تحریر:- ابو ہشام نجفی
ترتیب :- علی ناصر
کافی کی ایک حدیث کو بے عقل ناصبی نعوذبااللہ آدم علیہ السلام کی شیعوں کی جانب سے انکی تکفیر سمجھتے ہیں ،کلام اہل بیت علیہم السلام وحی الہی کا ترجمان ہوتا ہے، لہذا اس کو سمجھنے کے لیے عقل ہونا شرط ہے مگر چونکہ عقل اور ناصبیت دونوں تضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ جمع ہو جانا محال ہے، اس لئے وہ ان روایات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے دل میں بغض شیعان حیدر کرار بھی ہے جو انکی گمراہی کا سب کا بڑا سبب ہے۔
وہ حدیث یہ ہے:
(باب) * (في أصول الكفر وأركانه) *
الحسين بن محمد، عن أحمد بن إسحاق، عن بكر بن محمد، عن أبي بصير قال قال أبو عبد الله (عليه السلام): أصول الكفر ثلاثة: الحرص، والاستكبار، والحسد، فأما الحرص فان آدم (عليه السلام) حين نهي عن الشجرة، حمله الحرص على أن أكل منها وأما الاستكبار فإبليس حيث أمر بالسجود لآدم فأبى، وأما الحسد فابنا آدم حيث قتل أحدهما صاحبه۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کفر کے اصول تین ہیں، حرص، تکبر، و حسد
حرص کے سبب آدم علیہ السلام نے اس کے سبب اس درخت سے کھایا جس (کے پاس جانے )سے منع کئے گئے تھے، تکبر کے سبب ابلیس نے تکبر کے سبب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا جبکہ اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور حسد کے سبب آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کیا۔
(اصول الکافی ج 2 ص 289)
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے حدیث کی بہت عمدہ تشریح کی ہے، لکھتے ہیں
كأنّ المراد باصول الكفر ما يصير سبباً للكفر أحياناً ، لا دائماً ، وللكفر أيضاً معان كثيرة : منها ما يتحقّق بإنكار الربّ سبحانه والإلحاد في صفاته. ومنها ما يتضمّن إنكار أنبيائه وحججه ، أو ما أتوابه من امور المعاد وأمثالها. ومنها ما يتحقّق بمعصية الله ورسوله. ومنها ما يكون بكفران نعم الله تعالى إلى أن ينتهي إلى ترك الأولى ، فالحرص يمكن أن يصير داعياً إلى ترك الأولى ، أو ارتكاب صغيرة أو كبيرة
اصول کفر سے مراد وہ اسباب ہیں جو کبھی کفر کا سبب بنتے ہیں، اور کفر کے بھی بہت سے معنی ہیں، جن میں سے رب سبحانہ تعالی کا انکار، اس کی صفات میں الحاد، ان معنوں میں سے اللہ سبحانہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار بھی ہے، یہاں تک کہ یہ ترک اولی ہے،پس حرص ممکن ہے سبب بنے ترک اولی یا گنہان صغیرہ یا کبیرہ کا۔
مراة العقول في شرح أخبار آل رسول (عليهم السلام ) ج 10 ص 73/74
علامہ علیہ الرحمہ کی اس وضاحت کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں البتہ آپ نے جو کفر کی مختلفت اقسام کا ذکر کیا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن کریم میں کفر کی مختلف قسموں کا ذکر ہے اور کفر ہمیشہ اللہ سبحانہ تعالی کے انکار کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بطور مثال دو آیات پیش خدمت ہیں :
1: ترک فرمان الٰہی :
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (97)
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پا لیا اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے
(آل عمران:97)
2 :ناشکری
قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (40)
ایک شخص جس کو کتاب الہیٰ کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں۔ جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے
امام علیہ السلام کے کلام میں ناشکری کی طرف اشارہ ہے کیونکہ تینوں میں سے اللہ سبحانہ تعالی کا انکار کسی نے بھی نہیں کیا بلکہ، ان نعمتوں کے عوض جو اللہ سبحانہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو دی تھی حق شکر تو یہ تھا کہ جب اللہ سبحانہ تعالی نے درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا تو اس کا پھل بھی نہ کھاتے مگر حرص کے سبب ترک اولی سرزد ہوا یہ گناہ نہیں تھا کیونکہ اللہ نے درخت کے پھل کھانے سے منع نہیں کیا تھا پاس جانے سے روکا تھا مگر چونکہ آدم علیہ السلام نے اس کے پھل کو کھایا جس کے پاس جانا منع تھا لہذا یہ نبی کی شان کے خلاف تھا گناہ نہیں تھا بلکہ ترک اولی تھا، جس کو ناصبی نے نعوذبااللہ کفر سمجھ لیا بلکہ تکفیری ناصبیوں کی کتابوں میں آدم علیہ السلام کے اوپر شرک کے فتوے موجود ہیں اور وہ کفریہ روایات بھی موجود ہیں جو ناصبیوں نے انکی طرف منسوب کی ہیں ۔
ابن حزم لکھتا ہے :
