مقدمه
رسول اللہ نے کہا ہے کہ فاطمہ کو جس نے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا، اہل سنت حضرت ابوبکر کو اس روایت کے مصداق سے بچانے کے لئے ایک افسانہ پیش کرتے ہیں کہ جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اس افسانہ کو ثابت کرنے کے لئے اہل سنت شیعہ کتابوں سے تمسک کرتے ہیں۔ اس تحریر میں شیعہ کتابوں میں موجود اس روایت کی سند سے بحث کیا جائے گا،
اشکال
شیعہ کتابوں کے مطابق حضرت علی ع نے ابوجھل کی بیٹی سے خواستگاری کی تھی جس کی وجہ سے حضرت زھرا سخت ناراض ہوگئی تھی۔

جواب
جس روایت سے اہل سنت استناد کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں،
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَى عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی الْمِقْدَامِ وَ زِیَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالا أَتَى رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ لَهُ یَرْحَمُکَ اللَّهُ هَلْ تُشَیَّعُ الْجَنَازَةُ بِنَارٍ وَ یُمْشَى مَعَهَا بِمِجْمَرَةٍ أَوْ قِنْدِیلٍ أَوْ غَیْرِ ذَلِکَ مِمَّا یُضَاءُ بِهِ قَالَ فَتَغَیَّرَ لَوْنُ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع مِنْ ذَلِکَ وَ اسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ جَاءَ شَقِیٌّ مِنَ الْأَشْقِیَاءِ إِلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ لَهَا أَ مَا عَلِمْتِ أَنَّ عَلِیّاً قَدْ خَطَبَ بِنْتَ أَبِی جَهْلٍ فَقَالَتْ حَقّاً مَا تَقُولُ فَقَالَ حَقّاً مَا أَقُولُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَدَخَلَهَا مِنَ الْغَیْرَةِ مَا لَا تَمْلِکُ نَفْسَهَا وَ ذَلِکَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى کَتَبَ عَلَى النِّسَاءِ غَیْرَةً وَ کَتَبَ عَلَى الرِّجَالِ جِهَاداً وَ جَعَلَ لِلْمُحْتَسِبَةِ الصَّابِرَةِ مِنْهُنَّ مِنَ الْأَجْرِ مَا جَعَلَ لِلْمُرَابِطِ الْمُهَاجِرِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ قَالَ فَاشْتَدَّ غَمُّ فَاطِمَةَ مِنْ ذَلِکَ وَ بَقِیَتْ مُتَفَکِّرَةً هِیَ حَتَّى أَمْسَتْ وَ جَاءَ اللَّیْلُ حَمَلَتِ الْحَسَنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَیْمَنِ وَ الْحُسَیْنَ عَلَى عَاتِقِهَا الْأَیْسَرِ وَ أَخَذَتْ بِیَدِ أُمِّ کُلْثُومٍ الْیُسْرَى بِیَدِهَا الْیُمْنَى ثُمَّ تَحَوَّلَتْ إِلَى حُجْرَةِ أَبِیهَا فَجَاءَ عَلِیٌّ فَدَخَلَ حُجْرَتَهُ فَلَمْ یَرَ فَاطِمَةَ فَاشْتَدَّ لِذَلِکَ غَمُّهُ وَ عَظُمَ عَلَیْهِ وَ لَمْ یَعْلَمِ الْقِصَّةَ مَا هِیَ فَاسْتَحَى أَنْ یَدْعُوَهَا مِنْ مَنْزِلِ أَبِیهَا فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ یُصَلِّی فِیهِ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ جَمَعَ شَیْئاً مِنْ کَثِیبِ الْمَسْجِدِ وَ اتَّکَأَ عَلَیْهِ فَلَمَّا رَأَى النَّبِیُّ ص مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ أَفَاضَ عَلَیْهَا مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ لَبِسَ ثَوْبَهُ وَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّی بَیْنَ رَاکِعٍ وَ سَاجِدٍ وَ کُلَّمَا صَلَّى رَکْعَتَیْنِ دَعَا اللَّهَ أَنْ یُذْهِبَ مَا بِفَاطِمَةَ مِنَ الْحُزْنِ وَ الْغَمِّ وَ ذَلِکَ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا وَ هِیَ تَتَقَلَّبُ وَ تَتَنَفَّسُ الصُّعَدَاءَ فَلَمَّا رَآهَا النَّبِیُّ ص أَنَّهَا لا یُهَنِّیهَا النَّوْمُ وَ لَیْسَ لَهَا قَرَارٌ قَالَ لَهَا قُومِی یَا بُنَیَّةِ فَقَامَتْ فَحَمَلَ النَّبِیُّ ص الْحَسَنَ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ وَ أَخَذَتْ بِیَدِ أُمِّ کُلْثُومٍ فَانْتَهَى إِلَى عَلِیٍّ ع وَ هُوَ نَائِمٌ فَوَضَعَ النَّبِیُّ ص رِجْلَهُ عَلَى رِجْلِ عَلِیٍّ فَغَمَزَهُ وَ قَالَ قُمْ یَا أَبَا تُرَابٍ فَکَمْ سَاکِنٍ أَزْعَجْتَهُ ادْعُ لِی أَبَا بَکْرٍ مِنْ دَارِهِ وَ عُمَرَ مِنْ مَجْلِسِهِ وَ طَلْحَةَ فَخَرَجَ عَلِیٌّ فَاسْتَخْرَجَهُمَا مِنْ مَنْزِلِهِمَا وَ اجْتَمَعُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص یَا عَلِیُّ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْهَا فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِی وَ مَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَ مَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی وَ مَنْ آذَاهَا فِی حَیَاتِی کَانَ کَمَنْ آذَاهَا بَعْدَ مَوْتِی قَالَ فَقَالَ عَلِیٌّ بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَا دَعَاکَ إِلَى مَا صَنَعْتَ فَقَالَ عَلِیٌّ وَ الَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ نَبِیّاً مَا کَانَ مِنِّی مِمَّا بَلَغَهَا شَیْءٌ وَ لَا حَدَّثَتْ بِهَا نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ صَدَقْتَ وَ صَدَقَتْ فَفَرِحَتْ فَاطِمَةُ ع بِذَلِکَ وَ تَبَسَّمَتْ حَتَّى رُئِیَ ثَغْرُهَا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ إِنَّهُ لَعَجَبٌ لِحِینِهِ مَا دَعَاهُ إِلَى مَا دَعَانَا هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ النَّبِیُّ ص بِیَدِ عَلِیٍّ فَشَبَّکَ أَصَابِعَهُ بِأَصَابِعِهِ فَحَمَلَ النَّبِیُّ ص الْحَسَنَ وَ حَمَلَ الْحُسَیْنَ عَلِیٌّ وَ حَمَلَتْ فَاطِمَةُ أُمَّ کُلْثُومٍ وَ أَدْخَلَهُمُ النَّبِیُّ بَیْتَهُمْ وَ وَضَعَ عَلَیْهِمْ قَطِیفَةً وَ اسْتَوْدَعَهُمُ اللَّهَ ثُمَّ خَرَجَ وَ صَلَّى بَقِیَّةَ اللَّیْلِ …
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، صص185-189، ح2، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى – قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ – 1966 م.
امام صادق علیه السّلام نے فرمایا : ایک نامراد اور بدبخت انسان نے بی بی فاطمہ علیہا السلام کے پاس آکر کہنے لگا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ على علیه السّلام نے ابو جهل کی بیٹی سے خواستگارى کی ہے؟ فاطمه سلام اللہ علیہا نے کہا:کیا جو کچھ تم کہتے ہیں وہ حقیقت ہے ؟ اس شخص نے تین دفعہ کہا کہ جو کچھ کہتا ہوں حقیقت ہی حقیقت ہے، حضرت فاطمہ ع کی غیرت حرکت میں آئی، اور اپنے احساسات پر قابو نہ پا سکی، یہ اس لئے کیونکہ اللہ نے عورت پر غیرت اور مرد پر جھاد کو واجب کیا ہے اور وہ عورت جو صبر سے کام لے اس کا اجر اس مرد جتنا ہے جس نے نگھبانی کرکے اللہ کی راہ میں ھجرت کی ہو،
کہا کہ بی بی فاطمہ زیادہ غمگین ہوئی حتی کہ رات ہوئی بی بی فاطمہ نے حسن ، حسین اور ام کلثوم کو لے کر نبی اکرم کے گھر گئیں ، جب مولا علی گھر آئے تو فاطمہ ع کو گھر میں نہیں دیکھا اور اس ماجرہ کا ان کو کوئی علم نہیں تھا، اور وہ بی بی کو نبی کے گھر سے بلانے پر شرماتے تھے لہذا وہ مسجد میں عبادت کرنے گئے،
رسول اللہ نے بی بی کو دیکھا کہ ان کو نیند نہیں آرہی، تو کہا ، اے بیٹی اٹھو وہ اٹھیں اور حسن ، حسین اور ام کلثوم کو اپنے ساتھ لا کر مولا علی ع کے پاس آئیں رسول اللہ نے مولا علی کو جھگایا اور کہا اے ابوتراب اٹھو اور ابوبکر و عمراور طلحہ کو بلاو ، مولا علی نے سب کو بلایا وہ سب آئے، رسول اللہ نے کہا کہ اے علی کیا تم نہیں جانتے کہ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے اور میں اس سے ہوں؟ جس نے ان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی،
مولا علی نے کہا کہ اے رسول اللہ ، میں جانتا ہوں ۔
رسول اللہ نے فرمایا کہ پھر کیوں تم نے یہ کام کیا؟
مولا علی نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے تجھے مبعوث کیا میں نے یہ کام نہیں کیا ہے، حتی میں نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے، رسول اللہ نے کہا کہ بالکل تم نے سچ کہا ، بی بی فاطمہ خوش ہوئیں اور مسکرائیں اس طرح کہ ان کے مبارک دانت نظر آئے،
پس ان دوبندوں میں سے ایک نے دوسرے دوست کو کہا کہ عجیب بات ہے اس وقت ہم کو کیوں بلایا گیا؟
اولا: یہ روایت کی سند میں «احمد بن محمد بن یحیی» مجهول ہے،
(معجم رجال الحدیث آیة اللَّه خوئى ج 3 ص 122)
ثانیا: اس روایت کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ بات کہ مولا علی نے ابوجھل کی بیٹٰی سے شادی کا ارادہ کیا تھا بالکل جھوٹ ہے، روایت کے اس حصے پر توجہ کریں
ایک نامراد اور بدبخت انسان نے بی بی فاطمہ علیہا السلام کے پاس آکر کہنے لگا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ على علیه السّلام نے ابو جهل کی بیٹی سے خواستگاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولا علی نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے تجھے مبعوث کیا میں نے یہ کام نہیں کیا ہے، حتی میں نے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہے، رسول اللہ نے کہا کہ بالکل تم نے سچ کہا ، بی بی فاطمہ خوش ہوئیں اور مسکرائیں
ثالثا: کیا ہوسکتا ہے کہ بی بی فاطمہ زھرا س مولا علی پر اس کامل اعتماد کے باوجود ایک بدبخت شخص کی بات پر یقین کرے؟
کیا ہوسکت ہے کہ رسول اللہ بغیر کسی تحقیق کے فیصلہ سنائیں اور طرف مقابل مولا علی سے بات پوچھے بغیر قضاوت کریں؟
کیا ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ بیٹی اور داماد کے درمیان صلح کرنے کے لئے ابوبکر ، عمر اور طلحہ کو بلائے؟ یعنی کیا ہوسکتا ہے کہ ایک فیملی معمولی سی بات پر باہر کے لوگوں کو بلایا جائے؟
