رسول اللہ ص نے فرمایا جو اسامہ بن زید کے پیچھے جنگ موتہ پر نا جاۓ اس پر اللہ ج کی لعنت
📕الملل و النحل ج 1 ص 30)(شرح مواقف ص 749
عائشہ کی روایت کے مطابق ابوبکر اور عمر جنگ میں نہیں گے
📕الباری شرح صیح بخاری ج 7 ص 87
.
جیشِ اُسامؓہ اور منا__فقین کا اعتراض
عبداللّہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺ اللّہ نے روم کیطرف ایک لشکر روانہ کیا اور اسامہ بن زیدؓ کو اسکا سرادر مقرر کیا( حالانکہ اس لشکر میں ابوبکر و عمر بھی شریک تھے)
لوگوں نے اسامہؓ کے سردار ہونے پر طعنہ مارا ، یہ سُن کر رسولﷺ اللّہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اگر تم اسامہؓ کی سرداری پر طعنہ مارتے ہو، اس سے پہلے تم اسکے باپ کی سرداری میں طعنہ کر چکے ہو اور قسم خدا کی وہ سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں سے مجھ کو پیارا تھا اسکے بعد اسکا بیٹا (اسامہ) سب لوگوں سے مجھکو پیارا ہے۔
حضرت ابوبکر کے دور میں حضرت عمر نے کہا انصار کہتے ہیں اسامہؓ کی جگہ کسی اور کو سردار مقرر کیجیے، حضرت ابوبکر نے عمر کی داڑھی پکڑ لی اور کہا اے عمر تیری ماں تجھکو کھو بیٹھے جس شخص کو رسولﷺ اللّہ نے اس منصب پر مقرر فرمایا تم مجھ سے کہتے ہو اسکو ہٹا دوں۔
رسولﷺ اللّہ نے فرمایا: جیش اسامہؓ سے اختلاف کرنے والے پر اللّہ کی ل ع ن ت ہو
جب حضورؐ وفات پاگئے حضرت ابوبکر نے اسامہؓ سے حضرت عمر کی رہائی کی اجازت لی تو حضرت اسامہؓ نے اجازت دے دی,
حضرت ابوبکر نے اعلان کیا کہ جو شخص رسولﷺ اللّہ کے حکم کیمطابق لشکر اسامہؓ کا حصہ تھا وہ ساتھ جائے کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔
صحیح بخاری کتاب المغازی
البدایہ والنہایہ ابن کثیر
طبقات ابن سعد
الملل والنحل ابی بکر شہرستانی
تاریخ کامل
چند سوالات
رسولﷺ اللّہ کا بیماری(وفات) کے دنوں میں لشکر اسامہؓ( بشمول ابوبکر و عمر) کو روم( میلوں دور) روانہ کرنے کا کیا مقصد تھا
اگر ابوبکر لشکر اسامہؓ کا حصہ تھے تو امامت کروانے کیسے آگئے
اسامہؓ کی سرداری پر اعتراض کرنے والوں پر لانت کی گئی ہے تو اسکے باوجود حضرت عمر یہ اعتراض کیوں کررہے تھے
رسولﷺ اللّہ نے ابوبکر و عمر کو اسامہؓ کی سرداری میں روانہ کیا تو بعد میں یہ کیوں شامل نہ ہوئے:)














لشکر اسامہ اور کبار صحابہ کا ردعمل اور ان کے فضائل و مناقب کی حقیقت
صحیح بخاری 3730
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمَارَتِهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنْ تَطْعُنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعُنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کی آخری فوجی مہم پر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت ابوعبیدہ، حضرت سعد جیسے جلیل القدر اصحاب پر مشتمل ایک اسلامی لشکر ترتیب دیا۔ اور ان کا امیر سترہ سالہ حضرت اسامہ بن زید رض کو بنایا اور اس کو ملک روم کی فوجی مہم کے لیے روانہ فرمایا ۔
مگر اس لشکر کےاصحاب کچھ فاصلے سے واپس آ گئے ۔انھوں نے اپنے امیر کی نافرمانی تو کی ہی مگر ساتھ ہی اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی بھی کی۔
اف کیسا تاریخ کا کڑوہ سچ ہے۔
آپ مولا علی علیہ السلام و آہل بیت رسول ع سے ان اصحاب کا مقابلہ کر رہے ہیں ؟
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے غلام کے بیٹے کو اپنے آخری وقت میں ان کا امیر و سردار بنا دیا ۔
اس سے آگے کیا بات رہ جاتی ہے؟؟ ۔
جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہ کی یہ نافرمانی بتائی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے کچھ مسجد نبوی میں موجود ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف لے گئے جیسا کہ بخاری نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ابن عمر کہتے ہیں ،” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ کو لوگوں (صحابہ) کا سردار مقرر کیا۔ انہوں نے اس تقرری پراعتراض کیا جس پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ،تم اس کی سرداری پر اعتراض کر رہے ہو حالانکہ تم اس کے باپ کی سرداری پر بھی معترض تھے ۔
اللہ کی قسم اسکا باپ اس منصب کے قابل تھا اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھا اور یہ اس کا بیٹا ہے جس کو میں اس کے باپ کے بعد سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔ پھر آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جلدی سے نکلنے کی ایک بار پھر تاکید فرمائی، مگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تاکیدی و تنبیہی حکم کے باوجود وہ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے۔ اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
(انا للہ و انا الیہ راجعون)
ابن حجر العسقلاني – فتح الباري شرح صحيح البخاري – كتاب المغازي
باب بعث النبي (ص) أسامة بن زيد (ص) في مرضه الذي توفي فيه
الجزء : ( 8 ) – رقم الصفحة : ( 152 )
[ النص طويل لذا استقطع منه موضع الشاهد ]
– قوله : ( باب بعث النبي (ص) أسامة بن زيد في مرضه الذي توفي فيه ) : …. وكان ممن انتدب مع أسامة كبار المهاجرين والأنصار منهم أبوبكر و عمر ، وأبو عبيدة ، و سعد ، وسعيد ، وقتادة بن النعمان ، وسلمة بن أسلم فتكلم في ذلك قوم منهم عياش بن أبي ربيعة المخزومي فرد عليه عمر ، وأخبر النبي (ص) فخطب بما ذكر في هذا الحديث.

