مولا علی اور حضرت زھرا کے درمیان اختلافات (اہل سنت کے اشکال کا جواب)

مقدمه
مولا علی اور حضرت زھرا کی باہمی اور انفرادی زندگی وہ زندگی ہے کہ جس کی تاریخ اسلام میں نہیں ملتی، تا قیامت یہ زندگی تمام اہل اسلام سمیت ہر انسان کے لئے اسوہ اور مشعل راہ ہے،
لیکن افسوس کے ساتھ عناد رکھنے والے مخالفین شیعہ کی کتابوں سے کچھ روایات سے استناد کرکے لوگوں کو فریب اور تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں،
اس تحریر میں ہم وہ تمام روایت کہ جن سے مخالفین استناد کرتے ہیں کی صحت کے بارے میں قارئین کے سامنے کچھ معلومات پیش کرنا چاھتے ہیں،
اہل سنت کی طرف سے شبهه
کتب شیعه میں موجود روایات کی بنیاد پر، امیرالمومنین اور حضرت زهراء سلام الله علیهما بعض اوقات ایسے حالات سے روبرو ہوتے تھے کہ جو حضرت زھرا کی ناراضگی کا سبب بنتے
جواب:
جو روایات اہل سنت پیش کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ،
روایت اول
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَهْلِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الدِّینَوَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الصَّائِغُ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ رِبْعِیٍّ قَالَ: إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ع دَخَلَ مَکَّةَ فِی بَعْضِ حَوَائِجِهِ فَوَجَدَ أَعْرَابِیّاً مُتَعَلِّقاً بِأَسْتَارِ الْکَعْبَة … فَلَمَّا أَتَى الْمَنْزِلَ قَالَتْ لَهُ فَاطِمَةُ ع یَا ابْنَ عَمِّ بِعْتَ الْحَائِطَ الَّذِی غَرَسَهُ لَکَ وَالِدِی قَالَ نَعَمْ بِخَیْرٍ مِنْهُ عَاجِلًا وَ آجِلًا قَالَتْ فَأَیْنَ الثَّمَنُ قَالَ دَفَعْتُهُ إِلَى أَعْیُنٍ اسْتَحْیَیْتُ أَنْ أُذِلَّهَا بِذُلِّ الْمَسْأَلَةِ قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَنِی قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا جَائِعَةٌ وَ ابْنَایَ جَائِعَانِ وَ لَا أَشُکُّ إِلَّا وَ أَنَّکَ مِثْلُنَا فِی الْجُوعِ لَمْ یَکُنْ لَنَا مِنْهُ دِرْهَمٌ وَ أَخَذَتْ بِطَرَفِ ثَوْبِ عَلِیٍّ ع فَقَالَ عَلِیٌّ یَا فَاطِمَةُ خَلِّینِی فَقَالَتْ لَا وَ اللَّهِ أَوْ یَحْکُمَ بَیْنِی وَ بَیْنَکَ أَبِی فَهَبَطَ جَبْرَئِیلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ السَّلَامُ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ اقْرَأْ عَلِیّاً مِنِّی السَّلَامَ وَ قُلْ لِفَاطِمَةَ لَیْسَ لَکِ أَنْ تَضْرِبِی عَلَى یَدَیْهِ وَ لَا تَلْزِمِی بِثَوْبِهِ فَلَمَّا أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْزِلَ عَلِیٍّ ع وَجَدَ فَاطِمَةَ مُلَازِمَةً لِعَلِیٍّ فَقَالَ لَهَا یَا بُنَیَّةِ مَا لَکِ مُلَازِمَة لِعَلِیٍّ قَالَتْ یَا أَبَتِ بَاعَ الْحَائِطَ الَّذِی غَرَسْتَهُ لَهُ بِاثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَ لَمْ یَحْبِسْ لَنَا مِنْهُ دِرْهَماً نَشْتَرِی بِهِ طَعَاماً فَقَالَ یَا بُنَیَّةِ إِنَّ جَبْرَئِیلَ یُقْرِئُنِی مِنْ رَبِّیَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ اقْرَأْ عَلِیّاً مِنْ رَبِّهِ السَّلَامَ وَ أَمَرَنِی أَنْ أَقُولَ لَکِ لَیْسَ لَکِ أَنْ تَضْرِبِی عَلَى یَدَیْهِ وَ لَا تَلْزِمِی بِثَوْبِهِ قَالَتْ فَاطِمَةُ فَإِنِّی أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَ لَا أَعُودُ أَبَدا …
خالد بن ربیع کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) کسی کام کی خاطر مکہ گئے تھے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گھر آئے تو حضرت زھرا سلام اللہ علیہا نے کہا کہ اے چچا زاد جو باغ میرے باپ آپ کے لئے آباد کیا تھا وہ آپ نے فروخت کیا؟ امیر المومنین نے فرمایا کہ ہاں ، بی بی نے فرمایا کہ اس کی قیمت [ درھم و دینا] کہاں ہیں؟ امیرالمومنین نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو دی کہ جن کے بارے میں میں نہیں چاھتا تھا کہ مجھ سے سوال ہوجائے، بی بی نے فرمایا کہ میں ، میرے دو بیٹے اور آپ بھوک کے شکار ہیں، کیا ایک درھم بھی ہم تک نہیں پہنچا؟ مولا علی کے دامن کو پکڑ لیا ، مولا علی نے کہا کہ اے فاطمہ مجھے چھوڑ دو، بی بی نے فرمایا کہ نہیں جب تک میرے باپ ہمارا فیصلہ نہ سنائیں۔
حضرت جبرائیل ع رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد ، اللہ تجھے سلام کہہ رہا ہے، اور کہتا ہے کہ علی کو میرا سلام پہنچادے، اور فاطمہ س کو کہو کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی، رسول اللہ مولا علی کے گھر آئے دیکھا بی بی فاطمہ س نے مولا علی کا دامن پکڑ رکھا ہے، کہا اے میری بیٹی کیوں علی کا دامن پکڑ بیٹھی ہو؟ بی بی نے کہا کہ بابا وہ باغ جو آپ نے ان کے لئے آباد کیا تھا بارہ ہزار درہم پر انہوں نے فروخت کیا اور ایک درھم بھی ہمارے لئے نہیں رکھا کہ ہم خوراک خریدیں، رسول اللہ نے کہا اے میری بیٹی ، جبرائیل نے میرے رب کی طرف سے مجھے اور علی کو پہنچایا ہے،اور مجھے حکم دیا ہے کہ تجھے کہہ دوں کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی، بی بی نے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت چاھتی ہوں پھر ایسا نہیں کروں گی۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى381هـ)، الأمالی، صص467-471، ح10، الناشر: کتابچی – تهران، الطبعة: السادس، 1376 ش.
