ائمہ علیہم السلام کا مختلف زبانوں میں کلام کرنا

تحریر: سید علی اصدق نقوی
کتب حدیث شیعہ میں ایسی متعدد احادیث ملتی ہیں جن میں بیان ہوا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام 72 زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض مرویات میں ان کا ہندی، روسی، فارسی، یہودی افراد وغیرہم سے ان کی زبان میں مکالمہ روایت ہوا ہے۔ البتہ بیشتر احادیث میں الفاظِ مکالمہ درج نہیں ہیں اور فقط اتنا بیان ہوا ہے کہ امام علیہ السلام نے فلاں شخص سے فلاں زبان میں کلام کیا ہے۔ بطورِ مثال مروی ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ قَالَ‌ كَانَ الرِّضَا (ع) يُكَلِّمُ النَّاسَ بِلُغَاتِهِمْ وَ كَانَ وَ اللَّهِ أَفْصَحَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَهُمْ بِكُلِّ لِسَانٍ وَ لُغَةٍ فَقُلْتُ لَهُ يَوْماً يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنِّي لَأَعْجَبُ مِنْ مَعْرِفَتِكَ بِهَذِهِ اللُّغَاتِ عَلَى اخْتِلَافِهَا فَقَالَ يَا أَبَا الصَّلْتِ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَتَّخِذَ حُجَّةً عَلَى قَوْمٍ وَ هُوَ لَا يَعْرِفُ لُغَاتِهِمْ أَوَمَا بَلَغَكَ قَوْلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) أُوتِينَا فَصْلَ الْخِطابِ‌ فَهَلْ فَصْلُ الْخِطَابِ إِلَّا مَعْرِفَةُ اللُّغَاتِ‌
ابو الصلت ہروی کہتے ہیں: امام رضا علیہ السلام لوگوں سے ان کی زبانوں میں بات کرتے تھے، اور بخدا وہ لوگوں میں سب سے فصیح تھے اور ان میں سے سب سے علم والے ہر زبان و لغت میں۔ تو میں نے ان سے ایک دن عرض کیا: اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میں آپ کی ان سب مختلف زبانوں پر عبور پر متعجب ہوں۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابا الصلت، میں اللہ کی حجت ہوں اس کی مخلوق پر، اور اللہ کے لیئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو حجت بنائے ایک قوم پر جبکہ وہ ان کی زبانوں کو نہ جانتا ہو۔ کیا تم تک امیر المؤمنین علیہ السلام کا قول نہیں پہنچا: ہمیں فصل الخطاب دیا گیا ہے۔ تو کیا فصل الخطاب بغیر زبانوں پر عبور کے ہو سکتا ہے؟ (1)
علامہ مجلسی قدس سرہ نے بحار میں اس امر پر مستقل باب قائم کیا ہے جس سے دیگر مرویات کے لیئے رجوع ممکن ہے (2)۔ اس تحقیق کا ہدف ہے کہ بعض ان روایات کو جمع کیا جائے جن میں ائمہ علیہم السلام نے مختلف زبانوں میں کلام کیا ہے اور ان روایات میں ان زبانوں کے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں، پھر ہم ان الفاظ کی مختصر شرح و تفصیل بیان کریں گے، باذن الہی۔
علامہ صفار قمی رضی اللہ عنہ نے روایت نقل کی ہے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ شَرِيفٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ‌ أَسْبَاطٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَامِعِيِّ قَالَ‌ قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّا نَأْكُلُ ذَبَائِحَ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا نَدْرِي يُسَمُّونَ عَلَيْهَا أَمْ لَا فَقَالَ إِذَا سَمِعْتَهُمْ قَدْ سَمُّوا فَكُلُوا أَتَدْرِي مَا يَقُولُونَ عَلَى ذَبَائِحِهِمْ فَقُلْتُ لَا فَقَرَأَ كَأَنَّهُ يُشْبِهُ يهودي [بِيَهُودِيٍّ «قَدْ هَذَّهَا» (كَذَا فِي الْمَتْنِ) ثُمَّ قَالَ بِهَذَا أُمِرُوا فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ نَكْتُبَهَا فَقَالَ اكْتُبْ «نوح إيوا أدينوا يلهيز مالحوا عَالم اشرسوا أو رضوا بنو يوسعه موسق دغال اسطحوا».