اس قسم کی روایات اہل سنت کے ہاں ہیں اور شیعہ کتابیں اس سے خالی ہیں فقط یہی شیخ صدوق کی کتاب علل الشرایع ہی ہیں جس میں یہ روایت ذکر ہے ، البتہ یہ ضعیف اور من گھڑت روایت علامہ مجلسی نے بھی ذکر کیا ہے جو کہ وہ بھی علل الشرایع سے ہی ماخوذ ہے،
شیخ صدوق کا عمرو بن مقدام تک طریق ضیعف ہے
(معجم رجال الحدیث ج 14 ص 82)
اس روایت کی سند میں موجود راوی زیاد بن عبداللہ کا شیعہ علم رجال میں کوئی نام نہیں ہے،
مرحوم سید مرتضی نے اس روایت کو باطل اور جعلی کہا ہے اور اس روایت کو ذکر کرکے اس کو تفصیل کے ساتھ رد کیا ہے
(تنزیهالأنبیاءص 218 )
مرحوم بحر العلوم نے اس واقعے کو جھوٹا اور من گھڑت کہا ہے،(مقدمه الفوائد الرجالیه ج 1 ص 88)
تحریر:- سید ابو عماد حیدری




.
افسانہ – حضرت علی ع کا ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی خواہش
تحریر : سید حسن رضوی
اعتراض
اہلسنت نے اپنی کتبِ احادیث میں امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے بارے میں حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق امام علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا ارادہ کیا اور شادی کی پیشکش کی ۔
جواب
یہ ایک روایت معروف ناصبی مسور بن مخرمہ کے طریق سے اہل سنت کتب میں ذکر کی گئی ہے۔ مکتبِ تشیع اس قصہ کو قبول نہیں کرتے اور اس کو امام علیؑ کی شخصیت سے متعلق ایک افسانہ، جھوٹ اور بہتان قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت اس روایت کی بناء پر یہ شبہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ابو جہل کی بیٹی سے شادی کی پیشکش جھوٹ و بہتان ہے تو پھر روایت کا آخری حصہ فاطمة بضعة منی بھی جھوٹ اور بہتان شمار کیا جائے گا۔
تفصیلی جواب
دو شبہات کا بیان
پہلا شبہ
اہل سنت نے مسور بن مخرمہ ناصبی کے طریق سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام نے جناب فاطمہ علیہا السلام کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اس مقام پر اہل سنت شبہ اس طرح سے ذکر کرتے ہیں کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ مسور بن مخرمہ ایک ناصبی ہے اور ناصبی کی روایت قابل قبول نہیں ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسی روایت کا جزء فاطمة بضعة منی کہ فاطمہ (علیہا السلام) میرے وجود کا ٹکڑا ہے بھی نا قابل قبول اور غیر معتبر قرار پائے گا۔
مسور بن مخرمہ سے جو روایت وارد ہوئی ہے اس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ امام علی ؑ نے ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا ارادہ کیا جس کی خبر رسول اللہ ؐ کو پہنچی تو آپؐ ناراض ہوئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے: فاطمة بضعة منی؛ فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے۔ پس اگر مسورِ ناصبی کی روایت کا ابتدائی حصہ قبول نہیں ہے تو پھر بقیہ حصہ بھی قبول نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ شبہ ہے جو اہل سنت کی جانب سے ان کتب میں ذکر کیا جاتا ہے۔
دوسرا شبہ
نیز اہل سنت کتب میں خواستگاری سے متعلق بیان جس روایت میں بھی وارد ہوا ہے اس کی سند مسور بن مخرمہ ناصبی پر ختم ہوتی ہے۔ مسور کے علاوہ کسی نے اس کو نقل نہیں کیا۔ البتہ حاکم نیشاپوری نے مستدرک علی الصحیحین میں اپنی سند سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ان الله یغضب لغضبک؛ (اے فاطمہ) اللہ آپ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے۔ لیکن اس سندِ حدیث میں حسین بن زید ہے جو اہل سنت علماء رجال کے نزدیک منکر الحدیث ہے۔ چنانچہ حدیث کا یہ جملہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔
پہلے شبہ کا جواب
جہاں اس شبہ کا تعلق ہے کہ امام علیؑ کا ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا تذکرہ مسور بن مخرمہ ناصبی کے طریق سے آیا ہے اور اسی کے طریق سے آنے والی احادیث میں یہ جزء فاطمة بضعة منی نقل وارد ہوا ہے چنانچہ اگر خواستگاری والی بات جھوٹ اور افتراء ہے تو یقینا دوسرا حدیث کا حصہ بھی ضعیف اور غیر معتبر قرار دیا جائے گا، تو اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے:
اس افسانہ کو ردّ کرنے کے دلائل
اولاً: امام علی ؑ پر ابو جہل کی بیٹی سے خواستگاری کا جو جھوٹ باندھا گیا ہے اور جو افسانہ تراشا گیا ہے اس کا ردّ فقط یہ نہیں ہے کہ مسور بن مخرمہ ایک ناصبی اور دشمنِ امام علی علیہ السلام تھا بلکہ اس کے علاوہ بھی متعدد دلائل ہیں جن سے اس قصہ کا افسانہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
روایت کا دیگر صحابہ کرام سے نقل ہونا
ثانیاً: ایسا نہیں ہے کہ جناب فاطمہ ؑ سے متعلق روایت کا یہ حصہ فاطمة بضعة منی کہ فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے کسی اور سند سے نہیں آیا ! بلکہ رسول اللہ ؐ کے متعدد اصحاب نے اس حصہ کو نقل کیا ہے ۔ ذیل میں ان صحابہ کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے «فاطمة بضعة منی» کو رسول اللہ ؐ سے نقل کیا ہے۔
