“اقتدوا بالذين من بعدي ابي بكر و عمر ” کا تحقیقی جائزہ – طریق اول
.
اھل سنت منابع میں ایک حدیث آتی ہے جس کا متن یوں ہے کہ ” میرے بعد ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا “۔ یہ حدیث کچھ صحابہ سے منقول ہے جن میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن مسعود، حذیفہ وغیرھم شامل ہے۔
انکے بارے میں الگ الگ پوسٹ کی جائے گی۔ آج ھم صرف حذیفہ والی روایت پر بحث کریں گے کیونکہ یہ روالی سند کے لحاظ سے بظاھر سب سے قوی ہے۔
ابو عیسی ترمذی نے اس کو ایسے بیان کیا ہے :
حدثنا حسن بن صباح البزار حدثنا سفیان بن عیینۃ عن زائدہ عن عبدالملک بن عمیر عن ربعی ابن خراش عن حذیفہ بن یمان سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میرے بعد ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا۔ اس بارے میں ابن مسعود کی روایت بھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ سفیان الثوری نے یہی روایت عبدالملک بن عمیر عن مولی ربعی عن ربعی عن حذیفہ عن النبی ﷺ کی سند سے بیان کیا ہے۔
کتاب کے محقق زبیر علی زائی نے ظاھری سند دیکھ کر اس پر “حسن” کا حکم لگایا۔




عبداللہ بن زبیر الحمیدی نے بھی اسکو سفیان بن عیینۃ عن زائدہ عن عبدالملک بن عمیر عن ربعی عن حذیفہ عن النبی ﷺ کی سند سے نقل کیا یے۔ (متن میں کچھ زیادت کے ساتھ)



اس حدیث میں ایک علت (وہ ضعف جو خفی ہوتا ہے) موجود ہے۔
جب سفیان الثوری اس حدیث کو روایت کرتا ہے تو وہ عبدالملک بن عمیر عن مولی ربعی عن ربعی والی سند سے بیان کرتا ہے جبکہ زائدہ جب روایت کرتا ہے تو وہ مولی ربعی کو بیچ میں گرا دیتا ہے۔
ابن ابی حاتم الرازی نے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے باپ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ جو ابراھیم بن سعد عن الثوری عن عبدالملک بن عمیر عن ھلال مولی ربعی عن ربعی عن حذیفہ عن النبی ﷺ ۔۔۔۔ جسکو زائدہ و باقیوں نے عن عبدالملک بن عمیر عن ربعی عن حذیفہ عن النبی کی سند سے بیاں کیا ہے۔
میں نے کہا : ان دونوں میں سے کونسی صحیح ہے ؟
میرے والد (ابو حاتم) نے فرمایا : ابن کثیر نے اسکو عن الثوری عن عبدالملک بن عمیر عن مولی ربعی عن ربعی عن حذیفہ عن النبی ﷺ سے بیان کیا۔
میں نے پوچھا کہ کونسی زیادہ صحیح ہے ؟
انہوں نے کہا : جو سفیان الثوری نے کہا ہے۔ اس نے اسکی سند میں ایک آدمی (مولی ربعی) کا اضافہ کیا ہے۔ ابراھیم بن سعد نے اس آدمی کا نام بولا ہے (ھلال) جبکہ ابن کثیر نے اس غلام (مولی) کا نام نہیں بولا۔



مسند احمد کے محقق نے بھی حذیفہ والی اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ جہاں عبدالملک عن ربعی آیا ہے وہ منطقع ہے دراصل انکے درمیان ھلال مولی ربعی یے۔




لہذا ثابت ہوا کہ اسکی سند میں اصل میں ایک اضافی راوی ” ھلال مولی ربعی بن خراش” جو کبھی روایت سے گرادیا جاتا ہے۔
ابن حزم نے اس روایت پر بحث کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ھلال مولی ربعی مجہول ہے۔ اسکی توثیق کتب الرجال میں نہیں ملتی۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔




ابن حجر نے اس راوی ” ھلال مولی ربعی ” کو مقبول کہا ہے




متاخریں میں یمن کے مشہور سلفی عالم مقبل بن ھادی الوادعی نے بھی اس روایت کو معلل قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں :
یہ ھلال مولی حذیفہ مجہول ہے۔ اس سے عبدالملک بن عمیر کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہے اور اسکی کوئی معتبر توثیق نہیں ملتی۔ مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ہے کہ ابن حجر نے کہا کہ ابو حاتم اس میں یہ علت بیان کی ہے کہ ربعی بن خراش نے حذیفہ سے بھی نہیں سنا۔
اور ذکر کیا جاتا ہے ابن مسعود و انس بن مالک کی روایات اس روایت کے شواھد ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر والی حدیث منقطع ہے اور دونوں (شواھد) سخت ضعیف ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔



لہذ حذیفہ بن یمان سے یہ حدیث ضعیف ہے اور جن علماء نے اسکو صحیح یا حسن قرار دیا ہے ان سے علمی خطا ہوئی ہے کیونکہ اسکے مخفی ضعف (علت) سے وہ لوگ بے خبر رہیں۔
.
.
“اقتدوا بالذين من بعدي ابي بكر و عمر ” کا تحقیقی جائزہ – طریق دوم
.
العقیلی نے محمد بن عبداللہ بن عمر بن القاسم العمری کے حوالے میں انکی حدیث اپنی سند سے نقل کی کہ عبداللہ بن عمر نے کہا :
” میفے بعد دو امیروں کی اقتداء کرنا – ابوبکر وعمر”۔
عقیلی نے اس حدیث کے بعد یوں لکھا :
” یہ حدیث منکر ہے اور اسکی کوئی اصل نہیں مالک سے۔”





ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد عقیلی کا قول نقل کیا ہے۔



.
.
“اقتدوا بالذين من بعدي ابي بكر و عمر ” کا تحقیقی جائزہ – طریق سوم
.
ابو عیسی ترمذی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے رسول اللہ ﷺسے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا :
میرے بعد صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کی اقتداء کرنا، اور عمار کی روش پر چلو، اور ابن مسعود کے عہد (وصیت) کو مضبوطی سے تھامے رہو“
امام ترمذی نے پھر کہا :
ابن مسعود کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
ہم اسے صرف یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سلمہ حدیث میں ضعیف ہیں،
کتاب کے محقق زبیر علی زائی نے اس سند کو سخت ضعیف قرارا دیا ہے۔



حاکم نیساپوری نے بھی اس کو اپنی سند سے نقل کیا اور ذھبی نے اس پر تعقب کرتے ہوئے اسکی سند کو ” واہ (خراب) ” کہا۔



لہذا ثابت ہوا عبداللہ بن مسعود سے یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ہے جس پر سخت جرح آئی ہے۔ ھم کچھ ائمہ محدثین کے اقوال نقل کریں گے اس راوی کے بارے میں۔

یحیی بن سلمہ بن کھیل الکوفی۔ یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اسکی احادیث میں منکر روایات ہوتی ہیں۔
حاشیہ پر محقق زبیر علی زائی نے اس راوی کو ” متروک” قرار دیا جو سخت تریں جرح ہوتی ہے۔




یحیی بن سلمہ بن کھیل۔ یہ کچھ بھی نہیں ہے (مطلب سخت ضعیف)۔
تاعیخ اسماء الضعفاء – ابن شاھین // صفحہ ۳۲۴ // رقم ۶۷۴ // طبع الفاروق الحدیثیہ قاھرہ مصر۔




یحیی بن سلمہ بن کھیل الکوفی۔ یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اسکی احادیث میں منکر روایات ہوتی ہیں۔








یحیی بن سلمہ بن کھیل۔۔ متروک اور یہ شیعہ تھا۔




یحیی بن سلمہ بن کھیل۔ یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے۔ ابوحاتم نے اسکو منکر الحدیث کہا ہے، نسائی نے اس سے احادیث ترک کی۔ عجلی نے کہا کہ یہ ضعیف تھا اور شیعت میں غالی تھا۔




یحیی بن سلمہ بن کھیل۔ یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے۔
ابو حاتم اور باقیوں نے اسکو منکر حدیث کہا۔
نسائی نے کہا : متروک۔
عباس داوری نے یحیی بن معین سے نقل کیا کہ اسکی احادیث نہیں لکھی جائے گی۔