عامر بن علی جامعی کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! ہم اہل کتاب کا ذبیحہ کھائیں جبکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اس پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر تم ان کو سنو کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا ہے تو کھاؤ۔ کیا تم جانتے ہو وہ اپنے ذبیحے کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ تو امام علیہ السلام نے یہودی کے مشابہ پڑھا۔ پھر فرمایا: ان کو اس کا ہی حکم دیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم اسے لکھ لیں؟ تو انہوں نے فرمایا: لکھو: نوح إيوا أدينوا يلهيز مالحوا عَالم اشرسوا أو رضوا بنو يوسعه موسق دغال اسطحوا (3)۔
قلتُ: اہلِ اسلام میں اختلاف ہوا ہے کہ اہلِ کتاب کے ذبائح کھانا جائز ہے یا نہیں؟ تو عامہ میں سے جنہوں نے اس کو جائز کہا ہے انہوں نے آیت سے استدلال کیا ہے الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ… ‎﴿المائدة: ٥﴾‏ آج میں حلال کرتا ہوں تمہارے لیئے پاک چیزوں کو اور ان کا کھانا جن کو کتاب دی گئی ہے تمہارے لیئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیئے حلال ہے۔ پس فقہاءِ عامہ کہتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہلِ کتاب کا کھانا ہمارے لیئے حلال ہے اور اس عام لفظ میں ان کا گوشت بھی شامل ہے۔ مگر ہمارے ائمہ علیہم السلام کی تعلیم میں ان کا گوشت ہمارے لیئے حلال نہیں، چاہے وہ کتابی تسمیہ کرکے بھی ذبح کرکے، اور کہ اس آیت میں ان کے کھانے کے حلال ہونے سے مراد ہے کہ ان کا اناج اور دانے یعنی حبوب و غلات ہمارے لئے حلال ہیں نہ کہ گوشت مراد ہے جیسا کہ عامہ کا کہنا ہے (4)۔ اور چونکہ امامیہ کا موقف یہ ہے تو مذکورہ بالا حدیث اس سے مُعارض ہے کیونکہ اس میں ہے کہ اگر کتابی بوقت ذبح تسمیہ کرے تو وہ گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اس راوی یعنی عامر بن علی جامعی کے لیئے خاص رخصت ہو کیونکہ وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں اضطراری حالت ہو، کیونکہ طائفہ کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ رہی بات اس عبرانی عبارت کی جو آخرِ حدیث میں ہے تو جو کلمات آج عبرانی میں یہودی بوقت ذبح پڑھتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں:
בָּרוּךְ אַתָּה יהוה אֱלֹהֵינוּ מֶלֶךְ הָעוֹלָם אֲשֶׁר קִדְּשָׁנוּ בְּמִצְוֹתָיו וְצִוָּנוּ עַל הַשְּחִיטָה
(عبرانی بحروف عربی) بروخ اته يهوه الهينو ملخ هعولم اشر قدشنو بمضوتيو وضونو عل هشخوطه
اور اس کا ترجمہ اگر کیا جائے تو کچھ یوں ہے:
بابرکت ہے تو خداوند ہمارے خدا، بادشاۂِ عالم جس نے ہمیں مقدس کیا اپنے حکم سے اور ہمیں حکم دیا کہ ذبح کریں۔
اب جہاں تک دونوں عبارات میں مشابہت کی بات ہے، یعنی وہ عبارت جو حدیث میں ہے اور وہ عبارت جو آج کے یہودی کہتے ہیں، تو ممکن ہے کہ کاتب یا ناسخ نے سماعت اور کتابت میں خطا کی ہو یا یہ کہ اس دور کے یہودی اس کو اُس طرح پڑھتے ہوں جبکہ آج کے یہودی اس سے مختلف پڑھتے ہیں۔ البتہ جو الفاظ مشابہ ہیں وہ یہ ہیں: ۱) عبرانی میں کہا گیا أدينوا جو کہ אדוני ہے جس کا معنی ہمارا خداوند کے ہیں کیونکہ یہودی اسمِ جلالت یعنی نامِ خدا کو زبان پر نہیں لاتے۔ تو وہ “יהוה” یعنی یہوہ کی بجائے ادونائی کہتے ہیں یا “השם” یعنی “ہَشم” کہتے ہیں جس کا ترجمہ عربی میں “الإسم” ہے۔ پس کاتب نے یہ لفظ درست نقل کیا ہے۔ ۲) لفظِ “مالحوا” عبرانی میں “מלך” یعنی “ملخ” ہے جس کا معنی بادشاہ ہے اور یہودی آج بھی بوقت ذبح یہی کہتے ہیں۔ ۳) لفظ “عالم” عبرانی میں ”העולם” ہے جس کا معنی “عالم” یا “جہاں” کے ہیں اور یہودی یہ بھی اپنے ذبیحہ پر کہتے ہیں۔ ۴) حدیث میں منقول عبارت میں “اشرسوا” بظاہر عبرانی لفظ ”אשר” یعنی اشر سے ہے جس کا وہی معنی ہے جو عربی میں “الذي” کے ہیں۔ نیز امام علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں بِهَذَا أُمِرُوا یعنی انہیں اسی کا حکم ہوا ہے جبکہ ان کے تسمیہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہمیں خدا نے اس چیز کا حکم دیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ جو عبارت یہاں منقول ہے یہ عبارت اپنی جگہ درست ہے اور ممکن ہے کہ اس وقت عراقی یہودی کچھ اختلاف کے ساتھ اپنے ذبائح پر یہ پڑھتے ہوں۔ مگر اس حدیث میں اس اعتبار سے اعجاز ہے کہ امام علیہ السلام نے عبرانی میں یہودیوں کے کیئے گئے تسمیہ کو ان ہی کی زبان میں بیان کیا ہے۔ اور یہ امر غرابت نہیں رکھتا کیونکہ جب امام مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو وہ بھی خدا کو اس کے عبرانی نام سے پکاریں گے جیسا کہ مروی ہے:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ بْنِ عُقْدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ اَلْحَسَنِ اَلتَّيْمُلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا اَلْحَسَنُ وَمُحَمَّدٌ اِبْنَا عَلِيِّ بْنِ يُوسُفَ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ اَلْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: إِذَا أُذِنَ اَلْإِمَامُ دَعَا اَللَّهَ بِاسْمِهِ اَلْعِبْرَانِيِّ…
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب امام علیہ السلام کو اجازت دی جائے گی تو وہ اللہ کو اس کے عبرانی نام میں پکاریں گے (5)۔
عبرانی عبارات کی کئی اور مثالیں بھی احادیث میں منشتر ہیں۔ بطور مثال، خدا کا ایک نام جو تورات میں آیا ہے اس کو بطور دواء اور اسمِ اعظم کے امام علیہ السلام نے یوں تعلیم فرمایا ہے:
بسم الله لا ملك اعظم من الله ملك وأنت له الخليفة ياهيا شراهيا اخرج الداء وانزل الشفاء وصلى الله على محمد وآل محمد وسلم تسليما.
بنام خدا، کوئی بادشاہ نہیں جو اللہ سے زیادہ عظیم ہو۔ اور آپ اس کے خلیفہ ہیں۔ ياهيا شراهيا! اس بیماری کو نکال دے اور شفاء نازل فرما، اور اللہ صلوات بھیجے محمد و آل محمد پر اور خوب سلام بھیجے (6)۔
پھر اس ہی روایت کے آخر میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
ياهيا شراهيا اسمان من اسماء الله تعالى بالعبرانية
“ياهيا شراهيا” عبرانی میں اللہ تعالی کے ناموں میں سے دو نام ہیں۔
ان ناموں کا منشا تورات کا فقرہ ہے۔ جب موسی علیہ السلام سے اللہ ہمکلام ہوا تو موسی علیہ السلام نے خداوند سے پوچھا کہ جب بنی اسرائیل کے پاس لوٹوں گا تو وہ تیرا نام پوچھیں گے، تو میں تجھے کس نام سے ان کے سامنے ذکر کروں؟ پس تورات میں آگے ہے:
וַיֹּאמֶר אֱלֹהִים אֶל-מֹשֶׁה, אֶהְיֶה אֲשֶׁר אֶהְיֶה; וַיֹּאמֶר, כֹּה תֹאמַר לִבְנֵי יִשְׂרָאֵל, אֶהְיֶה, שְׁלָחַנִי אֲלֵיכֶם.