جواب۔
اولا:
اس روایت کی سند میں ایک سنی سند ہے نہ کہ شیعہ سند ، یعنی احمد بن زیاد بن جعفر ھمدانی نے یہ روایت اہل سنت سے نقل کیا ہے، اس روایت کے تمام راوی اہل سنت ہیں،
ثانیا:
اس روایت کی سند میں موجود احمد بن زیاد کے علاوہ تمام راویوں کے بارے میں شیعہ کی کتابوں میں کوئی توثیق نہیں ہے اور وہ راوی روایت کو نقل کرنے میں اعتماد کے قابل نہیں ہیں،
ثالثا:
اس روایت میں موجود بعض راوی اہل بیت کے دشمن کے طور پر جانے جاتے ہیں مثلا سفیان ثوری ، سفیان ثوری ان لوگوں میں ہیں کہ جن کی شیعہ علما نے مذمت کی ہے، اور ان کو مذموم ٹھرایا ہے، البتہ یہ سنیوں کے ہاں قابل اعتماد ہیں،
علامہ حر عاملی رحمۃ اللہ علیہ سفیان ثوری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
سفیان الثَوْری: مذموم جدّاً.
سفیان ثوری نہایت ہی مذموم انسان تھا،
الحر العاملی، محمد بن الحسن (المتوفى 1104هـ)، الرجال للحر العاملی، ص132، الناشر: موسسه علمى فرهنگى دار الحدیث‏، 1427 هـ .
اسی طرح عبدالملک بن عمیر امیرالمومنین علیه السلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا ، شیخ مفید اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
فأما عبد الملک بن عمیر فمن أبناء الشام و أجلاف محاربی أمیر المؤمنین ع المشتهرین بالنصب و العداوة له و لعترته و لم یزل یتقرب إلى بنی أمیة بتولید الأخبار الکاذبة فی أبی بکر و عمر و الطعن فی أمیر المؤمنین ع حتى قلدوه القضاء و کان یقبل فیه الرشا و یحکم بالجور و العدوان و کان متجاهرا بالفجور و العبث بالنساء.
عبدالملک بن عمیر شام کا رہنے والا اور امیرالمومنین کا سخت ترین دشمن تھا، وہ امیرالمومنین اور ان کی خاندان سے دشمنی میں مشہور تھا، اور ابوبکر اور عمر کے بارے میں خود سے جھوٹے فضائل اور امیر المومنین پر طعن کی روایات گھڑتا تھا۔
الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبی عبد الله العکبری، البغدادی (المتوفى413 هـ)، الإفصاح فی إمامة أمیر المؤمنین علیه السلام، ص220، الناشر: کنگره ی شیخ مفید، الطبعة: الأولى، 1413 هـ .
پس یہ روایت انتہائی ضعیف روایت ہے ،
روایت دوم
أَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ بِسُرَّ مَنْ رَأَى قَالَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْرَائِیلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ کُنْتُ أَنَا وَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ مُهَاجِرَیْنِ إِلَى بِلَادِ الْحَبَشَةِ فَأُهْدِیَتْ لِجَعْفَرٍ جَارِیَةٌ قِیمَتُهَا أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَةَ أَهْدَاهَا لِعَلِیٍّ ع تَخْدُمُهُ فَجَعَلَهَا عَلِیٌّ ع فِی مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ ع یَوْماً فَنَظَرَتْ إِلَى رَأْسِ عَلِیٍّ ع فِی حَجْرِ الْجَارِیَةِ فَقَالَتْ یَا أَبَا الْحَسَنِ فَعَلْتَهَا فَقَالَ لَا وَ اللَّهِ یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ مَا فَعَلْتُ شَیْئاً فَمَا الَّذِی تُرِیدِینَ قَالَتْ تَأْذَنُ لِی فِی الْمَصِیرِ إِلَى مَنْزِلِ أَبِی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ لَهَا قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَتَجَلْبَبَتْ بِجِلْبَابِهَا وَ تَبَرْقَعَتْ بِبُرْقِعِهَا وَ أَرَادَتِ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ إِنَّ هَذِهِ فَاطِمَةُ قَدْ أَقْبَلَتْ إِلَیْکَ تَشْکُو عَلِیّاً فَلَا تَقْبَلْ مِنْهَا فِی عَلِیٍّ شَیْئاً فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ص جِئْتِ تَشْکِینَ عَلِیّاً قَالَتْ إِیْ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ فَقَالَ لَهَا ارْجِعِی إِلَیْهِ فَقُولِی لَهُ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ فَرَجَعَتْ إِلَى عَلِیٍّ ع فَقَالَتْ لَهُ یَا أَبَا الْحَسَنِ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ تَقُولُهَا ثَلَاثاً فَقَالَ لَهَا عَلِیٌّ ع شَکَوْتِینِی إِلَى خَلِیلِی وَ حَبِیبِی رَسُولِ اللَّهِ ص وَا سَوْأَتَاهْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص أُشْهِدُ اللَّهَ یَا فَاطِمَةُ أَنَّ الْجَارِیَةَ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّهِ وَ أَنَّ الْأَرْبَعَمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی فَضَلَتْ مِنْ عَطَائِی صَدَقَةٌ عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ الْمَدِینَةِ ثُمَّ تَلَبَّسَ وَ انْتَعَلَ وَ أَرَادَ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیل‏ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ قُلْ لِعَلِیٍّ قَدْ أَعْطَیْتُکَ الْجَنَّةَ بِعِتْقِکَ الْجَارِیَةَ فِی رِضَا فَاطِمَةَ وَ النَّارَ بِالْأَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی تَصَدَّقْتَ بِهَا فَأَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ شِئْتَ بِرَحْمَتِی وَ أَخْرِجْ مِنَ النَّارِ مَنْ شِئْتَ بِعَفْوِی فَعِنْدَهَا قَالَ عَلِیٌّ ع أَنَا قَسِیمُ اللَّهِ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَ النَّار.