وَاتَّفَقُوا على تَحْرِيم كل اسْم معبد لغير الله عز وَجل كَعبد الْعُزَّى وَعبد هُبل وَعبد عَمْرو وَعبد الْكَعْبَة وَمَا اشبه ذَلِك حاشا عبد الْمطلب
مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ نام رکھنا حرام ہے جس میں غیر الله کی طرف عبدیت کا اظہار ہوتا ہو جیسے عبد عمرو ، عبد الکعبہ وغیرہ -صرف عبد المطلب اس سے مستثنیٰ ہے۔
(مراتب الإجماع ص 154)
پس معلوم ہوا ناصبیوں کا بھی اس امر پر اجماع ہے کہ یہ نام شرکیہ ہیں اور ان سے بچنا واجب ہے۔
مگر ان بے حیا ناصبیوں نے سورہ اعراف :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (189)
وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے
فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (190)
جب وہ ان کو صحیح و سالم (بچہ) دیتا ہے تو اس (بچے) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں۔ جو وہ شرک کرتے ہیں (خدا کا رتبہ) اس سے بلند ہے
(الاعراف)
کی تفسیر میں شرک کرنے والوں سے مراد حضرات آدم و حوا علیہما السلام کو لیا ہے :
ابن ابی حاتم نے اپنی متصل سند سے ابن عباس علیہما الرحمہ سے روایت کی ہے :
8654 – حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَمْزَةَ، ثنا حَبَّانُ، عَنْ عَبْدِ الله ابن الْمُبَارَكِ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ في قوله فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا قَالَ: اللَّهُ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا، فَلَمَّا تَغَشَّاهَا آدَمُ حَمَلَتْ آتَاهُمَا إِبْلِيسُ فَقَالَ: إِنِّي صاحبكما الذي أخرجتكما من الجنة لتطيعنني أَوْ لأَجْعَلَنَّ لَهَا قَرْنَيْ إِبِلٍ فَيَخْرُجُ مِنْ بَطْنِكِ فَيَشُقَّهُ وَلأَفْعَلَنَّ وَلأَفْعَلَنَّ يُخَوِّفُهُمَا سَمِّيَاهُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَأَبَيَا أَنْ يُطِيعَاهُ فَخَرَجَ مَيِّتًا ثُمَّ حَمَلَتْ يَعْنِي الثَّانِيَةَ فَأَتَاهُمَا أَيْضًا فَقَالَ: أَنَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي فَعَلْتُ مَا فَعَلْتُ لَتَفْعَلُنَّ أَوْ لأَفْعَلَنَّ وَلأَفْعَلَنَّ يُخَوِّفُهُمَا فَأَبَيَا أَنْ يُطِيعَانِهِ فَخَرَجَ مَيِّتًا، ثُمَّ حَمَلَتِ الثَّالِثَةُ فَأَتَاهُمَا أَيْضًا فَذَكَرَ لَهُمَا فَأَدْرَكَهُمَا حُبَّ الْوَلَدِ فَسَمَّيَاهُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ:
جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا
سعید بن جبیر نے ابن عبّاس سے نقل کیا کہ جب آدم و حوا علیہما السلام آپس میں ملے تو حوّا حاملہ ہوئیں ، ابلیس ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں وہی ہوں جس نے تم کو جنّت سے نکالا – میری بات مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبد الحارث رکھو ورنہ میں اس کے سر پر بارہ سنهگا جیسا سر بنا دوں گا اور یہ تمہارا پیٹ چیر کر باہر نکلے گا اور میں ایسا ایسا کروں گا- لیکن انہوں نے نہ مانا اور امید کرنے لگے لیکن بچہ مردہ پیدا ہوا- پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس پھر آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – دونوں ( نے دوبارہ ویسا ہی کیا ) اور امید کرنے لگے لیکن بچہ پھر مردہ پیدا ہوا – پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس واپس آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – ان کے دل میں بچے کی محبّت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا نام عبد الحارث رکھا – چنانچہ اللہ سبحانہ تعالی کا قول جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا پھر وہ اللہ کی دی ہوئی چیزوں میں اللہ کا شریک بنانے لگے، ان کے بارے میں ہے ۔
ﺗﻔﺴﻴﺮ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ج 5 ص 1634
پھر لکھتا ہے :
8655 –حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ ابْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ: سَمِعْتُ صَدَقَةَ قَالَ: أَبِي يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ كَثِيرٍ الْمَكِّيَّ يُحَدِّثُ عَنِ السُّدِّيِّ، قَالَ: هَذَا مِنَ الْمَوْصُولِ الْمُفَصَّلِ قَوْلُ: جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا أَتَاهُمَا قَالَ: شَأْنُ آدَمَ وَحَوَّاءَ
8656 –حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ثنا سُفْيَانُ عَنِ الْهُذَلِيِّ عَنِ السُّدِّيِّ فِي قَولِهِ:
جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آَتَاهُمَا قَالَ: هُوَ آدَمُ وَحَوَّاءُ.
