کیا حضرت علیؑ نے نشئے کی حالت میں نماز پڑھائی

.

.

.

سنن ابی داود کی روایت 3671 کا تعاقب اور
ابو عبدالرحمن سلمی کی ناصبیت
ابو عبداللہ محمد بن حمید الرازی المتوفی 248 ھجری
اس سے امام احمد بن حنبل اور یحیحی ابن معین نے روایت کی اور کوئ جرح نہیں کی
ذھبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ھے کہ یہ علم کے سمندروں میں سے ھے
اب اس کو متروک الحدیث سمجھا جاتا ھے
وجہ یہ ھے کہ یہ امام ابن جریر طبری کے اساتذہ میں سے ھے اور ابن جریر نے اس سے ایک روایت تاریخ طبری میں نقل کی ھے ہم وہ روایت نقل کر دیتے ہیں
ابن جریر نے صحیح سند سے عطاء سے روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا ابن حميد قَالَ: حَدَّثَنَا جرير عن عطاء قال: قال رجل لأبي عبد الرحمن، أنشدك الله، متى ابغضت عليا ع اليس حين قسم قسما بالكوفه فلم يعطك ولا اهل بيتك؟ قال: اما إذ نشدتني الله فنعم.
عطاء نے کہا کہ ایک شخص نے ابو عبد الرحمٰن سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں یہ بتا تو ں کب سے علیؑ سے بغض رکھتا ہے ؟ کیا تب سے جب علیؑ نے کوفہ میں مال تقسیم کیا اور تجھے اور تیرے گھر والوں کو کچھ نہیں دیا تو (عبد الرحمٰن ) نے کہا اگر تو مجھکو اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہی ہے تو ہاں
تاريخ الطبري المجلد 11صحفہ 663
ابو عبدالرحمن سلمی وہ شخص ھے جس سے عطاء بن سائب نے نقل کیا ھے جس کو امام داود سجستانی نے سنن اپنی سنن میں نقل کیا ھے کہ نعوذ باللہ مولا علی ؑ کو عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کھانے پر بلایا اور آپ نے شراب پی اور نماز مغرب پڑھائ جس میں آپ نے قل یا ایھا الکافرون کو مخلط کر دیا اور آیت اتری
لا تقرب الصلاة وانتم سکاری
سورہ نساء آیت 43
اس روایت کا مرکزی راوی یہی ابو عبدالرحمن سلمی ھے
گو کہ اس روایت پر کافی سارے اشکلات ہیں سب سے بڑی مخالفت اس روایت کی خود قرآن مقدس کی آیت
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھلبیت و یطھرکم تطھیرا کی آیت مقدس ھے
لیکن ہمارا مدعا صرف یہ واضح کرنا ھے کہ ابو عبدالرحمن سلمی نے یہ روایت مولا علی ؑ سے سنی یا خود وضع کی یا ان سے وضع کر کے منسوب کر دی گئ کیونکہ جو روایت بھی قرآنی احکامات کے خلاف ہو وہ رجال اور متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہو تو مردود ہوتی ھے
اس روایت کو ابن داود نے اپنی سنن میں مسدد سے روایت کیا ھے
ابو عبدالرحمن سلمی عثمانی تھے اور عثمانیوں کا علویوں سے بغض ڈھکا چھپا نہیں تھا
وقت کی قلت کے سبب سے اس پر مفصل بحث نہیں لکھ رہے
محمد بن حمید الرزای پر اگر ضعف کی جرح ھے تو فروعی روایات پر ھے لیکن تاریخی روایات پر ضعف کی جرح کوئ معنی نہیں رکھتی کیونکہ اکثر تاریخی راوی ضعیف ہیں اور اس کے باوجود ان کی روایات نقل کی جاتی ہیں
لیکن اھلسنت قواعد حدیث اتنے گھٹیا ہیں کہ ان کا کوئ معیار نہیں ھے
مثال کے طور پر اسی راوی یعنی محمد بن حمید الرازی کے بارے میں ابو بکر صناعانی نے لکھا ھے کہ
میں اس سے کیوں روایت نہ کروں جس سے احمد بن حنبل اور یحیحی ابن معین نے روایت کی ھے
میزان الاعتدال ج 5 ص 483
اگر اس سے امام جرح و تعدیل یحیحی ابن معین اور احمد بن حنبل جیسے فقھاء نے بغیر جرح کے روایات کو لیا ھے تو پھر محمد بن حمید الرازی پر ضعف کی جرح کی کیا حثیت رہ جاتی ھے جو کسی متاخر نے کی ھے
قواعد حدیث اھلسنت میں
کچھ اصول ہیں
جرح و تعدیل کے کچھ قوائد ہیں، جن کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے، ورنہ کسی بڑے سے بڑے محدث کی ثقاہت و عدالت ثابت نہ ہو سکے گی، کیونکہ ہر کسی پر کسی نہ کسی کی جرح ہے. مَثَلاً شافعی پر یحییٰ بن معین نے امام احمد پر کرابلیسی نے امام بخاری پر امام ذہلی نےامام اوزاعیی پر امام احمد نے جرح کی ہے، حتیٰ کہ ابنِ حزم نے امام ترمذی اور امام ابنِ ماجہ کو مجہول کہا خود امام نسائی پر تشیع کا الزام ہے. اسی بنا پر ان کو مجروح کیا گیا.
قارئین
جو جرح مفسر نہ ہو یعنی اس میں سببِ جرح تفصیل سے بیان نہ کیا گیا ہو تو تعدیل اس پر مقدم رہتی ہے. .مقدمہ اعلا ء السنن ج 3 ص 23 فتاویٰ علماۓ حدیث ج 7 ص 72
اور وہ سبب جرح کے لئے معقول اور متفق علیہ ہو.
اسی طرح اہلِ حدیث کے محقق زبیر علی زئی لکھتے ہیں
صرف ضعیف یا متروک یا منکر کہنے سے جرح مفسر نہیں ہے۔
رکعتِ قیامِ رمضان کا تحقیقی جائزہ ص65
قارئین محترم
مثلا اگر کسی راوی پر متشددین نے جرح کی ہو جبکہ معتدل ائمہ جرح وتعدیل نے اسکی توثیق کی ہو تو ایسی صورت میں وہ راوی ثقہ ہی قرار پائے گا ۔
, جب کوئ ثقہ ہو جو کہ مجروح بھی ہے تو اسکی طرف سے غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ لیکن محض اس امکان کی بناء پر اسکی روایت رد نہیں کی جاتی بلکہ اسکے ثقہ ہونے کی وجہ سے اسکی روایت قبول کی جاتی ہے لیکن جب غلطی کی کوئی دلیل مل جائے تو اسکی روایت کو ترک کرکے ضعیف قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ثقہ کی غلطی کی ایک سادہ سی مثال شاذ روایت ہے ۔
اور کچھ لوگ محض جارحین اور معدلین کی تعداد گن کر اکثر کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں , مثلا اگر راوی پر جرح کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا اور اگر اسکی تعدیل کرنے والے زیادہ ہیں تو اسے ضعیف قرار دے دیا , انکا یہ منہج درست نہیں ہے ۔
کیونکہ بسا اوقات جرح وتعدیل معارض نہیں ہوتی اور پھر جرح یا تعدیل کرنے والے کا اپنا وزن بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ اس فن میں کتنا ماہر ہے اور یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جارح یا معدل کا مجروح یا ثقہ راوی کے ساتھ تعلق کیسا ہے ؟ کیونکہ جو جتنا زیادہ قریبی ہو گا اسکا فیصلہ اسی قدر معتبر اور وزنی ہوگا ۔ اور جو جسقدر زیادہ دور کے زمانہ کا ہوگا اسکے فیصلہ میں اسی قدر کمزوری آتی جائے گی ۔ لیکن قرب وبعد زمانی کا یہ قاعدہ بھی کلیہ نہیں ہے , اسکا فیصلہ بھی قرائن وشواہد کی بناء پر ہوتاہے
اب ہم آپ کو دیکھاتے ہیں کہ آئمہ جرح و تعدیل کے طبقات کیا ہیں
عام طور پر ان علماء کو 3 طبقات میں تقسیم کیا گیا ھے
1 متعنتین ان میں شعبہ یحیی القطان یحیی بن معین اور ابو حاتم الرازی وغیرہ سر فہرست ہیں
2 معتدلین ان میں امام سفیان ثوری عبدالرحمن بن مھدی امام احمد ابو زرعۃابن عدی امام بخاری اور دار قطنی وغیرہ سر فہرست ہیں
3 متساہلین ان میں عجلی ترمذی ابن حبان بعض اوقات دار قطنی بھی امام حاکم اور ابو بکر البیھقی پیش پیش ہیں
اب اوپربوالی عبارت کو پڑھنے کے بعد سمجھ آجاتی ھے کہ
متشددین میں یحیحی ابن معین اور معتدلین میں امام احمد نے محمد بن حمید سے روایات کو لیا ھے اور کوئ جرح میری نظر سے نہیں گزری ابن حمید کو مجروح بنانے
وجہ صرف یہی ھے کہ اس سے ابن جریر نے یہ روایت نقل کی ھے جو اوپر بیان کر دی گئ ھے
کہ ابو عبدالرحمن اسلمی عثمانی تھے اور اس کا ثبوت خود بخاری میں موجود ھے
امام بخاری لکھتے ہیں حدثنی محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی حدثنا ھشیم اخبرنا حصین عن سعد بن عبیدة عن ابی عبدالرحمن و کان عثمانیا فقال لابن عطیہ و کان علویا انی لا علم ما الذی جرا صاحبک علی الدماء
ابی عبدالرحمن اسلمی جو کہ عثمانی تھے انہوں نے عطیہ سے کہا جو علوی تھے کہ میں اچھء طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب علی ؑ کو کس چیز سے خون بہانے پر جرأت ہوئ
صحیح البخاری
اس لیے محمد ابن حمید الرازی کی مرویات کو احمد بن حنبل اور یحیحی ابن معین نے قبول کیا ھے اس لیے ان پر کی گئ جرح کی کوئ وقعت نہیں ھے
اور ابن جریر طبری کی تاریخ کی روایت سے یہ ثابت کرتی ھے کہ ابو عبدالرحمن اسلمی مولا علی ؑ سے بغض رکھتے تھے اور اس بغض کی وجہ سے شراب والی روایت کو خود علی ؑ سے ہی بنا کر پیش کیا اس کے علاوہ دنیا کی کسی تاریخ میں ایسی کوئ روایت نہیں کہ مولا علی ؑ نے سے ایک ایسے امر کی توقع کی جا سکتی ھے جس کے بارے میں رسول خداﷺ فرماتے ہوں لحمک لحمی جسمک جسمی نفسک نفسی
ورنہ اس آیت کی سورہ نساء آیت 43 کے شان نزول میں شیعہ مکتب میں جو روایات ہیں وہ صرف نیند کے نشہ کے متعلق ہیں ملاحظہ ہو علل الشرائع
تفسیر نور الثقلین ج 2
اور دشمنان آل محمد ؑ نے اس سے من گھڑت تاویلات کی ہیں
.