ابو ذر رحمة اللَّه علیه فرماتے ہیں کہ میں اور جعفر بن ابى طالب حبشہ کی طرف ھجرت کرگئے، ایک لونڈی کہ جس کی قیمت چار ہزار درھم تھی کو جعفر بن ابیطالب کے لئے ھدیہ کی گئی، جب ہم مدینہ آئےتو جعفر نے وہ کنیز مولا علی ع کو ھدیہ میں دے دی، مولا علی ع نے حضرت زھرا کے گھر میں اس کنیز کو رکھا، ایک دفعہ بی بی فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں دیکھا کہ مولا علی ع کا سر اس کنیز کے گود میں ہے، بی بی نے کہا یا ابا الحسن:کیا آپ نے اس کنیز کے ساتھ رابطہ رکھا ہے ؟ على علیه السّلام نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ، اے رسول کی بیٹی میں نے اس کنیز کے ساتھ کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے، تم کیا کہتی ہو؟ بی بی نے کہا کہ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں اپنے بابا کے گھر جاوں ؟ على علیه السّلام نے فرمایا کہ جی بالکل اجازت ہے، بی بی فاطمه سلام اللَّه علیها نے برقعہ پہنا اور نقاب کرکے نبىّ اکرم صلّى اللَّه علیه و آله کے گھر گئیں۔ بی بی کے وارد ہونے سے پہلے جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد اللہ کہتا ہے کہ فاطمہ تمھارے پاس آئیں گی اور علی کی شکایت کرے گی، ان سے علی کے بارے میں کسی بات کو قبول نہ کرو، اسی اثنا میں بی بی داخل ہوئیں ، رسول اللہ نے فرمایا: تم آئی ہو تاکہ علی کی شکایت کرو؟ فاطمه سلام اللَّه علیها نے عرض کیا، جی ہاں ، پیغمبر صلّى اللَّه علیه و آله نے فرمایا: على علیه السّلام کے پاس وپس جاو اور کہہ دو، کہ تم اس کی رضا کی مطیع ، خشنود اور ان کے لئے متواضع و خاکسار ہو، فاطمه سلام اللَّه علیها واپس مولا علی کے ہاں اور تین دفعہ کہا [ جس کا رسول نے کہا تھا] على علیه السّلام نے فرما یا کہ تم میری شکایت میرے محبوب رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله کے ہاں لے گئیں۔ میں رسوائی سے رسول اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، اے فاطمه، خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے کنیز کو راہ خدا میں آزاد کی، اور میری غنیمت سے چہار سو درھم زائد کو فقرا میں صدقہ دیا،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص163و164، ح2، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى‏ – قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ – 1966 م.
جواب
اولا: اس روایت کی سند «الحسن بن عرفة» کے بعد کاملا سُنّی سند ہے نہ کہ شیعی.
ثانیا: «حسن بن عرفة»، «وکیع»، «محمد بن اسرائیل» اور «ابوصالح» شیعہ رجال میں مجھول راوی ہیں
ثالثا: «وکیع» اہل سنت کے محدثین میں سے ہیں کہ جو خود اہل سنت کے اعتراف کے مطابق وہ ایک شراب خور انسان تھا
«وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اخْتَلَفَ وَکِیعٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِیٍّ بِقَوْلِ مَنْ تَأْخُذُ؟ فَقَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ یُوَافِقُ أَکْثَرَ وَخَاصَّةً سُفْیَانَ، کَانَ مَعْنِیًّا بِحَدِیثِ سُفْیَانَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ یُسَلِّمُ عَلَیْهِ السَّلَفُ وَیَجْتَنِبُ شُرْبَ الْمُسْکِرِ» وَکَانَ لَا یَرَى أَنْ یُزْرَعَ فِی أَرْضِ الْفُرَاتِ
احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ وکیع اور عبد الرحمن اگر ایک مسئلے میں اختلاف کریں تو تم کس کی بات کو لو گے؟ احمد بن حنبل نے کہا کہ عبدالرحمن کی بات کو، کیونکہ وہ شراب پینے سے اجتناب کرتا ہے۔
الفسوی، أبو یوسف یعقوب بن سفیان (المتوفى 277هـ) ، المعرفة والتاریخ، ج1، ص728، تحقیق: أکرم ضیاء العمری، الناشر: مؤسسة الرسالة، بیروت، الطبعة: الثانیة، 1401 هـ- 1981 م
اس کا مطلب یہ ہے کہ احمد بن حنبل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وکیع ایک شراب خور انسان ہے اور شراب پینے سے اجتناب نہیں کرتا،
پس یہ روایت بھی ایک ضعیف ترین روایت ہے کہ جو قابل استناد نہیں ہے،
روایت سوم
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ السُّکَّرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ حَسَّانَ الْعَبْدِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ یَحْیَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ص الْفَجْرَ ثُمَّ قَامَ بِوَجْهٍ کَئِیبٍ وَ قُمْنَا مَعَهُ حَتَّى صَارَ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ ص فَأَبْصَرَ عَلِیّاً نَائِماً بَیْنَ یَدَیِ الْبَابِ عَلَى الدَّقْعَاءِ فَجَلَسَ النَّبِیُّ ص فَجَعَلَ یَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَ یَقُولُ قُمْ فِدَاکَ أَبِی وَ أُمِّی یَا أَبَا تُرَابٍ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِهِ وَ دَخَلَا مَنْزِلَ فَاطِمَةَ فَمَکَثْنَا هُنَیَّةً ثُمَّ سَمِعْنَا ضَحِکاً عَالِیاً ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ ص بِوَجْهٍ مُشْرِقٍ فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ دَخَلْتَ بِوَجْهٍ کَئِیبٍ وَ خَرَجْتَ بِخِلَافِهِ فَقَالَ کَیْفَ لَا أَفْرَح‏ وَ قَدْ أَصْلَحْتُ بَیْنَ اثْنَیْنِ أَحَبِّ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَیَّ وَ إِلَى أَهْلِ السَّمَاء.
ابو هریره کہتے ہیں کہ رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله نے صبح کی نماز پڑھی پھر محزون چہرہ کھڑے ہوئے ہم بھی محزون ہوکر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے کر ان کے معیت میں حضرت فاطمه صلوات اللَّه علیها کے گھر پہنچے ،میں نے دیکھا کہ على علیه السّلام گھر کے دروازے کے ساتھ زمین پر سوئے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم صلّى اللَّه علیه و آله بیٹھے اور ان امیر المؤمنین علیه السّلام کی پیٹھ کو خاک سے صاف کرنا شروع کیا، اور کہا کہ اے ابوتراب اٹھو میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، پھرعلى علیه السّلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فاطمه علیها السّلام کے گھر داخل ہوئے،.
ہم کچھ وقت گھر سے باہر انتظار کیا ہم نے بلند آواز کے ساتھ گھر سے ہنسی کی آواز سنی ، کچھ دیر بعد رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله خوشی کے ساتھ باہر آئے ، ہم نے کہا یا رسول اللَّه گھر میں محزون داخل ہوئے تھے اور خوشی کے ساتھ باہر نکلے، وجہ کیا ہے؟
حضرت ص نے فرمایا کہ کیسے مسرور اور خوش نہ ہوجاوں حالانکہ میں نے دو ایسے ہستیوں کے درمیان صلح کی جو مجھے تمام اہل زمین اور اہل آسمان سے زیادہ محبوب ہیں ،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص156و157، ح1، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى‏ – قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ – 1966 م.
جواب
اولا: اس روایت کی سند میں «حسن بن علی سکری»، «حسین بن حسان عبدی»، «عبد العزیز بن مسلم»، «یحیی بن عبدالله» اور اس کے باپ مجاھیل ہیں،.
ثانیا: اس سند میں واقع «یحیی بن عبدالله» شیعہ کے ہاں مجھول اور اہل سنت کے ہاں شدید ضعیف ہے،
یحیى بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ التَّیْمِیُّ الْمَدَنِیُّ [الوفاة: 141 – 150 هـ]
أَکْثَرَ عَنْ أَبِیهِ.
وَعَنْهُ: ابْنُ الْمُبَارَکِ، وَابْنُ فُضَیْلٍ، وَیَعْلَى بْنُ عُبَیْدٍ، وَیَحْیَى الْقَطَّانُ، ثُمَّ ترکه القطان.