امام علی علیہ السلام
مسند میں احمد بزار نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْکُوفِیُّ، قَالَ: نا مَالِکُ بْنُ اِسْمَاعِیلَ، قَالَ: نا قَیْسٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ، عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، ُاَنَّهُ کَانَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اَیُّ شَیْءٍ خَیْرٌ لِلْمَرْاَةِ؟ فَسَکَتُوا، فَلَمَّا رَجَعْتُ قُلْتُ لِفَاطِمَةَ: اَیُّ شَیْءٍ خَیْرٌ لِلنِّسَاءِ؟ قَالَتْ: اَلا یَرَاهُنَّ الرِّجَالُ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِیِّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَقَالَ: اِنَّمَا فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّی رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا؛ محمد بن حسین کوفی نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے مالک بن اسماعیل نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے قیس نے ، وہ عبد اللہ بن عمران سے، علی بن زید سے، وہ سعید بن مسیب سے ، وہ علی بن ابیطالب (علیہ السّلام) سے کہ امام علی (علیہ السلام )رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: کونسی چیز خاتون کے لیے سب سے بہترین ہے ؟ (امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں) میں جب واپس گھر لوٹا تو میں نے فاطمہ (علیہا السلا) سے کہا: خواتین کے لیے سب سے بہترین کونسی چیز ہے؟ آپ (علیہا السلام) نے فرمایا: مرد حضرات خواتین نہ دیکھنے پائیں، پس میں نے اس کا ذکر نبی (صلی الہ علیہ وآلہ) کے سامنے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے اللہ اس سے راضی ہو۔
[٢]
ابو ہریرہ دوسی
حَدَّثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، اَخْبَرَنَا اَبُو یَحْیَی التَّیْمِیُّ، حَدَّثَنَا اَبُو اِسْحَاقَ الْمَخْزُومِیُّ، عَنِ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ اَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآله): اِنَّمَا فَاطِمَةُ حَذِیَّةٌ مِنِّی یَقْبِضُنِی مَا قَبَضَهَا؛ عبید اللہ بن عمر نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابو یحیی تمی نے خبر دی، ہمیں ابو اسحاق مخرومی نے بیان کیا ، انہوں نے عبقری سے، وہ ابو ہریرہ سے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔
[۳]
انس بن مالک
ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْوَاسِطِیُّ، ثنا یَعْقُوبُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، ثنا هُشَیْمٌ، ثنا یُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ اَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): ” مَا خَیْرٌ لِلنِّسَاءِ؟ فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ، فَسَارَّ عَلِیٌّ اِلَی فَاطِمَةَ فَاَخْبَرَهَا بِذَلِکَ، فَقَالَتْ: فَهَلا قُلْتَ لَهُ: خَیْرٌ لَهُنَّ اَنْ لا یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلا یَرَوْنَهُنَّ، فَرَجَعَ فَاَخْبَرَهُ بِذَلِکَ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ عَلَّمَکَ هَذَا؟ ” قَالَ: فَاطِمَةُ، قَالَ: اِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّی؛ ہم سے عبد اللہ بن محمد بن عثمان واسطی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ، ان سے عباد بن عوام نے، ان سے عمر بن عون نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے ، ان سے یونس نے ، ان سے حسن نے ، ان انس نے کہ انس کہتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: خواتین کے لیے بہترین چیز کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کیا کہیں، امام علی (علیہ السلام) فاطمہ (علیہا السلام) کی طرف گئے اور اس مسئلہ سے انہیں باخبر کیا، آپ (علیہا السلام) نے فرمایا: (اے علی ) آپ نے انہیں کیوں نہیں کہا کہ خواتین کے لیے سب سے بہترین یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد حضرات انہیں نہ دیکھیں ، امام (علیہ السلام) لوٹ آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اس کے بارے میں بتایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: آپ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: فاطمہ (علیہا السلام) نے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک وہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے۔
[۴]
عمرو بن حزم انصاری