منافقین اس جھوٹ کو امیر المومنین علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں.

ترمذی نے ابو عبدالرحمن سلمی سے روایت کی ہے

– حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ.

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الخَمْرِ، فَأَخَذَتِ الخَمْرُ مِنَّا، وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَقَدَّمُونِي فَقَرَأْتُ: {قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُونَ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ} وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ. قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ}.

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

علی بن ابی طالب( علیہما السلام ) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف  نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» ”اے نبی! کہہ دیجئیے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو“، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» ”اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو“ (النساء: 43)

سنن ترمذي،كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،5. باب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ،حديث 3026

طبری نے اس روایت کو حماد کے ذریعہ عطاء سے اور اس نے ابو عبدالرحمن سے روایت کیا :

حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى , قَالَ: ثنا الْحَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ , قَالَ: ثنا حَمَّادٌ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ: أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ , صَنَعَ طَعَامًا وَشَرَابًا , فَدَعَا نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا حَتَّى ثَمِلُوا , فَقَدَّمُوا عَلِيًّا يُصَلِّي بِهِمُ الْمَغْرِبَ , فَقَرَأَ: «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ , أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ , وَأَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ , وَأَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ , لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ» . فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43]

تفسیر الطبری ج 8 ص 376

ابو داؤد نے بھی ابو عبدالرحمن سے ترمذی کے متن کے خلاف الفاظ سے روایت کیا :

3671 – حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام: ” أَنَّ رَجُلًا، مِنَ الْأَنْصَارِ دَعَاهُ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَسَقَاهُمَا قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ، فَأَمَّهُمْ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِبِ فَقَرَأَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فَخَلَطَ فِيهَا، فَنَزَلَتْ {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43] “

علی بن ابی طالب (علیہما السلام ) کہتے ہیں کہ انہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف  کو ایک انصاری نے بلایا اور انہیں شراب پلائی اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی پھر علی (علیہ السلام ) نے مغرب پڑھائی اور سورۃ «قل يا أيها الكافرون» کی تلاوت کی اور اس میں کچھ خلط ملط  کر دیا تو آیت: «لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» ”نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو جو تم پڑھو“ نازل ہوئی۔

سنن ابي داود، كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،1. باب فِي تَحْرِيمِ الْخَمْرِ،حدیث 3671

https://al-maktaba.org/book/33759/5081

امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف اس روایت کو منسوب کرنے والا فقط ایک شخص ہے ابو عبدالرحمن سلمی یوں تو علماء اہل سنت نے اس کی بہت تعریف کی ہے مگر یہ شخص پکا منافق تھا جسکی چند مثال ملاحظہ فرمائیں:

ابو عبدالرحمن پکا عثمانی،  دشمن امیرالمومنین علیہ السلام تھا ،آپؑ سے عداوت رکھتا تھا اور آپؑ کی تنقیص کرتا تھا۔

بخاری اپنی صحیح میں لکھتا ہے :

3081 – حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، – وَكَانَ عُثْمَانِيًّا فَقَالَ لِابْنِ عَطِيَّةَ: وَكَانَ عَلَوِيًّا – إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ،

سعد بن عبیدہ نے  ابی عبدالرحمٰن (سے روایت کیا ) اور وہ عثمانی تھا  ،اس نے عطیہ سے کہا  جو علوی تھے ، کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تیرے  صاحب (علی علیہ السلام ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی۔

صحيح البخاري،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ،195. بَابُ إِذَا اضْطَرَّ الرَّجُلُ إِلَى النَّظَرِ فِي شُعُورِ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَالْمُؤْمِنَاتِ إِذَا عَصَيْنَ اللَّهَ وَتَجْرِيدِهِنَّ،حدیث 3081

https://sounah.com/hadith/2837/

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-28217.html

نیز لکھتا ہے :

6939 – حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ فُلَانٍ، قَالَ: تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لِحِبَّانَ: لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ،

ابوعبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ تجھ کو   معلوم ہے کہ تیرا  ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گیا  ہے ۔ اس کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں (ابو عبدالرحمن کو ناساز  کہا )

صحيح البخاري،كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ،9. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ،حدیث 6939

https://al-maktaba.org/book/33757/11598

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-33825.html

 طبری با سند صحیح عطاء سے روایت کرتا ہے :