وقال أَحْمَدُ، وَغَیْرُهُ: مُنْکَرُ الْحَدِیثِ.
الذهبی الشافعی، شمس الدین ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (المتوفى 748 هـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام، ج3، ص1012، المحقق: الدکتور بشار عوّاد معروف، الناشر: دار الغرب الإسلامی، الطبعة: الأولى، 2003 م.
ثالثا: اس روایت کو نقل کرنے والا حضرت ابوهریره ہے کہ جو اہل تشیع کے نزدیک دشمنان اهل بیت علیهم السلام میں سے ہے، اور ان لوگوں میں سے ہے کہ جس نے پیغمبر (ص) اور اهل بیت علیهم السلام پر جھوٹ باندھا ہے، جیسا کہ مرحوم آیت الله نمازی شاهرودی اپنی کتاب مستدرکات میں لکھتے ہیں کہ ابوھریرہ صحابی جو کہ انتہائی جھوٹا ہے،
أبو هریرة الدّوسیّ الصّحابیّ
هو الکذّاب المشهور
الشاهرودی، الشیخ علی النمازی (المتوفى1405هـ)، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج8، ص475، الناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق – طهران، الطبعة: الأولى، 1414 هـ
پس یہ روایت بھی ضعیف ترین روایت ہے، کہ جو قابل استناد نہیں ہے،
روایت چهارم
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ السُّکَّرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ عَنْ حَبِیبِ بْنِ أَبِی ثَابِتٍ قَالَ کَانَ بَیْنَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ ع کَلَامٌ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ أُلْقِیَ لَهُ مِثَالٌ فَاضْطَجَعَ عَلَیْهِ فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ ع فَاضْطَجَعَتْ مِنْ جَانِبٍ وَ جَاءَ عَلِیٌّ ع فَاضْطَجَعَ مِنْ جَانِبٍ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ص یَدَهُ فَوَضَعَهَا عَلَى سُرَّتِهِ وَ أَخَذَ یَدَ فَاطِمَةَ فَوَضَعَهَا عَلَى سُرَّتِهِ فَلَمْ یَزَلْ حَتَّى أَصْلَحَ بَیْنَهُمَا ثُمَّ خَرَجَ فَقِیلَ لَهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ دَخَلْتَ وَ أَنْتَ عَلَى حَالٍ وَ خَرَجْتَ وَ نَحْنُ نَرَى الْبُشْرَى فِی وَجْهِکَ قَالَ مَا یَمْنَعُنِی وَ قَدْ أَصْلَحْتُ بَیْنَ اثْنَیْنِ أَحَبِّ مَنْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ إِلَی‏.
حبیب بن ابى ثابت نقل کرتے ہیں حضرت على اور حضرت فاطمه علیهما السّلام کے درمیان تند کلامی ہوئی ، رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله داخل ہوئے، ان کے لئے بسترتیار کی گئی، رسول اللہ لیٹے تو حضرت فاطمه سلام اللَّه علیها نے آکر رسول اللہ کے ایک پہلو میں لیٹے اور مولا على علیه السّلام نے بھی آکر نبىّ اکرم صلّى اللَّه علیه و آله کے دوسرے پہلو میں لیٹے، رسول خدا نے امیر المؤمنین علیه السّلام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ناف پر رکھا اور پھر فاطمه سلام اللَّه علیها کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ناف پر رکھا کچھ دیر بعد ان دونوں کے درمیان صلح برقرار ہوئی، پھر رسول اللہ باہر تشریف لائے اور ان سے کہا گیا
یا رسول اللَّه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ سابقہ روایت میں سوال ]
حضرت نے فرمایا: [ سابقہ روایت میں جواب]
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص157، ح2، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى‏ – قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ – 1966 م
جواب:
اولا: اس روایت کی سند میں «حسن بن علی سکری»، «عثمان بن عمران»، «عبیدالله بن موسی»، «عبدالعزیز بن سیاه» اور «حبیب بن ابی ثابت» مجاھیل ہیں،.
ثانیا: اس روایت کی سند میں «حبیب بن ابی ثابت» واقع ہے کہ جو اہل سنت کے مشہور ترین راوی ہیں اور بعض اہل سنت علما کے نزدیک اس نے صرف اور صرف ابن عباس اور عائشة سے روایات نقل کی ہیں اس بنا پر یہ روایت مرسل ہوجائے گی کیونکہ بغیر کسی واسطے سے رسول اللہ سے حدیث نقل کررہا ہے،
ثالثا:
شیخ صدوق (رح) ان دو روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
قال محمد بن علی بن الحسین مصنف هذا الکتاب لیس هذا الخبر عندی بمعتمد و لا هو لی بمعتقد فی هذه العلة لأن علیا ع و فاطمة ع ما کان لیقع بینهما کلام یحتاج رسول الله ص إلى الإصلاح بینهما لأنه ع سید الوصیین و هی سیدة نساء العالمین مقتدیان بنبی الله ص فی حسن الخلق …
میں (شیخ صدوق) کہتا ہوں : یہ روایت میرے نزدیک قابل اعتماد نہیں ، میں ان روایات کی صحت کا قائل نہیں ہوں ، کیونکہ علی و فاطمه علیهما السلام ان باتوں سے پاک ہیں کہ ان کے درمیان اختلاف آجائے اور رسول الله صلی الله علیه و آله کو آکر ان کی صلح کرنا پڑے کیونکہ علی بن ابی طالب سید الوصیین ہیں اور فاطمه زنان عالَم کی سردار ہیں، دونوں نے حسن خلق میں رسول اللہ کی اقتدا کی ہے،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص156، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى‏ – قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ – 1966 م.