8657 –حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، ثنا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ، ثنا أسباط، عن السُّدِّيِّ يَقُولُ اللَّهُ: جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا يَعْنِي فِي الأَسْمَاءِ.
8658 –حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ ثنا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا أَنَّ آدَمَ سَمَّى ابْنَهُ عَبْدَ الشَّيْطَانِ.
8659 –حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، أَنْبَأَ الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ ثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَكَانَ شِرْكًا فِي طَاعَتِهِ وَلَمْ يَكُنْ شِرْكًا فِي عِبَادَتِهِ
سدی نے کہا :شریک بنانے والوں سے آدم و حوا مراد ہیں۔
بکر بن عبداللہ مزنی نے کہا شریک بنانے والوں سے آدم و حوا مراد ہیں آدم نے اپنے بیٹے کا نام عبد الشیطان رکھا تھا۔
قتادہ نے کہا کہ ان کا شرک اطاعت میں تھا نہ کہ عبادت میں۔
(ﺗﻔﺴﻴﺮ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ ج 5 ص 1634)
محدث فارم والے خائن ناصبیوں نے بہت کوشش کر کے مذکورہ روایت و آثار کی تضعیف کرنے کی کوشش کی ہے :
مگر عقل کے اندھوں کو یہ نہیں معلوم کہ اس روایت و آثار کو نقل کرنے والے جرح و تعدیل میں اپنا خاص مقام رکھنے والے ان کے امام ابن ابی حاتم کے نزدیک یہ تمام روایت و آثار صحیح ترین اسناد و متن والے ہیں چنانچہ اس کا ذکر اس نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں ہی کر دیا ہے لکھتا ہے :
سَأَلَنِي جَمَاعَةٌ ِمْن إِخْوَانِي إِخْرَاجَ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ مُخْتَصَرًا بأصح الأسانيد، وحذف الطرق والشواهد والحروف والروايات، وَتَنْزِيلِ السُّوَرِ، وَأَنْ نَقْصِدَ لِإِخْرَاجِ التَّفْسِيرِ مُجَرَّدًا دُونَ غَيْرِهِ، مُتَقَصِّينَ تَفْسِيرَ الْآيِ حَتَّى لَا نَتْرُكَ حَرْفًا مِنَ الْقُرْآنِ يُوجَدُ لَهُ تَفْسِيرٌ إِلَّا أُخْرِجَ ذَلِكَ.
