مشہور ضعیف ہے
دیکھیں 👈🏼 مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول المؤلف : العلامة المجلسي الجزء : 5 صفحة : 77
نیز اس روایت میں ابی حمزہ کذاب راوی موجود ہے
: البطائني : الواقفي الضعيف ، وقد ورد أحاديث كثير في ذمه.
علي بن أبي حمزة البطائني المتهم الكذاب
علي بن أبي حمزة البطائني : وهو من الكذابين الذين لا يخافون الله تعالى ،
بضعف السند لعلي بن أبي حمزة ،
ناصبیواں کی دلیل نمبر 10
.
ناصبیوں کی دلیل کہ
شیخ صدوق کی روایت سے ثابت ہے کہ سوره الاحزاب میں کمی کر دی گئی
جواب
.
اس روایت میں الحسن بن علی بن ابی حمزہ کذاب راوی موجود ہے
لہذا ناصبیوں کی اس دلیل سے بھی تحریف قرآن ثابت نہیں ہوئی
ناصبیواں کی دلیل نمبر 11
قرآن کی آیت ولایت علی اور بعد کے آئمہ کی ولایت کے الفاظ کے ساتھ نازل ہوئی تھی
جواب
یہ روایت بھی مشہور ضعیف ہے
نیز یہ کہ اس روایت میں قرآن کی آیت میں تحریف نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کیلئے اصحاب رسول ص بھی قرآن کی آیات میں لکھ دیا کرتے تھے کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
ناصبیواں کی دلیل نمبر 12
امام فرماتے ہیں کہ قرآن میں تحریف و تغییر کر دی گئی
جواب
.
ناظرین خود دیکھیں جب انہیں شیعہ کی مخالفت میں ایک بھی صحیح روایت نہ ملی تو کس طرح دلائل شروع کر دئے انہوں نے
یہ روایت کسی بھی طرح سے شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن ثابت نہیں کرتی
روایت میں الفاظ ہیں کہ زمین پر خدا کی 3 حرمت والی چیزوں کو پامال کر دیا گیا قرآن و عترت اور کعبہ
تو ناظرین جس طرح عترت کو کربلا میں اور مکہ میں کعبہ کی حرمت کو شیعہ نے نہیں بلکہ یزیدیوں نے پامال کیا اسی طرح قرآن میں تحریف و تغییر بھی شیعہ نہیں بلکہ غیر مسلموں نے کی ۔ آج بھی غیر مسلم قرآن کو تحریف کرتے ہیں اور شائع کرتے ہیں ۔
ناصبیوں کی اس دلیل سے کسی بھی طرح شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن ثابت نہیں ہوتا
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 13
ناصبیوں نے تفسیر الصافی کا اسکین پیش کرنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن ثابت کرنے کی ناجائز کوشش کرنا
پہلی روایت: اگر قرآن میں کمی نہ کی جاتی تو ہمارا حق کسی بھی اہل عقل سے مخفی نہ ہوتا
دوسری روایت: اگر قرآن اس طرح پڑھا جاتا جس طرح نازل ہوا تھا تو تم ہمارا نام پاتے
تیسری روایت: اس قرآن سے بہت سی چیزیں نکال لی گئی ہیں
جواب
اول تو یہ تینوں روایت بغیر سند کے ہیں ۔ اور بغیر سند روایات سے استدلال کرنا انتہائی جاہلانہ عمل ہے
اور خود صاحب کتاب یہ روایات لکھنے کے بعد آگے اپنا عدم تحریف قرآن کا عقیدہ بیان کر رہے ہیں (سکین پیجز ملاحظہ کیجئے)
.
ناصبیوں کی اس دلیل سے کسی بھی طرح شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن ثابت نہیں ہوتا
.
لیکن ہم اپنے مومنین کی دل کی تسلی کیلئے انکا جواب پیش کر دیتے ہیں
.
