سب مسلمان جانتے ہیں ابوبکر ابن ابوقحافہ اور عمر ابن خطاب کی قبر رسول اعظم ﷺوآلہ کی قبر مبارک کے ساتھ ہے، تو کیا ان کا آپ ﷺوآلہ کے قریب دفن ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالی ان کے ساتھ راضی ہے ؟ چونکہ وہ اپنی زندگی میں بھی حبیب خدا ﷺوآلہ کے ساتھ رہے اور موت کے بعد بھی اللہ تعالی نے ان کو اپنے حبیب ﷺوآلہ کے ساتھ مقام عطا فرمایا لہذا اللہ تعالی ان کے ساتھ راضی ہے۔۔۔
جواب ::::: اس غلط فہمی کا جواب چند مختلف پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔۔
اول ::::: اگر کسی کا رسول خدا ﷺوآلہ کے پہلو میں دفن ہونا اللہ تعالی کی رضایت کی دلیل ہے توپھر یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ خانہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی بھی اللہ تعالی کی رضایت کی دلیل تھی جبکہ کوئی مسلمان اس بات کو قبول نہیں کر سکتا۔۔
دوئم :::: اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺوآلہ کے حجرہ میں ابوبکر ابن ابوقحافہ اور عمر ابن خطاب کا دفن ہونا فقہی اعتبار سے ہرگز قابل توجیہ نہیں ہے، کیونکہ وہ حجرہ یا تو رسول اللہ ﷺوآلہ کی ذاتی ملکیت میں تھا (اور یہی قول حق ہے) یا امت اسلام کیلئے صدقہ تھا( یہ نظریہ لانورث ما ترکناہ کی بناء پر ہے جو کہ اگرچہ متضاد قرآن ہے)۔۔۔
پس اگر وہ حجرہ رسول ﷺوآلہ کی ملکیت میں تھا تو وہاں کسی کو دفن کرنے کیلئے آپ ؑ کے وارثوں ( سیدہ فاطمة بنت محمد ﷺوآلہ اور ان کی اولاد) سے اجازت لینا ضروری تھا ۔۔۔
اور اگر آپ ؑ کا ہجرہ امت اسلام کیلئے صدقہ کی حیثیت رکھتا تھا تو وہاں کسی کو دفن کرنے کیلئے پوری امت اسلام کی اجازت اور رضایت شرط تھی جناب ابو بکر و عمر مے دفن کیلئے نہ تو اھل بیت علیۀ السلام سے اجازت لی گئی اور نہ ہی تمام مسلمانوں کی اجازت و رضایت ثابت ہے ۔۔۔
اور اگر کہا جائے کہ جناب ابو بکر اپنی بیٹی حضرت عائشہ اور عمر بن خطاب اپنی بیٹی حضرت حفصہ کے حق کی بناء پر وہاں پر دفن کیئے گئے تو اس کا جواب تین طرح سے دیا جا سکتا ہے :
١۔۔۔ جب ابو بکر بن ابی قحافہ کی روایت مطابق رسول اللہ ﷺوآلہ کا ترکہ امت اسلام کیلئے صدقہ ہے تو پھر جناب عائشہ کا آپ ﷺوآلہ کے حجرے پر کوئی اختیار نہیں رہتا اور کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہاں کسی کے دفن کی اجازت دیں۔۔۔
٢۔۔۔ اگر جناب عائشہ کی نظر میں ابو بکر سے منقول روایت صحیح نہیں تھی اور وہ رسول اللہ ﷺوآلہ کے ترکہ کو ورثہ سمجھتی تھیں تو اور یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ بیویاں زمین سے بھی ارث حاصل کرتی ہیں ( جبکہ فقہ کے مطابق غیر منقول جائیداد سے بیویاں حصہ نہیں لے سکتیں) پھر بھی جناب عائشہ رسول اللہ ﷺوآلہ کے حجرہ کے آٹھویں حصہ میں سے نویں حصہ کی حقدار بنتی ہیں کیونکہ جس وقت رسول کریم ص کی رحلت ہوئی اس وقت آپ کی ایک بیٹی اور نو بیویاں تھیں اور قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت ( فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ) کے مطابق اگر میت کی اولاد ہو تو بیویوں کا کل ترکہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے ۔۔۔
