سنی کتب میں روافض کی مذمت پر احادیث کا جائزہ

تحریر: سید علی اصدق نقوی
اہل سنت کتب میں روافض کی مذمت پر چند احادیث ہیں، ہم ان کی سند بررسی کریں گے۔ اس تحریر میں معلومات ایک وہابی سائیٹ سے ماخوذ ہے۔ پہلی حدیث:
6605 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ، نا الْفَضْلُ بْنُ غَانِمٍ، ثَنَا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ لَيْلَتِي، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدِي، فَأَتَتْهُ فَاطِمَةُ، فَسَبَقَهَا عَلِيٌّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ فِي الْجَنَّةِ، أَنْتَ وَشِيعَتُكَ فِي الْجَنَّةِ، إِلَّا أَنَّهُ مِمَّنْ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُحِبُّكَ أَقْوَامٌ يُضْفَزُونَ الْإِسْلَامَ، ثُمَّ يَلْفِظُونَهُ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، لَهُمْ نَبْزٌ يُقَالُ لَهُمُ الرَّافِضَةُ، فَإِنْ أَدْرَكْتَهُمْ فَجَاهِدْهُمْ، فَإِنَّهُمْ مُشْرِكُونَ» . فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْعَلَامَةُ فِيهِمْ؟ قَالَ: «لَا يَشْهَدُونَ جُمُعَةً وَلَا جَمَاعَةً، وَيَطْعَنُونَ عَلَى السَّلَفِ الْأَوَّلِ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ إِلَّا سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ “
حضرت ام سلمہ رض فرماتی ہیں: میری رات (میں باری) تھی، اور نبی ص میرے پاس تھے، کہ فاطمہ ع آئیں، ان سے پہلے علی ع آئے۔ تو نبی ص نے ان سے فرمایا: اے علی ع، آپ اور اصحاب جنت میں ہیں، آپ اور آپکے شیعہ جنت مین ہیں، مگر ان لوگوں میں سے جو آپ کی محبت کے دعویدار ہیں کچھ لوگ ہیں جو اسلام کو دھکیلیں گے پھر اسکو پھینکیں گے، وہ قرآن کو پڑھیں گے مگر وہ انکی گردنوں سے نیچے نہیں اترے گا، انکا ایک لقب ہوگا، انکو رافضہ کہا جائے گا، اگر تم انکا زمانہ پاؤ تو ان سے جہاد کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ان کی علامت کیا ہے؟ نبی ص نے فرمایا: وہ جمعہ نہیں پڑھیں گے نہ جماعت میں آئیں گے، سلف اول (اصحاب) پر طعن کریں گے۔
(طبرانی نے کہا) یہ حدیث عطیہ سے جس نے ابو سعید سے جس نے ام سلمہ سے کسی نے روایت نہیں کی سوائے سوار بن مصعب کے۔ (1)
سب نے اسکو سوار بن مصعب سے ہی روایت کیا ہے۔ ابن جوری نے کہا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ ص سے ثابت نہیں، عطیہ کو ثوری، ہشیم، احمد اور یحیی نے ضعیف کہا ہے اور احمد اور یحیی کے بارے میں سوار کا کہنا ہے کہ یہ متروک ہے۔ اور البانی نے اس حدیث کو سلسلہ ضعیفہ میں موضوع (من گھڑت) کہا ہے۔ (2).