حدثنا ابن حميد قال حدثنا جرير عن عطاء قال قال رجل لابي عبد الرحمن أنشدك الله متى أبغضت عليا عليه السلام أليس حين قسم قسما بالكوفة فلم يعطك ولا أهل قال أما إذ نشدتني الله فنعم

عطاء نے کہا کہ ایک شخص نے ابو عبدالرحمن سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں یہ بتا تو کب سے علی علیہ السلام سے بغض رکھتا ہے، کیا جب سے ہی جبکہ  (علی علیہ السلام نے ) کوفہ میں مال تقسیم کیا اور تجھے اور تیرے گھر والوں کو کچھ نہیں دیا،( تو عبدالرحمن نے) کہا اگر تو مجھکو اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہی ہے تو ہاں

المنتخب من ذيل المذيل ص 147

https://al-maktaba.org/book/1133/148

لفظ (عثمانی ) کا  اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو  معاویہ کے ہامی اور دشمن امیرالمومنین ہوتے ہیں :

  • ابن عساکر نے شیبان بن مخرم کے متعلق میمون کا قول نقل کیا:

 عن ميمون عن شيبان بن مخرم قال وكان عثمانيا يبغض عليا

میمون نے کہا شیبان بن مخرم عثمانی تھا امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے بغض رکھتا تھا ۔

تاريخ دمشق ج 14 ص 221

http://islamport.com/d/1/trj/1/111/2277.html

  • عبداللہ بن شقيق کے متعلق ابن حجر نے ابن معین کا قول نقل کیا :

بخ م 4 – عبد الله” بن شقيق العقيلي أبو عبد الرحمن

وقال ابن أبي خيثمة عن ابن معين ثقة وكان عثمانيا يبغض عليا

وہ عثمانی تھا امیرالمومنین علیہ السلام سے بغض رکھتا تھا

تهذيب التهذيب ج 5 ص 254

https://al-maktaba.org/book/3310/2313

  • ذہبی صحابی معاویہ بن حديج کے حالات میں لکھتا ہے:

معاوية بن حديج ، وكان من أسب الناس لعلي،قلت : كان هذا عثمانيا ۔

معاویہ بن حديج وہ حضرت علی علیہ السلام کو سب سے زیادہ گالیاں دینے والا تھا،میں(ذہبی) کہتا ہوں وہ عثمانی تھا۔

سير أعلام النبلاء ج 3 ص39

بلکہ یہ  وہ بدبخت افراد تھے  جو امیرالمومنین علیہ السلام کی ہر فضیلت کے منکر تھے ،بطور مثال ابو حصین کو پیش کرتے ہیں :

ابو حصین  عثمان بن عاصم صحاح ستہ کا راوی ہے اس بدبخت نے حدیث غدیر  جوکہ  فوق متواتر ہے اس پر اعتراض کیا تھا ابوبکر عیاش نے کہا میں نے ابو حصین سے سنا کہ ہم نے حدیث من کنت مولاہ نہیں سنی تھی یہاں تک کہ ابو اسحاق نے خراسان سے آکر چلانا شروع کیا   جس پر ذہبی نے ابو حصین کو رد کیا   لکھتا ہے میں  (ذہبی)کہتا ہوں حدیث (غدیر) بغیر شک کے ثابت ہے مگر ابو حصین عثمانی ہے ۔

أبو حصين ( ع )عثمان بن عاصم بن حصين ، وقيل : بدل حصين زيد بن كثير ، الإمام الحافظ الأسدي الكوفي ، روى أبو معاوية ، عن الأعمش قال : أبو حصين يسمع مني ثم يذهب فيرويه . يحيى بن آدم ، عن أبي بكر بن عياش ، سمعت أبا حصين قال : ما سمعنا بحديث من كنت مولاه حتى جاء هذا من خراسان ، فنعق به يعني : أبا إسحاق ، فاتبعه على ذلك ناس . قلت : الحديث ثابت بلا ريب ولكن أبو حصين عثماني

سير أعلام النبلاء ج 5 ص413/415

بغض امیرالمومنین علیہ السلام کے سبب ابو عبدالرحمن  منافق ٹھہرا:

 چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے بغض رکھنے والا منافق ہے۔

131 – (78) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ: «أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» ‌‌‌‏

سیدنا علی (علیہ السلام ) نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ ”نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مومن اور نہیں دشمنی رکھے گا مجھ سے مگر منافق۔“

صحيح مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،33. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ حُبَّ الأَنْصَارِ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الإِيمَانِ وَعَلاَمَاتِهِ وَبُغْضَهُمْ مِنْ عَلاَمَاتِ النِّفَاقِ:حديث 240۔

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-1425.html

 منافقون کو اللہ سبحانہ تعالی جھوٹا کہتا ہے :

اِذَا جَآءَكَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّـٰهِ ۗ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٝ ۚ وَاللّـٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَكَاذِبُوْنَ (المنافقون 1)

جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں۔

تو کیا جھوٹے منافق کی روایت قابل قبول ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ۔

ابو عبدالرحمن سلمی سے روایت کو نقل کرنے والا تہنا عطاء بن سائب ہے: ائمہ اہل سنت نے اس کی بڑی تعریف کی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اس امر کی بھی وضاحت کر دی کہ اس کا حافظہ خراب تھا، بعد میں دماغ بھی خراب ہو گیا جن افراد سے کچھ نہیں سنا ان سے روایات کرنے لگا، ہم ابن حجر کی کتاب سے ان اقوال کا خلاصہ  نقل کرتے ہیں:

كان شعبة يقول سمعتهما منه بآخره عن زاذان وقال أبو قطن عن شعبة ثلاثة في القلب منهم هاجس عطاء بن السائب ويزيد ابن أبي زياد ورجل آخر، وقال وهيب لما قدم عطاء البصرة قال كتبت عن عبيدة ثلاثين حديثا ولم يسمع من عبيدة شيئا وهذا اختلاط شديد ، وقال أبو داود وقال شعبة حدثنا عطاء بن السائب وكان نسيا وقال ابن معين لم يسمع عطاء ابن السائب من يعلى بن مرة وقال ابن معين عطاء بن السائب اختلط وما سمع منه جرير وذووه ليس من صحيح حديثه وقد سمع منه أبو عوانة في الصحيح الاختلاط جميعا ولا يحتج بحديثه وقال أحمد بن أبي نجيح عن ابن معين ليث بن أبي سليم ضعيف مثل عطاء ابن السائب وجميع من سمع من عطاء سمع منه في الاختلاط إلا شعبة والثوري.

وقال ابن عدي من سمع منه بعد الاختلاط في أحاديثه بعض النكرة،

وقال أبو حاتم كان محله الصدق قبل أن يختلط صالح مستقيم الحديث ثم بآخره تغير حفظه في حفظه تخاليط كثيرة وقديم السماع من عطاء سفيان وشعبة وفي حديث البصريين عنه تخاليط كثيرة لأنه قدم عليهم في آخر عمره،

 قلت: فيحصل لنا من مجموع كلامهم ان سفيان الثوري وشعبة وزهيرا وزائدة وحماد بن زيد وأيوب عنه صحيح ومن عداهم يتوقف فيه إلا حماد بن سلمة فاختلف قولهم والظاهر أنه سمع منه مرتين مرة مع أيوب كما يومي إليه كلام الدارقطني ومرة بعد ذلك لما دخل إليهم البصرة وسمع منه