فَتَحَرَّيْتُ إِخْرَاجَ ذَلِكَ بِأَصَحِّ الْأَخْبَارِ إِسْنَادًا، وَأَشْبَهِهَا مَتْنًا، فَإِذَا وَجَدْتُ التَّفْسِيرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لَمْ أَذْكُرْ مَعَهُ أَحَدًا مِنَ الصِّحَابَةِ مِمَّنْ أَتَى بِمِثْلِ ذَلِكَ، وَإِذَا وَجَدْتُهُ عَنِ الصِّحَابَةِ فَإِنْ كَانُوا مُتَّفِقِينَ ذَكَرْتُهُ عَنْ أَعْلَاهُمْ دَرَجَةً بِأَصَحِّ الْأَسَانِيدِ
مجھ سے میرے بھائیوں کی ایک جماعت نے سوال کیا کہ( میں ان کے لئے ) ایک مختصر تفسیر صحیح ترین اسانید سے جمع کروں پس میں نے قبول کیا اور اللہ کی توفیق سے تفسیر (مرتب کی )صحیح ترین اسناد سے اخبار نقل کئے ہیں قابل اطمینان متن کے ساتھ اگر مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ملی تو صحابی کا قول نقل نہیں کرتا اور صحابہ کی تفسیر میں سے پاتا ہوں تو ان میں سے متفق (تفسیر ) کو لیتا ہوں جو اعلی ترین درجہ کی سند کی ہوتی ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم ج 1 ص 14)
ترمذی نے بھی حضرت حوا کی تکفیر کی ہے:
3077 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ طَافَ بِهَا إِبْلِيسُ وَكَانَ لاَ يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ، فَقَالَ: سَمِّيهِ عَبْدَ الحَارِثِ، فَسَمَّتْهُ عَبْدَ الحَارِثِ، فَعَاشَ، وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ وَحْيِ الشَّيْطَانِ وَأَمْرِهِ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حوّاء حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس شیطان آیا، ان کے بچے جیتے نہ تھے، تو اس نے کہا: (اب جب تیرا بچہ پیدا ہو) تو اس کا نام عبدالحارث رکھ، چنانچہ حواء نے اس کا نام عبدالحارث ہی رکھا تو وہ جیتا رہا۔ ایسا انہوں نے شیطانی وسوسے اور اس کے مشورے سے کیا تھا۔
ترمذی نے پھر حدیث کی تحسین کی لکھتا ہے :
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مرفوع صرف عمر بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔
بعض راویوں نے یہ حدیث عبدالصمد سے روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
عمر بن ابراہیم بصری شیخ ہے ۔۳
سنن ترمذي ،كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
8. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ حدیث : 3077۔
حاكم نے بھی اس روایت کو اپنی سند سے روایت کرکے صحیح تسلیم کیا اور ذہبی نے بھی صحیح کہا ہے:
4003 –حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الْآدَمِيُّ الْمُقْرِئُ بِبَغْدَادَ، ثنا أَبُو قِلَابَةَ، ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، ثنا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَانَتْ حَوَّاءُ لَا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ فَنَذَرَتْ لَئِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ تُسَمِّيهِ عَبْدَ الْحَارِثِ فَعَاشَ لَهَا وَلَدٌ فَسَمَّتْهُ عَبْدَ الْحَارِثِ، وَإِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ عَنْ وَحْيٍ مِنَ الشَّيْطَانِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4003 – صحيح
المستدرك على الصحيحين ج 2 ص 594
جو بچہ جناب حوّا کے یہاں پیدا ہوتا تھا وہ جیتا نہیں تھا،پس انہوں نے نذر مانی کہ اگر بچہ پیدا ہوگا تو اسکا نام عبد الحارث رکھیں گی ،بیشک ابہوں نے ایسا اس لئے کیا تھا کیونکہ شیطان نے ان پر ایسا کرنے کی وحی کی تھی۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، سمرہ بن جندب، حسن بصری، ترمذی، حاکم ذہبی وغیرہ کا یہ عقیدہ تھا کہ نبی کی زوجہ، ام بشر حوا علیہا السلام شیطان کے اولیاء میں سے تھیں نعوذبااللہ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ شیطان اپنے اولیاء پر وحی کرتا ہے ۔
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (121)
بے شک شیاطین اپنے اولیاء (دوستوں) کے اوپر وحی کرتے (دلوں میں باتیں ڈالتے) ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں، اور اگر تم نے ان کا کہا مانا تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔
کیا یہ جناب حوا کی توہین اور انکی تکفیر نہیں ہے؟اور کیا یہی تحفظ ناموس رسالت ہے؟
بات تکفیر کی ہو اور ناصبیوں کا ابن عبدالوهاب خاموش رہے یہ نا ممکن ہے اس نے بھی حضرت آدم و حوّا علیہما السلام کی تکفیر کی ناکام کوشش کی اپنی کتاب توحید میں لکتھا ہے :
قال ابن حزم: اتفقوا على تحريم كل اسم معبد لغير الله كعبد عمرو، وعبد الكعبة، وما أشبه ذلك حاشى عبد المطلب. وعن ابن عباس في الآية: “قال لما تغشاها آدم حملت فأتاهما إبليس فقال: إني صاحبكما الذي أخرجتكما من الجنة لتطيعاني أو لأجعلن له قرني أيل، فيخرج من بطنك فيشقه، ولأفعلن ولأفعلن يخوفهما، سمياه عبد الحارث. فأبيا أن يطيعاه فخرج ميتا، ثم حملت فأتاهما فقال مثل قوله، فأبيا أن يطيعاه، فخرج ميتا. ثم حملت فأتاهما فذكر لهما فأدركهما حب الولد فسمياه عبد الحارث، فذلك قوله {جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا} ” رواه ابن أبي حاتم.
