حافظ ذھبی کی اھل بیت دشمنی

سارے راوی ثقہ مگر حدیث نہیں مانتے۔
حاکم نیشاپوری نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس اور انہوں نے امام علی سے روایت کی ہے کہ امام علی نے فرمایا:
حدثنا أبو الفضل محمد بن إبراهيم المزكي ثنا أحمد بن سلمة والحسين بن محمد القتباني وحدثني أبو الحسن أحمد بن الخضر الشافعي ثنا إبراهيم بن أبي طالب ومحمد بن إسحاق وحدثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن أمية القرشي بالساقة ثنا أحمد بن يحيى بن إسحاق الحلواني قالوا ثنا أبو الأزهر وقد حدثناه أبو علي المزكي عن أبي الأزهر قال ثنا عبد الرزاق أنبأ معمر عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن بن عباس رضي الله عنهما قال نظر النبي e إلي فقال يا علي أنت سيد في الدنيا سيد في الآخرة حبيبك حبيبي وحبيبي حبيب الله وعدوك عدوي وعدوي عدو الله والويل لمن أبغضك بعدي
نبی کریم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: یا علی! تم دنیا میں بھی سید ہو اور آخرت میں بھی سید ہو، تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھ سے محبت کرنے والا اللہ سے محبت کرتا ہے، تیر دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے۔ تباہی ہے اسکے لئے جس نے میرے بعد تجھ سے بغض رکھا۔
حدیث کو نقل کرنے کے بعد حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں:
صحيح على شرط الشيخين وأبو الأزهر بإجماعهم ثقة وإذا تفرد الثقة بحديث فهو على أصلهم صحيح سمعت أبا عبد الله القرشي يقول سمعت أحمد بن يحيى الحلواني يقول لما ورد أبو الأزهر من صنعاء وذاكر أهل بغداد بهذا الحديث أنكره يحيى بن معين فلما كان يوم مجلسه قال في آخر المجلس أين هذا الكذاب النيسابوري الذي يذكر عن عبد الرزاق هذا الحديث فقام أبو الأزهر فقال هوذا أنا فضحك يحيى بن معين من قوله وقيامه في المجلس فقربه وأدناه ثم قال له كيف حدثك عبد الرزاق بهذا ولم يحدث به غيرك فقال أعلم يا أبا زكريا أني قدمت صنعاء وعبد الرزاق غائب في قرية له بعيدة فخرجت إليه وأنا عليل فلما وصلت إليه سألني عن أمر خراسان فحدثته بها وكتبت عنه وانصرفت معه إلى صنعاء فلما ودعته قال لي قد وجب علي حقك فأنا أحدثك بحديث لم يسمعه مني غيرك فحدثني والله بهذا الحديث لفظا فصدقه يحيى بن معين واعتذر إليه
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ابوالازھر تمام علماء کے اجماع سے ثقہ ہے، اگر ثقہ ایک حدیث میں تفرُّد کرے تو علماء کے اصل کے مطابق وہ صحیح ہے، میں نے ابوعبداللہ قرشی کو کہتے ہوئے سناکہ میں نے احمد بن یحیی الحلوانی سے سنا وہ کہہ رہے تھے: جب ابوالازھر صنعاء سے آئے اور اہل بغداد کو یہ حدیث سنائی تو یحیی بن معین نے انکار کیا جب ایک دن ان کی مجلس ہورہی تھے تو یحیی بن معین نے مجلس کے آخر میں کہا: کدھر ہے وہ جھوٹا نیشاپوری جو عبدالرزاق سے یہ حدیث بیان کرتا ہے؟ ابوالازھر کھڑا ہوا اور کہا: وہ میں ہوں۔ یحیی بن معین اس کے قول اور مجلس میں کھڑے ہونے کی وجہ سے ہنسنے لگا اور اسے اپنے قریب کیا پھر کہا: کیسے تجھے عبدالرزاق نے یہ حدیث سنائی ہے جبکہ انہوں نے تمہارے علاوہ کسی اور کو یہ حدیث نہیں سنائی ہے؟ ابوالازھر نے کہا: اے ابوزکریا! میں جانتا ہوں، میں صنعاء گیا تو عبدالرزاق دور ایک گاؤں میں روپوش تھا، میں اس حالت میں کہ مریض تھا اس کے پاس گیا، جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس نے مجھ سے خراسان کی حالات کے بارے میں پوچھا اور میں نے انہیں بتایا اور ان سے روایات لکھی، جب میں صنعاء کی طرف ان سے رخصت ہونے لگا اور جب میں وداع کی تو انہوں نے مجھ سے کہا: میرے اوپر تمہارا ایک حق واجب ہے، میں تجھے ایک ایسی حدیث سناتا ہوں جو تیرے علاوہ کسی نے مجھ سے نہیں سنی ہے،اللہ کی قسم! عبدالرزاق نے مجھے یہی حدیث سنائی، یحی بن معین نے ابوالازھر کی تصدیق کی اور ان سے معذرت کی ۔
المستدرك على الصحيحين ج 3 ص 138، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405 هـ ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت – 1411هـ – 1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا
لیکن یہ حدیث جناب ذہبی کو ہضم نہ ہوئی اور اس نے کہا ہے: اگرچہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں مگر یہ منکر ہے بلکہ اس کا من گھڑت ہونا بعید نہیں۔
اس حدیث پر اہل سنت علماء پریشان ہوئے کیونکہ اس کے راوی ثقہ ہیں اور حدیث کا معنی اہل سنت علماء برداشت نہیں کرسکتے۔
تمام وہ لوگ جو اپنے آپ کو رسول اللہ کی سنت پر چلنے والے کہتے ہیں وہ اس رسول اللہ کی اس حدیث کو قبول کریں اور اس پر دل وجان سے ایمان لائیں۔
ولیعصر اردو