سید مرتضیٰ علم الھدی فرماتے ہیں :
مسئلہ : اگر کوئی کہے اس آیت میں رسول ص کی طرف خطاب ہے کہ [ ہم نے تجھے کو گمرا – ہ پایا پس ہدایت دی ] تو کیا اس آیت میں ضال سے ضال فی الدین مراد نہیں ہے ؟ اور یہ بات تمہارے ہاں نا نبوت سے پہلے جائز ہے اور نا بعد میں ۔
جواب :
پہلا جواب : اللہ کی مراد ادھر یہ ہو کہ ہم نے آپ ص کو نبوت سے ضال ( بے خبر) پایا تو اس کی طرف ہدایت کی یا اس شریعت سے ناواقف تھے جو آپ ص پر نازل ہوئی خلقت کی طرف اسکے پہنچانے کا حکم آپ ص کو نہ ہوا تھا۔ اس آیت میں اللہ اپنا احسان جتلانا ہے اور کوئی شخص یہ اعتراض نہیں کرسکتا ہے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے ادھر اس کا ذکر ضروری ہے جسکی طرف ضلال کو منسوب کیا جائے ۔ اس کے لیے معنی جانا اور پھرنا ہیں ۔پس اس چیز کا ہونا ضروری ہے جس سے پھرنا وقوع میں آئے ۔
دوسرا جواب : اس آیت میں سے یہ مراد ہوسکتا ہے کہ حضرت رسول ص معیشت و کسب معاش کے طریقے سے ناواقف تھے ۔ اس کے حق میں کہا جاتا ہے ( ھوا ضال لایدری مایصنع ولا این جانب ) یعنی وہ بےخبر ہے اور نہیں جانتا کہ کیا کرے ۔ پس اللہ نے اپنے رسول ص پر احسان جتلایا کہ ہم نے آپ کو رزق دیا اور غنی کر دیا ۔
تیسرا جواب : اس سے مراد ہوسکتا ہے کہ اللہ نے آپ ص کو ہجرت کے وقت مکہ اور مدینہ کے مابین ( راستہ سے ) گمرا — ہ پایا اور ہدایت کر دی اور وہ کو محفوظ رکھا ۔ یہ تاویل نہایت ہی قریب الفہم تھی اگر یہ سورت مکی نہ ہوتی ۔ ہاں اگر اس قول وجدک کو سیجدک کے معنی میں لیا جائے جیسا کہ اہل عرب ماضی کو مستقبل کے معنی لے لیتے ہیں تو اس تاویل کی صحت کی صورت ہوسکتی ہے ۔
چوتھا جواب : اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے محمد ص تم قوم میں گمنام تھے ، پس اللہ نے اس قوم کو تمہاری معرفت کی طرف ہدایت کی اور تمہارے فضل و مراتب کی طرف ان کو راہنمائی کی ۔ اور اسکی مثال بھی اہل زبان میں موجود ہے ( فلاں ضال فی قومه و بین اہله ) یعنی جب کوئی جب ایک آدمی کے احباب اسکی قدر و منزلت سے ناواقف ہوں تو یہ محاورہ بولا جاتا ہے ۔
تنزیہ الانبیاء – سید مرتضیٰ علم الھدی – صفحہ 167