پہلی روایت: امام فرماتے ہیں کہ اگر قرآن میں کمی یا زیادتی نہ کی جاتی تو ہمارا حق کسی بھی اہل عقل سے مخفی نہ ہوتا
جواب: جیسا کہ ہم نے پیچھے ذکر کیا تھا کہ مولا علی ع نے جو قرآن جمع کیا تھا وہ ترتیب نزولی کے حساب سے تھا ۔ اس قرآن میں ہر آیت کا شان نزول لکھا ہوا تھا یہاں تک کہ فلاں آیات کہاں اور کس وقت اور کس کی شان یا مذمت میں نازل ہوئیں اور احادیث قدسی اور ناسخ و منسوخ بھی اس میں شامل تھیں۔
تو بیشک امام ع نے حق فرمایا کہ اگر قرآن میں تحریف نہ کی جاتی تو ہمارا حق کسی بھی اہل عقل سے مخفی نہ ہوتا
.
دوسری روایت: اگر قرآن اس طرح پڑھا جاتا جس طرح نازل ہوا تھا تو تم ہمارا نام پاتے
جواب: جی بیشک اگر آج قرآن ترتیب نزولی کے حساب سے پڑھا جاتا تو آج جس طرح یہ قرآن (یعنی مصحف عثمانی) عثمان کے نام سے جانا جاتا ہے اگر وہ قرآن آج موجود ہوتا تو آئمہ ع کا نام اس دنیا میں ہوتا مصحف علوی کے نام سے
.
تیسری روایت: اس قرآن سے بہت سی چیزیں نکال لی گئی ہیں
جی بیشک قرآن میں ناسخ و منسوخ اور احادیث قدسیہ نکال لی گئیں ۔ جو امام علی ع نے درج کی تھیں۔ اسی لئے ابن سیرین کہا کرتے تھے کہ اگر علی والا قرآن آج موجود ہوتا تو علم کا بہت بڑا ذخیرہ ہوتا
ناصبیواں کی دلیل نمبر 14
جواب
حدیث کے الفاظ یہ ہیں 👇🏼
📜 عَنْ حُسَيْنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قُلْتُ لَهُ فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ اقْرَأْهُ أَخْمَاساً اقْرَأْهُ أَسْبَاعاً أَمَا إِنَّ عِنْدِي مُصْحَفاً مُجَزًّى أَرْبَعَةَ عَشَرَ جُزْءاً۔
📝 حسين بن خالد کہتے ہیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: کتنے عرصے میں قرآن کی تلاوت مکمل کیا کروں؟
فرمایا: قرآن کی تلاوت پانچ حصوں میں کیا کرنا؛ (یعنی پانچ دنوں میں اور ہر روز چھ پاروں کی تلاوت کرنا) اور سات حصوں میں تلاوت کرنا (یعنی سات دنوں میں)؛ اور میرے پاس ایک مصجف (قرآن) ہے جس کے 14 حصے ہیں (یعنی اس کی تلاوت چودہ دنوں میں مکمل ہوتی ہے)۔
.
صاحب الصافی نے اس حدیث کے تحت جو لکھا ہے وہ روایت کے الفاظ نہیں۔
البتہ انہیں صحیح مان بھی لیا جائے تو کوئی مشکل نہیں ہے
کیوں کہ
ہم پیچھے ثابت کر چکے ہیں کہ
اہل بیت ع کے پاس جو قرآن تھا اس میں ناسخ و منسوخ آیات ، احادیث قدسیہ (یعنی جو کچھ بھی خدا کی طرف سے نازل ہوا) موجود تھیں
.
لہذا ناصبیوں کی اس دلیل سے بھی تحریف قرآن ثابت نہیں ہوئی
ناصبیواں کی دلیل نمبر 15
جواب
روایت ضعیف ہے
ناصبیواں کی دلیل نمبر 16
جواب
لکھتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے لیکن میرے نزدیک صحیح ہے ۔
صحیح کیوں کہا گیا اس کیلئے دیکھیں اعتراض نمبر 29
ناصبیواں کی دلیل نمبر 17
جواب
روایت مجہول ہے
ناصبیواں کی دلیل نمبر 18
جواب
.