شعبہ نے کہا تین لوگوں سے میرا دل مطمئن نہیں ہے جن میں ایک عطاء بن السائب بھی ہے، وہیب نے کہا جب عطاء بصرہ آیا تو کہا کہ میں نے عبیدہ سے تیس احادیث لکھیں جبکہ اس نے عبیدہ سے کچھ بھی نہیں سنا تھا (یہ اس کے شدید دماغ خراب ہونے  کی دلیل ہے )، ابو داؤد نے کہا شعبہ نے کہا ہم سے عطاء بن سائب نے حدیث بیان کی اور وہ نسیان کا مریض تھا ،ابن معین نے کہا عطاء کا دماغ خراب ہوگیا تھا اس کی احادیث قابل احتجاج نہیں اور کہا ابی سلیم بھی عطاء کی طرح ضعیف ہے، سب نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے کے بعد سنا اِلّا سفیان و شعبہ کے، میں  (ابن حجر )کہتا ہوں ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ عطاء سے سفیان ثوری، شعبہ، حماد بن زيد کی روایات صحیح ہیں ان کے علاوہ دیگر کی روایات میں توقف کیا جائے گا الا حماد بن سلمہ کے کیونکہ اس نے عطاء سے دو بار سنا ایک بار دماغ خراب ہونے سے پہلے دوسری بار جب وہ بصرہ آیا  (یعنی دماغ خراب ہونے کے بعد )

تهذيب التهذيب ج 183/186

http://lib.eshia.ir/40341/7/207/%D8%AD%D9%81%D8%B8%D9%87

ملاحظہ فرمایا عطاء کا دماغ خراب ہو گیا تھا اور اتنا شدید ہوا کہ جن سے کچھ بھی نہیں سنا ان سے سننے کا دعوی کرنے لگا، البتہ بعض ائمہ اہل سنت نے جنہوں نے یہ دعوٰی کیا کہ سفیان، شعبہ وغیرہ نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہو جانے سے  قبل سنا ،باطل ہے دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی عطاء کے دماغ خراب ہونے کے بعد سنا ہم چند مثالیں صحاح ستہ سے پیش کرتے ہیں۔

ابو داؤد نے اپنی سنن (سنن ابي داود،كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ،33. باب فِي تَعْشِيرِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَاتِ) میں سفیان سے عطاء کی بعض روایات نقل کی ہیں جن میں شدید اختلافات موجود ہیں:

3046 – حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى، وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ»،

 عطاء نے حرب بن عبیداللہ سے اس نے اپنے نانا سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عشر (دسواں حصہ) یہود و نصاریٰ سے لیا جائے گا ۔

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sunan-abi-dawud/hadees-no-16530.html

روایت کو نقل کر کے ابوداؤد نے اس روایت کو سفیان سے اس نے عطاء سے عبیداللہ سے ان نے بغیر واسطے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا اور متن میں لفظ عشور کی جگہ خراج کر دیا ۔

3047 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيع، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ قَالَ: «خَرَاجٌ مَكَانَ الْعُشُورِ»

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sunan-abi-dawud/hadees-no-16535.html

 پھر ابو داؤد نے سفیان سے ہی عطاء کی ایک اور روایت بیان کی اس عطاء نے اس بار سند و متن میں تبدیلی کر دی:

3048 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُعَشِّرُ قَوْمِي؟، قَالَ: «إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى»

 سفیان نے عطاء سے روایت کی عطاء نے بکر بن وائل کے ایک آدمی سے اور اس نے اپنے ماموں سے روایت کی وہ کہتا ہے میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجارت میں) دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دسواں حصہ یہود و نصاریٰ پر ہے“۔

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sunan-abi-dawud/hadees-no-16543.html

احمد بن حنبل نے بھی سفیان کی روایت نقل کی اس میں عطاء نے حرب بن ہلال کو ثقفی بتایا ہے:

15897 – حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ هِلَالٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِي أُمِّية ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ، إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى “

مسند احمد ج 3 ص474

سفیان کی روایات میں شدید اختلافات ہیں،سند میں عطاء کبھی  حرب بن عبیداللہ ثقفی سے روایت کرتا ہے، جو اپنے نانا سے روایت کرتا ہے، تو کبھی قبیلئہ بکر بن وائل کے کسی مجہول آدمی سے، وہ  اپنے مجہول ماموں سے روایت کرتا ہے ،اور کبھی حر بغیر واسطے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتا ہے، متن میں کبھی “عشور” کہا کبھی “خراج” ۔

نسائی نے  (سنن نسائي،كتاب الصيام،5. بَابُ: ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مَعْمَرٍ فِيهِ ) میں  روایات نقل کی ہیں جن کو عطاء سے سفیان و شعبہ نے اختلاف کے ساتھ روایت کیا:

2107 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: عُدْنَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ، فَتَذَاكَرْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ، فَقَالَ: مَا تَذْكُرُونَ؟ قُلْنَا: شَهْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، وَيُنَادِي مُنَادٍ كُلَّ لَيْلَةٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ هَلُمَّ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ” قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «هَذَا خَطَأٌ»

عرفجہ کہتا ہے کہ ہم نے عتبہ بن فرقد کی عیادت کی تو ہم نے ماہ رمضان کا تذکرہ کیا، تو اس نے پوچھا: تم لوگ کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: ماہ رمضان کا، تو اس نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور ہر رات منادی آواز لگاتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار ،نسائی نے کہا یہ غلط ہے۔

https://sunnah.com/nasai:2107

2108 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: كُنْتُ فِي بَيْتٍ فِيهِ عُتْبَةُ بْنُ فَرْقَدٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَ بِحَدِيثٍ، وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّهُ أَوْلَى بِالْحَدِيثِ مِنِّي، فَحَدَّثَ الرَّجُلُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” فِي رَمَضَانَ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَيُصَفَّدُ فِيهِ كُلُّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ، وَيُنَادِي مُنَادٍ كُلَّ لَيْلَةٍ: يَا طَالِبَ الْخَيْرِ هَلُمَّ، وَيَا طَالِبَ الشَّرِّ أَمْسِكْ “

عرفجہ کہتا ہے: میں ایک گھر میں تھا جس میں عتبہ بن فرقد بھی تھا، میں نے ایک حدیث بیان کرنی چاہی حالانکہ صحابہ میں سے ایک (صاحبی وہاں) موجود تھا گویا وہ حدیث بیان کرنے کا مجھ سے زیادہ مستحق تھا، چنانچہ (اس) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اور ہر سرکش شیطان کو بیڑی لگا دی جاتی ہے، اور پکارنے والا ہر رات پکارتا ہے: اے خیر (بھلائی) کے طلب گار! نیکی میں لگا رہ، اور اے شر (برائی) کے طلب گار! باز آ جا“

https://sunnah.com/nasai:2108

 پہلی روایت جو سفیان نے عطاء سے کی اس میں عرفجہ نے کہا روایت عتبہ بن فرقد نے بیان کی جبکہ جو روایت شعبہ نے عطاء سے روایت کی اس میں روایت سنانے والا عتبہ نہیں بلکہ کوئی دوسرا مجہول شخص ہے ،

نسائی نے اپنی سنن (سنن نسائي،كتاب الزينة من السنن،34. بَابُ: التَّزَعْفُرِ وَالْخَلُوقِ) میں عطاء کی مزید روایات کا ذکر کیا جن میں سفیان و شعبہ کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

5121 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنَ عَمْرٍو، وَقَالَ عَلَى إِثْرِهِ يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَخَلِّقٌ، فَقَالَ لَهُ: «هَلْ لَكَ امْرَأَةٌ؟» قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَاغْسِلْهُ، ثُمَّ اغْسِلْهُ، ثُمَّ لَا تَعُدْ»

 شعبہ نے عطاء سے روایت کی اس نے کہا میں نے ابو حفص بن عمرو سے سنا اس نے یعلی بن مرہ سے روایت کی ہے:

 کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، اور وہ خلوق لگائے ہوئے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا تیری  بیوی ہے؟“ کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو اسے دھوؤ اور دھوؤ پھر نہ لگانا“۔

https://sunnah.com/nasai:5121

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sunan-at-tirmidhi/hadees-no-15401.html

مگر شعبہ سے دوسری بار مختلف روایت کی

5122 – أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ رَجُلًا مُتَخَلِّقًا قَالَ: «اذْهَبْ فَاغْسِلْهُ، ثُمَّ اغْسِلْهُ، وَلَا تَعُدْ»

یعلیٰ بن مرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خلوق لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ”جاؤ اسے دھو لو، اور پھر دھو لو اور دوبارہ نہ لگانا“۔

https://sunnah.com/nasai:5122

 ملاحظہ فرمایا پہلی روایت میں کہا یہ واقعہ یعلی بن مرہ کے ساتھ پیش آیا اور دوسری روایت میں اسے کسی مجہول شخص کا واقعہ بنا دیا .