ایک اور طویل حدیث تاریخ مدینہ دمشق میں ہے جو معاذ بن جبل سے مروی ہے، ابن عراق نے بھی اسکو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مُنکَر ہے اور اس کی اسناد میں ایک سے زائد مجہول راوی ہیں (3)
ایک اور روایت علی بن ابی طالب ع سے ہے جو ام سلمہ رض والے الفاظ سے آئی ہے، یہ چند سندوں سے آئی ہے امام علی ع سے سنی کتب میں۔ ان میں سے ایک حدیث مسند احمد بن حنبل، بخاری کی تاریخ کبیر، بزار کی مسند میں ہے اور بزار کا کہنا ہے کہ ہم اس اسناد کو حسن سے بس اس ہی سند سے جانتے ہیں (4)، اور ابن عدی نے الکامل فی الضعفاء میں اور ابن جوری نے علل متناہیہ میں اسکو روایت کرکے کہا ہے کہ یہ حدیث نبی ص سے صحیح نہیں ہے، یحیی بن متوکل اسکا راوی ہے جس کے بارے میں احمد بن حبل نے کہا ہے یہ حدیث میں کمزور ہے، ابن معین نے کہا ہے یہ کوئی چیز ہی نہیں ہے، اور نسائی نے اس حدیث کے راوی کثیر النواء پر کہا ہے کہ یہ ضعیف ہے اور ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ تشیع میں غالی تھا اور بڑھا ہوا تھا (5)۔ بظاہر یہ روایات شعبی نے روایت کی ہیں رافضیوں کی مذمت میں تاکہ خود اس پر جو غلو کی تہمت ہے اسکی نفی ہو، یا وہ کسی خاص فرقے کا رد کرنا چاہتا تھا۔ میں کہتا ہوں: بڑی عجیب بات ہے کہ کثیر النواء شیعہ ہوتے ہوئے ایسی روایت نقل کرے گا۔
اس حدیث کی دوسری سند سوار بن مصعب سے ہے جس نے محمد بن جحادہ سے جس نے شعبی سے جس نے امام علی ع سے روایت کی ہے۔ اسکو عبد اللہ بن احمد نے “السنہ” میں، ابو نعیم نے حلیہ الاولیاء میں، اور ابن جوزی نے اس سے نقل کیا ہے، اس میں وہی سوار بن مصعب ہے جو متروک الحدیث ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے (6)۔ تیسری سند ابو جناب کلبی یحیی بن ابی حیہ نے ابو سلیمان ہمدانی سے جس نے اپنے چچا سے جس نے امام علی ع سے روایت کی ہے۔ یہ ابن عدی اور ابن عساکر نے روایت کی ہے (7)، اس میں ابو جناب کلبی ضعیف ہے (😎 اور ابو سلیمان ہمدانی مجہول ہے جیسا کہ ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ نہیں معلوم یہ شخص کون ہے (9)۔ اس کے علاوہ ابن عباس ست مروی ہے:
12998 – حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْقَرَاطِيسِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ أَبِي الطَّاهِرِ بْنِ السُّرُحِ، قَالَا: ثنا يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ، ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ تَمِيمٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ عَلِيٌّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَلِيُّ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي قَوْمٌ يَنْتَحِلُونَ حُبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ نَبَزٌ يُسَمَّوْنَ الرَّافِضَةَ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّهُمْ مُشْرِكُونَ»
ابن عباس نے کہا: میں نبی ص کے پاس تھا اور انکے پاس علی ع بھی تھے۔ تو نبی ص نے فرمایا: اے علی، جلد ہی میری امت میں ایک قوم ہوگی جو ہم اہل بیت ع کے حب کا دعویٰ کرے گی، انکا ایک لقب ہوگا، انکا لقب رافضہ رکھا جائے گا، پس انکو قتل کردو کیونکہ یہ مشرک ہیں۔ (10)
