اللہ نماز پڑھتا ہے؟

تحریر: سید علی اصدق نقوی
ایک روایت ہے کہ جب نبی کریم ص معراج پر گئے تو ان سے جبرئیل امین ع نے کہا کہ اللہ نماز پڑھ رہا ہے۔ الکافی میں اسکا متن یوں ہے:
…إِنَّ رَبَّكَ يُصَلِّي فَقَالَ يَا جَبْرَئِيلُ وَكَيْفَ يُصَلِّي قَالَ يَقُولُ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ أَنَا رَبُّ الْمَلائِكَةِ وَالرُّوحِ سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي…
۔۔۔جبرئیل ع نے کہا: آپ کا رب نماز پڑھ رہا ہے (يصلي)۔ نبی ص نے فرمایا: اے جبرئیل، وہ نماز کیسے پڑھتا ہے؟ انہوں نے کہا: وہ کہتا ہے: پاک ہوں، مقدس ہوں میں، ملائکہ اور روح کا رب، میری رحمت میرے غصے پر سبقت لے جاتی ہے۔۔۔ (1)
اسکی سند میں قاسم بن محمد ہے۔ اسکے متعلق سید خوئی کہتے ہیں کہ اسکی توثیق ثابت نہیں ہے۔ اسکے علاوہ دوسرا راوی علی بن ابی حمزہ اسکے متعلق سید خوئی کہتے ہیں کہ ضعیف راوی ہے بھی۔ بہر حال اس روایت کی سند تو کمزور ٹھہرتی ہے۔
اگر متن دیکھا جائے، تو ادھر لفظ یصلي کا مطلب کسی کی عبادت کرنا نہیں ہے یا نماز پڑھنا نہیں ہے۔ خود قرآن میں ہے:
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿الأحزاب: ٥٦﴾
اللہ اور اسکے فرشتے نبی ص پر صلوات بھیجتے ہیں (يصلون)، اے ایمان والوں تم بھی ان پر صلوات بھیجو اور خوب سلام کرو۔
تو اس حدیث کو آپ پورا پڑھیں تو ادھر یصلي آیا ہے جیسا کہ قرآن میں بھی اسکا جمع آیا ہے (یصلون)۔ اور روایت ویسے بھی سند کے لحاظ سے کمزور ہے جیسا کہ معراج کے متعلق کافی روایات ہیں بھی۔
شیعہ کتب میں سے الکافی میں یہ حدیث موجود ہے۔ اسکے علاوہ اہل سنت کتب میں خطیب بغدادی نے (2) و دیگران نے اسکو نقل کیا ہے۔ اس حدیث کو جمال الدین ابن جوزی نے الموضوعات (گھڑی ہوئی احادیث) میں نقل کیا۔ البانی نے سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة میں نقل کیا ہے، اور منکر کہا ہے (3)۔ اسکے علاوہ امام ذہبی نے میزان الإعتدال میں اس حدیث کو منکر کہا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو لسان المیزان میں نقل کرکے منکر کہا ہے۔ ہمارے ہاں اسکا صدور اول الکافي ہے اور اسکی سند نہایت ضعیف ٹھہرتی ہے۔ تو موجود شیعہ سنی دونوں کے ہاں ہے یہ حدیث موجود ہے مگر اسکی سند ضعیف ہے۔
اگر کوئی کہے کہ ملائکہ اور اللہ کے صلوات بھیجنے سے مراد بھی اللہ کا نماز پڑھنا ہے تو یہ لغوی طور پر نادرست ہے۔ کیونکہ “صلى له” اور “صلى عليه” میں فرق ہے۔ حرف جار کے حساب سے معنی بدل جاتا ہے کسی بھی فعل کا جیسے رغب عنه یا رغب فيه بالکل متضاد معنیٰ رکھتے ہیں۔ اس ہی طرح ہم نماز کعبہ “کو” نہیں پڑھتا، بلکہ کعبہ کی طرف پڑھتے ہیں تبھی ہم کہیں گے کہ “صلى إليه” یعنی اس کی طرف نماز پڑھی، نہ کہ اس کو (له)۔ لہذا اللہ کا صلوات بھیجنا یعنی اسکا برکات و رحمات کا نازل کرنا اپنے حبیب ص اور انکی آل ص پر، نہ کہ اسکا کسی کی پرستش کرنا، جو کہ اللہ کے لیئے محال ہے۔
مآخذ:
(1) الكافي، ج 1، ص 443
(2) تاريخ بغداد، ج 4، ص 196
(3) سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، الرقم: 1386 اور1387