اور خداوند نے موسی سے کہا: اهيه اشر اهيه (میں ہوں کہ میں ہوں)، اور کہا: ایسے ہی تم بنی اسرائیل سے کہو، مجھے “میں ہوں” نے تمہاری طرف بھیجا ہے (7)۔
پس الفاظ ياهيا شراهيا در حقیقت عبرانی میں ”אהיה אשר אהיה’” ہیں جہاں אהיה مشتق ہے היה سے جس کا معنی “ہونے” یا “ہستی” کے ہیں جبکہ אשר عبرانی میں اسماء موصولہ میں سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ مجلسی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بحار میں ان کلمات کے ساتھ امام علیہ السلام کی ایک اور دعاء نقل کی ہے، پھر لکھا ہے:
بيان: المضبوط في نسخ الدعاء آهيا شراهيا بمد الألف ثم الهاء المكسورة ثم الياء المشددة المنونة ثم الشين المفتوحة ثم الراء المهملة بعده الألف، ثم الهاء المكسورة ثم الياء المشددة المفتوحة، وفي القاموس وأهيا شراهيا بفتح الهمزة والشين يونانية أي الأزلي الذي لم يزل، والناس يغلطون ويقولون آهيا شراهيا، وهو خطأ على ما يزعمه أحبار اليهود انتهى.
بیان: دعاء کے نسخوں میں درج ہے “آهيا شراهيا”، الف مدہ کے ساتھ، پھر ہاء پر زیر کے ساتھ، پھر یاء پر شدّہ اور تنوین کے ساتھ، پھر شین پر زبر کے ساتھ پھر راء مہملہ سے جس کے بعد الف ہے، پھر ہاء کے نیچے زیر ہے، پھر یاء پر شدّہ اور زبر ہے۔ اور قاموس میں ہے “وأهيا شراهيا” ہمزہ اور شین پر زبر کے ساتھ۔ یہ یونانی زبان میں ہے اور اس کا مطلب ہے اے ازلی جو ہمیشہ سے ہے۔ اور لوگ غلطی کرتے ہیں اور کہتے ہیں: “آهيا شراهيا” جبکہ یہ خطا ہے یہودی احبار کے زعم کے مطابق، انتہی (8)۔
میں کہتا ہوں: قاموس میں املاء درست ہے اور لفظ پر الف مدہ نہیں ہے اور احبار کا قول درست ہے۔ البتہ یہ لفظ یونانی زبان کا نہیں بلکہ عبرانی زبان کا ہے جیسا کہ واضح ہے اور اس کے اشتقاق پر گفتگو گذر چکی ہے۔ اس نوعیت کی ادعیہ اس ہی عبرانی عبارت کے ساتھ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام علی علیہ السلام سے بھی منقول ہیں (9)، اور امام باقر علیہ السلام سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے دعاء میں فرمایا:
يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا دَيَّانُ يَا دَيَّانُ يَا اهيا شراهيا آذونا اصباوث ال شداى
اے زندہ اے قائم کرنے والے، اے فیصلہ کرنے والے! اے اهيا شراهيا، أذونا اصباوث ال شداى (10)۔
بظاہر یہاں لفظ آذونا در حقیقت אדוני ادونائی یعنی “میرے رب” کی ایک شکل ہے جبکہ لفظ “اصباوث” عبرانی لفظ צבאות سے ہے جو کہ خدا کا ایک نام ہے جبکہ “ال شداى” عبرانی میں אל שדי ہے جو کہ خدا کا ایک نام ہے اور اس کے معنی متعالی کے ہیں۔ خداوند کے متعلق عبرانی میں ایک کہاوت ہے:
אילו ידעתיו הייתיו
اگر میں اس (خدا) کو جانتا ہوتا تو میں وہی ہوتا۔
یعنی کہ خدا کا مکمل ادراک و احاطہ و معرفت صرف خدا کو ہی حاصل ہے اور خدا کے علاوہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے ذات الہی کا احاطہ کرلیا ہے اپنے علم سے۔ یہودی ربّی البو کہتے ہیں:
אי אפשר שישיג עצמותו שום נמצא זולתו, כמו שאמר החכם כששאלו אותו אם היה יודע מהות האל, והשיב אלו ידעתיו הייתיו, כלומר כי אין מי שישיג עצמותו אלא הוא יתברך עם היות מציאותו נגלית מצד מעשיו תכלית ההגלות
لہذا، کوئی اور ہستی خدا کی ذات کا ادراک نہیں کر سکتی، جیسا کہ حکیم نے کہا ہے جب اس سے پوچھا گیا کہ اس کو خدا کی ذات کا علم ہے؟ اس کا جواب تھا: اگر میں اس کو جانتا ہوتا تو میں وہی ہوتا۔ اس کا معنی ہے کہ خدا کی ذات کا ادراک سوائے خدا کی ذات کے کوئی نہیں کرتا، اگرچہ اس کی ذات سب کے لیئے بدیہی ہے اس کے افعال کے ذریعے سے (11)۔
پس عبرانی عبارت “אהיה אשר אהיה” یعنی کہ “میں ہوں جو میں ہوں” کی تشریح میں یہود و نصاری اور اہلِ اسلام کی بہت سی کتب میں بحث ہوئی ہے، مگر یہ اس کی تفصیل کی درست جگہ نہیں ہے۔ فقط اتنا کہنا کافی ہے کہ خدا کی حقیقت سے خود خدا ہی آگاہ ہے اور دیگران اس کا احاطہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ محال ہے۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام علی علیہ السلام، امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے عبرانی عبارات مروی ہیں اور کہ انہوں نے اس زبان میں متعدد مقامات پر کلام کیا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی ادعیہ مروی ہیں جن میں ان ہی امور کی طرف اشارہ ہے۔ برائے مثال، ایک روایت میں آتا ہے:
حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: رَأَيْتُ اَلْخَضِرَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي اَلْمَنَامِ قَبْلَ بَدْرٍ بِلَيْلَةٍ فَقُلْتُ لَهُ عَلِّمْنِي شَيْئاً أُنْصَرْ بِهِ عَلَى اَلْأَعْدَاءِ فَقَالَ قُلْ يَا هُوَ يَا مَنْ لاَ هُوَ إِلاَّ هُوَ
امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خضر علیہ السلام کو خواب میں بدر سے ایک رات قبل دیکھا تو میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ سکھائیے جس سے میں دشمنوں پر غالب آؤں۔ تو انہوں نے کہا: کہیئے: اے وہ، اے “وہ” جس کے سوا کوئی “وہ” نہیں (12)۔
أقول: خضر علیہ السلام کی زبان بظاہر عبرانی تھی، اور یہ دعاء بھی ممکن ہے کہ عبرانی میں کہی گئی ہو اور امام علی علیہ السلام نے اس کا ترجمہ عربی میں کیا ہو۔ لفظ “يَا هُوَ” جیسا کہ احادیث میں آتا ہے اور قرآن میں بھی جب “هو” کے طور پر آتا ہے، بعید نہیں کہ عبرانی “یہوہ” سے مشتق ہو جو کہ اسمِ جلالت ہے۔ مثالِ دیگر عبرانی زبان کی ہے کہ شیخ طوسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:
وقال أبو جعفر: إسماعيل أول من شق لسانه بالعربية، وكان أبوه يقول: وهما يبنيا البيت: – يا إسماعيل هابي ابن. اي اعطني حجرا…
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: اسماعیل پہلے تھے جن کی زبان سے عربی جاری ہوئی۔ ان کے والد (ابراہیم علیہ السلام) فرماتے جب وہ دونوں خانۂ کعبہ تعمیر کر رہے تھے: اے اسماعیل! هابي ابن، یعنی مجھے پتھر دو (13)۔۔۔