لہذا ثابت ہوا عبداللہ بن مسعود سے یہ روایت سخت ضعیف ہے اور اس قسم کی روایت متابعت میں بھی لینا جائز نہیں۔
.
.
“اقتدوا بالذين من بعدي ابي بكر و عمر ” کا تحقیقی جائزہ – طریق چہارم
.
اس حدیث کا چوتھا طرق ابو درداء سے منقول ہے جسکو طبرانی نے اپنی سند سے نقل کیا یے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء کرنا کیونکہ وہ اللہ کی ایک کھلی رسی ہے۔جس نے بھی اسکو پکڑا اس نے ایک قابل اعتماد چیز کو پکڑا جو اس سے جدا نہیں ہوگا۔ “
کتاب کے محقق حمدی عبدالمجید سلفی نے اس کے بارے میں یوں لکھا :
ھیثمی نے کہا کہ اسکے راویوں کو میں نہیں جانتا (مجہول)۔




نور الدین ھیثمی نے اپنی کتاب میں سکے راویوں کے بارے میں یہی کہا ہے کہ اسکے راویوں کو میں نہیں جانتا۔



اسکی سند میں کافی مجاھیل ہے مثلاً عبداللہ بن عنبسة۔ اس نام کا صرف ایک ہی راوی کتب الرجال میں ملتا ہے۔
ابن ابی حاتم الرازی نے اپنے چچا ابو زرعۃ الرازی سے نقل کیا کہ اس نے اسکے بارے میں کہا : یہ مدنی تھا۔ میں اسکو نہیں جانتا سوائے اس حدیث کے۔۔۔۔۔