تیسری روایت میں سند ہی بدل دی شعبہ نے عطاء سے روایت کی ،اس نے ابن عمرو سے، اس نے کسی آدمی سے اس نے یعلی بن مرہ سے روایت کی:

5123 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ يَعْلَى، نَحْوَهُ خَالَفَهُ سُفْيَانُ رَوَاهُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ يَعْلَى

 (نسائی نے کہا ) سفیان نے( شعبہ کی ) مخالفت کی ہے اس نے عطاء سے اور عطاء نے عبداللہ بن حفص سے اس نے یعلی سے روایت کی

https://sunnah.com/nasai:5123

5124 – أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ بْنِ مُسَاوِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ قَالَ: أَبْصَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِي رَدْعٌ مِنْ خَلُوقٍ قَالَ: «يَا يَعْلَى، لَكَ امْرَأَةٌ؟» قُلْتُ: لَا، قَالَ: «اغْسِلْهُ، ثُمَّ لَا تَعُدْ، ثُمَّ اغْسِلْهُ، ثُمَّ لَا تَعُدْ، ثُمَّ اغْسِلْهُ، ثُمَّ لَا تَعُدْ» قَالَ: فَغَسَلْتُهُ ثُمَّ لَمْ أَعُدْ، ثُمَّ غَسَلْتُهُ، ثُمَّ لَمْ أَعُدْ، ثُمَّ غَسَلْتُهُ ثُمَّ لَمْ أَعُدْ

 یعلیٰ بن مرہ کہتا ہے  کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، مجھ پر خلوق کا داغ لگا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: ”یعلیٰ! کیا تیر  بیوی ہے؟“ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”اسے دھو لو، پھر نہ لگانا، پھر دھو لو اور نہ لگانا اور پھر دھو لو اور نہ لگانا“، میں نے اسے دھو لیا اور پھر نہ لگایا، میں نے پھر دھویا اور نہ لگایا اور پھر دھویا اور نہ لگایا۔

https://sunnah.com/nasai:5124

 ملاحظہ فرمایا کس قدر شدید اختلافات ہیں شعبہ کی روایت میں عطاء کبھی یہ کہتا ہے واقعہ یعلی کے ساتھ ہوا اور کبھی یعلی کی زبانی نقل کرتا ہے وہ شخص کوئی اور تھا، عطاء کبھی ابو حفص سے روایت کرتا ہے جو یعلی بن مرہ سے روایت کرتا ہے اور کبھی ابو حفص اور یعلی کے درمیان مجہول آدمی کا واسطہ ذکر کرتا ہے، جب سفیان نے عطاء سے روایت کی تو اس میں عطاء نے ابو حفص کی جگہ عبداللہ بن حفص کا نام لیا.

پس سفیان  کا عطاء کی حالت استقامت میں اس سے روایت کرنے والا دعوی بھی باطل ہو گیا۔

عطاء سے روایت کرنے والے تین راوی ہیں ابو جعفر رازی جس سے ترمذی نے روایت نقل کی اس کا شمار ان افراد میں نہیں جنہوں نے عطاء کا دماغ خراب ہونے سے پہلے سنا ہو معلوم ہوا عطاء کا دماغ خراب ہونے کے بعد ابو جعفر نے اس سے یہ روایت سنی اس کے علاوہ خود ابو جعفر کا بھی حافظہ خراب تھا مزی نے ائمہ اہل سنت سے اس امر کی تصریح نقل کی ہے:

قال عَبد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ (1) ، عَن أَبِيهِ: ليس بقوي فِي الحديث.

وَقَال عَمْرو بن علي (5) : فِيهِ ضعف، وهو من أهل الصدق، سيئ الحفظ

وَقَال أَبُو زُرْعَة (6) : شيخ يهم كثيرا.

وَقَال زكريا بن يحيى الساجي (8) : صدوق ليس بمتقن.

وَقَال النَّسَائي (9) : ليس بالقوي.

(1) العلل: 2 / 174.

(5) تاريخ بغداد: 11 / 147.

(6) سؤالات البرذعي: 2 / 443.

(8) تاريخ بغداد: 11 / 147.

(9) سنن النَّسَائي: 3 / 258.

احمد بن حنبل نے کہا وہ حدیث میں قوی نہیں ہے، فلاس نے کہا وہ ضعیف ہے سچا ہے مگر برے حافظہ والا ہے، ابو زرعہ نے کہا بہت زیادہ وہم کرنے والا ہے ،ساجی نے کہا صدوق ہے مگر متقن نہیں، نسائی نے کہا قوی نہیں۔

تهذيب الكمال ج 33 ص 195

http://lib.efatwa.ir/40342/33/194/%D8%A3%D9%8E%D8%A8%D9%90%D9%8A%D9%87%D9%90

http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3264_%D8%AA%D9%87%D8%B0%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%83%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B2%D9%8A-%D8%AC-%D9%A2%D9%A4/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_201

دوسرا راوی حماد ہے:

مگر مشخص نہیں کون سا حماد ہے جو روایت کر رہا ہے، کیونکہ عطاء بن سائب سے دونوں حماد، یعنی حماد بن زید اور حماد بن سلمہ دونوں نے روایت کی ہے جیسا کہ ذہبی نے تصریح کی ہے عطاء کے حالات میں لکھتا ہے:

حَدَّثَ عَنْهُ: إِسْمَاعِيْلُ بنُ أَبِي خالد -وهو من طبقته- والثوري, وابن جريح, وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ, وَرَوْحُ بنُ القَاسِمِ, وَالحَمَّادَانِ

سیر اعلام النبلاء ج 6 ص 110

اسی طرح حجاج بن منہال بھی  دونوں حماد سے روایت کرتا ہے ذہبی نے حجاج کے حالات میں تصریح کی ہے:

حَدَّثَ عَنْ: قُرَّةَ بنِ خَالِدٍ، وَشُعْبَةَ، وَجُوَيْرِيَةَ بنِ أَسْمَاءَ، وَهَمَّامِ بنِ يَحْيَى، وَيَزِيْدَ بنِ إِبْرَاهِيْمَ التُّسْتَرِيِّ، وَالحَمَّادَيْنِ

سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 353

ابن حجر نے اس امر کی تصریح کر دی ہے کہ حماد بن سلمہ نے عطاء کا دماغ خراب ہونے کے بعد بھی اس سے روایت لیں، ثانیا طبری کی سند میں مجہول راوی بھی ہے.