امام ع یہاں قرآن کی آیات کی تفسیر میں علیؑ کا ذکر فرما رہے ہیں نہ کہ آیات میں
نیز یہ کہ اس روایت میں قرآن کی آیت میں تحریف نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کیلئے اصحاب رسول ص بھی قرآن کی آیات میں لکھ دیا کرتے تھے کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
ناصبیوں کی اس دلیل سے بھی ایسا کچھ ثابت نہیں ہوا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہوں
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 19
جواب
.
روایت ضعیف ہے
مگر میری نظر میں صحیح ہے کیوں کہ
امام ع یہاں قرآن کی آیات کی تفسیر میں علیؑ کا ذکر فرما رہے ہیں نہ کہ آیات میں
نیز یہ کہ اس روایت میں قرآن کی آیت میں تحریف نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کیلئے اصحاب رسول ص بھی قرآن کی آیات میں لکھ دیا کرتے تھے کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
ناصبیواں کی دلیل نمبر 20
جواب
.
روایت ضعیف ہے
ناصبیواں کی دلیل نمبر 21
جواب
.
جب ہم نے اصل حوالہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ امام قرآن کی آیات کی تفسیر میں یہ بات بیان کر رہے ہوں
ملاحظہ فرمائیں 👇🏼
نیز یہ کہ اس روایت میں قرآن کی آیت میں تحریف نہیں ہے بلکہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کیلئے اصحاب رسول ص بھی قرآن کی آیات میں لکھ دیا کرتے تھے کہ یہ آیات کس کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں۔
ناصبیواں کی دلیل نمبر 22
جواب
.
اسکا مختصر جواب صرف اتنا ہے کہ ان سورتوں کو شیعہ کی کسی بھی معتبر کتاب سے دکھایا جائے
👈🏼 چاہے ضعیف سند سے ہی
انکا ذکر صرف و صرف ایک شاعر کی کتاب میں ملتا ہے
تفصیلی جواب تیونس کے محقق جلیل عالم دین شیخ احمد سلمان کی زبانی دیکھیں 👇🏼
ناصبیواں کی دلیل نمبر 23
جواب
.
اسکا جواب سمجھنے کیلئے آپکو روایت اور اخبار کا پتا ہونا ضروری ہے ۔
روایت اور اخبار میں زمین و آسمان کا فرق ہے
یا
روایت اور اخبار میں معصوم اور گھر معصوم کا فرق ہے
کیوں کہ
روایت کی سند ہوتی ہے
اور
اخبار کی سند نہیں ہوتی
بیشک بغیر سند کے اقوال بہت زیادہ ہے اب کیوں کہ وہ بغیر سند کے ہیں اسلئے معتبر نہیں ہے
لہذا ناصبیوں کی یس دلیل سے بھی شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
کیوں کہ یہاں شیعہ عالم بھی اخبار کی بات کر رہے ہیں
شیعہ کا عقیدہ قرآن جاننے کیلئے لنک دیکھیں 👇🏼
https://invisibleislaam.com/?cat=49
https://invisibleislaam.com/?cat=62
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 24
جواب
.
اسکا جواب سمجھنے کیلئے آپکو روایت اور اخبار کا پتا ہونا ضروری ہے ۔
روایت اور اخبار میں زمین و آسمان کا فرق ہے
یا
روایت اور اخبار میں معصوم اور گھر معصوم کا فرق ہے
کیوں کہ
روایت کی سند ہوتی ہے
اور
اخبار کی سند نہیں ہوتی
بیشک بغیر سند کے اقوال بہت زیادہ ہے اب کیوں کہ وہ بغیر سند کے ہیں اسلئے معتبر نہیں ہے
لہذا ناصبیوں کی یس دلیل سے بھی شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا
کیوں کہ یہاں شیعہ عالم بھی اخبار کی بات کر رہے ہیں
.
