صحابہ حضرت عثمان کو نعثل کہتے تھے
.

قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدٍ: ” أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ تَسَوَّرَ عَلَى عُثْمَانَ مِنْ دَارِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَمَعَهُ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ , وَسَوْدَانُ بْنُ حُمْرَانُ , وَعَمْرُو بْنُ الْحَمِقِ فَوَجَدُوا عُثْمَانَ عِنْدَ امْرَأَتِهِ نَائِلَةَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَتَقَدَّمَهُمْ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَأَخَذَ بِلِحْيَةِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْزَاكَ اللَّهُ

يَا نَعْثَلُ،

فَقَالَ عُثْمَانُ: لَسْتُ بِنَعْثَلٍ، وَلَكِنْ عَبْدُ اللَّهِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أَغْنَى عَنْكَ مُعَاوِيَةُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَقَالَ عُثْمَانُ: يَا ابْنَ أَخِي، دَعْ عَنْكَ لِحْيَتِي، فَمَا كَانَ أَبُوكَ لِيَقْبِضَ عَلَى مَا قَبَضْتَ عَلَيْهِ , فَقَالَ مُحَمَّدٌ: مَا أُرِيدُ بِكَ أَشَدُّ مِنْ قَبْضِي عَلَى لِحْيَتِكَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَسْتَنْصِرُ اللَّهَ عَلَيْكَ وَأَسْتَعِينُ بِهِ , ثُمَّ طَعَنَ جَبِينَهُ بِمِشْقَصٍ فِي يَدِهِ , وَرَفَعَ كِنَانَةُ بْنُ بِشْرِ بْنِ عَتَّابٍ مَشَاقِصَ كَانَتْ فِي يَدِهِ فَوَجَأَ بِهَا فِي أَصْلِ أُذُنِ عُثْمَانَ، فَمَضَتْ حَتَّى دَخَلَتْ فِي حَلْقِهِ , ثُمَّ عَلَاهُ بِالسَّيْفِ حَتَّى قَتَلَهُ

راوی بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن حزم کے گھر سے دیوار پھاند کر محمد بن ابی بکر حضرت عثمان کے گھر داخل ہوئے اور ان کے ساتھ کنانہ بن بشیر بن عتاب سودان بن حمران اور عمرو بن الحمق تین آدمی اور بھی تھے جب داخل ہوئے تو حضرت عثمان کو دیکھا کہ وہ اپنے اہلیہ کے پاس بیٹھے قرآن میں کریم سے سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان حملہ آوروں میں سے محمد بن ابی بکر آگے بڑھا اور جناب عثمان غنی کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگا

اے نعثل

اللہ تجھے رسوا کرے حضرت عثمان نے فرمایا میں نعثل نہیں ہوں بلکہ اللہ کا بندہ اور مومنوں کا امیر ہوں یہ سن کر محمد بن ابی بکر بولا اے عثمان تمہیں فلاں فلاں نے کیا فائدہ دیا حضرت عثمان بولے برادرزادے میری داڑھی چھوڑ دے یہ جرات تو تیرا باپ ابوبکر بھی نہ کر سکتا تھا جس کا مظاہرہ آج تو نے کیا محمد بن ابی بکر بولا داڑھی پکڑنے سے تو کہیں بڑھ کر ایک کام کرنے کا ارادہ ہے( یعنی قتل کرنے کا) حضرت عثمان غنی استغفراللہ کہی اور اس سے طلب مدد کی اس کے بعد محمد بن ابی بکر نے ہاتھ میں پکڑی قینچی سے عثمان غنی کی پیشانی زخمی کر دی ادھر کنانہ بن بشیر نے ان قینچوں سے آپ کو زخمی کرنا شروع کر دیا جو اس کے ہاتھ میں تھیں آپ کے کانوں کی جڑ پر زخم لگائے جو حلق تک اترگے پھر تلوار لے کر آپ پر حملہ آور ہوا پھر اس وقت چھوڑا جب آپ قتل (شہید )ہو گئے