تیسرا راوی سفیان ثوری ہے:

ابو داؤد کی سند میں عطاء سے روایت کرنے والا سفیان ہے عطاء کے حالات میں ملاحظہ فرمایا کہ سفیان نے عطاء کا دماغ خراب ہونے کے بعد بھی اس سے روایات لیں مزید یہ کہ سفیان ثوری بدترین تدلیس (تدلیس تسویہ ) کا مرتکب تھا  (تدلیس تسویہ کی مختصر تعریف یہ ہے کہ مدلس سند کو اچھا بنانے کے لیے اس میں سے ضعیف یا کم سن  راوی کو نکال دے چاہے وہ ضعیف اس کا استاد ہو یا کوئی اور )۔

خطیب بغدادی نے سفیان کا شمار ان افراد میں کیا ہے جو تدلیس تسویہ کے مرتکب تھے لکھتا ہے:

وَرُبَّمَا لَمْ يُسْقِطِ الْمُدَلِّسُ اسْمَ شَيْخِهِ الَّذِي حَدَّثَهُ لَكِنَّهُ يُسْقِطُ مِمَّنْ بَعْدَهُ فِي الْإِسْنَادِ رَجُلًا يَكُونُ ضَعِيفًا فِي الرِّوَايَةِ أَوْ صَغِيرَ السِّنِّ وَيَحْسُنُ الْحَدِيثُ بِذَلِكَ وَكَانَ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ , وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , وَبَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ يَفْعَلُونَ مِثْلَ هَذَا “

اور کبھی مدلس اپنے شیخ کا نام تو نہیں نکالتا جس سے روایت کرتا ہے بلکہ اس کا نام نکال دیتا ہے جس سے شیخ نے سنا ہو اس کے ضعیف یا کم سن ہونے کے سبب تاکہ اس کی حدیث اچھی بن جائے، اعمش، سفیان ثوری اور بقیہ بن ولید ایسی ہی تدلیس کرتے تھے۔

http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/2158_%D8%A7%D9%84%D9%83%D9%81%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_394

پھر سفیان کی تدلیس کی مثال نقل کرتا ہے:

أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسي الصيرفي ثنا محمد بن يعقوب الأصم قال لنا العباس بن محمد الدوري قال لنا قبيصة قال لنا سفيان الثوري يوماً حديثاً ترك فيه رجلاً، فقيل له: يا أبا عبدالله فيه رجل؟ قال: هذا أسهل الطريق

قبیصہ نے کہا کہ ایک روز  ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی تو( سند میں )ایک آدمی نکال دیا تو اس سے کہا گیا اے ابا عبداللہ اس میں تو ایک آدمی ہے؟ تو کہنے لگا یہ راستہ آسان ہے ۔

الكفيلة  في  علم  الرواية ج 2 ص 390

http://www.shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/2158_%D8%A7%D9%84%D9%83%D9%81%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D9%8A%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%BA%D8%AF%D8%A7%D8%AF%D9%8A/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_394

علماء اہل سنت نے تدلس تسویہ کو حرام کہا ہے اور اس کے مرتکب کو دھوکے باز، خائن وغیرہ کہا ہے ،لھٰذا تدلیس تسویہ کرنے والے کی روایت تب تک مردود رہتی ہے جبتک وہ سند میں موجود ہر راوی کی اس کے استاد سے سماعت کی تصریح نہ کر دے اور سفیان کی سند میں ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ سند بھی مردود ہوئی.

خلاصہ یہ کہ روایت کو امیرالمومنین علیہ السلام سے منسوب کرنے والا ابو عبدالرحمن، دشمن امیرالمومنینؑ تھا یعنی جھوٹا  اور منافق تھا۔ اس سے روایت کرنے والا عطاء تھا جس کا دماغ خراب ہو گیا تھا ،معلوم نہیں اس نے یہ روایت ابو عبدالرحمن سے سنی یا کسی اور شخص سے، عطاء سے روایت کرنے والے تین راوی، ابوجعفر، حماد  اور سفیان ہیں جنہوں نے عطاء سے اس کا دماغ خراب ہونے کے بعد سنا نیز ابو جعفر کا خود بھی حافظہ خراب  تھا اسی طرح حماد بن سلمہ کا بھی آخر میں دماغ خراب ہو گیا تھا اور سفیان مدلس تھا۔

پس روایت سنداً باطل و مردود ہے اور قرآن کے خلاف ہے.

الله سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا (الأحزاب 33)  بیشک اللہ سبحانہ و تعالی  یہ چاہتا ہے کہ رجس ( ہر طرح کی ناپاکی )کو آپ اہل بیت سے دور کرے اور آپ کو ایسا پاک کرے کہ جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔

اس آیت کریمہ کی مصداق فقط پانچ بابرکت ہستیاں ہیں .

مسلم اپنی صحیح میں روایت کرتا ہے:

61 – (2424) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ – وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ – قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: ” {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] “

‌‌‌‏  عائشہ  سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں کالے بالوں کی، اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا، پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا، پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں ان کو بھی اندر کر لیا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا بعد اس کے فرمایا: ” «إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» (٣٣-الأحزاب: ۳۳) یعنی ”بیشک اللہ سبحانہ و تعالی  یہ چاہتا ہے کہ رجس ( ہر طرح کی ناپاکی )کو آپ اہل بیت سے دور کرے اور آپ کو ایسا پاک کرے کہ جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔

صحيح مسلم كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ 9. باب فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حديث 6261

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-muslim/hadees-no-29118.html

ترمذی نیز روایت کرتا ہے:

3787 – حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ.

وَفِي البَابِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.

وهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے «ربيب» (پروردہ) عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» بیشک اللہ سبحانہ و تعالی  یہ چاہتا ہے کہ رجس ( ہر طرح کی ناپاکی )کو آپ اہل بیت سے دور کرے اور آپ کو ایسا پاک کرے کہ جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔(الاحزاب: ۳۳)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی الله عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی رضی الله عنہ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپا لیا، پھر فرمایا: «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا» ”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان سے  ناپاکی کو دور رکھ   اور انہیں اچھی طرح پاک و پاکیزہ  رکھ “، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا: ”آپ  اپنی جگہ پر رہو  اور آپ   نیکی پر ہو۔

سنن ترمذي،كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم

32. باب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حديث 3787

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sunan-at-tirmidhi/hadees-no-20273.html

ملاحظہ فرمایا اللہ سبحانہ و تعالی نے اہل بیت علیہم السلام سے رجس کو دور رکھا ہے رجس ہر قسم کی پلیدی، گناہ، برائ کو کہتے ہیں البتہ قرآن کریم میں کچھ خاص اشیا کو نام بنام رجس کہا ہے، ان میں ایک شراب بھی ہے ارشاد باری تعالٰی ہے.

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِـرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (المائدة 90)

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب رجس ہیں جو  شیطان کے  کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔

کوی ناصبی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ آیت تطہیر کے نزول سے پہلے تو اہل بیت علیہم السلام سے رجس دور نہیں ہوگا کیونکہ آیت میں لفظ یرید حال و مستقبل پر دلالت کرتا ہے نہ کہ ماضی پر تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارادہ تکوینی ہے نہ کہ تشریعی، تکوینی و تشریعی کی مختصر تعریف یہ ہے کہ موجودات کو وجود میں لانے یا ان کی سرنوشت  کے حوالے سے اللہ سبحانہ و تعالی  کے ارادے کو ارادہ تکوینی جبکہ اس کے مقابلے میں واجب، مستحب، حرام یا مکروہ جیسے اعمال کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالی  کے ارادے کو ارادہ تشریعی کہا جاتا ہے۔ (جیسے کہ اللہ سبحانہ و تعالی چاہتا ہے انسان سعادتمند ہو کفر نہ کرے شرک نہ  کریے انبیاء اور روز قیامت کا انکار نہیں کرے گناہوں سے بچے )۔

تکوینی و تشریعی ارادوں کی بعض مثالیں قرآن کریم سے پیش کرتے ہیں :

وَلَا يَحْزُنْكَ الَّـذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِى الْكُفْرِ ۚ اِنَّـهُـمْ لَنْ يَّضُرُّوا اللّـٰهَ شَيْئًا ۗ يُرِيْدُ اللّـٰهُ اَلَّا يَجْعَلَ لَـهُـمْ حَظًّا فِى الْاٰخِرَةِ ۖ وَلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ (آل عمران 176)