وَاِنَّ اَبَا بَکْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ یَعْنِی عَمْرَو بْنَ حَزْمٍ حَدَّثَنِی، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: ” فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّی، وَیُسْخِطُنِی مَا اَسْخَطَهَا، وَیُرْضِینِی مَا اَرْضَاهَا؛ ابو بکر بن محمد یعنی عمرو بن حزم نے مجھے بتایا، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے اور جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا۔
[۵]
محمد بن علی
حدثنا بن عیینة عن عمرو عن محمد بن علی قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم انما فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی؛ بن عینیہ نے ہمیں بتایا، انہوں نے عمرو سے ، انہوں نے محمد بن علی سے کہ وہ کہتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔
[۶]
عبدالله بن زبیر
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: نا اِسْمَاعِیلُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ اَیُّوبَ، عَنِ ابْنِ اَبِی مُلَیْکَةَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ، عَنِ النَّبِیِّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): ” اِنَّمَا فَاطِمَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا بَضْعَةٌ مِنِّی، یَغِیظُنِی مَا یَغِیظُهَا، وَقَالَ مَرَّةً اُخْرَی: وَیُؤْذِینِی مَا آذَاهَا؛ مؤمل بن ہشام نے ہمیں بتایا، وہ کہتے ہیں: ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے بتایا، انہوں نے ایوب سے، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے ، انہوں نے ابن زبیر سے ، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا : فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے وجود کا ٹکڑا ہے ، مجھے اس نے غیظ و غضب کا شکار کیا جس نے اسے غیظ و غضب دلایا، اور دوسری مرتبہ فرمایا: اور مجھے وہ چیز اذیت دیتی ہے جو اس کو اذیت دے۔
[۷]
اس روایت کو ابواسحاق حربی نے بھی اس سند اور متن کے ساتھ نقل کیا ہے
حدثنا مسدد حدثنا اسماعیل عن ایوب عن ابن ابی ملیکة عن ابن الزبیر قال النبی صلی الله علیه: فاطمة بضعة منی. ینصبنی ما انصبها؛ مسدد نے ہمیں بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں اسماعیل نے بتایا، انہیں ایوب نے ، انہیں ابن ابی ملیکہ نے ، انہیں ابن زبیر نے کہ نبیؐ فرماتے ہیں: فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہیں ، مجھ سے اس نے مجھے ضعیف وکمزور کیا جس نے اسے ضعیف و کمزور کیا۔
[۸]
ام المومنین عائشہ
بعض روایات مرسل طور پر نقل ہوئی ہیں جن میں وارد ہوا کہ رسول اللہ ؐ نے اسی مطلب کو ام المؤمنین عائشہ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان کیا، جیساکہ وارد ہوا ہے:
وروی عنه (ص) انه قال لعائشة رضی الله عنها ‘ یا عائشة فاطمة بضعة منی یریبنی ما یریبها؛ رسول اللہ ؐ سے مروی ہے کہ آپؐ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ! فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے ، مجھے وہ چیز تکلیف دیتی ہے جو اسے تکلیف دے۔
[۹]
ابو اسحاق شیرازی بیان کرتے ہیں کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ اولاد اپنے باپ کے جسم کا حصہ شمار ہوتی ہے:
ولان الولد بضعة من الوالد ولهذا قال علیه الصلاة السلام یا عائشة ان فاطمة بضعة منی یریبنی ما یریبها؛ کیونکہ بیٹا اپنے باپ کا ٹکڑا ہوتا اس لیے گواہی قبول نہیں ، جیساکہ آپ علیہ الصلاة و السلام نے فرمایا: اے عائشہ بے شک فاطمہ میرے وجود کا ٹکڑا ہے، مجھے اس نے اذیت دی جس نے اس کو اذیت دی۔
[۱۰]
نتیجہ
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ یہ روایت فاطمة بضعة منی اہل سنت کتب میں فقط مسور بن مخرمہ ناصبی سے نقل نہیں ہوئی بلکہ متعدد صحابہ کرام جیسے امام علی ؑ، جناب انس بن مالک، عمرو بن حزم، محمد ابن حنفیہ، ابو ہریرہ، جناب عائشہ وغیرہ سے نقل ہوئی ہے اور کئی اکابرِ محدثین و فقہاء نے اس کو اپنی کتابوں میں مختلف طرق سے مختلف ابواب کے تحت ذکر کیا ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب
جہاں تک اس شبہ کا تعلق ہے کہ روایت کا یہ حصہ ان الله یغضب لغضبک کہ اللہ فاطمہؑ کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہو جاتا ہے، حسین بن زید کی وجہ سے مردود ہے تو یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ بزرگانِ اہل سنت نے خود اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور حدیث کے اس حصے کی تائید کی ہے، جیساکہ متعدد محدثین نے اس حدیث پر صحیح یا حسن کا حکم لگایا ہے:
حدثنا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِیُّ حدثنا عبد اللَّهِ بن مُحَمَّدِ بن سَالِمٍ الْقَزَّازُ حدثنا حُسَیْنُ بن زَیْدِ بن عَلِیٍّ عن عَلِیِّ بن عُمَرَ بن عَلِیٍّ عن جَعْفَرِ بن مُحَمَّدٍ عن ابیه عن عَلِیِّ بن الْحُسَیْنِ عَنِ الْحُسَیْنِ بن عَلِیٍّ رضی اللَّهُ عنه عن عَلِیٍّ رضی اللَّهُ عنه قال قال رسول اللَّهِ صلی اللَّهُ علیه وسلم لِفَاطِمَةَ رضی اللَّهُ عنها ان اللَّهَ یَغْضِبُ لِغَضَبِکِ وَیَرْضَی لِرَضَاکِ؛ ہمیں محمد بن عبد اللہ حضرمی نے بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد اللہ بن محمد بن سالم قراز نےبتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں حسین بن زید بن علی بن عمر بن علی نے بتایا، انہوں نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد گرامی سے ، انہوں نے علی بن حسین سے ، انہوں نے حسین بن علی سے ، انہوں نے علی (علیہم السلام) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بے شک اللہ آپ کے غضبناک ہونے کی وجہ سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضایت سے راضی ہوتا ہے۔
[۱۱]
حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
هذا حدیثٌ صحیحُ الاسنادِ وَلَم یُخرِجاهُ؛ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگرچے اس کو بخاری و مسلم نے نقل نہیں کیا۔
[۱۲]
ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں
رواهُ الطبرانی واسنادُهُ حَسَنٌ؛ طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے
[۱۳]
نیز اس حدیث مبارک کو اکابر محدثین نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے، جیساکہ ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب الآحاد والمثانی
[۱۴]
، ابو یعلی موصلی نے معجم أبی یعلی
[۱۵]
، غَطریفی نے جزء ابن غطریف
[۱۶]
، ابو نعیم اصفہانی نے فضائل الخلفاء الاربعہ
[۱۷]
اور ابن المغازلی نے مناقب علی
ؑ[۱۸]
میں اس کو نقل کیا ہے۔
اس کے علاوہ حاکم نیشاپوری نے کتاب فضائل فاطمہ الزہراءؑ میں اپنے طریق سے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے جو گذشتہ اسانید اور محدثین کی جانب سے اس پر لگائے ہوئے حکم کی مزید تقویت کا باعث ہے:
وحدثنی عبد العزیز بن عبد الملک الأموی، حَدَّثَنَا سلیمان بن أحمد بن یحیی، حَدَّثَنَا محمود بن الربیع العامری، حَدَّثَنَا حماد بن عیسی غریق الجحفة، قال: حدثتنا طاهرة بنت عمرو بن دینار قالت : حدثنی أبی، عن عطاء، عن جابر رَضِی الله عَنْه قال: قال رسول الله صَلَّی الله عَلَیهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لفَاطِمَة: إن الله تعالی یغضب لغضبک ویرضی لرضاک؛ اور مجھ سے عبد العزیز بن عبد الملک اموی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم سے سلیمان بن احمد بن یحیی نے، وہ کہتے ہیں ہمیں محمود بن ربیع عامری نے بتایا، وہ کہتے ہیں ہمیں حماد بن عیسی جو مقامِ جحفہ میں ڈوب گئے نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہمیں طاہرہ بنت عمرو بن دینار نے بیان کیا، وہ کہتی ہیں مجھے میری والد نے بیان کیا، انہوں نے عطاء سے اور عطاء نے جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ (علیہا السلام) سے فرمایا: بے شک اللہ تعالی آپ (علیہا السلام) کے غضبناک ہونے سے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے۔[۱۹]
حوالہ جات
۲.بزّار، احمد بن عمرو، البحر الزخار (مسند البزار)، ج۲، ص۱۵۹-۱۶۰۔
۳.حربی، ابراہیم بن اسحاق، غریب الحدیث، ج۳، ص۱۱۸۶۔
۴. اصفہانی، احمد بن عبد الله، حلیہ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج۲، ص۴۱۔
۵. نصیبی، ابو بکر بن خلاد، فوائد ابی بکر النصیبی، ص۲۲۲۔
۶.ابن ابی شیبہ، عبد الله بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۶، ص۳۸۸۔
۷. بزّار، احمد بن عمرو، البحر الزخار (مسند البزار)، ج۶، ص۱۵۰۔
۸. حربی، ابراہیم بن اسحاق، غریب الحدیث، ج۲، ص۷۹۲۔
۹.ماوردی بصری، علی بن محمد، الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الامام الشافعی (شرح مختصر المزنی)، ج۱۷، ص۱۶۴۔
۱۰.شیرازی شافعی، ابراہیم بن علی بن یوسف، المہذب فی فقہ الامام الشافعی، ج۳، ص۴۴۷۔
۱۱۔ طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج۲۲، ص۴۰۱۔
۱۲.حاکم نیشابوری، محمد بن عبد الله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۶۷۔
۱۳.ہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج۹، ص۲۰۳۔
۱۴ ، ابن ابی عاصم، أحمد بن عمرو بن الضحاک، الأحاد والمثانی، جزء:۵، ص ۳۶۳، حدیث:۲۹۵۹۔
۱۵.ابو یعلی، احمد بن علی، معجم أبی یعلی، ص ۱۹۰، حدیث:۲۲۰۔
۱۶.غطریفی، محمد بن أحمد، جزء ابن غطریف، ص ۷۸، حدیث ۳۱۔
۱۷.ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبد اللہ، فضائل الخلفاء الأربعۃ وغیرھم، ج ۱، ص ۱۲۴، حدیث:۱۴۱۔
۱۸.ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب أمیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ج۱، ص ۴۱۷، حدیث:۴۰۲۔
۱۹.حاکم نیشابوری، محمد بن عبد اللہ، فضائل فاطمہ الزہراء، ص ۴۶، حدیث:۲۱۔
.
.