سب نے اسکو حجاج بن تمیم سے روایت کیا ہے جس نے میمون بن مہران سے جس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ابن جوری کہتے ہیں کہ یہ حدیث رسول اللہ ص سے صحیح نہیں ہے اور عقیلی نے کہا ہے کہ حجاج کو اس حدیث میں متابعت نہیں ہے اور اسکے علاوہ بھی اسکی حدیث ہے جس میآ متابعت نہیں۔ حجاج ایک ضعیف راوی تھا (11) اور ابن عدی نے الکامل فی الضعفاء میں اسکو عمرو بن مخرم بصری کی سند سے روایت کیا ہے جس نے یزید بن زبیع سے جس نے خالد حذاء سے جس نے عکرمہ سے جس نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور کہا ہے:
وهذا حديث بهذا الإسناد ، وخاصة عن يزيد بن زريع عن خالد ، باطل لا أعلم يرويه غير عمرو بن مخرم ، وعن عمرو أحمد بن محمد اليمامي وهو ضعيف أيضا ، فلا أدري أتينا من قبل اليمامي أو من قبل عمرو بن مخرم
اور یہ حدیث اس اسناد سے، اور خٓصکر یزید بن زبیع جس نے خالد سے نقل کیا، باطل ہے، مجھے نہیں پتا اسکو عمرو بن مخرم کے علاوہ کسی نے روایت کیا ہے اگر، اور عمرو احمد بن محمد یمامی بھی ضعیف ہے، تو مجھے نہیں پتا یہ (ضعیف حدیث) ہمیں یمامی کی جانب سے آئی ہے یا عمرو بن مخرم کی جانب سے۔ (12)
میں کہتا ہوں: عکرمہ ایک خارجی تھا جیسا کہ بہت سے سنی علماء رجال کا کہنا ہے، تو اسکا امام علی ع کے خلاف احادیث نقل کرنا بہت جگہ پایا جا سکتا ہے، یہ بھی ان احادیث میں سے ایک ہے۔ اگلی حدیث فاطمہ ص سے مروی ہے:
6749 – حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الْهَاشِمِيِّ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ عَلِيٍّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، قَالَتْ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ فَقَالَ: «هَذَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ قَوْمًا يَعْلَمُونَ الْإِسْلَامَ، ثُمَّ يَرْفُضُونَهُ، لَهُمْ نَبَزٌ يُسَمَّوْنَ الرَّافِضَةَ مَنْ لَقِيَهُمْ فَلْيَقْتُلْهُمْ فَإِنَّهُمْ مُشْرِكُونَ»
فاطمہ بنت محمد ع نے فرمایا: نبی ص نے علی ع کی طرف نگاہ کرکے فرمایا: یہ جنت میں ہیں، اور ان کے شیعوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اسلام کو جان کر انکار کردیں گے، ان کا ایک لقب ہے، انکو رافضہ کہا جائے گا، جو ان سے ملے وہ انکو قتل کردے کیونکہ وہ مشرک ہیں۔ (13)
یہ حدیث تلید بن سلیمان محاربی نے ابو الجحاف داود بن ابی عوف سے جس نے محمد بن عمرو ہاشمی سے جس نے زینب بنت علی ع سے جنہوں نے فاطمہ ع سے روایت کی ہے۔ ابن جوزی نے اسکو نقل کرکے کہا ہے:
هذا لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال أحمد ويحيى بن معين : تليد بن سليمان المحاربي كذاب
یہ حدیث رسول اللہ ص سے صحیح نہیں ہے، احمد اور یحیی بن معین نے کہا ہے: تلید بن سلیمان محاربی کذاب ہے۔ (14)
ابن حبان نے کہا ہے:
تليد بن سليمان المحاربي كنيته أبو إدريس من أهل الكوفة ، يروي عن أبي الجحاف داود بن أبي عوف ، روى عنه الكوفيون ، وكان رافضيا يشتم أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ، وروى في فضائل أهل البيت عجائب ، وقد حمل عليه يحيى بن معين حملا شديدا وأمر بتركه