چونکہ رسول اللہ ﷺوآلہ کی بیٹی حضرت سیدہ کونین ص موجود تھیں لہذا آپ ﷺوآلہ کے ترکہ کا صرف آٹھواں حصہ آپ ؑ کی ازواج کا ہے اور چونکہ کل 9 بیویاں تھیں لہذا اسی آٹھویں حصہ کو 9 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا اور اسی طرح رسول اللہ ﷺوآلہ کے ہجرہ کے آٹھویں حصہ میں سے نواں حصہ جناب عائشہ کی ملکیت اور اسکے اختیار میں ہو سکتا ہے ، اس پر رسول اللہ ﷺوآلہ کے ہجرہ میں ہر بیوی کا حصہ شاید ایک یا دو بالشت سے زیادہ نہیں ہے نیز جناب عائشہ سمیت رسول اللہ ﷺوآلہ کی کوئی بھی زوجہ دوسری بیبیوں کی اجازت کے بغیر اپنے اس مختصر حصہ میں بھی تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتی تھیں کیوںکہ ان کا حصہ مشاع ( مشترک) تھا ۔۔۔
٣ ۔۔۔ چونکہ رسول اللہ ﷺوآلہ کی ازواج کو آپ ؑ کے بعد شادی کرنے کا حق نہیں ہے اس لحاظ سے وہ عدت والی عورتوں کی طرح ہیں جن کو صرف اپنے شوہروں کے گھروں میں صرف رہنے کا حق حاصل ہوتا ہے جسے حق منفعت کہا جاتا ہے، اور حق منفعت کو میراث میں نہیں لیا جاتا لہذا جناب عائشہ و جناب حفصہ اور دیگر ازواج کو بھی عدت والی عورتوں کی طرح پیغمبر اکرم ﷺوآلہ کے ہجرہ میں صرف رہنے کا حق حاصل تھا لیکن آپ ؑ کے ترکہ میں مالکانہ تصرف ( مثلاً بیچنے یا کسی بخشنے کا) کا اختیار بلکل بھی نہیں رکھتی تھیں ۔۔۔
لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ اللہ تعالی نے جناب ابو بکر و عمر بن خطاب کو موت کے بعد اپنے حبیب ﷺوآلہ کے ساتھ مقام عطا فرمایا کیونکہ یہ جناب عائشہ و جناب حفصہ کا کام تھا کہ انہوں نے رسول خدا ﷺوآلہ کے گھر اور حضرت سیدہ کونین ؑ کی وراثت میں تصرف کرتے ہوئے جناب ابوبکر و عمر بن خطاب کو رسول کریم ﷺوآلہ کے پہلو میں دفن کیا ۔۔۔
سوم ۔۔۔ اس سلسلے میں صحابی امام الصادق ؑ جناب فضال بن حسن اور اہل سنت کے امام ابو حنیفہ کا ایک دلچسپ مناظرہ پیش کرتے ہیں جسے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے کہ فضال بن حسن کوفی آل محمد ؑ کے شیعوں میں سے تھے۔ ایک دن امام ابو حنیفہ اپنے مریدوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ان پر اپنا علمی رعب و دبدبہ ظاہر کررہے تھے ادھر سے فضال بن حسن کا گزر ہوا جب انہوں جناب ابو حنیفہ کو اپنے مریدوں کے ہجوم میں دیکھا تو فضال بن حسن ان کے پاس گئے اور ان کے سامنے بیٹھ کر ان سے عرض کیا ۔۔۔
فضال: ”میرا ایک بھائی ہے جو مجھ سے بڑا ہے مگر وہ شیعہ ہے۔حضرت ابوبکر کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے میں جو بھی دلیل لے آتا ہوں وہ رد کردیتا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے چند ایسے دلائل بتادیں جن کے ذریعہ میں اس پر حضرت ابوبکر و عمرکی فضیلت ثابت کر کے اسے اس بات کا قائل کر دوں کہ یہ دونوں امام علی علیۀ السلام سے افضل وبر تر تھے ۔“
ابو حنیفہ: ”تم اپنے بھائی سے کہنا کہ وہ آخر کیوں حضرت علی ؑ کو حضرت ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے جب کہ یہ تینوں حضرات ہر جگہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت میں رہتے تھے اور آنحضرت ،حضرت علی علیہ السلام کو جنگ میں بھیج دیتے تھے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ان تینوں کو زیادہ چاہتے تھے اسی لئے ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے انھیں جنگ میں نہ بھیج کر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج دیا کرتے تھے ۔“
فضال: ”اتفاق سے یہی بات میں نے اپنے بھائی سے کہی تھی تو اس نے جواب دیا کہ قرآن کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام چونکہ جہاد میں شرکت کرتے تھے اس لئے وہ ان تینوں سے افضل ہوئے کیونکہ قرآن مجید میں خدا کاخود فرمان ہے:
” وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ اجْرًا عَظِیمًا “
”خدا وند عالم نے مجاہدوں کو بیٹھنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے“۔