اخبار کا ذکر کرنے کے بعد شیخ مفید فرماتے ہیں کہ
📜 فأما القول في التأليف فالموجود يقضي فيه بتقديم المتأخر وتأخير المتقدم ومن عرف الناسخ والمنسوخ والمكي والمدني لم يرتب بما ذكرناه
📝 تالیف قرآن کے حوالے سے جو بات ہے وہ کہ موجودہ مصحف میں قدیم آیات کو متاخر کردیا گیا ہے اور متاخر آیات کو پہلے لایا گیا ہے، اور ناسخ، منسوخ، مکی و مدنی کا لحاظ نہیں کیا گیا جمع آوری میں جیسے کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے
📚 حوالہ: اوائل المقالات، ص ۸۱، طبع قم۔
شیعہ کا عقیدہ قرآن جاننے کیلئے لنک دیکھیں 👇🏼
https://invisibleislaam.com/?cat=49
https://invisibleislaam.com/?cat=62
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 25
جواب
اول تو یہاں بھی شیعہ عالم نعمت اللہ الجزائری اخبار کی بات کر رہے ہیں نہ کہ روایات کی
لہذا ناصبیوں کا استدلال باطل ہے
آگے ہم مومنین کے دل کی تسلی کیلئے نعمت اللہ الجزائری صاحب کا عقیدہ عدمِ تحریف قرآن بھی پیش کر دیتے ہیں وہ بھی انکی اپنی زبانی
ملاحظہ کیجئے 👇🏼
ناصبیواں کی دلیل نمبر 26
جواب
.
ناصبیوں کی یہ دلیل بھی فضول ہے
کیوں کہ
اس میں شیعہ علم قرآن کی آیت تطہیر کو اسکے سیاق و سباق کے مطابق قرآن کی آیات کی ترتیب پر اعتراض وارد کر رہے ہیں نہ کہ قرآن کی آیات پر
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 27
جواب
یہاں شیعہ عالم ناسخ و منسوح کی بات کر رہے ہیں
ناصبیوں کی یہ دلیل بھی بے کار گئی
کیوں کہ ہم پیچھے تفصیل سے بتا چکے ہیں اہل سنت محدث تابع ابن سیرین کی زبانی کہ مولا علی ع نے جی قرآن جمع کیا تھا اس میں ناسخ و منسوخ آیات ترتیب نزولی کے حساب سے جمع تھیں جنھیں نکال دیا گیا
ناصبیواں کی دلیل نمبر 28
جواب
.
شیعہ کا عقیدہ قرآن جاننے کیلئے لنک دیکھیں 👇🏼
https://invisibleislaam.com/?cat=49
https://invisibleislaam.com/?cat=62
ناصبیواں کی دلیل نمبر 29
جواب
۔
اول تو مقبول دہلوی حجت نہیں ہے ۔ نہ یہ کوئی روایت ہے اگر ہے تو صحیح سند کے ساتھ پیش کر دی جائے
دوسرا یہ کہ یہ مسلہ قرت قرآن کا ہے
اصحاب میں بھی قرآن کی قرت میں اختلاف موجود تھا
ہمارے نزدیک قرت کے اختلاف سے کوئی بندا تحریف قرآن کا قائل شمار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے تحریف قرآن ثابت ہوتی ہے
.
ہم انکے اپنے عالم کی زبانی دلیل پیش کرتے ہیں 👇🏼
.