تلید بن سلیمان محاربی، اسکی کنیت ابو ادریس ہے، یہ اہل کوفہ سے ہے، یہ ابو الجحاف داود بن ابی عوف سے روایت کرتا ہے اور اس سے کوفیوں نے روایت کی ہے، اور یہ رافضی تھا، محمد ص کے اصحاب کو گالیاں دیتا تھا، اور اس نے اہل بیت ع کے فضائل میں عجیب باتیں روایت کی ہیں، اور اس پر یحیی بن معین (رجالی عالم) نے شدید حملہ کیا ہے (جرح کرکے) اور اس کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ (15)
میں کہتا ہوں: بڑی عجیب بات ہے کہ ایک رافضی کی روافض کی مذمت میں حدیث نقل کرے گا۔
اس روایت میں ضُعف کی ایک اور وجہ بھی ہے، جو سنی رجالی عالم ہیثمی نے مجمع الزوائد میں دی ہے، کہ زینت بنت علی ع نے فاطمہ ع سے حدیث نہیں سنی تھی اس کے مطابق (16)، اگرچہ ہم اس بات کا انکار کرتے ہیں، لیکن اہل سنت معیار کے حساب سے یہ حدیث میں ایک اضافی علت ہے۔ البانی نے اس سبب اس حدیث کو منکر کہا ہے سلسلہ ضعیفہ میں (17)۔ اگلی روایت ابن عمر سے ہے جس میں سابقہ حدیث والے الفاظ ہی ہیں، اس کو ابن ساکر اور آجری نے روایت کیا ہے محمد بن معاویہ کی سند سے جس نے یحیی بن سابق مدینی سے جس نے زید بن اسلم سے جس نے اپنے والد سے جس نے عمر سے روایت کی ہے (18)۔ ابن حجر نے لسان المیزان میں اس کے راوی یحیی بن سابق کے متعلق لکھا ہے:
قال أبو حاتم : ليس بقوي . وقال ابن حبان : يروي الموضوعات عن الثقات . وقال الدارقطني : متروك . وقال أبو نعيم : حدث عن موسى بن عقبة وغيره بموضوعات
ابو حاتم نے کہا ہے: یہ قوی نہیں۔ اور ابن حبان نے کہا: یہ ثقہ راویان سے گھڑی ہوئی احادیث روایت کرتا ہے۔ اور دارقنطی نے کہا: یہ متروک ہے۔ ابو نعیم نے کہا: اس نے موسی بن عقبہ وغیرہ سے گھڑی ہوئی احادیث نقل کی ہیں۔ (19)
دلائل النبوہ میں بیہقی نے کہا ہے کہ رافضہ کے ذم میں تمام احادیث ضعیف ہیں (20) اور البانی نے بھی ان تمام احادیث کو ضعیف کہا ہے (21)، اس کے ضعف پر یہ بھی دلیل ہے کہ خود سنی علماء نے اس لقب رافضہ کے ظہور کی اصل وجہ ذکر کی ہے۔ ابن تیمیہ کا کہنا ہے:
لَفْظَ الرَّافِضَةِ إِنَّمَا ظَهَرَ لَمَّا رَفَضُوا زَيْدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فِي خِلَافَةِ هِشَامٍ، وَقِصَّةُ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ كَانَتْ بَعْدَ الْعِشْرِينَ وَمِائَةٍ، سَنَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، أَوِ اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ فِي أَوَاخِرِ خِلَافَةِ هِشَامٍ. قَالَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَسْتِيُّ: قُتِلَ زَيْدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِالْكُوفَةِ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَمِائَةٍ.، وَصُلِبَ عَلَى خَشَبَةٍ، وَكَانَ مِنْ أَفَاضِلِ أَهْلِ الْبَيْتِ، وَعُلَمَائِهِمْ، وَكَانَتِ الشِّيعَةُ تَنْتَحِلُهُ. [. قُلْتُ: وَمِنْ زَمَنِ خُرُوجِ زَيْدٍ افْتَرَقَتِ الشِّيعَةُ إِلَى رَافِضَةٍ، وَزَيْدِيَّةٍ، فَإِنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، فَتَرَحَّمَ عَلَيْهِمَا رَفَضَهُ قَوْمٌ، فَقَالَ. لَهُمْ: رَفَضْتُمُونِي، فَسُمُّوا رَافِضَةً لِرَفْضِهِمْ إِيَّاهُ، وَسُمِّيَ مَنْ لَمْ يَرْفُضْهُ مِنَ الشِّيعَةِ زَيْدِيًّا؛ لِانْتِسَابِهِمْ إِلَيْهِ]
