محمد بن یزید القزونی المعروف ابن ماجہ نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ علی ابن ابی طالبؑ نے کہا :
میں اللہ کا بندہ ، رسول اللہ (ﷺ) کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں۔ میرے بعد ایسا دعوہ کوئی نہیں کر سکھتا سوائے ایک جھوٹے کے۔ باقی لوگوں سے ساتھ سال پہلے میں نے نماز ادا کی۔
محمد فواد الباقی اس حدیث کے زیل میں یوں لکھتا ہے :
مجمع الزوائد میں ہے کہ اسکی سند صحیح ہے۔ تمام راوی ثقہ ہیں۔ حاکم نے بھی مستدرک میں منھال سے یہ روایت نقل کی اور کہا : یہ شیخین (بخاری و مسلم) کے شرط پر صحیح ہے۔

قطیعی نے فضائل صحابہ لاحمد بن حنبل کے زوائد میں بھی اسکو عبداللہ بن احمد بن حنبل سے نقل کیا۔
کتاب کے محقق وصی اللہ عباس نے حاشیہ پر یوں لکھا ہے :
اسکی سند منکر ہے وجہ عباد بن عبداللہ الاسدی الکوفی۔۔۔۔
پھر آگے اور لکھتا ہے : مگر اسکا ایک اور طرق نسائی نے خصائص علی میں نقل کیا اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

امام حاکم نے بھی اپنی سند سے نقل کیا ہے اور اسکے بعد یوں لکھا :
اسکی سند صحیح ہے لیکن انہوں نے اسکو اپنی کتابوں میں نہیں لایا۔

ابن ابی عاصم نے اپنی سند سے نقل کیا ہے۔
کتاب کے محقق ڈاکٹر باسم بن فیصل جوابرہ نے اسکی سند کو ضعیف قرار دیا وجہ وہی عباد بن عبداللہ الاسدی لیکن شیخ وصی اللہ عباس نے اوپر لکھا ہے کہ اسکا ایک طرق خصائص میں ہے جسکے تمام راوی ثقہ ہے۔

امام دولابی نے اپنی سند سے یہی روایت نقل کی ہے جہاں معاذۃ العدویۃ نے عباد بن عبداللہ الاسدی کی متابعت کر رکھی یے۔
اس والی سند میں مزید الفاظ یوں ہیں : میں نے ابوبکر سے پہلے ایمان لایا اور ان سے پہلے اسلام قبول کیا۔













صدیق الاکبر مولا علی کرم اللہ وجہہ بسند صحیح

120- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الرَّازِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَنْبَأَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَأَخُو رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، لَا يَقُولُهَا بَعْدِي إِلَّا كَذَّابٌ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسِ لِسَبْعِ سِنِينَ».

.

في الزوائد هذا الإسناد صحيح. رجاله ثقات. رواه الحاكم في المستدرك عن المنهال وقال صحيح على شرط الشيخين.
امام هیثمی رحمہ نے اس روایت کو مجمع الزوائد میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: اسکی سند صحیح اور اسکے تمام روای ثقہ قابل اعتماد ہیں . اسی طرح امام حاکم نیشابوری رحمہ نے اس روایت ک2 نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: یہ روایت شرائط مسلم و بخاری کے مطابق صحیح ہے.
حوالہ جات:







دیگر حوالہ جات :

جن احباب کو اس روایت پر اعتراض ہے کیا وہ ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں گے اور بتائیں گے کوئی ایک صحیح السند روایت جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر کہا گیا ہو؟ 