چنانچہ علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہے:
📜 وَكَانَ الْقَاضِي شريح يُنْكِرُ قِرَاءَةَ مَنْ قَرَأَ: {بَلْ عَجِبْتَ} وَيَقُولُ: إنَّ اللَّهَ لَا يَعْجَبُ؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ إبْرَاهِيمَ النَّخَعِي فَقَالَ: إنَّمَا شريح شَاعِر يُعْجِبُهُ عِلْمُهُ. كَانَ عَبْد اللَّه أُفُقه مِنْهُ فَكَانَ يَقُولُ: {بَلْ عَجِبْتَ} فَهَذَا قَدْ أَنْكَرَ قِرَاءَةً ثَابِتَةً وَأَنْكَرَ صِفَةً دَلَّ عَلَيْهَا الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَاتَّفَقَتْ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّهُ إمَامٌ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَكَذَلِكَ بَعْضُ السَّلَفِ أَنْكَرَ بَعْضُهُمْ حُرُوفَ الْقُرْآنِ مِثْلَ إنْكَارِ بَعْضِهِمْ قَوْلَهُ: {أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا} وَقَالَ: إنَّمَا هِيَ: أو لَمْ يَتَبَيَّنْ الَّذِينَ آمَنُوا وَإِنْكَارِ الْآخَرِ قِرَاءَةَ قَوْلِهِ: {وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ} وَقَالَ: إنَّمَا هِيَ: وَوَصَّى رَبُّك. وَبَعْضُهُمْ كَانَ حَذَفَ الْمُعَوِّذَتَيْنِ وَآخَرُ يَكْتُبُ سُورَةَ الْقُنُوتِ. وَهَذَا خَطَأٌ مَعْلُومٌ بِالْإِجْمَاعِ وَالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ وَمَعَ هَذَا فَلَمَّا لَمْ يَكُنْ قَدْ تَوَاتَرَ النَّقْلُ عِنْدَهُمْ بِذَلِكَ لَمْ يُكَفَّرُوا وَإِنْ كَانَ يَكْفُرُ بِذَلِكَ مَنْ قَامَتْ عَلَيْهِ الْحُجَّةُ بِالنَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ.
📝 قاضی شریح قرآن مجید کی اس آیت بَلْ عَجِبْتَ کی قرات کا انکار کرتے اور کہتے کہ بتحقیق خدا کبھی تعجب نہیں کرتا، جب یہ بات علامہ ابراھیم النخعی کو پہنچی تو انہوں نے کہا کہ شریح ایک شاعر اور اس کے علم نے اس کو معجب کردیا ہے، درحالآنکہ عبداللہ ان سے زیادہ علم و فہم والے ہے جو بل عجبت کی قرات کیا کرتے تھے۔
پس اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو ثابت شدہ قرات تھی اور جو صفت قرآن اور سنت سے ماثور تھی اس کا انکار شریح نے کیا، حالاںکہ امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ آئمہ میں سے ایک امام تھے- اسی طرح بعض سلف نے بعض حروف قرآنی کا انکار کیا۔ جیسا کہ:
1۔ بعض سلف نے قرآن مجید کی آیت
”أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا”
کا انکار کیا اور وہ یوں قرات کرتے
” أو لَمْ يَتَبَيَّنْ الَّذِينَ آمَنُوا ”۔
2۔ بعض سلف نے قرآن مجید کی آیت
”وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ”
کا انکار کیا اور وہ یوں قرات کرتے
”وَوَصَّى رَبُّك أَلَّا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ”
3۔ بعض سلف معوذتین یعنی سورہ فلق اور سورہ الناس کو قرآن مجید کا حصہ نہیں مانتے تھے
4۔ بعض سلف سورہ القنوت کو لکھا کرتے تھے۔
نیز یہ تمام باتیں اجماع اور متواتر روایات کی بنا پر صریح غلطیاں ہیں۔ چناچنہ یہ اس لئے کہ یہ تمام چیزیں ان حضرات کے نزدیک تواتر روایات سے ثابت نہیں تھیں۔ پس وہ کافر نہیں قرار دئے جاسکتے،
تکفیر اس شخص کی کی جائے گی جس کے نزدیک تواتر روایات کے واشگاف ہونے کے بعد حجت قائم ہوجائے اور وہ جب بھی انکار کرے-
📚 حوالہ: مجموع الفتاوى، جز 12 ص 493، الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية
تبصرہ: علامہ ابن تیمیہ نے ایسا قول فیصل پیش کیا ہے جس کے تناظر میں ہم آرام سے یہ تاویل کرسکتے ہیں کہ بالفرض صحت انتساب تحریف اگر بعض لوگوں سے ثابت بھی ہوجائے تو اس کو زیادہ سے زیادہ خطاء سے تعبیر کیا جائے۔
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 30
جواب
.