اور وہ لوگ آپ کو غم میں نہ ڈال دیں جو کفر کی طرف دوڑتے ہیں، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے، اللہ ارادہ کرتا ہے کہ آخرت میں انہیں کوئی حصہ نہ دے، اوران کے لیے بڑا عذاب ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارادہ تکوینی ہے (یعنی اللہ سبحانہ تعالی کا حتمی اور ہمیشہ سے کفار کے متعلق یہی ارادہ ہے کہ وہ جہنمی ہیں)، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے کافر بھی جنت میں جا سکتے تھے بلکہ اس آیت نے اللہ سبحانہ و تعالی کے ارادے کی خبر دی ہے ۔

يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَـهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُـوْبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِيْـمٌ حَكِـيْـمٌ (النساء 26)

اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (قوانین) بیان کرے اور تمہیں پہلوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارادہ تشریعی ہے وہ چاہتا ہے انسان اپنے سعادت کے راستے پر چلیں تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی ان کی توبہ قبول کرے ،مگر یہاں انسان کو اختیار ہے چاہے ہدایت کی راہ پر چلے یا گمراہی کی ۔

آیت تطہیر میں اللہ سبحانہ و تعالی کے ارادئے تکوینی ہونے کی بہترین دلیل خود قرآن مجید ہے ارشاد باری تعالٰی ہے

ۚ مَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُـتِـمَّ نِعْمَتَهٝ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ (المائدة 6)

 اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تاکہ اپنا احسان تم پر پورا کرے تاکہ تم شکر کرو۔

اس آیت کریمہ میں بھی اللہ سبحانہ و تعالی مومنین کو پاک کرنا چاہتا ہے، یہ اردہ عمومی ہے، جس میں تمام مومنین شامل ہیں جبکہ آیت تطہیر میں طہارت خاص اہل بیت علیہم السلام کے لیے ہے کیونکہ آیت کی ابتداء میں لفظ( انما) آیا ہے ،لفظ انّما کا آیت کی ابتدا میں ہونا یہ اس آیت کے معنی و مفہوم کو محدود و محصور کرتا ہے، چنانچہ اگر آیت تطہیر میں بھی ارادہ تشریعی تصویر کیا جائے تو قرآن مجید میں تناقض لازم آتا ہے جو محال ہے ۔

سبحان اللہ جن کی پاکیزگی و کمال طہارت کی گواہی دے، جن کی پرورش آغوش مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ہوی ہو ان پر منافقین شراب نوشی کا اتہام لگاکر اپنے منکرِ قرآن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

جو واقعی شرابی تھے ان کے ناموں کی حد درجہ پرده‌پوشی کرتے ہیں:

چنانچہ بخاری نے انس سے روایت کی ہے:

5582 – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” كُنْتُ أَسْقِي أَبَا عُبَيْدَةَ وَأَبَا طَلْحَةَ وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، مِنْ فَضِيخِ زَهْوٍ وَتَمْرٍ، فَجَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ: إِنَّ الخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: قُمْ يَا أَنَسُ فَأَهْرِقْهَا، فَأَهْرَقْتُهَا “

 انس بن مالک  نے بیان کیا کہ میں ابوعبیدہ، ابوطلحہ اور ابی بن کعب  کو کچی اور پکی کھجور سے تیار کی ہوئی شراب پلا رہا تھا کہ ایک آنے والے نے آ کر بتایا کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ اس وقت ابوطلحہ  نے کہا کہ انس اٹھ اور شراب کو بہا دے چنانچہ میں نے اسے بہا دیا.

صحيح البخاري،كِتَاب الْأَشْرِبَةِ،3. بَابُ نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ وَهْيَ مِنَ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ،حدیث 5582

https://www.urdupoint.com/islam/hadees-detail/sahih-bukhari/hadees-no-32468.html

بخاری نے روایت میں ابوبکر و عمر کا نام حذف کر دیا:

ابن حجر اس روایت کی شرح میں لکھتا ہے :

مَا أَوْرَدَهُ بن مَرْدَوَيْهِ فِي تَفْسِيرِهِ مِنْ طَرِيقِ عِيسَى بْنِ طَهْمَانَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانَا فِيهِمْ وَهُوَ مُنْكَرٌ مَعَ نَظَافَةِ سَنَدِهِ وَمَا أَظُنُّهُ إِلَّا غَلَطًا وَقَدْ أَخْرَجَ أَبُو نُعَيْمٍ فِي الْحِلْيَةِ فِي تَرْجَمَةِ شُعْبَةَ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ الْخَمْرَ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمْ يَشْرَبْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَيَحْتَمِلُ إِنْ كَانَ مَحْفُوظًا أَنْ يَكُونَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ زَارَا أَبَا طَلْحَةَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَمْ يَشْرَبَا مَعَهُم

ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں عیسی بن طہمان کے واسطہ سے انس سے روایت کیا ہے کہ ابو بکر و عمر بھی اس شراب نوشی میں شامل تھے۔(پھر ابن حجر اپنا تبصرہ نقل کرتا ہے)

 مگر  صاف ستھری سند ہونے کے باوجود یہ منکر ہے میں گمان کرتا ہوں کہ اس میں غلطی ہوئی ہے، اور ابو نعیم نے حلیہ میں شعبہ کے حالات میں عائشہ کی حدیث بیان کی ہے کہ عائشہ نے کہا کہ ابوبکر نے اپنے اوپر شراب کو حرام کر لیا تھا نہ کبھی جاہلیت میں پی اور نہ اسلام لانے کے بعد۔

اور یہ بھی احتمال ہے شاید وہ دونوں ابو طلحہ کی ملاقات کو آئے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ شراب نہ پی ہو۔

فتح الباري شرح صحيح البخاري ،كتاب الأشربة ،باب نزل تحريم الخمر وهي من البسر والتمر ،ج 10 ص40/41

ابن حجر نے خود اعتراف کیا ہے کہ ابن مردویہ کے سند صاف ستھری ہے

البتہ ابن حجر نے ابو نعیم کی جس روایت سے اسے رد کرنے کی ناکام کوشش کی  وہ  اس لائق نہیں کہ اس سے احتجاج کیا جا سکے ،مگر ابن حجر کی طرح دیگر نواصب بھی اس روایت کو ابوبکر کی فضیلت میں نقل کر کے اس حدیث سے احتجاج کرتے ہیں، بطور مثال غلام مصطفی ظہیر امن پوری ناصبی نے بھی اس روایت کو ابوبکر کی فضیلت میں نقل کر کے حسن کہا.

حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ، الْخَمْرَةَ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمْ يَشْرَبْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلَا إِسْلَامٍ

”سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبھی شراب نہیں پی، جاہلیت میں نہ اسلام میں، انہوں نے خود پر اسے حرام قرار دے رکھا تھا۔”

(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم اصبہانی : 7/160، وسندہ حسن)

https://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B5%D8%AF%DB%8C%D9%82-%D9%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%88%D9%82-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%B1%D8%A7%D8%A8.36127/

مگر حسن تو کجا یہ روایت ضعیف بھی نہیں بلکہ جھوٹی ہے مکمل سند و متن ملاحظہ فرمائیں :

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْآجُرِّيُّ، وَأَبُو إِسْحَاقَ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَا: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ، ثنا عَبَّادُ بْنُ زِيَادٍ السَّاجِيُّ، ثنا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: ” حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ، الْخَمْرَةَ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمْ يَشْرَبْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلَا إِسْلَامٍ

عائشہ نے کہا کہ ابوبکر نے اپنے اوپر شراب کو حرام کر لیا تھا نہ کبھی جاہلیت میں پی اور نہ اسلام میں۔

حلية الأولياء ج 7 ص 160

سند میں کذاب و مجہول راوی ہیں مگر ان تمام عیوب سے چشم پوشی کرتے ہوئے  فقط  ایک خامی کا ذکر کرتے ہیں جس سے روایت کا بطلان واضح ہو جاتا ہے ۔

اگر ابن ابی داؤد کا استاد عباد بن زیاد اسدی ہے تو اس کی توثیق کسی سے ثابت نہیں البتہ عباد بن زیاد نے اس کی احادیث کو ترک کر دیا تھا جیسا کہ ابن عدی نے ذکر کیا ہے :

1182- عَباد بن زياد، كوفي، وقِيلَ: عَبَادة بن زياد الأسدي.