کیا ایک فضیلت کئی صحابہ کرام میں مشترک نہیں ہو سکتی؟


منقولة من المصدر التالي :
موسوعة الحديث الشريف / الاصدار الأول : 1 / 2 – الكتب التسعة.
شركة صخر لبرامج الحاسب الآلي : ( 1991 – 1996 ).
1 – محمد بن اسماعيل الرازي – ( قال عنه ) : أبو حاتم الرازي ( صدوق ) – الذهبي ( صدوق ).
2 – عبيدالله بن موسى – ( قال عنه ) : يحيى بن معين : ( ثقة ) – أبو حاتم الرازي : ( ثقة ) – العجلي : ( ثقة ) – محمد بن سعد ( ثقة صدوق يتشيع ) – ابن عدي : ( ثقة ) – ابن حبان : ( ثقة ).
3 – العلاء ابن صالح – ( قال عنه ) : يحيى بن معين ( ثقة ) – أبو داود السجستاني : ( ثقة ) – أبو حاتم الرازي : ( لا بأس به ) – يعقوب بن سفيان : ( ثقة ) – ابن نمير : ( ثقة ) – الحجلي : ( ثقة ).
4 – المنهال بن عمرو – ( قال عنه ) : يحيى بن معين : ( ثقة ) – النسائي : ( ثقة ) – العجلي : ( ثقة ) – ابن حبان : ( ذكره في الثقات ) – الدارقطني : ( صدوق ).
5 – عباد بن عبد الله : ( قال عنه ) : العجلي : ( ثقة ) – النسائي : ( ثقة ) – محمد بن سعد : ( ثقة ) – ابن حبان : ( ذكره في الثقات ).
.

(مصباح الزجاجہ جلد 1 ص 160)
امام ابو الحسن السندی حنفی لکھتے ہیں:
الزوائد میں امام ہیثمی نے اسکی سند کو صحیح کہا اور رجال کو ثقات کہا, امام حاکم نے اسکی سند کو صحیح کہا, ترمذی نے اسکی سند کو حسن کہا.
(سنن ابن ماجہ بشرح السندی جلد 1 ص 86 طبع بیروت)
جارحین پہ تبصرہ:
حیرت کی بات ہے کہ أسکی سند میں کوئی بھی مجروح راوی نہیں لیکن اسکے باوجود امام شوکانی, البانی, ابن الجوزی, ابن تیمیہ نے اس روایت کو “موضوع” (گھڑی ہوئی) قرار دیا.ملاحظہ ہوں:
الفوائد المجموعہ رقم 343 شوکانی
السلسلہ الضعیفہ رقم 4947
موضوعات جلد 2 ص 98
منہاج السنہ جلد 7 ص 443
تبصرہ:
یہ ظلم عظیم ہے کہ اسکی سند میں جس راوی پہ جرح کی جاتی ہے وہ عباد بن عبداللہ الاسدی ہے اب ذرا جرح بھی دیکھ لیں:
بخاری نے کہا: فیہ نظر
عقیلی نے کہا: فیہ لین
علی بن المدینی نے کہا: ضعیف
(سنن ابن ماجہ جلد 1 ص 87 حاشیہ از شعیب ارنووط)
اس میں کونسی ایسی جرح ہے جس سے یہ استدلال کیا جائے کہ یہ حدیث موضوع ہے؟
یہ تینوں اقوال ابہام رکھتے ہیں اور “جرح مبہم” کے تحت ہیں جن سے راوی جھوٹا تو کیا مجروح بھی ثابت نہیں ہوتا تبھی تو
امام سندی رحمہ اللہ کو یہ کہنا پڑا:
قلت : فكإن من حكم بالوضع حكم عليه لعدم ظهور معناه لا لأجل خلل في إسناده.
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث پہ موضوع کا حکم اسکے معنی کا عدم ظہور ہونے کی وجہ سے ہے نا کہ اسکی سند میں کسی مسئلہ کی وجہ سے.
(سنن ابن ماجہ بشرح السندی جلد 1 ص 86)
لہذا اسکی سند میں کوئی اشکال نہیں اور رہی بات متن کی تو متن میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے جسکا متن پسند نہ آئے یا مرضی کے خلاف ہو تو اس پہ ہرگز موضوع یا مُنکر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا.











