پس یہ روایت بھی ضعیف ترین روایت ہے، اور اس سے استناد کرنا درست نہیں،
روایت پنجم
أَخْبَرَنَا جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ وَالِدِی رَحِمَهُ اللَّهُ أَبُو الْقَاسِمِ الْفَقِیهُ وَ أَبُو الْیَقْظَانِ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَ وَلَدُهُ أَبُو الْقَاسِمِ سَعْدُ بْنُ عَمَّارٍ سَامَحَهُ اللَّهُ عَنِ الشَّیْخِ الزَّاهِدِ إِبْرَاهِیمَ بْنِ نَصْرٍ الْجُرْجَانِیِّ عَنِ السَّیِّدِ الصَّالِحِ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ الْعَلَوِیِّ الْمَرْعَشِیِّ الطَّبَرِیِّ وَ کَتَبْتُهُ مِنْ کِتَابِهِ بِخَطِّهِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَلِیلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ حَدَّثَنَاشَرِیکُ بْنُ لَیْثٍ الْمُرَادِیُّ بْنُ أَبِی سُلَیْمٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى نَبِیِّهِ مَدِینَةَ خَیْبَرَ قَدِمَ جَعْفَرٌ ع مِنَ الْحَبَشَةِ فَقَالَ النَّبِیُّ ص لَا أَدْرِی أَنَا بِأَیِّهِمَا أَسَرُّ بِفَتْحِ خَیْبَرَ أَمْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ وَ کَانَتْ مَعَ جَعْفَرٍ جَارِیَةٌ فَأَهْدَاهَا إِلَى عَلِیٍّ ع فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ ع بَیْتَهَا فَإِذَا رَأْسُ عَلِیٍّ فِی حَجْرِ الْجَارِیَةِ فَلَحِقَهَا مِنَ الْغَیْرَةِ مَا یَلْحَقُ الْمَرْأَةَ عَلَى زَوْجِهَا فَتَبَرْقَعَتْ بِبُرْقَعَتِهَا وَ وَضَعَتْ خِمَارَهَا عَلَى رَأْسِهَا تُرِیدُ النَّبِیَّ ص تَشْکُو إِلَیْهِ عَلِیّاً فَنَزَلَ جَبْرَئِیلُ ع عَلَى النَّبِیِّ ص فَقَالَ لَهُ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ هَذِهِ فَاطِمَةُ تَأْتِیکَ تَشْکُو عَلِیّاً فَلَا تَقْبَلَنَّ مِنْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ فَاطِمَةُ قَالَ لَهَا النَّبِیُّ ص ارْجِعِی إِلَى بَعْلِکِ وَ قُولِی لَهُ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ فَرَجَعَتْ فَاطِمَةُ ع فَقَالَتْ یَا ابْنَ عَمِّ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ فَقَالَ عَلِیٌّ ع یَا فَاطِمَةُ شَکَوْتِنِی إِلَى النَّبِیِّ ص وَا حَیَاءَاهْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ أُشْهِدُکِ یَا فَاطِمَةُ أَنَّ هَذِهِ الْجَارِیَةَ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّهِ فِی مَرْضَاتِکِ وَ کَانَ مَعَ عَلِی‏ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ فَقَالَ وَ هَذِهِ الْخَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ صَدَقَةٌ فِی فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ فِی مَرْضَاتِکِ فَنَزَلَ جَبْرَئِیلُ عَلَى النَّبِیِّ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ اللَّهُ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ بَشِّرْ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ بِأَنِّی وَهَبْتُ لَهُ الْجَنَّةَ بِحَذَافِیرِهَا لِعِتْقِهِ الْجَارِیَةَ فِی مَرْضَاةِ فَاطِمَةَ فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ یَقِفُ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَیُدْخِلُ مَنْ یَشَاءُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِی وَ یَمْنَعُ مِنْهَا مَنْ یَشَاءُ بِغَضَبِی وَ قَدْ وَهَبْتُ لَهُ النَّارَ بِحَذَافِیرِهَا بِصَدَقَتِهِ الْخَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ عَلَى الْفُقَرَاءِ فِی مَرْضَاةِ فَاطِمَةَ فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ یَقِفُ عَلَى بَابِ النَّارِ فَیُدْخِلُ مَنْ یَشَاءُ النَّارَ بِغَضَبِی وَ یَمْنَعُ مَنْ یَشَاءُ مِنْهَا بِ‏رَحْمَتِی فَقَالَ النَّبِیُّ ص بَخْ بَخْ مَنْ مِثْلُکَ یَا عَلِیُّ وَ أَنْتَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ وَ النَّار.
الطبری، عماد الدین أبی جعفر محمد بن أبی القاسم (المتوفى525هـ)، بشارة المصطفى (صلى الله علیه وآله) لشیعة المرتضى علیه السلام، ج2، ص101و102، الناشر: المکتبة الحیدریة، 1383 هـ .
اس روایت کا ترجمہ طوالت کی خاطر چھوڑ دیا جارہا ہے کیونکہ اس روایت کا مضمون بھی اس تحریر میں واقع دوسری روایت کی مانند ہیں،
جواب:
اولا: اس روایت کی سند میں «شریک بن لیث» اور باقی مجاھیل ہیں۔
ثانیا: اس روایت کی سند میں «مجاهد» واقع ہے کہ جو اہل سنت کے راویوں میں سے ہیں اور شیعہ کے ہاں مورد اعتماد نہیں ہے،
نتیجه
الف)
تمام روایات جو اس عنوان [ مولا علی اور سیدہ کائنات کے درمیان ناراضگی] میں نقل ہوئی ہیں تمام کی تمام ضعیف ہیں کیونکہ ان کی سندوں میں ایسے راوی موجود ہیں جو مجاھیل ، ضیعف یا ناصبی ہیں،
ب)
ان روایات کی سندیں سنی سندیں ہیں نہ کہ شیعہ سندیں،
ج)
روایات کا متن قرآن کی آیات اور صحیح آحادیث کے ساتھ تعارض میں ہیں،
.
.
.
کیا علی ع نے فاطمہ ع کو غضبناک کیا تھا؟
ایک مشہور حدیث ہے جو شاید سب ہی جانتے ہونگے، بخاری نے اسکو یوں روایت کیا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي ‏”‏‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے ، اس لیے جس نے اسے ناحق ناراض کیا ، اس نے مجھے ناراض کیا ۔ (1)
اور مسلم نے اسکو یوں بھئ نقل کیا ہے:
حَدَّثَنِي أَبُو مَعْمَرٍ، إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهُذَلِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ “‏ إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ‏”‏ ‏.‏
عمرو نے ابن ابی ملیکہ سے ، انھوں نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ” فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اس کو اذیت دے وہ مجھے اذیت دیتی ہے ۔ ” (2)