سمعت إبراهيم بن مُحَمد بن عيسى يقول: سَمعتُ موسى بن هارون الحمال يقول عَبَادة بن زِياد الكوفي تركت حديثه.

 الكامل في ضعفاء الرجال ج 5 ص 560

http://www.taraajem.com/persons/117535

اور اگر وہ عبادة بن زياد الأسدي ہے تو ابن ابی داؤد سے اس کی روایات منقطع ہیں، ذہبی و ابن حجر نے عباد و عبادہ کے حالات خلط کر دیے ہیں ان دونوں کو ایک ہی شخص سمجھ لیا ہے جبکہ ابن ابی  حاتم نے عبادہ بن زیاد نام سے اس کے حالات نقل کئے ہیں اور ابن عدی نے عباد بن زیاد نام سے ذہبی و ابن حجر نے ان دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا عبادہ کی وفات ذہبی و ابن حجر نے 231  ہجری ذکر کیا ہے۔

تُوُفّي سنة إحدى وثلاثين بالكوفة.

تاريخ الإسلام ج 5 ص844

https://al-maktaba.org/book/31912/8834

مات بالكوفة سنة إحدى وثلاثين ومائتين، وبعضهم سماه عبادا.

میزان الاعتدال ج 2 ص 381

http://shiaonlinelibrary.com/%D8%A7%D9%84%D9%83%D8%AA%D8%A8/3307_%D9%85%D9%8A%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%AF%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B0%D9%87%D8%A8%D9%8A-%D8%AC-%D9%A2/%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%81%D8%AD%D8%A9_381

مات بالكوفة سنة إحدى وثلاثين ومائتين وبعضهم سماه عبادا.

لسان  الميزان ج 2 ص 16

http://islamport.com/d/1/trj/1/189/4050.html

جبکہ ابن ابی داؤد کا سنہ ولادت 230 ہجری ہے جیسا کہ ذہبی نے ذکر کیا ہے.

ولد بسجستان في سنة ثلاثين ومائتين .

سیر اعلام النبلاء ج 13 ص222

کیا ایک سال سے کم عمر کا بچہ روایت سن کر محفوظ رکھ سکتا ہے؟

پس تسلیم کرنا ہوگا کہ عباد بن زیاد ساجی کوئی مجہول شخص ہے لہذا روایت جھوٹی اور مردود ہے ۔

ابو نعیم نے اپنی دوسری کتاب معروفہ الصحابہ میں اس مضمون کی چند روایات مزید نقل کی ہیں ان کی بھی حالت بیان کر دیتے ہیں تاکہ کسی کو کلام کا موقع نہ ملے اور حجت تمام ہو جائے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بِسْطَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، مُحَمَّدٌ، قَالَ: ثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْخَمْرَ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمْ يَشْرَبْهَا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ

عائشہ نے کہا کہ ابوبکر نے اپنے اوپر شراب کو حرام کر لیا تھا نہ کبھی جاہلیت میں پی اور نہ اسلام میں۔

https://al-maktaba.org/book/10490/128#p

یہ روایت جھوٹی ہے اس کی سند میں مجہول افراد موجود ہیں:

محمد بن احمد بن بسطام، اور اس کے باپ کی توثیق درکار ہے۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ يَحْيَى بْنِ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَقَدْ حَرَّمَ أَبُو بَكْرٍ الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ

عائشہ نے کہا کہ ابوبکر نے شراب کو جاہلیت میں ہی  (اپنے اوپر )حرام کر لیا تھا۔

https://al-maktaba.org/book/10490/127

یہ روایت بھی جھوٹی ہے سند میں راوی عبدالملک بن یحیی بن بکیر مجہول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَاصِمٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ، ثَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، ثَنَا أَبُو الْتُقَى، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَاللهِ لَقَدْ تَرَكَ أَبُو بَكْرٍ شُرْبَ الْخَمْرِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.

عائشہ نے کہا کہ ابوبکر نے جاہلیت میں ہی شراب کو چھوڑ  دیا تھا۔

https://almaktaba.org/book/10490/126#p1

یہ روایت بھی جھوٹی ہے سند میں ابو تقی عبد الحميد بن إبراهيم ہے، جس پر ائمہ نواصب نے سخت جرح کی ہیں۔

ابو حاتم نے کہا: ليس هذا عندي بشئ رجل لا يحفظ وليس عنده كتب

وہ میرے نزدیک کچھ بھی نہیں نہ تو  حفظ  کر پاتا  اور نہ اس کے پاس کتابیں تھیں  (کہ ان سے دیکھکر نقل کرتا )

الجرح والتعديل ج 6 ص 8

https://al-maktaba.org/book/2170/2513

ذہبی لکھتا ہے: روى له النسائي حديثا واحدا متابعة، وقال: ليس بشيء

نسائی نے اس سے ایک روایت متابعت میں لی اور کہا وہ کچھ بھی نہیں تھا

تاریخ الاسلام ج 5 ص367

https://al-maktaba.org/book/31912/7772

حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثَنَا جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سِنَانٍ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، ثَنَا الْفَرَجُ بْنُ عَبَّادٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: ” سُئِلَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ فِي مَجْمَعٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ شَرِبْتَ خَمْرًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: أَعُوذُ بِاللهِ، قَالُوا: وَلِمَ ذَاكَ؟ فَقَالَ: كُنْتُ أَصُونُ عِرْضِي وَأَحْفَظُ مُرُوءَتِي، لِأَنَّهُ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ كَانَ لِعِرْضِهِ وَمُرُوءَتِهِ مُضَيِّعًا، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، صَدَقَ أَبُو بَكْرٍ

ابو العالیہ ریاحی نے روایت  کیا ہے کہ مجمعِ اصحاب میں  ابوبکر سے دریافت کیا گیا کہ تونے   زمانہ جاہلیت میں کبھی شراب پی ہے ؟کہا  : پناہ بخدا ، اس پر کہاگیا : یہ کیوں ؟ کہا  : میں اپنی مُرَوَّت و آبرو کی حفاظت کرتا تھا اور شراب پینے والے کی مروت و آبرو برباد ہوجاتی ہے۔ یہ خبر نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کوپہنچی تو فرمایا  ابو بکر نے سچ کہا ابوبکر نے سچ کہا ۔

یہ روایت بھی جھوٹی ہے سند میں احمد بن ابی حمید اور فرج بن عباد دونوں مجہول ہیں بلکہ ابو عالیہ کی ابو بکر سے روایت غیر محفوظ ہے جیسا کہ ابو حاتم نے کہا :

روى عن أبي بكر رضي الله عنه، وهو غير محفوظ

الجرح والتعديل ج 3 ص510

https://al-maktaba.org/book/2170/1469

پس ابوبکر کی شراب سے دوری کے متعلق تمام روایات جھوٹی ثابت ہوئیں

ہم نے سہل انگیزی سے کام لیا اور اسناد کی سب خامیاں ذکر نہیں کیں اگر سب کا ذکر کیا جاتا تو مضمون کافی طولانی ہو جاتا لہذا اختصار کے سبب انہیں پر  اکتفا کرتے ہیں.

.

.

کیا حضرت علیؑ نے نشئے کی حالت میں نماز پڑھائی