لہذا ثابت ہوا یہ حدیث بھی باقیوں کے مانند ضعیف ہی ہے۔
.
.
post#2
.
اس روایت کا جائزہ فی کتب اہل السنہ۔
تحریر۔ ابو السبطین
ناظرین اگر تاریخ کے اوراق کو بڑے عمیق و تدبر سے پڑھا جاۓ تو ایسی کثیر تعداد موضوعی احادیث ملیں گی جن کو اہل بیت ع کے مد مقابل لایا گیا۔
جناب رسول خدا ص نے اہل بیت ع کی شان اقدس میں احادیث فرمائی
اور ان احادیث کے مقابل میں غیروں کے لیے
احادیث وضع کی گئی۔
( مثلا حدیث سفینہ کے مقابل حدیث نجوم و علی ھذا القیاس) کما لا یخفی
اسی طرح کی ایک یہ وضعی حدیث ہے جسکا آپریشن کرنے جارہے ہیں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ حضرات موضوعی احادیث سے استدلال کر کہ ان حضرات کی خلافت ثابت کرنے کی بہرپور کوشش کرتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ان احادیث والا حربہ بھی
کار آمد نہیں ہوگا تو ایک اور گھڑی ہوئی حدیث پیش کرتے ہیں جو ان کے ترکش دلائل کا آخری تیر ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
۔ اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر وعمر۔
میرے بعد دو شخصوں کی یعنی ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا۔
ان لوگوں کا اس بے سروپا روایت کے ساتھ استدلال کرنا بچند وجہ درست نہیں ہے۔
اولا۔
یہ روایت پہلی موضوعی روایات کی طرح بعض اہل سنت کے متفردات میں سے ہے
یعنی اسے صرف اہل سنت نے نقل کیا ہے ظاہر ہے کہ ان کی روایت صحیح ہی کیوں نہ ہو اصول مناظر کے مطابق ہمارے برخلاف حجت نہیں ہوسکتی
کما لا یخفی من لہ ادنیٰ معرفۃ بقواعد المناظرۃ
ثانیا۔
خود اہل سنت کے حفاظ کبار اور نقاد اخبار نے اس حدیث کو موضوع مصنوع قرار دیا ہے
چنانچہ علامہ منادی نے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں اسی حدیث کے ذیل میں لکھا ہے
واعلّہ ابو حاتم وقال البزاذ کابن حزم لا یصحّ لان عبدالملک لم یسمعہ من ربعی وربعی لم یسمع من حذیفۃ”
یعنی ابوحاتم نے اس حدیث کو معلل قرار دیا ہے۔ اور بزاز نے ابن حزم کی طرح( صاف لفظوں میں کہاں ہے) کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ عبدالملک( راوی روایت نے اسے ربعی سے نہیں سنا اور ربعی نے اسے حذیفہ سے سماعت نہیں کیا۔ٓ
یہ روایت مدلس اور معلل ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد و اعتبار ہے۔
شیخ محمد ابن عمر عقیلی نے جو حفاظ کبار اہل سنت میں سے ہیں اپنی کتاب الضعفاء میں اس حدیث کو بالکل بے اصل قرار دیا ہے۔
چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان جلد نمبر 5 ص 237 طبی حیدر آباد دکن میں محمد ابن عبداللہ بن عمر عمری عددی کے حالات میں اس کا ذکر کرتے ہوئے یے لکھا ہے
ذکرہ العقیلی فقال لایصحّ حدیثہ ولایعرف بنقل الحدیث الخ نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنھما مرفوعا اقتدوا بالذین الخ فھذا لا اصل لہ۔”
یعنی ابن عبداللہ کی حدیث صحیح نہیں ہوتی اور وہ نقل حدیث میں غیر مشہور ہے اس نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے اقتدوا بالذین الخ والی روایت نقل کی ہے اور یہ روایت بالکل بے اصل ہے۔”
۔اس کے بعد لکھا ہے قال العقیلی بعد تخریجہ ھذا حدیث منکر لا اصل۔
یعنی عقیلی نے اس حدیث کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے”
پھر دارقطنی کا قول نقل کیا ہے کہ
” لایثبت والعمری ضعیف”
یعنی یہ حدیث ثابت نہیں ہے اور عمری ضعیف ہے
اور اسی طرح لسان المیزان جلد نمبر 3 صفحہ 85 طبع حیدرآباد دکن پر
ابن حبان کا قول درج کیا ہے کہ
لایجوذ الاحتجاج بہ
یعنی اس روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے
اسی طرح شمس الدین محمد بن احمد ذہنی نے( جو اہل سنت کے نزدیک محک الرجال مانے جاتے ہیں۔)
اپنی کتاب میزان الاعتدال
میں کئی مقامات پر اس حدیث کی تضعیف بلکہ تغلیط کی ہے۔
بذیل ترجمہ احمد ابن صیلح ذوالنون مصری از مالک از نافع ابن عمر کی حدیث اقتدوا بالذین بعدی الخ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
وھٰذا غلط واحمد ولایعتمد علیہ”
یہ روایت غلط ہے اور احمد ناقابل اعتماد ہے( میزان الاعتدال جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 49طبع مصر)
اسی طرح اور متعدد مقامات پر مثلا محمد ابن عبداللہ بن عمر عمری عددی وغیرہ کے حالات میں عسقلانی اور دار قطنی کی بعینہ مذکورہ بالا تحقیقات کو نقل کیا ہے
نیز اسی ذہنی نے تلخیص المستدرک میں اس روایت کو بسند ابن مسعود درج کرنے کے بعد آخر میں لکھا
“قلت سندہ واہ جدّا”
یعنی میرے نزدیک اس حدیث کی سند بہت ہی کمزور اور واہیات ہے۔
ابو محمد علی ابن حزم ظاہری معروف بہ ابن حزم نے جو اہل سنت کے بزرگ ترین محققین وسترگ ناقدین سے شمار کئے جاتے ہیں ۔