لفظ رافضہ تو تب ظاہر ہوا جب انہوں نے زید بن علی بن حسین ع کا انکار کیا تھا ہشام کی خلافت میں۔ اور زید بن علی بن حسین ع کا قصہ 120 ہجری کے بعد کا ہے، سنہ 121 ہجری میں یا 122 ہجری میں، ہشام کی خلافت کے اواخر میں۔ ابو حاتم بسیت نے کہا: زید بن علی بن حسین کوفہ میں سنہ 122 ہجری میں قتل ہوئے اور انکو لکڑی پر لٹکایا گیا، اور یہ اہل بیت کے افضل لوگوں اور علماء میں سے تھے، اور شیعہ ان کو مانتے تھے۔ میں کہتا ہوں: اور زید کے خروج سے شیعہ رافضہ اور زیدیہ میں جدا ہوئے ہیں۔ جب ان سے ابو بکر اور عمر کا پوچھا جاتا تو وہ ان کے لیئے رحمت کی دعاء کرتے، تو کچھ لوگوں نے انکا انکار کردیا۔ تو زید نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگوں نے میرا انکار کردیا ہے۔ تو انکا نام زید کا انکار کرنے سے رافضہ ہوگیا، اور شیعوں میں جو انکا انکار نہیں کرتا اسکو زیدی کہا جانے لگا زید سے نسبت کی وجہ سے۔ (22)
یہی نظر آتا ہے کہ لوگوں نے اسلام کے اوائل میں دیگر فرقوں کے رد کا آسان طریقہ یہی ڈھونڈا کہ نبی ص کی زبان سے انکی مذمت کروا دیں چاہے احادیث گھڑنی ہی پڑیں۔ اس ہی وجہ سے ہمیں روافض، قدریہ، صوفیہ، مرجئہ اور دیگر فرقوں کی مذمت پر نبی ص سے روایات ملتی ہیں جو کہ سب ضعیف ہیں، صرف خوارج پر روایات معتبر مانی جاتی ہیں۔ اور ملاحظہ کریں کہ جو احادیث روافض کی مذمت پر گھڑی گئیں وہ نقل بھی امام علی ع اور فاطمہ ع سے کی گئی ہیں، یہ خود بھی ایک مجادلاتی وجہ سے ہے کہ یہ تو خود امام علی ع نے ہی روافض کی مذمت کردی۔ ایسی روایات کی طرف التفات نہیں کیا جانا چاہیئے۔
مآخذ
(1) المعجم الأوسط، الرقم: 6605، تاريخ بغداد، ج 12، ص 358، العلل المتناهية، ج 1، ص 167
(2) سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، الرقم: 5590
(3) تاريخ مدينة دمشق، ج 32، ص 383، تنزيه الشريعة المرفوعة، ج 2، ص 389
(4) مسند أحمد، ج 1، ص 103، التاريخ الكبير، ج 1، ص 279، مسند البزار، ج 2، ص 138
(5) الكامل في الضعفاء، ج 6، ص 66، العلل المتناهية، ج 1، ص 163
(6) السنة، ج 2، ص 547، حلية الأولياء، ج 4، ص 329
(7) الكامل في الضعفاء، ج 7، ص 213، تاريخ مدينة دمشق، ج 42، ص 335
(😎 تهذيب التهذيب، ج 4، ص 350
(9) ميزان الإعتدال، ج 4، ص 533
(10) فضائل الصحابة، الرقم: 624، 675 و 676، المعجم الكبير، الرقم: 12998، مسند أبي يعلى، الرقم: 2586
(11) الكامل في الضعفاء، ج 5، ص 90، العلل المتناهية، ج 1، ص 166، تهذيب التهذيب، ج 1، ص 357
(12) الكامل في الضعفاء، ج 5، ص 152
(13) مسند أبي يعلى، الرقم: 6749، كتاب المجروحين، ج 12، ص 116
(14) العلل المتناهية، ج 1، ص 165
(15) كتاب المجروحين، ج 1، ص 204
(16) مجمع الزائد، ج 9، ص 748
(17) سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، الرقم: 6541
(18) تاريخ مدينة دمشق، ج 42، ص 335، الشريعة للآجري، ج 5، ص 219
(19) لسان الميزان، ج 6، ص 256
(20) دلائل النبوة، ج 8، ص 24
(21) ظلال الجنة، ج 2، ص 191 – 194
(22) منهاج السنة النبوية، ج 1، ص 34 – 35