گفتم: لفظِ “هابي ابن” عبرانی ہے اور عبرانی میں אבן بمعنی حجر یا سنگ کے ہے۔ پس اس روایت میں بھی امام باقر علیہ السلام نے من و عن نبی اللہ ابراہیم علیہ السلام کے کلمات ذکر کیئے ہیں جو کہ عبرانی یا کسی اور سامی زبان میں تھے۔ دیگر سامی زبانوں میں آرامی، سریانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان زبانوں کی عبارات بھی بعض احادیث میں ذکر ہوئی ہیں، بطور مثال:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ‌ قَالَ لِبَعْضِ غِلْمَانِهِ فِي شَيْ‌ءٍ جَرَى لَئِنِ انْتَهَيْتَ وَإِلَّا ضَرَبْتُكَ ضَرْبَ الْحِمَارِ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَمَا ضَرْبُ الْحِمَارِ قَالَ إِنَّ نُوحاً (ع) لَمَّا دَخَلَ السَّفِينَةَ مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ‌ جَاءَ إِلَى الْحِمَارِ فَأَبَى أَنْ يَدْخُلَ فَأَخَذَ جَرِيدَةً مِنْ نَخْلٍ فَضَرَبَهُ ضَرْبَةً وَاحِدَةً وَقَالَ لَهُ عبسا شاطانا أَيْ ادْخُلْ يَا شَيْطَانُ.
امام صادق علیہ السلام نے اپنے کسی خادم سے کسی چیز کے بارے میں کہا: یا تو باز آجاؤ ورنہ میں تمہیں گدھے کی مار ماروں گا۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! گدھے کی مار کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: جب کشتی میں ہر جوڑے میں سے دو داخل ہوئے تو نوح علیہ السلام گدھے کے پاس آئے مگر اس نے داخل ہونے سے انکار کردیا۔ پس انہوں نے کھجور کے درخت کی ایک شاخ لی اور اس کو ایک بار مارا اور اس سے کہا: عبسا شاطانا، یعنی داخل ہو اے شیطان (14)!
میں کہتا ہوں: “عبسا شاطانا” بظاہر سریانی یا آرامی زبان سے ہے، عبس کا معنی رخ موڑنے کے بھی ہیں جیسا کہ عربی میں بھی اس کے یہی معنی ہیں اور آرامی میں اور ܐܒܥܣܐ “عبسا” اس ہی معنی میں ہے۔ نیز یہاں شاطانا آرامی و عبرانی میں שטן یعنی “ساطان” ہے اور اس کا معنی دشمن کے ہیں جس سے پھر لفظ شیطان آتا ہے اور سریانی زبان میں ܫܛܢܐ یعنی “شاطانا” کا تلفظ و معنی وہی ہے جو حدیث میں ہے۔ اس ہی طرح امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے:
وَإِنَّ نُوحاً عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ لَمَّا رَكِبَ اَلسَّفِينَةَ أَوْحَى اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يَا نُوحُ إِنْ خِفْتَ اَلْغَرَقَ فَهَلِّلْنِي أَلْفاً ثُمَّ سَلْنِي اَلنَّجَاةَ أُنَجِّكَ مِنَ اَلْغَرَقِ وَمَنْ آمَنَ مَعَكَ قَالَ فَلَمَّا اِسْتَوَى نُوحٌ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَمَنْ مَعَهُ فِي اَلسَّفِينَةِ وَرَفَعَ اَلْقَلْسَ عَصَفَتِ اَلرِّيحُ عَلَيْهِمْ فَلَمْ يَأْمَنْ نُوحٌ اَلْغَرَقَ فَأَعْجَلَتْهُ اَلرِّيحُ فَلَمْ يُدْرِكْ أَنْ يُهَلِّلَ أَلْفَ مَرَّةٍ فَقَالَ بِالسُّرْيَانِيَّةِ هلوليا أَلْفاً أَلْفاً يَا ماريا أتقن قَالَ فَاسْتَوَى اَلْقَلْسُ وَاِسْتَمَرَّتِ اَلسَّفِينَةُ فَقَالَ نُوحٌ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِنَّ كَلاَماً نَجَّانِيَ اَللَّهُ بِهِ مِنَ اَلْغَرَقِ لَحَقِيقٌ أَنْ لاَ يُفَارِقَنِي قَالَ فَنَقَشَ فِي خَاتَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ أَلْفَ مَرَّةٍ يَا رَبِّ أَصْلِحْنِي