*حضرت علی کی طرف سے ابوجھل کی بیٹی سے خواستگاری کا واقعہ جھوٹ ہے،*
یہاں دو حوالے دے رہا ہوں ایک شیعہ عالِم جنہوں نے صاف اس واقعہ کو باطل اور جھوٹا لکھا ہے اور دوسرا سنی عالِم جنہوں نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے ۔۔۔
اہل سنت عالم کا اعتراف
جھوٹی واقعات میں ایک بڑا واقعہ مولا علی ع کی ابوجھل کی بیٹی سے خواستگاری کا واقعہ ہے،
جالب یہ ہے کہ اہل سنت کے بہت بڑے سلفی عالم ـ ابن عثیمین ـ نے اس واقعے کو جھوٹ کہا ہے وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
وقد کان هذا حینما تحدث الناس أن علی بن أبی طالب رضی الله عنه یرید أن یتزوج إبنة أبی جهل، فخطب النبی عیه الصلاة والسلام، وتکلم کلاما شدیدا، منه هذه الکلمة: «فمن أغضبها أغضبنی»
ولو أننا أردنا أن نقول للرافضة: إن الأمر سینقلب علیکم لقلنا: هو یتکلم فی حق علی بن أبی طالب رضی الله عنه.ولکننا لا نقول هذا، بل نقول: إن علی بن أبی طالب ما خطب إبنة أبی جهل، إنما الرسول (ص) تکلم بناء على ما قیل، فکأنه یقول: یا علی! إن أغضبت فاطمة فقد أغضبتنی.
یہ واقعہ اس زمانے سے متعلق ہے کہ جب لوگ کہتے تھے کہ علی بن ابی طالب ، ابوجھل کی بیٹٰی سے شادی کرنا چاھتے ہیں ، اسی وجہ سے رسول اللہ نے خطبہ دیا اور بہت تند عبارات کو استعمال کر گئے، جن میں سے ایک جملہ یہ ہے جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا،
اگر ہم کو چاھے تو روافض کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ [ روایت] تمھارے ضرر میں ہے، ہم ان کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ نے یہ بات حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں فرمائی ہے، لیکن ہم ایسا نہیں کہیں گے
بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے ابوجھل کی بیٹی سے خواستگاری نہیں کی ہے رسول اللہ کو جو کچھ بتایا گیا تھا رسول اللہ نے اس کے مطابق کلام کیا، ایسا سمجھیں کہ رسول اللہ نے اس طرح کہا ہے کہ اے علی اگر تم نے فاطمہ کو غضبناک کیا تو تم نے مجھے غضبناک کیا،

التعلیق على صحیح البخاری،ج7، ص507،
العثیمین،محمد بن صالح (المتوفى 1421 هـ)، الناشر: مؤسسة الشیخ محمد بن صالح العثیمین الخیریة، الطبعة: الأولى، 1439 هـ
دوسرا حوالہ شیعہ عالِم کا ۔۔۔
حضرت علی ع کی بنت ابوجہل سے شادی والی روایات موضوع اور باطل ہیں
ابی القاسم علی بن الحسین الموسوی سے سوال کیا گیا ان روایات کے بارے میں جن میں ابو جہل کی بیٹی سے شادی کی بات کا ذکر ہے انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ روایت باطل ، موضوع ، غیر معروف اور ثابت نہیں ہیں


روایت و جواب روایت

أَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ *(مجھول الحال)* بِسُرَّ مَنْ رَأَى قَالَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ *(سنی راوی اور شیعوں کے ہاں مجھول الحال)* قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْرَائِیل *(مجھول الحال)* َ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ *(مجھول الحال)* عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ کُنْتُ أَنَا وَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ مُهَاجِرَیْنِ إِلَى بِلَادِ الْحَبَشَةِ فَأُهْدِیَتْ لِجَعْفَرٍ جَارِیَةٌ قِیمَتُهَا أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَةَ أَهْدَاهَا لِعَلِیٍّ ع تَخْدُمُهُ فَجَعَلَهَا عَلِیٌّ ع فِی مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ ع یَوْماً فَنَظَرَتْ إِلَى رَأْسِ عَلِیٍّ ع فِی حَجْرِ الْجَارِیَةِ فَقَالَتْ یَا أَبَا الْحَسَنِ فَعَلْتَهَا فَقَالَ لَا وَ اللَّهِ یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ مَا فَعَلْتُ شَیْئاً فَمَا الَّذِی تُرِیدِینَ قَالَتْ تَأْذَنُ لِی فِی الْمَصِیرِ إِلَى مَنْزِلِ أَبِی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ لَهَا قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَتَجَلْبَبَتْ بِجِلْبَابِهَا وَ تَبَرْقَعَتْ بِبُرْقِعِهَا وَ أَرَادَتِ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ إِنَّ هَذِهِ فَاطِمَةُ قَدْ أَقْبَلَتْ إِلَیْکَ تَشْکُو عَلِیّاً فَلَا تَقْبَلْ مِنْهَا فِی عَلِیٍّ شَیْئاً فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ص جِئْتِ تَشْکِینَ عَلِیّاً قَالَتْ إِیْ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ فَقَالَ لَهَا ارْجِعِی إِلَیْهِ فَقُولِی لَهُ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ فَرَجَعَتْ إِلَى عَلِیٍّ ع فَقَالَتْ لَهُ یَا أَبَا الْحَسَنِ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ تَقُولُهَا ثَلَاثاً فَقَالَ لَهَا عَلِیٌّ ع شَکَوْتِینِی إِلَى خَلِیلِی وَ حَبِیبِی رَسُولِ اللَّهِ ص وَا سَوْأَتَاهْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص أُشْهِدُ اللَّهَ یَا فَاطِمَةُ أَنَّ الْجَارِیَةَ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّهِ وَ أَنَّ الْأَرْبَعَمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی فَضَلَتْ مِنْ عَطَائِی صَدَقَةٌ عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ الْمَدِینَةِ ثُمَّ تَلَبَّسَ وَ انْتَعَلَ وَ أَرَادَ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیل فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ قُلْ لِعَلِیٍّ قَدْ أَعْطَیْتُکَ الْجَنَّةَ بِعِتْقِکَ الْجَارِیَةَ فِی رِضَا فَاطِمَةَ وَ النَّارَ بِالْأَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی تَصَدَّقْتَ بِهَا فَأَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ شِئْتَ بِرَحْمَتِی وَ أَخْرِجْ مِنَ النَّارِ مَنْ شِئْتَ بِعَفْوِی فَعِنْدَهَا قَالَ عَلِیٌّ ع أَنَا قَسِیمُ اللَّهِ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَ النَّار.