اس حدیث کے پیچھے کا backdrop یہ بتایا جاتا ہے اہل تسنن کی روایات میں کہ علی ع کو ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنی تھی تو رسول الله ص نے فرمایا کہ الله کے نبی کی بیٹی اور الله کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں نہیں آسکتیں (أو كما قال)۔ اور اس پر فاطمہ ع غضبناک ہوئیں جسکے بعد آپ ص نے مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی (نعوذ باللہ من ذلک)۔ اب اس مفہوم کی کچھ شیعی روایات بھی ہیں، خصوصا شیخ صدوق ؒ کی کتاب علل الشرائع میں، یہ روایات کافی طویل ہیں جسکے سبب ہم مکمل نہیں نقل کریں گے صرف موضع الحاجہ لیں گے۔ پہلی روایت:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ وَ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالا أَتَى رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع)… قَالَ إِنَّهُ جَاءَ شَقِيٌّ مِنَ الْأَشْقِيَاءِ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ لَهَا أَ مَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلِيّاً قَدْ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ فَقَالَتْ حَقّاً مَا تَقُولُ فَقَالَ حَقّاً مَا أَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَدَخَلَهَا مِنَ الْغَيْرَةِ مَا لَا تَمْلِكُ نَفْسَهَا وَ ذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى كَتَبَ عَلَى النِّسَاءِ غَيْرَةً وَ كَتَبَ عَلَى الرِّجَالِ جِهَاداً وَ جَعَلَ لِلْمُحْتَسِبَةِ الصَّابِرَةِ مِنْهُنَّ مِنَ الْأَجْرِ مَا جَعَلَ لِلْمُرَابِطِ الْمُهَاجِرِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَاشْتَدَّ غَمُّ فَاطِمَةَ مِنْ ذَلِكَ وَ بَقِيَتْ مُتَفَكِّرَةً هِيَ حَتَّى أَمْسَتْ وَ جَاءَ اللَّيْلُ حَمَلَتِ الْحَسَنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَيْمَنِ وَ الْحُسَيْنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَيْسَرِ وَ أَخَذَتْ بِيَدِ أُمِّ كُلْثُومٍ الْيُسْرَى بِيَدِهَا الْيُمْنَى ثُمَّ تَحَوَّلَتْ إِلَى حُجْرَةِ أَبِيهَا فَجَاءَ عَلِيٌّ فَدَخَلَ حُجْرَتَهُ فَلَمْ يَرَ فَاطِمَةَ فَاشْتَدَّ لِذَلِكَ غَمُّهُ وَ عَظُمَ عَلَيْهِ وَ لَمْ يَعْلَمِ الْقِصَّةَ مَا هِيَ فَاسْتَحَى أَنْ يَدْعُوَهَا مِنْ مَنْزِلِ أَبِيهَا فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ يُصَلِّي فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَمَعَ شَيْئاً مِنْ كَثِيبِ الْمَسْجِدِ وَ اتَّكَأَ عَلَيْهِ
علی بن احمد – ابو العباس احمد بن محمد بن یحیی – عمرو بن ابی مقدام اور زیاد بن عبد اللہ – دونوں نے کہا: ایک شخص امام صادق ع کے پاس آیا۔۔۔ امام ع نے فرمایا: شقیوں میں سے ایک شقی فاطمہ بنت رسول الله ص کے پاس آیا تھا اور ان سے کہا تھا: کیا آپ نہیں جانتیں کہ علی ع نے ابو جہل کی بیٹی کو شادی کی تجویز کی ہے؟ تو فاطمہ ع نے فرمایا: کیا سچ ہے جو تم کہتے ہو؟ اس نے کہا: سچ ہے جو میں کہتا ہوں، تین بار اس نے کہا۔ تو فاطمہ ع کو غیرت آئی اور وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکیں، اور وہ اس لیئے کیونکہ الله تبارک و تعالی نے عورتوں پر غیرت لازم کی ہے اور مردوں پر جہاد لازم کیا ہے، اور ان میں سے محتصب اور صبر والیوں کیلئے اجر رکھا ہے جو مبلغ اور مہاجر کیلئے رکھا ہے الله کی راہ میں۔ تو امام ع نے فرمایا: فاطمہ ع کا غم شدید ہوگیا اس وجہ سے اور وہ تفکر کرتی رہہ گئیں یہاں تک کہ تاریکی آئی اور رات ہوگئی۔ انہوں نے دائیں کاندھے پر حسن ع کو اٹھایا اور بائیں کاندھے پر حسین ع کو۔ اور ام کلثوم کے بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑا، پھر اپنے والد کے حجرے کی طرف گئیں۔ تو علی ع آئے اور اپنے حجرے میں داخل ہوئے، انہوں نے فاطمہ ع کو نہیں دیکھا، انکا غم اس وجہ سے شدید ہوگا اور ان پر بھاری پڑا، وہ اس قصے کو نہیں جانتے تھے جو ہوا تو انکو حیاء آئی کہ انکو انکے والد کے گھر سے پکاریں، تو وہ مسجد گئے اور نماز پڑھی جب تک الله نے چاہا، پھر مسجد کی ریت کو جمع کیا اور اس پر تکیہ فرمایا۔۔۔
فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ (ص) مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ أَفَاضَ عَلَيْهَا مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ لَبِسَ ثَوْبَهُ وَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي بَيْنَ رَاكِعٍ وَ سَاجِدٍ وَ كُلَّمَا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دَعَا اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَ مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ وَ الْغَمِّ وَ ذَلِكَ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَ هِيَ تَتَقَلَّبُ وَ تَتَنَفَّسُ الصُّعَدَاءَ فَلَمَّا رَآهَا النَّبِيُّ (ص) أَنَّهَا لَا يُهَنِّيهَا النَّوْمُ وَ لَيْسَ لَهَا قَرَارٌ قَالَ لَهَا قُومِي يَا بُنَيَّةِ فَقَامَتْ فَحَمَلَ النَّبِيُّ (ص) الْحَسَنَ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ وَ أَخَذَتْ بِيَدِ أُمِّ كُلْثُومٍ فَانْتَهَى إِلَى عَلِيٍّ (ع) وَ هُوَ نَائِمٌ فَوَضَعَ النَّبِيُّ (ص) رِجْلَهُ عَلَى رِجْلِ عَلِيٍّ فَغَمَزَهُ وَ قَالَ قُمْ يَا أَبَا تُرَابٍ فَكَمْ سَاكِنٍ أَزْعَجْتَهُ ادْعُ لِي أَبَا بَكْرٍ مِنْ دَارِهِ وَ عُمَرَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَ طَلْحَةَ فَخَرَجَ عَلِيٌّ فَاسْتَخْرَجَهُمَا مِنْ مَنْزِلِهِمَا وَ اجْتَمَعُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) يَا عَلِيُّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَ أَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي وَ مَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَ مَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِي كَانَ كَمَنْ آذَاهَا فِي حَيَاتِي وَ مَنْ آذَاهَا فِي حَيَاتِي كَانَ كَمَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِي قَالَ فَقَالَ عَلِيٌّ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا دَعَاكَ إِلَى مَا صَنَعْتَ فَقَالَ عَلِيٌّ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيّاً مَا كَانَ مِنِّي مِمَّا بَلَغَهَا شَيْءٌ وَ لَا حَدَّثَتْ بِهَا نَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَدَقْتَ وَ صَدَقَتْ فَفَرِحَتْ فَاطِمَةُ (ع) بِذَلِكَ وَ تَبَسَّمَتْ حَتَّى رُئِيَ ثَغْرُهَا