وله بسند صحيح عن قتادة قال: “شركاء في طاعته ولم يكن في عبادته”
ابن حزم کہتا ہے مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ نام رکھنا حرام ہے جس میں غیر الله کی طرف عبدیت کا اظہار ہوتا ہو جیسے عبد عمرو ، عبد الکعبہ وغیرہ -صرف عبد المطلب اس سے مستثنیٰ ہے – اور ابن عبّاس سے اللہ سبحانہ تعالی کے قول جب (آدم و حوا )آپس میں ملے تو یہ حاملہ ہوئیں – ابلیس ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں وہی ہوں جس نے تم کو جنّت سے نکالا – میری بات مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبد الحارث رکھو ورنہ میں اس کے سر پر بارہ سنهگا جیسا سر بنا دوں گا اور یہ تمہارا پیٹ چیر کر باہر نکلے گا اور میں ایسا کروں گا – لیکن انہوں نے نہ مانا اور امید کرنے لگے لیکن بچہ مردہ پیدا ہوا- پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس واپس آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – دونوں (دوبارہ ویسا ہی کیا ) اور امید کرنے لگے لیکن مردہ پیدا ہوا – پھر وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ابلیس واپس آیا اور جیسا پہلے کہا تھا ویسا پھر کہا – ان کے دل میں بچے کی محبّت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس کا نام عبد الحارث رکھا – قرآن کی آیت جَعَلا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا میں اسی بارے میں ہے۔
اس کو روایت کیا ہے ابن ابی حاتم نے – اور صحیح سند کے ساتھ قتادہ نے بھی روایت کیا ہے اور کہا کہ ان کا شرک اطاعت میں تھا نہ کہ عبادت میں ۔
کتاب التوحید ص 132/133
اس قسم کی روایات و آثار سے کتب نواصب بھری پڑی ہیں ہم نے اختصار کے سبب چند نمونوں پر خوف طوالت کے سبب اکتفا کیا ہے ۔
ان روایات کے متعلق ابن حزم لکھتا ہے :
وأما قَوْله عز وَجل {لَئِن آتيتنا صَالحا لنكونن من الشَّاكِرِينَ فَلَمَّا آتاهما صَالحا جعلا لَهُ شُرَكَاء فِيمَا آتاهما} فَهَذَا تَكْفِير لآدَم عَلَيْهِ السَّلَام وَمن نسب لآدَم عَلَيْهِ السَّلَام الشّرك وَالْكفْر كفرا مُجَردا بِلَا خلاف من أحد من الْأمة وَنحن ننكر على من كفر الْمُسلمين العصاة العشارين القتالين وَالشّرط الْفَاسِقين فَكيف من كفر الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام وَهَذَا الَّذِي نسبوه إِلَى آدم عَلَيْهِ السَّلَام من أَنه سمى ابْنه عبد الْحَارِث خرافة مَوْضُوعَة مكذوبة من تأليف من لَا دين لَهُ وَلَا حَيَاء لم يَصح سندها قطّ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قول”اگر تو نے ہمیں صالح(اولاد)دی تو ہم ضرور شکر گزار ہونگے،پھر(جب اللہ)نے ان کو صالح (اولاد)دی تو اللہ کی دی ہوئی چیزوں میں وہ دونوں اللہ کا شریک بنانے لگے۔
اللہ سبحانہ تعالی کے قول (اس کی تفسیر )میں آدم علیہ السلام کی تکفیر ہے اور جو آدم علیہ السلام کی طرف کفر یا شرک کی نسبت دے بے شک وہ خود ہی کافر ہے بغیر کسی اختلاف کے ،اور ہم انکار کرتے ہیں گنہگار، فاسق، مسلمانوں کی تکفیر کا تو بھلا کیسے انبیاء کرام علیہم السلام کی تکفیر کی جا سکتی ہے اور وہ جس نے اس بات کو منسوب کیا ہے آدم علیہ السلام کی طرف کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا تھا اس من گھڑت خرافات کا تالیف کرنے والا بے دین و بے حیا ہے اس کی کوئی سند صحیح نہیں ۔
الفصل في الملل والأهواء والنحل ج 4 ص 4
پس معلوم ہوا، ناصبیوں کے اصول سے ابن عباس، سدی قتادہ، بکر بن عبداللہ مزنی، ترمذی، ابن ابی حاتم، ابن عبدالوہاب سب کافر و بے حیا ٹھہرے ۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد پھنس گیا