ابو ذر رحمة اللَّه علیه فرماتے ہیں کہ میں اور جعفر بن ابى طالب حبشہ کی طرف ھجرت کرگئے، ایک لونڈی کہ جس کی قیمت چار ہزار درھم تھی کو جعفر بن ابیطالب کے لئے ھدیہ کی گئی، جب ہم مدینہ آئےتو جعفر نے وہ کنیز مولا علی ع کو ھدیہ میں دے دی، مولا علی ع نے حضرت زھرا کے گھر میں اس کنیز کو رکھا، ایک دفعہ بی بی فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں دیکھا کہ مولا علی ع کا سر اس کنیز کے گود میں ہے، بی بی نے کہا یا ابا الحسن:کیا آپ نے اس کنیز کے ساتھ رابطہ رکھا ہے ؟ على علیه السّلام نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ، اے رسول کی بیٹی میں نے اس کنیز کے ساتھ کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے، تم کیا کہتی ہو؟ بی بی نے کہا کہ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں اپنے بابا کے گھر جاوں ؟ على علیه السّلام نے فرمایا کہ جی بالکل اجازت ہے، بی بی فاطمه سلام اللَّه علیها نے برقعہ پہنا اور نقاب کرکے نبىّ اکرم صلّى اللَّه علیه و آله کے گھر گئیں۔ بی بی کے وارد ہونے سے پہلے جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد اللہ کہتا ہے کہ فاطمہ تمھارے پاس آئیں گی اور علی کی شکایت کرے گی، ان سے علی کے بارے میں کسی بات کو قبول نہ کرو، اسی اثنا میں بی بی داخل ہوئیں ، رسول اللہ نے فرمایا: تم آئی ہو تاکہ علی کی شکایت کرو؟ فاطمه سلام اللَّه علیها نے عرض کیا، جی ہاں ، پیغمبر صلّى اللَّه علیه و آله نے فرمایا: على علیه السّلام کے پاس وپس جاو اور کہہ دو، کہ تم اس کی رضا کی مطیع ، خشنود اور ان کے لئے متواضع و خاکسار ہو، فاطمه سلام اللَّه علیها واپس مولا علی کے ہاں اور تین دفعہ کہا [ جس کا رسول نے کہا تھا] على علیه السّلام نے فرما یا کہ تم میری شکایت میرے محبوب رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله کے ہاں لے گئیں۔ میں رسوائی سے رسول اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، اے فاطمه، خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے کنیز کو راہ خدا میں آزاد کی، اور میری غنیمت سے چہار سو درھم زائد کو فقرا میں صدقہ دیا،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص 131 و 132 ح2،!
جواب
اولا: اس روایت کی سند الحسن بن عرفة کے بعد کاملا سُنّی سند ہے نہ کہ شیعی.
دوم: حسن بن عرفة وکیع، محمد بن اسرائیل اور ابوصالح شیعہ رجال میں مجھول راوی ہیں
سوم: وکیع اہل سنت کے محدثین میں سے ہیں کہ جو خود اہل سنت کے اعتراف کے مطابق وہ ایک شراب خور انسان تھا
«وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اخْتَلَفَ وَکِیعٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِیٍّ بِقَوْلِ مَنْ تَأْخُذُ؟ فَقَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ یُوَافِقُ أَکْثَرَ وَخَاصَّةً سُفْیَانَ، کَانَ مَعْنِیًّا بِحَدِیثِ سُفْیَانَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ یُسَلِّمُ عَلَیْهِ السَّلَفُ وَیَجْتَنِبُ شُرْبَ الْمُسْکِرِ» وَکَانَ لَا یَرَى أَنْ یُزْرَعَ فِی أَرْضِ الْفُرَاتِ
احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ وکیع اور عبد الرحمن اگر ایک مسئلے میں اختلاف کریں تو تم کس کی بات کو لو گے؟ احمد بن حنبل نے کہا کہ عبدالرحمن کی بات کو، کیونکہ وہ شراب پینے سے اجتناب کرتا ہے۔
الفسوی، أبو یوسف یعقوب بن سفیان (المتوفى 277هـ) ، المعرفة والتاریخ، ج1، ص728، تحقیق: أکرم ضیاء العمری، الناشر: مؤسسة الرسالة، بیروت، الطبعة: الثانیة، 1401 هـ- 1981 م
اس کا مطلب یہ ہے کہ احمد بن حنبل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وکیع ایک شراب خور انسان ہے اور شراب پینے سے اجتناب نہیں کرتا،
پس یہ روایت ایک ضعیف ترین روایت ہے کہ جو قابل استناد نہیں ہے،
خادمکم: أبوعزرائیل