تو جب نبی ص نے فاطمہ ع کو حزن میں دیکھا انکی آنکھیں ان پر (گریہ سے) پانی سے بھر آئیں، پھر انہوں نے اپنے کپڑے کو پہنا اور مسجد میں داخل ہوئے اور نماز پڑھتے رہے رکوع و سجود میں اور جب بھی وہ دو رکعات پڑھتے وہ الله سے دعاء کرتے کہ وہ فاطمہ ع کا حزن و غم دور کردے، اور کہ انہوں نے انکو اس حال میں چھوڑا کہ وہ ہل رہی تھیں اور تیزی سے سانس لے رہی تھیں۔ تو جب نبی ص نے انکو دیکھا کہ وہ خوش نہیں ہو رہیں اور نہ نیند ارہی ہے اور ان کو سکون نہیں مل رہا، آپ ص نے ان سے فرمایا: کھڑی ہوجاو میری بیٹی۔ تو وہ کھڑی ہوئیں، نبی ص نے حسن ع کو اٹھایا اور فاطمہ ع نے حسین ع کو اٹھایا اور ام کلثوم کو انکے ہاتھ سے پکڑا، پھر وہ علی ع کے پاس آئے جبکہ وہ سو رہے تھے، تو نبی ص نے اپنا پاوں علی ع کے پاوں پر رکھا، انکو چٹکی دی، اور فرمایا: کھڑے ہو اے ابو تراب، کہ کتنے ساکن ہیں جنکو تم نے تنگ کیا ہے! میرے لیئے ابو بکر کو اسکے گھر سے بلاو اور عمر کو اسکی مجلس سے اور طلحہ کو۔ تو علی ع نکلےاور ان دونوں (ابو بکر و عمر) کو انکے گھروں سے نکال کر لائے، اور وہ رسول الله ص کے پاس جمع ہوئے، تو رسول الله ص نے فرمایا: اے علی ع، کیا تم نہیں جانتے کہ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور میں اس سے ہوںَ تو جو اس کو اذیت دے، اس نے مجھے اذیت دی، اور جو مجھے اذیت دے اس نے الله کو اذیت دی، اور جو فاطمہ ع کو میری موت کے بعد اذیت دے وہ ایسے ہے جیسے وہ جس نے اسکو میری زندگی میں اذیت دی۔ اور جس نے اسکو میری زندگی میں اذیت دی وہ ایسے ہے جیسے اس نے اسکو میری موت کے بعد اذیت دی۔ (اب آگے یہ حصہ ہے جو نقل نہیں کیا جاتا مخالفین کی طرف سے) کہا: تو علی ع نے فرمایا: جی ہاں، یا رسول الله ص۔ آپ ص نے فرمایا: تو تم نے یہ کیوں کیا؟ علی ع نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی مبعوث کیا، وہ مجھ سے نہیں ہوا جو فاطمہ ع تک پہنچا ہے اور نہ میرے نفس نے اسکو بیان کیا ہے۔ تو نبی ص نے فرمایا: تم نے سچ بولا اور اس نے سچ بولا، تو فاطمہ ع خوش ہوئیں اس سے اور مسکرائیں حتی کہ انکا منہ نظر آنے لگا۔ (3)
اسکا متن ایک طرف جس میں غلط فہمی دور ہوتی ہے، لیکن اسکی اسناد کا اعتبار:
علی بن احمد: یہ شیخ صدوق کے مشائخ میں سے ہیں، شیخ صدوق کی ترضی ہے ان کیلئے لیکن، یہ مجھول ہیں۔ الخوئی (معجم رجال الحديث، الرقم: 7920)
ابو العباس احمد بن محمد بن یحیی: یہ بھی مجھول راوی ہیں۔ الخوئی (معجم رجال الحديث، الرقم: 1015)
عمرو بن ابی مقدام: ابن غضائری کی رجال (نمبر 76) میں اس کو ضعیف جدا (بہت ضعیف) راوی کہا گیا ہے، مگر بعض نے اس کتاب کی نسبت پر اشکال کیا ہے جسکی وجہ سے یہ راوی مختلف فیہ یا مجھول ہیں، اور اہل تسنن کے رجال میں ان پر سخت جرح ہے، ابن سعد، بخاری، نسائی، یحیی بن معین، ابن ابی حاتم، ابن حبان سب نے اس کو ضعیف اور متروک کہا ہے۔
زیاد بن عبد اللہ: مجھول، بلکہ مہمل۔ شیخ نمازی نے یہ ذکر کیا ہے (مستدركات علم الرجال، الرقم: 5853)
لہذا یہ حدیث ضعیف جدا ہے، اس کے تمام راوی ہی مجھول ہیں بلکہ بیچ میں ایک راوی مختلف فیہ بھی کہا جا سکتا ہے، اس وجہ سے یہ روایت معتبر نہیں ٹہرتی۔ شریف مرتضی نے بھی تنزیہ الانبیاء میں اس روایت کو جعلی کہا ہے۔ اسکے علاوہ دوسری روایت جس سے مخالفین کا استدلال ہوتا ہے وہ یہ ہے:
أَبِي (رحمه الله) قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ بِسُرَّ مَنْ رَأَى قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْرَائِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مُهَاجِرَيْنِ إِلَى بِلَادِ الْحَبَشَةِ فَأُهْدِيَتْ لِجَعْفَرٍ جَارِيَةٌ قِيمَتُهَا أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ أَهْدَاهَا لِعَلِيٍّ (ع) تَخْدُمُهُ فَجَعَلَهَا عَلِيٌّ (ع) فِي مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ (ع) يَوْماً فَنَظَرَتْ إِلَى رَأْسِ عَلِيٍّ (ع) فِي حَجْرِ الْجَارِيَةِ فَقَالَتْ يَا أَبَا الْحَسَنِ فَعَلْتَهَا فَقَالَ لَا وَ اللَّهِ يَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ مَا فَعَلْتُ شَيْئاً فَمَا الَّذِي تُرِيدِينَ قَالَتْ تَأْذَنُ لِي فِي الْمَصِيرِ إِلَى مَنْزِلِ أَبِي رَسُولِ اللَّهِ (ص) فَقَالَ لَهَا قَدْ أَذِنْتُ لَكِ فَتَجَلْبَبَتْ بِجِلْبَابِهَا وَ تَبَرْقَعَتْ بِبُرْقِعِهَا وَ أَرَادَتِ النَّبِيَّ (ص) فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ (ع) فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ إِنَّ هَذِهِ فَاطِمَةُ قَدْ أَقْبَلَتْ إِلَيْكَ تَشْكُو عَلِيّاً فَلَا تَقْبَلْ مِنْهَا فِي عَلِيٍّ شَيْئاً فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ (ص) جِئْتِ تَشْكِينَ عَلِيّاً قَالَتْ إِيْ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ فَقَالَ لَهَا ارْجِعِي إِلَيْهِ فَقُولِي لَهُ رَغِمَ أَنْفِي لِرِضَاكَ فَرَجَعَتْ إِلَى عَلِيٍّ (ع) فَقَالَتْ لَهُ يَا أَبَا الْحَسَنِ رَغِمَ أَنْفِي لِرِضَاكَ تَقُولُهَا ثَلَاثاً فَقَالَ لَهَا عَلِيٌّ (ع) شَكَوْتِينِي إِلَى خَلِيلِي وَ حَبِيبِي رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَا سَوْأَتَاهْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (ص) أُشْهِدُ اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ أَنَّ الْجَارِيَةَ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّهِ وَ أَنَّ الْأَرْبَعَمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِي فَضَلَتْ مِنْ عَطَائِي صَدَقَةٌ عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ تَلَبَّسَ وَ انْتَعَلَ وَ أَرَادَ النَّبِيَّ (ص) فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ قُلْ لِعَلِيٍّ قَدْ أَعْطَيْتُكَ الْجَنَّةَ بِعِتْقِكَ الْجَارِيَةَ فِي رِضَا فَاطِمَةَ وَ النَّارَ بِالْأَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِي تَصَدَّقْتَ بِهَا فَأَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ شِئْتَ بِرَحْمَتِي وَ أَخْرِجْ مِنَ النَّارِ مَنْ شِئْتَ بِعَفْوِي فَعِنْدَهَا قَالَ عَلِيٌّ (ع) أَنَا قَسِيمُ اللَّهِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ
میرے والد رحمہ اللہ – سعد بن عبد اللہ – حسن بن عرفہ – وکیع – محمد بن اسرائیل – ابو صالح – ابو ذر رحمت اللہ علیہ – کہا: میں اور جعفر بن ابی طالب حبشہ میں مہاجر تھے، تو جعفر کو ایک کنیز ہدیہ کی گئی جسکی قیمت چار ہزار درہم تھی، تو جب ہم مدینہ آئے انہوں نے وہ کنیز علی ع کو دیدی کہ وہ انکی خدمت کرے، علی ع نے اسکو فاطمہ ع کے گھر میں رکھا، تو فاطمہ ع ایک دن داخل ہوئیں اور علی ع کے سر کو اس کنیز کی گود میں دیکھا، تو فرمایا: اے ابا الحسن، آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ امام علی ع نے فرمایا: نہیں، بخدا، اے محمد ص کی بیٹی، میں نے کچھ نہیں کیا، تو آپ کیا چاہتی ہیں؟ فاطمہ ع نے فرمایا: آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے والد رسول الله ص کے گھر جاوں۔ تو علی ع نے فرمایا: میں نے آپکو اجازت دیدی ہے۔ تو فاطمہ ع نے اپنا جلباب اور برقع پہنا اور نبی ص کے پاس گئیں۔ جبرئیل ع نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ص، الله آپ کو سلام پہنچاتا ہے اور کہتا ہے: یہ فاطمہ آپکے پاس آئیں گی اور علی ع کی شکایت کریں گی، تو آپ ان سے علی ع کے متعلق کچھ قبول نہ کریئے۔ تو فاطمہ ع داخل ہوئیں، رسول الله ص نے ان سے فرمایا: آپ علی ع کی شکایت کیلئے آئی ہیں؟ فاطمہ ع نے فرمایا: جب، رب کعبہ کی قسم۔ تو آپ ص نے ان سے فرمایا: واپس لوٹ جایئے انکے پاس اور ان سے کہیئے، میں نے اپنی ناک کو آپکی رضا کی خاطر خاک آلود کیا (یہ عربی استعارہ ہے)۔ تو وہ علی ع کے پاس لوٹیں اور ان سے کہا: اے ابا الحسن، میں نے اپنی ناک کو آپکی خاطر خاک آلود کیا، انہوں نے یہ تین بار فرمایا۔ علی ع نے ان سے فرمایا: آپ نے میری شکایت میرے دوست، میرے حبیب رسول الله ص سے کی، رسول الله ص سے شر آرہی ہے! میں الله کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کنیز کو آزاد کیا ہے الله کی رضامندی کیلئے اور کہ چار سو درہم جو اس کی عطاء سے ملے تھے وہ صدقہ ہیں اہل مدینہ کے فقراء کیلئے۔ پھر انہوں نے لباس اور جوتے پہنے اور نبی ص کے پاس گئے۔ جبرئیل ع اترے اور کہا: یا محمد ص، الله آپ کو سلام کہتا ہے اور کہتا ہے: علی ع سے کہیئے، میں نے آپکو جنت دی ہے آپ کے اس کنیز کو آزاد کرنے کے سبب فاطمہ ع کی رضا کی خاطر، اور چار سو درہم کے بدلے جو آپ نے صدقہ دیئے ہیں، تو جنت میں آپ جسکو چاہیں داخل کیجئے میری رحمت سے ار جہنم میں سے جسکو چاہیئے نکالیں آپ میری عفو سے، اس کے بعد علی ع نے فرمایا: میں الله کی (طرف سے مامور) جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں۔ (4)
اس روایت کے بھی مکمل حصے کو نہیں نقل کیا جاتا۔ لیکن اسکی اسناد کا اعتبار یہ ہے:
میرے والد رحمہ اللہ (شیخ صدوق کے والد): ثقہ
سعد بن عبد اللہ قمی: ثقہ
حسن بن عرفہ: مجھول، بلکہ مہمل۔ شیعی رجال میں اسکا ذکر نہیں ہے، البتہ سنی رجال میں ذکر موجود ہے۔ ادھر نجاشی کی بات کا ذکر اہم ہے کہ سعد بن عبد اللہ (مذکورہ بالا روای) نے بہت سے اہل تسنن راویوں سے احادیث سنی تھی، اور یہ حسن بن عرفہ بھی اہل سنت کی رجال میں موجود ہے اور انکے نزدیک ثقہ ہے۔
وکیع: وکیع بن جراح، رجال شیعی میں یہ مجھول ہے، جبکہ اہل تسنن میں یہ بھی حدیث کا حافظ اور امام تصور کیا جاتا ہے، اس وجہ سے اہل سنت کے ہاں ثقہ ہے۔
محمد بن اسرائیل: یہ بھی مجھول ہیں، اور سنی رجال میں انکا بڑا نام ہے، البتہ وکیع کا سماع ثابت نہیں محمد بن اسرائیل سے تو انکے نزدیک بھی یہ روایت مرسلہ ہوگی کیونکہ وکیع کے مشائخ میں سے نہیں ہے محمد بن اسرائیل۔
ابو صالح: یہ بھی شیعی رجال میں مجھول ہیں، انکا ذکر نہیں ملتا۔
ابو ذر غفاری: جندب بن جنادہ، ابو ذر رضی اللہ عنہ، یہ اصحاب رسول ص میں سے ہیں اور شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک ثقہ ہیں۔
لہذا ہم مذکورہ بالا اسناد میں دیکھتے ہیں کہ کم از کم چار راوی مجھول ہیں، اور یہ ایک عامی (سنی) سند ہے، جس میں عامہ کے بہت سے روات موجود ہیں۔ متن کا اضطراب اس وجہ سے بھی ممکن ہے کہ عامہ کی طرف سے آرہی ہے روایت، سعد بن عبد اللہ کے بعد، واللہ اعلم۔ لیکن یہ دونوں روایات اسنادی طور پر معتبر نہیں ٹہرتیں، اور نہ ایسی باتیں متوقع ہیں ان ہستیوں سے جو مذکورہ بالا روایات میں ذکر ہوئی ہیں۔
أحقر: سيد علي أصدق نقوي
اللهم صل على محمد ﷺ وآله
مآخذ:
(1) صحيح البخاري، الرقم: 3714
(2) صحيح مسلم، الرقم: 6308
(3) علل الشرائع، ج 1، ص 185 و 186
(4) علل الشرائع، ج 1، ص 163 و 164