جب نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو اللہ عز و جل نے ان کو وحی کی: اے نوح! اگر تمہیں ڈوبنے کا خوف ہے تو میری تہلیل ہزار مرتبہ کرو، پھر مجھ سے نجات مانگو تو میں تمہیں غرقآب ہونے سے بچا لوں گا اور جو بھی تمہارے ساتھ ایمان لایا ہوگا۔ تو جب نوح علیہ السلام اور جو ان کے ساتھ تھے کشتی میں سوار ہوگئے اور انہوں نے رسی اٹھا لی تو تیز آندھی ان پر چلی اور نوح علیہ السلام غرقآب ہونے سے امان میں نہ تھے۔ آندھی نے ان سے عجلت کروائی تو وہ ہزار مرتبہ تہلیل نہ کر سکے۔ انہوں نے سریانی میں کہا: هلوليا أَلْفاً أَلْفاً يَا ماريا أتقن۔ تو رسی سیدھی ہوگئی اور کشتی چلنے لگی۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا: یہ کلام جس سے خدا نے مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے سزاوار ہے کہ مجھ سے جدا نہ ہو۔ تو انہوں نے اپنی انگوٹھی پر نقش کروایا: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ أَلْفَ مَرَّةٍ يَا رَبِّ أَصْلِحْنِي، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، ہزار مرتبہ، اے میرے رب میری درستگی فرما (15)۔
أقول: سریانی زبان میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ هلوليا أَلْفاً أَلْفاً يَا ماريا أتقن ہیں۔ اور عبرانی میں هلوليا ہے הללויה جو کہ انگریزی میں Hallelujah کے طور پر مشہور ہے اور مسیحی حضرات اس کو ویسے ہی استعمال کرتے ہیں جیسے مسلمان جوش اور تسبیح الہی میں “الله أكبر” کہتے ہیں۔ یہاں پر سریانی عبارت میں هلوليا کا معنی ہے “پاکیزگی بیان کرو خدا کی” کیونکہ عبرانی میں הללו فعل امر ہے جمع کا جبکہ יה اسمِ جلالت ہے۔ یہ لفظ عبرانی تورات میں چند مقامات پر آیا ہے، اور عہدنامہ جدید میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ سریانی عبارت میں هلوليا کے علاوہ אלף یعنی الف ہے جو کہ عبرانی اور دیگر سامی زبانوں میں بھی ہزار کے معنی میں ہے جبکہ ماريا بظاہر آرامی زبان میں מרא سے مشتق ہے جس کے معنی “رب” کے ہیں اور “أتقن” بظاہر عبرانی תיקן سے ہے جس کے معنی اصلاح کرنے کے ہیں، اور عربی میں بھی الإتقان کا معنی ہے کسی چیز کی اصلاح یا پھر اس کو احسن انداز میں درست کرنا، اور اس کا استعمال قرآن میں بھی اس ہی معنی میں آتا ہے (16)۔ پس نوح علیہ السلام نے جو اپنی انگوٹھی پر منقوش کروایا وہ هلوليا أَلْفاً أَلْفاً يَا ماريا أتقن کا ترجمہ ہے جو کہ بعینہ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ أَلْفَ مَرَّةٍ يَا رَبِّ أَصْلِحْنِي۔ پس هلوليا کا معنی ہوا تہلیل بیان کرو اللہ کی اور تہلیل کا معنی ہوا “لا إله إلا الله” کہنا۔
امام رضا علیہ السلام کی فارسی میں گفتگو کرنے کی ایک مثال ہے جو بصائر الدرجات میں مروی ہے اور ایسی چند اور احادیث بھی ہیں جن میں ائمہ علیہم السلام نے فارسی میں گفتگو کی ہے:
فَسَقَطَتْ حَصَاةٌ فَقَالَ مَسْرُورٌ هشت فَقَالَ هشت ثَمَانِيَةٌ… قَالَ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ بار خدايا چون فَقُلْتُ لَهُ نيك يَا سَيِّدِي فمن [فَمَرَّ نَصْرٌ فَقَالَ لِمَسْرُورٍ در به بند در ببند…
پس کنکر گرا تو مسرور نے کہا: هشت؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: “هشت” یعنی آٹھ۔۔۔ پھر امام رضا علیہ السلام نے اس سے فارسی میں کہا: بار خدایا، کیسے؟ تو میں نے عرض کیا: نیک (یعنی صالح)، اے میرے آقا؟ تو نصر وہاں سے چلا گیا۔ امام رضا علیہ السلام نے (اپنے خادم) مسرور سے کہا: در به بند در ببند (دروازہ بند کرو، دروازہ بند کرو) (17)۔
اس روایت میں بھی چند فارسی کلمات مستعمل ہیں جیسے هشت، نیک، اور در ببند جو کہ عربی الفاظ نہیں۔ ایسی کئی اور مثالیں ہیں جہاں ائمہ علیہم السلام نے متعدد زبانوں پر اپنے عبور کو آشکار کیا ہے اور یہ اعجازِ امامت میں سے ہے جس سے باطل مدعیان امامت کے دعاوی و مزاعم کا ابطال لازم آتا ہے۔ خداوند کی جو بھی حجت ہوگی اگر وہ کسی خاص خطے میں مبعوث ہے تو اس قوم میں سب سے اشرف و افصح ہوگی اور اگر تمام خلائق کی طرف مبعوث ہے تو تمام خلائق میں سب سے اشرف و افصح ہوگی، جیسا کہ خداوند کا فرمانا ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ… ‎﴿ابراهيم: ٤﴾‏
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لیئے واضح کرے۔۔۔
پس جو تمام خلائق پر حجت ہو لازم آتا ہے کہ نہ صرف وہ تمام انسانی زبانوں پر عبور رکھتا ہو بلکہ تمام موجودات اور جانداروں کی زبان پر عبور رکھتا ہو چاہے وہ جن و انس میں سے ہوں یا حیوانات و نباتات و جمادات کی تسبیح و تقدیس و تہلیل ہو۔ تبھی مرویات میں یہ بھی آتا ہے کہ جیسے سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے “منطق الطير” یعنی پرندوں کی بولی سکھائی تھی (18) یا پھر ان کا چیونٹیوں کی زبان سمجھ جانا درج ہے (19) اس ہی طرح ائمہ علیہم السلام کو تمام حیوانات کی بولی سکھائی گئی ہے (20)۔
مآخذ:
(1) عيون أخبار الرضا، ج 2، ص 228
(2) بحار الأنوار، ج 26، ص 190 – 193، وراجع أيضا: مدينة المعاجز، ج 7، ص 124 – 125
(3) بصائر الدرجات، ص 354
(4) البرهان في تفسير القرآن، ج 2، ص 251 – 252، وأنظر أيضا: تحريم ذبائح أهل الكتاب للمفيد قدس سره
(5) الغيبة للنعماني، ص 106
(6) طب الأئمة، ص 24 – 25
(7) خروج، باب 3، فقرہ 14
(😎 بحار الأنوار، ج 88، ص 379
(9) إقبال الأعمال، ج 2، ص 52 و 160، مهج الدعوات، ص 17، البلد الأمين، ص 411، مكارم الأخلاق، ص 415
(10) مهج الدعوات، 17
(11) سفر هعيقريم (ספר העיקרים)، مامر (מאמר) 2 30
(12) التوحيد، ص 89
(13) التبيان، ج 1، ص 463
(14) بصائر الدرجات، ص 335
(15) الخصال، ص 335، الأمالي للصدوق، الرقم: 542، عيون أخبار الرضا، ج 2، ص 55
(16) ﴿النمل: ٨٨﴾‏
(17) بصائر الدرجات، ص 337
(18)‎ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ ‎﴿النمل: ١٦﴾‏
(19) حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ‎﴿النمل: ١٨﴾‏ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ‎﴿النمل: ١٩﴾‏
(20) بصائر الدرجات، ص 341 – 347