ابو حنیفہ: ”اچھا ٹھیک ہے تم اپنے بھائی سے یہ کہو کہ وہ کیسے حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل وبرتر سمجھتا ہے جب کہ یہ دونوں آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میں دفن ہیں اورحضرت علی ع کا مرقد رسول ﷺوآلہ سے بہت دور ہے ۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میں دفن ہونا ایک بہت بڑا افتخار ہے یہی بات ان کے افضل اور بر تر ہونے کے لئے کافی ہے ۔“
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی اپنے بھائی سے یہی دلیل بیان کی تھی مگر اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ“
”رسول کے گھر میں بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو“۔
یہ بات واضح ہے کہ رسو ل خدا کا گھر خود ان کی ملکیت تھا اس طرح وہ قبر بھی خود رسول خدا کی ملکیت تھی اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے انھیں اس طرح کی کوئی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ان کے ورثاء نے اس طرح کی کوئی اجازت دی۔“
ابو حنیفہ: ”اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول ﷺوآلہ پر باقی تھا، ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل خدا ؑ کے گھر کا وہ حصہ اپنے باپ کو بخش دیا۔
فضال: ”اتفاق سے یہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی سے بیان کی تھی تو اس نے جواب میں کہا کہ خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرما تا ہے۔
” یایها النبي انا احللنا لك ازواجك التي اتیت اجورین “
”اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حلال کیا ہے جن کی اجرتیں (مہر) تم نے ادا کر دی“۔(سورة الاحزاب 50)
اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اپنی زندگی میں ہی ان کا مہر ادا کر دیا تھا“۔
ابو حنیفہ: ”اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بیویاں تھیں انھوں نے ارث کے طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وہ وہاں دفن ہوئے“۔
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی یہ دلیل بیان کی تھی مگر میرے بھائی نے کہا کہ تم لوگ تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ پیغمبر وفات کے بعد کوئی چیز بطور وراثت نہیں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کردیا اور اس کے علاوہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہیں تب یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں۔اور وہ بھی ارث کی حقدار تھیں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے گھرکا آٹھواں حصہ ان تمام بیویوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بیویوں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو ہر بیوی کے حصے میں ایک بالشت زمین سے زیادہ کچھ نہیں آئے گا ایک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہیں“۔
ابو حنیفہ یہ بات سن کر حیران ہو گئے اور غصہ میں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے:
”اسے باہر نکالو یہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہیں ہے۔
اس واقعہ کو پیش نظر رکھنے کے بعد کوئی صاحب فہم و فراست یہ نظریہ کیسے قبول کر سکتا ہے کہ جناب ابوبکر و عمر کو اللہ تعالی نے اپنے رسول ؑ کے پاس جگہ دی ہے؟؟ کیونکہ یہ جناب عائشہ و جناب حفصہ کا ذاتی عمل تھا جسے کبھی بھی اللہ تعالی کا فعل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔۔
تحریر و تحقیق :::: السید توقیر عباس الکاظمی