جی ناظرین ہم پیچھے ثابت کرتے آئے ہیں کہ قرآن امام علی ع جس طرح جمع کیا تھا جس میں ناسخ و منسوخ درج تھیں وہ نکال دی گئیں
اور اس بات کا اقرار خود اہل سنت محدث ابن سیرین نے بھی کیا
اور کہا کہ اگر وہ قرآن ہمارے پاس ہوتا تو علم کا بہت بڑا زخیرہ ہوتا
تو ہم بس یہی کہیں گے کہ آخر وہ کون سا علم کا زخیرہ تھا جو اس موجودہ قرآن میں نہیں ہے ؟
ناصبیواں کی دلیل نمبر 31
جواب
اہل سنت کے بعض اکابرین شیعوں پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک اور قرآن “مصحف فاطمہ” کے نام سے موجود ہے۔ علامہ عسکری لکھتے ہیں: “اہل سنت کے مصنفین مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں پر الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے پاس “مصحف فاطمہ” نامی ایک اور قرآن ہے کیونکہ اس کتاب کا نام مصحف فاطمہ ہے جبکہ صدر اسلام میں قرآن کو مصحف کہا جاتا تھا”
📚 عسکری، سید مرتضی، معالم المدرستین، ج 2، ص 32۔
دوسرا اعتراض جو اہل سنت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی کتاب پر عقیدہ رکھنا ختم نبوت کے عقیدے سے ہماہنگ نہیں بلکہ یہ ختم نبوت کو زیر سوال قرار دیتی ہے کیونکہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو گیا اور آپ کے بعد کسی اور نبی نے نہیں آنا ہے۔
📚 سبب قلۃ أحاديث فاطمي رضي اللہ عنہا
مثال کے طور پر دور حاضر کا وہابی عالم ڈاکٹر ناصر قفاری مدعی ہے: “شیعہ اہل بیت پر وحی نازل ہونے کا عقیدہ حقیقت میں اپنے ائمہ کی نبوت پر عقیدہ رکھنا ہے… مثلا مصحف فاطمہ …”
📚 کیانی، مہندس، کدامین راہ؟، ص5، قم، معصومین، نوبت اول، 1385۔
بعض احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ پہلا اعتراض گذشتہ زمانے سے چلا آرہا ہے اور اہل سنت یہ خیال کرتے تھے کہ شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کی بعض تحریف شدہ اور حذف ہونے والی آیات مصحف فاطمہؑ میں موجود ہیں۔ اس بنا پر ائمہ معصومینؑ اس مصحف میں قرآن کی کسی آیت کے موجود ہونے کا سختی سے انکار فرماتے تھے
📚 مغنیہ، محمد جواد، الشیعۃ فی المیزان، ص 61۔
ایک حدیث میں امام صادقؑ سے مروی ہے:
” خدا کی قسم مصحف فاطمہ ہمارے پاس ہے اور اس میں قرآن کی ایک آیت بھی نہیں ہے۔”
📚 کلینی، کافی، ج1، ص 238۔
ایک اور روایت میں فرمایا:
«یہ [مصحف فاطمہ] اس قرآن سے تین برابر بڑا ہے جو تمہارے پاس ہے۔خدا کی قسم اس میں حتی قرآن کی ایک آیت بھی نہیں ہے۔”
📚 موسوی، سید محمد باقر، الکوثر فی احوال فاطمہ،ج الرابع، ص320، قم، الطبعۃ الاولی، 1420ه۔ق۔
اس کے علاوہ شیعہ ائمہؑ اور تمام شیعہ علماء نے یہ متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ:
“تمام شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ کتاب “قرآن مجید” سے متفاوت ہے اور یہ اس قرآن کے مقابلے میں کوئی دوسرا قرآن شمار نہیں ہوتا ہے۔”
📚 فضل اللہ، سید محمد حسین، فاطمہ زهراء، ترجمہ مأ موری، ص163، تہران، دارالملک، نوبت اول، 1381۔
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ائمہ معصومین پر نازل ہونے والی وحی قرآن کی صورت میں پیغبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی وحی سے مختلف تھی۔ پس یہ عقیدہ رکھنا کہ ائمہ پر وحی نازل ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شیعہ ائمہ کی نبوت پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس مطلب کی تبیین کی خاطر شیعہ ائمہ کیلئے محدث اور حضرت فاطمہ(س) کیلئے محدثہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں
.
ناصبیواں کی دلیل نمبر 32
جواب
یہ دلیل بھی تحریف قرآن کو ثابت نہیں کرتی بلکہ قرت کے اختلاف کو ثابت کرتی ہے جو کہ اصحاب رسول ص میں بھی موجود تھا (دیکھیں دلیل نمبر 29 کا جواب)
خود نواصب کے امام ابن تیمیہ کہتے ہیں قرآن 7 حروف پر نازل ہوا
مطلب 7 مختلف قرات پر
ناصبیواں کی دلیل نمبر 33
جواب
.
ناصبی نے بغیر سوچے سمجھے علامہ مرتضی مطہری کی کتاب “الاسلام دینُ اللہ” سے ایک عبارت ہائلاٹ کی اور اُس عبارت سے یہ نتیخہ اخذ کیا کہ
“علماء شیعہ نے اپنا ایک قرآن بنایا اور اسے چھپوانے والے تھے کہ علامہ بروجردی نے ان پر قابو پا لیا۔”
پہلے عبارت ملاحظہ فرمائے:
فصمموا علي طبعہ قبل بضع سنین و بدأو فعلا بالطبع
عنما اعلم المرحوم آیة اللہ العظمی السید البروجردي بخبرھم فبادر فورا الی ایقاف طبعہ امر بمصادرتہ و رمیہ في البحر
ترجمہ
چند سال پہلے انہوں نے اس کی طبع کا اردہ کیا
اور انہوں نے فعلا طباعت شروع بھی کر دی
جب آیة اللہ العظمی بروجردی کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فورا اس کے طلب کرنے کا اور اس کو دریا برد کرنے کا حکم دیا۔
تنبیہ
سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے نتیخہ اخذ کرنا یہودیوں کی روش ہے
چنانچہ اس سے اجتناب کرنا چاہیے
اور
بعض علماء کا نظریہ پورے مذہب کا نظریہ نہیں ہوتا
اگر ایسی بات ہے تو علماء اہل السنت نے بھی مانا کہ قرآن میں تحریک ہوئی ہے جیسا کہ علامہ انور شاہ کشمیری نے شرح بخاری میں لکھا۔
اب ہم جواب کی طرف آتے ہیں:
مذکورہ بالا عبارت سے نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے چند امور کا جاننا ضروری ہے
۱ : عبارت میں نام کی تصریح نہیں بلکہ ضمیر ہے کہ انہوں نے یہ اردہ کیا
سوال
وہ کون تھے؟
٢ : کیا وہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے؟!
آئیے دیکھتے ہیں کیا حقیقت ہے:
علامہ مرتضی مطہری نے یہ باب اخباریوں کے رد میں لکھا
اخباری ہیں کون؟
یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو خود کو شیعہ کہلواتا ہے
اب کیا یہ اخباری حضرات قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے تھے؟!