الطبقات الكبرى -نویسنده : ابن سعد جلد : 3 صفحه : 73 مطبوعہ دار صادر – بيروت

وَرَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ أَنَّ عُثْمَانَ لَمَّا عَزَمَ عَلَى أَهْلِ الدَّارِ فِي الِانْصِرَافِ وَلَمْ يَبْقَ عِنْدَهُ سِوَى أَهْلِهِ تَسَوَّرُوا عَلَيْهِ الدَّارَ وَأَحْرَقُوا الْبَابَ وَدَخَلُوا عَلَيْهِ، وَلَيْسَ فِيهِمْ أَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَلَا أَبْنَائِهِمْ، إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، وَسَبَقَهُ بَعْضُهُمْ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهِ وَصَاحَ النِّسْوَةُ فانزعروا وَخَرَجُوا وَدَخَلَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَظُنُّ أَنَّهُ قَدْ قُتِلَ، فَلَمَّا رَآهُ قَدْ أَفَاقَ قَالَ: عَلَى أَيِّ دِينٍ أَنْتَ

يَا نَعْثَلُ؟

قَالَ:
عَلَى دِينِ الْإِسْلَامِ، وَلَسْتُ بِنَعْثَلٍ وَلَكِنِّي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: غَيَّرْتَ كِتَابَ اللَّهِ، فَقَالَ: كِتَابُ اللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَتَقَدَّمَ إِلَيْهِ وَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ وَقَالَ: إِنَّا لَا يُقْبَلُ مِنَّا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ نَقُولَ: (رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سادتنا وكبراءنا فأضلونا السبيلا) وشطحه بِيَدِهِ مِنَ الْبَيْتِ إِلَى بَابِ الدَّارِ، وَهُوَ يَقُولُ: يَا ابْنَ أَخِي مَا كَانَ أَبُوكَ لِيَأْخُذَ بِلِحْيَتِي

حافظ ابن عساکر نے روایت بیان کی ہے کہ جب حضرت عثمان نے اپنے گھر رہنے کا ارادہ کر لیا اور آپ کے ساتھ صرف آپ کی اہلیہ رہ گئی تو کچھ لوگ دیوار پھاند کر آپ کے گھر داخل ہوئے دروازے جلا دیے ان حملہ آوروں نے صحابہ کرام اور ان کی اولاد میں سے ماسوا محمد بن ابی بکر کے اور کوئی نہ تھا پھر ان حملہ آوروں میں سے بعض نے آپ کو اتنا زدوکوب کیا کہ آپ پر غشی طاری ہوگئی عورتوں نے شور مچایا جس پر یہ لوگ چھوڑ کر چلے گئے بعد میں محمد بن ابی بکر آیا اس کا خیال تھا کہ عثمان غنی فوت ہو چکے ہوں گے لیکن ابھی انہیں افاقہ تھا کہنے لگا

اے نعثل

تم کس دن پر ہو فرمایا دین اسلام پر ہوں مین نعثل نہیں ہوں بلکہ مومنوں کا امیر ہوں محمد بن ابی بکر بولا تم نے کتاب اللہ کو تبدیل کردیا ہے فرمایا اللہ کی کتاب میرے اور تمہارے درمیان ہے (یعنی اس بات کا فیصلہ اللہ کے سپرد) یہ سن کر محمد بن ابی بکر نے آگے بڑھ کر عثمان غنی کی داڑھی پکڑ لی اور کہنے لگا کہ اگر کل قیامت کو ہم یہ کہیں کہ اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی انہوں نے ہمیں صراط مستقیم سے بہکا دیا تو ہمارا یہ بہانہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا پھر اس نے آپ کو کمرے سے نکال کر حویلی کے دروازے تک گھسیٹا اس دوران عثمان غنی یہ کہہ رہے تھے بھتیجے تیرا باپ بھی میری داڑھی پکڑنے کی جرات نہ کرتا اگر زندہ ہوتا

البداية والنهاية – نویسنده : ابن كثير جلد : 7 صفحه : 185 مطبوعہ دار الفكر بیروت
فخر رازی، اهل سنت کے بڑے مفسر لکھتے ہیں کہ :

أن عثمان رضي الله عنه أخر عن عائشة رضي الله عنها بعض أرزاقها فغضبت ثم قالت يا عثمان أكلت أمانتك وضيعت الرعية وسلطت عليهم الأشرار من أهل بيتك والله لولا الصلوات الخمس لمشى إليك أقوام ذوو بصائر يذبحونك كما يذبح الجمل
فقال عثمان رضي الله عنه ضرب الله مثلا للذين كفروا امرأة نوح وامرأة لوط الآية فكانت عائشة رضي الله عنها تحرض عليه جهدها وطاقتها وتقول أيها الناس هذا قميص رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يبل وقد بليت سنته اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا

عثمان نے عائشہ کے ضرورت کے اموال میں کوتاہی کی، اسی وجہ سے عائشہ ناراض ہوئی اور عثمان کو کہا کہ : اے عثمان تم نے امانت کو کہا لیا امت کو حقیر جانا اپنے خاندان کے برے لوگوں کو ان پر مسلط کیا۔ اللہ کی قسم اگر پنجگانہ نمازیں نہ ہوتیں لوگوں کے بابصیر اقوام تم پر حملہ کرتے اور تجھے اونٹ کی طرح ذبح کرتے۔
عثمان بے کہا
کہ اللہ نے کافروں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال دی ہے۔
عائشه اپنی تمام قدرت اور توانائی سے لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکاتی تھی اور کہتی تھی کہ : اے لوگوں رسول اللہ کی قمیص ابھی تک ہرانی نہیں ہوئی اور ان کی سنت کو فراموش کیا گیا اس نعثل کو قتل کرو اللہ اس کو قتل کرے۔
( نعثل مصر کے ایک یہودی کا نام تھا کہ جس کی بڑی داڑھی تھی اور وہ اپنی بے وقوفی کی وجہ سے مشہور تھا )

المحصول فی علم الأصول، ج 4، ص 343

ابن اثیر جزرى نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ:


نعثل ( هـ ) فی مقتل عثمان لا یمنعنك مكان ابن سلام أن تسب نعثلا كان أعداء عثمان یسمونه نعثلا تشبیها برجل من مصر كان طویل اللحیة اسمه نعثل وقیل النعثل الشیخ الأحمق وذكر الضباع ومنه حدیث عائشة اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا تعنی عثمان وهذا كان منها لما غاضبته وذهبت إلى مكة.

عثمان کے دشمن عثمان کو نعثل کہتے تھے، یعنى درحقیقت عثمان کو مصر کے یہودی سے تشبیہ دیتے تھے ، کہا گیا ہے کہ نعثل بے وقوف اور احمق بوڑھے کے معنی میں ہے اور عائشه نے بھی کہا: نعثل کو قتل کرو، اسی معنی کو مراد لیا تھا کیونکہ عائشہ نے یہ تب کہا جب عثمان نے عائشه کو ناراض کیا تا ناراضگی کی شدت سے وہ مکہ چلی گئی.

النهایة فی غریب الحدیث والأثر، ج 5، ص 79

لوگوں کا حضرت عثمان پر لعن کرنا
.
حضرت ابو سعید سے روایت ھے کہ بہت سے لوگ حضرت عائشہ کے خٰیمہ کے پاس تھے کہ ادھر سے حضرت عثمان کا گذر ھوا، میرا خیال ھے کہ یہ مکہ کا واقعہ ھے ابوسعید فرماتے ھیں کہ میرے علاوہ ان تمام آدمیوں نے حضرت عثمان لعنت کی اور برا بھلا کہا ان میں سے ایک آدمی اھل کوفہ میں سے تھا حضرت عثمان نے دوسروں کے مقابلے اس کوفی پر زیادہ جرات دکھائی اور کہا اے کوفہ والے کیا تم مجھے گالیاں دیتے ھو ؟ ذرا مدینے آؤ یہ بات آپ نے دھمکی کے انداز میں فرمائی ، وہ آدمی مدینہ آیا، اس کو کہا گیا کہ طلحہ کے ساتھ رھو کہتے ھیں کہ حضرت طلحہ اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ حضرت عثمان کے پاس آئے حضرت عثمان نے فرمایا بخدا میں تمہیں سو کوڑے لگاؤں گا حضرت طلحہ نے فرمایا اللہ کی قسم تم اس کو صرف زانی ھونے کی صورت میں ھی سو کوڑے لگا سکتے ھوآپ نے فرمایا میں تجھ کو تیرے وظیفے سے مرحوم کردوں گا حضرت طلحہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کو روزی دے دیں گے
مصنف ابن شیبہ اردو ترجمہ جلد نمبر 9 حدیث نمبر 31270 ص 118 پر ملاحظہ کرسکتے ھیں

حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا
ویلی من طلحہ ! اعطیتہ کذا ذھبا وھو یروم ۔۔۔۔۔۔ اللھم لا تمتعہ بہ ولقہ عواقب بغیہ “
مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگار ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچانا ۔
ڈاکٹر طہ حسین ۔الفتنة الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 8
مدائنی “قتل عثمان ” میں تحریر کرتے ہیں : طلحہ نے حضرت عثمان کی لاش کو تین دن تک دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور جب حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم ان کی لاش کو اٹھا کر جارہے تھے تو طلحہ نے راستے میں ایسے افراد کھڑے کر رکھے تھے جنہوں نے ان کی لاش پر پتھر پھینکے
ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ص 5-6 طبع مصر
.
.
عبد الله بن عباس بن ابوربيعه نقل کرتا ہے: میں عثمان کے پاس گیا اور ان سے گفتگو کی،عثمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر لوگوں کی باتیں سننے کا کہا ۔ ان میں سے بعض کہہ رہے تھے : ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟ بعض کہہ رہے تھے : منتظر رہیں شاید پلٹ کر آئے۔ اسی دوران طلحه بن عبيد الله آیا ، اور کہا : ابن عديس کہاں ہے ؟ جواب دیا : یہاں ہی ہے، طلحہ نے آہستہ اس کو کچھ کہا، ابن عديس نے اپنے دوستوں سے کہا : کسی بھی صورت میں کسی کو اس گھر میں داخل ہونے یا گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دینا.
عثمان نے کہا : یہ طلحه بن عبيد الله کا حکم ہے، پھر کہا : اے اللہ مجھے اس شخص کے شر سے محفوظ فرمایا، اس نے لوگوں کو اکسایا ہے۔ اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کو فقر و تنگدستی کا شکار کرئے اور اس کا خون بہادیا جائے اور وہ مر جائے۔ کیونکہ وہ ایسا خون بہانا چاہتا ہے جس کو بہانا اس پر حرام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آپ نے فرمایا:مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورت میں جائز ہے۔مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو،کوئی مرد زنا کرئے اور اس کی بیوی بھی ہو،کوئی کسی بے گناہ کو قتل کرئے۔ پھر عثمان نے کہا: میرا جرم کیا ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں؟
ابن عباس کہتا ہے : نکلتے وقت مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ،لیکن محمد بن ابی بکر کے حکم سے مجھے نکلنے کی اجازت ملی ۔
الطبري، محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 3، ص 411، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت؛
الشيباني، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 3، ص 174، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.
.
.
مسلمانوں نے اسی لیے حضرت عثمان کو جنت البقع میں دفن نہ ہونے دیا 
علامہ ابن عساکر ، جنت البقیع میں قبور کی زیارت کے حوالے سے کھتے ہیں کہ زائر کو چاہیئے کہ عثمان بن عفان کی قبر کی زیارت کرے ، جو کہ ظاھر ہے اور اس پر ایک بڑا قبہ بھی ہے ، لیکن عثمان کی قبر جنت البقیع میں نہیں ہے ۔
زھری اور عروہ سے روایت ہے کہ جب عثمان کو قتل کیا گیا تو انصار نے ان کو بقیع میں دفن ہونے سے منع کیا ،، بس ان کو حش کوکب میں دفن کیا گیا

اتحاف الزائر و اطراف المقیم للسائر // ابن عساکر// ص 107 // طبع مدینہ
.

’’نبذ عثمان رضی اللہ عنہ ثلاثۃ أیام لا یدفن؛ ثم ان حکم بن حزام القرشی ثم أحد بنی أسد بن عبدالعزی، و جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف، کلما علیاً فی دفنہ، وطلبا الیہ أن یأذن لأھلہ فی ذالک، ففعل، و أذن لھم علی، فلما سمع بذلک قعدوا لہ فی الطریق بالحجارۃ، و خرج بہ ناس یسیر من أھلہ؛ و ھم یریدون بہ حائطاً بالمدینۃ، یقال لہ: حش کوکب، کانت الیھود تدفن فیہ موتاھم؛ فلما خرج بہ علی الناس رجموا سریرہ، و ھموا بطرحہ، فبلغ ذالک علیا، فأرسل الیھم یعزم علیھم لیکفن عنہ، ففعلوا، فانطلق حتی دفن رضی اللہ عنہ فی حش کوکب؛ فلما ظھر معاویۃ بن أبی سفیان علی الناس أمر بہدم ذالک الحائط حتی أفضی بہ الی البقیع؛ فأمر الناس أن یدفنوا موتاھم حول قبرہ حتی اتصل ذالک بمقابر المسلمین‘‘۔

جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت جبیر بن مطعمؓ بھی تھے، حضرت علیؓ سے حضرت عثمانؓ کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔ مدینہ میں ایک احاطہ تھا جس کا نام حش کوکب تھا اور یہودی اس میں دفن ہوتے تھے۔ چونکہ جنت البقیع میں شرپسند حضرت عثمانؓ کے جسد مبارک کو دفن نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے آپ کی نعش کو حش کوکب میں دفنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اور رات کے وقت آپ کی تدفین کی گئی۔ یہ احاطہ جنت البقیع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ جب امیر معاویہ خلیفہ بنے تو انہوں نے احاطہ کی دیوار گرانے کا حکم دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے مردوں کو اس خالی جگہ میں دفن کریں تاکہ یہ جگہ مسلمانوں کے قبرستان یعنی جنت البقیع میں شامل ہو جائے۔

تاریخ الامم والملوک للطبری، الجزء الثانی صفحہ ۶۸۷، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان
.
کتاب” استیعاب” میں امام مالک سے نقل ہوا ہے:
جب (مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ) عثمان قتل ہو گیا، تین روز تک اس کی لاش کوڑے میں پڑی رہی، چوتھی رات کو بارہ افراد جمع ہوئے جن میں یہ افراد تھے، حویطب بن عبد العزی، حکیم بن حزام، عبد اللہ بن زبیر، محمد بن حاطب اور مروان بن حکم، جس وقت ان لوگوں نے عثمان کے لاش کو اٹھاکر قبرستان پہنچایا، قبیلہ بنی مازن کےکچھ لوگوں نے اواز دی اور کہا: خدا کی قسم اگر تم نے اس کو یہاں دفن کیا تو ہم کل لوگوں کو بتا دیں گے اور وہ اس کو قبر سے باہر نکال دیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے عثمان کی لاش کو دوبارہ اٹھایا اور اور ایک تختے (تختہ دری) پر رکھا، اور عثمان کے جسد کا سر اس تختے پر لگتا تھا اور تق تق کی آواز اس سے آتی تھی، یہاں تک کہ عثمان کے جسد کو

” حش کوکب” یہودیوں کے قبرستان لے گئے۔

اور وہاں اس کے لئے ایک گڑھا کھودا،اس وقت عثمان کی بیٹی عایشہ اپنے ہاتھ میں چراغ لئے ہوئے ان کے ساتھ تھی،جس وقت انہوں نے چاہا کہ عثمان کو دفن کریں، بیٹی نے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا، تو عبد اللہ بن زبیر نے اس سے کہا کہ اگر تو خاموش نہ ہوئی تو میں تیری گردن مار دونگا،یہ سن کر وہ خاموش ہو گئی،اور انہوں نے عثمان کو دفن کر دیا۔

الاستیعاب، جلد 3، صفحه 80، ناشر: داراحیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان

مختصر تاریخ دمشق، جلد 16، صفحه 272،ناشر: دارالفکر، بیروت، لبنان
قتل۔ہونے کے 3 دن تک عثمان کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پڑئ رہی ۔ عربی عبارت میں موجود ہے مگر مترجم نے ترجمہ نا کر کے عثمان کی مظلومیت کو چھپایا ہے
مدینہ مہاجرین و انصار سے بھرا پڑا ہے مگر شرکا جنازہ میں کوئی قابل ذکر نام نہیں نظر آرہا حتی کہ ابو ہریرہ دوسی جو کل اپکے لیے تلوار اٹھا رہا تھا وہ بھی جنازہ سے غائب ہے
جبلہ کا مدینہ کے چکر لگا کر اعلان کرنا کہ۔میں ہی نعثل کا قاتل۔ہوں یہ ثابت کرتا ہے کہ۔اہل۔مدینہ کے انصار و مہاجرین اس قتل۔سے خوش تھے
تاہم ابو ہریرہ۔نے عثمان کو بچانے کے تلوار اٹھائ تو عثمان نے منع کر دیا کہ صبر سے کام لو یہ سنکر ابو ہریرہ نے تلوار وہیں رکھ دی اور ایسی رکھی گم ہی ہو گئی
.
.
حضرت عثمان کے قتل میں 800 صحابہ کرام شریک تھے۔
عبداللہ بن میسرہ غیاث البکری سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رض کے قتل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں حضرت عثمان بن عفان کے قتل میں آٹھ سو (800) اصحاب رسول ﷺ شریک تھے۔
تاريخ المدينة المنوّرة۔ (أخبار المدينة النبوية)
لا بن شبه أبو زيد عمر بن شبه النميري البصري
اور حالت یہ تھی کہ ان صحابہ کرام نے تین دن تک حضرت عثمان کی لاش کو دفن بھی نہ ہونے دیا اور اخر کار رات کے اندھیرے میں انہیں یہودیوں کے قبرستان حش کوکب میں دفنانا پڑا