اور ابن حجر مکی کی طرح خلافت ابوبکر کو منصوص سمجھتے ہیں
بصراحت تمام اس حدیث کو غلط اور ناقابل استدلال قرار دیا ہے وہ اپنی کتاب فصل جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 108 طبع مصر طبع اول بذیل استخلاف ابی بکر اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں
” قال ابو محمد ولو اننا نستجیز التدلیس والامر الذی لو ظفر بہ خصومنا روایما فرحا او ابلسو اسفا لاحتججنا بما روی اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر قال ابو محمد ولکنّہ لم یصو یعیذنا اللہ من الاحتجاج بما لا یصحّ”
ابو محمد(مؤلف کتاب) کہتے ہیں کہ اگر ہم تدلیس و تلبیس (دھوکہ بازی) کو اور ایسے امر کو جس سے اگر ہمارے حریف (شیعہ) دیکھ لیں تو فرحت انسباط سے اڑنے لگیں
جائز سمجھتے تو یقینا ہم روایت اقتدوا بالذین بعدی ابی بکر وعمر کے ساتھ استدلال کرتے۔
ابو محمد کہتے ہیں لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے اور خدا ہمیں اس سے محفوظ رکھے کہ ہم ایسی چیزوں سے استدلال کریں جو صحیح نہ ہوں”
نوٹ؛- ابن حزم کے اس کلام سے چند امور واضح ہو جاتے ہیں
(١) باوجودیکہ جمہور اہل سنت کی مخالفت کر کے ابن حزم حضرت ابوبکر کی خلافت کو بانص ثابت کرنے کی کوشش میں منہمک ہے
اور اس سلسلہ میں بہت سی ضعیف بلکہ موضوع روایات کے ساتھ تمسک بھی کیا ہے۔
لیکن یہ روایت اس کی نظر میں اس قدر بیہودہ ہے کہ اس نے اسے ناقابل احتجاج قرار دیا ہے
(٢) ان کا یہ کہنا اگر تدلیس وتلبیس جائز ہوتی تو وہ اس روایت سے استدلال کرتے
اس سے واضح ہوگیا کہ جو حضرات ابن حجر مکی وغیرہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ درحقیقت تلبیس ابلیس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(٣) ابن حزم کے نزدیک یہ حدیث درجۂ حجیت سے اس قدر ساقط ہے کہ اس سے احتجاج کرنے کو عظیم گناہ سمجھتے ہوئے اس سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں
اگرچہ اس حدیث کے موضوع و مکذوب ہونے کے متعلق اور بھی بہت سے علماء کی شہادتیں ہمارے پیش نظر ہیں مگر انھیں چار علمائے کبار کی شہادتوں پر اکتفاء کی جاتی ہے۔
امید کامل ہے کہ ارباب عدل و انصاف کو ان معتبر شہادتوں کے بعد اس روایت کو موضوع و مصنوع کہنے کے متعلق
بقدر سر سوزن بھی شک و شبہ باقی نہیں رہ جائے گا
ثالثا۔ یہاں تک ہم نے قانون روایت کے اعتبار سے اس حدیث پر گفتگو کی ہے جس سے بحمداللہ اس کا مکذب و موضوع ہونا بالکل واضح لائح ہوگیا۔
اب آئیے درایت اور متن الفاظ کے اعتبار سے بھی اس کا جائزہ لیں۔
اگر اقتداء و اتباع سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر لحاظ سے اقتداء انہیں دو شخصیتوں ابو بکر و عمر میں منحصر ہے
تو اس سے حضرت علی علیہ السلام و عثمان نیز دیگر خلفاء کی خلافت و امامت ختم ہوجائے گی۔
اور اگر اس اقتداء سے مراد فی الجملہ بعض امور میں اقتدا کرنا ہے تو پھر ممکن ہے کہ ان بعض امور کا مسئلہ خلافت و امامت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو لہذا اس صورت میں کسی طرح اس حدیث کو نصِّ خلافت سمجھا جاسکتا ہے؟
(اذقام الاحتمال بطل الاستدلال)
رابعا۔ ان حضرات کے یہاں ایک حدیث مشہور جو بلکل بے اصل گھڑی ہوئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیہم اھتدیتم
( میرے اصحاب مثل آسمانی ستاروں کے ہیں جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے)
اس میں تمام صحابہ رسول کے ساتھ اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اور سب کی اقتداء کو موجب رشدوہدایت قرار دیا گیا
ہے
لیکن سابقہ حدیث ( اقتدوا بالذین بعدی الخ)
سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد انہیں دو شخصوں میں منحصر ہے لہذا اس طرح ان حدیثوں کے درمیان تعارض واقع ہو جائے گا اس لئے ان میں سے ایک کو لامحالہ غلط ماننا پڑے گا اب ان حضرات کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں موضوع قرار دیں بہرصورت ہمارا مقصد حاصل ہے
خامسا۔ اس سلسلہ میں آخری اور فیصلہ کن بات یہ ہے کہ اگر اس حدیث کی
کوئی حقیقت و واقعیت ہوتی تو سب سے پیشتر حضرت ابوبکر سقیفہ بنی ساعدہ میں اسے پیش فرماتے کیونکہ وہاں اس قسم کی احادیث کی بڑی سخت ضرورت تھی مگر جب انہوں نے پیش نہیں کیا تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہ حدیث بالکل وضعی وجعلی اور بنابر ثبوت اس کو مسئلہ خلافت و امامت سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے
لہذا کوئی عقل وفہم اور علم و دانش رکھنے والا آدمی ایسی خانہ ساز حدیث سے استدلال و احتجاج نہیں کرسکتا