جواب یہ ہے کہ
وہ مانتے ہیں
آئیے اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۲ میں مرقوم ہے:
انھم لم یقولو ان القرآن لیس بکتاب اللہ
اخباریوں کا یہ اعتقاد نہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں۔
بحذف عربی عبارت
بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ قرآن لوگو کی سمجھ سے بالا تر ہے اور قرآن کا سمجھنا صرف ائمہ (علیھم السلام) کی ذات تک محدود ہے۔
اور ظواہر قرآن حجت نہیں۔
اب کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کے ظواہر حجت نہیں تھے چنانچہ وہ قرآن کے ساتھ کھیلتے تھے اور اپنی پسند کے مفاہیم اخذ کرتے تھے جیسا کہ موصوف نے علامہ مرتضی مطہری کی عبارت سے اپنا ایک مفہوم اخذ کیا اب ان مفاہیم پر مشتمل انہوں نے ایک نسخہ طبع کروانے کی کوشش کی اور اس کوشش کو علامہ بروجردی نے کامیاب ہونے نا دیا۔
بس بات صرف اتنی سی ہے۔
نوٹ: علامہ مرتضی مطہری نے اخباری حضرات نے ان اشکالات (مثلا اجماع و عقل کیے گئے اشکالات وغیرہ) کے جوابات بھی اسی کتاب کے اسی باب میں دے رکھے ہیں مگر کیا کیجیے
ہمارے مخالف کی روش کچھ یوں ہے
میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
ناصبیواں کی دلیل نمبر 34
جواب
اس روایت کی سند مجہول ہے اس میں ابو زکریا یحیی بن محمد رازی نامی شخص مجہول ہے
1101 مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزْدَادَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، قَالَ، لَمَّا أُتِيَ بِأَبِي الْحَسَنِ (ع) أُخِذَ بِهِ عَلَى الْقَادِسِيَّةِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْكُوفَةَ، وَأُخِذَ بِهِ عَلَى البر إلى [بَرَّانِيِ] الْبَصْرَةِ، قَالَ، فَبَعَثَ إِلَيَّ مُصْحَفاً وَ أَنَا بِالْقَادِسِيَّةِ، فَفَتَحْتُهُ فَوَقَعَتْ بَيْنَ يَدَيَ سُورَةُ لَمْ تَكُنْ، فَإِذَا هِيَ أَطْوَلُ وَ أَكْثَرُ مِمَّا يَقْرَأُهَا النَّاسُ، قَالَ، فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَشْيَاءَ، قَالَ، فَأَتَانِي مُسَافِرٌ وَمَعَهُ مِنْدِيلٌ وَ طِينٌ وَ خَاتَمٌ، فَقَالَ هَاتِ! فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَهُ فِي الْمِنْدِيلِ وَ وَضَعَ عَلَيْهِ الطِّينَ وَ خَتَمَهُ، فَذَهَبَ عَنِّي مَا كُنْتُ حَفِظْتُ مِنْهُ، فَجَهَدْتُ أَنْ أَذْكُرَ مِنْهُ حَرْفاً وَاحِداً فَلَمْ أَذْكُرْهُ.
محمد بن حسن نے کہا ہم سے محمد بن یزداد نے بیان کیا جو کہتے ہیں مجھ سے ابو زکریا یحیی بن محمد رازی نے بیان کیا جنہوں نے محمد بن حسین سے جنہوں نے احمد بن محمد بن ابی نصر سے روایت کی جو کہتے ہیں: جب امام ابو الحسن ع کو لایا گیا تو ان کو قادسیہ لے گئے اور وہ کوفہ داخل نہیں ہوئے۔ ان کو بصرہ کے اطراف لے جایا گیا، تو راوی کہتے ہیں: امام ع نے مجھے ایک مُصحف بھجوایا جب میں قادسیہ میں تھا، میں نے اس کو کھولا تو میرے سامنے ایک سورہ آئی جو تھی نہیں، یہ اس سے زیادہ لمبی اور بڑی تھی جو لوگ پڑھتے ہیں۔ میں نے اس میں سے کچھ چیزیں حفظ کرلیں، میرے پاس ایک مسافر آیا اور اس کے ساتھ ایک رومال، مٹی اور انگوٹھی تھی۔ اس نے مجھے کہا: لاؤ دو۔ میں نے (مصحف) اس کو دیدیا، اس نے وہ رومال میں رکھا اور اس پر مٹی رکھی اور مہر لگا دی۔ پھر میں وہ بھول گیا جو کچھ میں نے حفظ کیا تھا، میں نے بہت کوشش کی کہ اس کو ایک حرف بھی یاد کروں مگر میں یاد نہ کر سکا۔
(رجال کشی، رقم 1101،
بسند مجھول)
ناصبیواں کی دلیل نمبر 35
جواب
روایت ضعیف ہے