کیا عبداللہ ابن سبا شیعت کا بانی ھے ؟

(کیا عبداللہ ابن سبا شیعت کا بانی ھے ؟ رجال کشی کی روایت پر تفصیلی جواب )
☜ مذہب شیعہ اثنا عشریہ پر ابن سبا کے من گھڑت فسانے کو لیکر مدتوں سے یہ اعتراض جاری ھےکہ مذھب شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کا موجد ایک یہودی ابن سبا ھے اور اس روایت کو رجال کشی سے پیش کیا جاتا ھے
لعنت اللہ علی الکاذبین
تمام اہل علم جانتے ہیں عبداللہ ابن سبا سنی ماخوذات میں خود ایک مجہول شخص ھے اور کوئ اس شخص کو جانتا ہو تو ہمیں بتاۓ اس کا قبیلہ کونسا تھا کب پیدا ہوا کب مرا کب اسلام قبول کیا ؟
سب سے پہلے اس کو طبری نے سیف بن عمر تمیمی کی روایت سے بیان کیا ھے اور سیف بن عمر پر خود کذب کی جرح ھے اس کے بعد اس کو خثیمہ سے بیان کیا جاتا ھے جبکہ اس کی سند میں بھی علل موجود ہے اب دیکھنا یہ ھے کہ مذھب شیعہ عبداللہ ابن سبا سے ہی وجود میں آیا ھے یا کہ مذھب شیعہ پہلے ہی وجود میں آچکے تھے
بقول ابن خلدون
اگلے پچهلے فقہا اور اہل کلام کی اصطلاح میں اس لفظ شیعہ کا اطلاق علی ع اور ان کی اولاد کے پیروکاروں پر ہوتا ہے
مقدمہ ابن خلدون عربی ص192
شھر ستانی الملل والنحل میں لکھتے ہیں
شیعہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے خاص طور سے حضرت علی ؑ کی حمایت کی اور ان کی امامت و خلافت کے ازروۓ نص و وصیت قائل ہیں خواہ یہ نص و وصیت جلی تھی یا خفی ان کا اعتقاد ھے امامت و خلافت علی و اولاد علی ؑ سے باہر نہیں نکل سکتی
,الملل والنحل شھر ستانی اردو ص 217
قارئین محترم پتا چل گیا کہ شیعہ کہتے ہی اسے ہیں جو امامت و خلافت علی ؑ کو بعد از رسول خدا ﷺ افضل و معتبر اور نص قطعی کے تحت مانتا ہو
اب اس نظریے کو عبداللہ ابن سبا کی طرف صرف ایک ایسی روایت سے موڑنا جس کا کوئ اصل اصیل ہی نہیں سراسر جہالت ھے
قارئین محترم آئیے اب رجال کشی کی اس روایت کو پیش کرتے ہیں
جس کے تحت مذھب شیعہ پر ابن سبا کا جھوٹا فسانہ گھڑا جاتا ھے
,الکشی و ذکر بعض اھل العلم أن عبداللہ ابن سبا کان یہودیا فأسلم ووالی علیا ً ؑ وکان یقول و ھو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون وصی موسی بالغلو فقال فی اسلامہ بعد وفاة رسول اللہ ﷺ فی علی ؑ مثل ذالک و کان اول من شھر بالقول بفرض امامة علی ؑ واظھر البراء من اعدائہ و کاشف مخالفیہ و کفرھم فمن ھاھنا من خالف الشیعة أن اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیھودیة
کشی لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے ذکر کیا کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اس نے اسلام کا اظہار کیا اور امام علی ؑ کی ولایت کا قائل ہو گیا اور اپنے یہودیت کے زمانے میں یوشع بن نون وصی حضرت موسی ؑ کے بارے میں غلو کرتا تھا اور جب نبی اکرم ﷺ کے بعد اسلام لایا تو امام علی ؑ کے بارے میں غلو کرنے لگا اور اس نے سب سے پہلے امام علی ؑ کی امامت کے فرض ہونے کے قول کو شہرت دی اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کیا اور ان کے مخالفین کے اعمال کو فاش کیا اور انہیں کافر قرار دیا اس لیے شیعہ کے مخالفین کہنے لگے کہ عبداللہ بن سبا شیعہ مذھب کی اصل اور اساس ھے اور نظریہ تشیع اور رفض اصل یہودیت سے لیا گیا ھے
اختیار معرفة الرجال معروف بہ رجال الکشی ج 1 ص 322
اس روایت میں پہلا اشکال
اس روایت میں پہلا راوی محمد بن خالد مجہول ھے
شیخ محمد حاسم الماجدی نے اس کی تخریج کر دی ھے
ملاحظہ ہو اختیار معرفة الرجال ص 322
شیخ جاسم الماجدی
اس روایت کی تخریج میں لکھتے ہیں
ھذا الکلام غیر سدیدا حتماً لان اول تبراء من مخالفی علی ؑ ھو سلیمان والمقداد فی حیات النبی ﷺ و بعدہ وفاتہ مباشرة و کذلک ابو ذر و تبعھم و عمار و قیس بن سعد
یہ کلام غیر معتبر ھے قوی نہیں کیونکہ سب سے پہلے حیات رسول خدا ﷺ میں ہی مقداد ؓ اور جناب سلیمان ؓ مخالفین علیؑ پر تبرا کے قائل تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کی اتباع میں عمار یاسر ؓ اور قیس بن سعد قائل رہے
آگے لکھتے ہیں کہ شیخ کشی کا یہ کلام غریب ھے جو کہ شیخ طوسی نے نقل کیا ھے کیونکہ ابن سبا اپنے نسب و قبیلے ولادت و وفات کے لحاظ سے مجہول ھے
لہذا اس روایت سے استدلال کر کے مذھب شیعہ کو بدنام کرنا عقلمندی نہیں جہالت ھے
کیا یوشع بن نون وصی موسی ؑ کا قول صرف ابن سبا سے ہی چلتا ھے
اھلسنت کے ناصبیوں کا اشکال ھے کہ شیعہ میں وصی رسول خدا علی ؑ ہیں اس لیے یہ قول بھی ابن سبا نے گھڑا ھے اور دلیل میں رجال کشی کی ہی عبارت پیش کی جاتی ھے
تو قارئین محترم آئیے دیکھتے ہیں کہ یوشع بن نون وصی موسی ؑ کا ذکر قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے یا نہیں
یوشع بن نون
کا ذکر قرآن میں اسلامی تعلیمات کے ماخذ میں ہوتا ھے
قرآن کریم میں حضرت یوشع کو” الیسع“ کہا گیاہے۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کی موت قریب آئی تو خدا نے انہیں حکم دیا کہ یوشع بن نون کو قبة الرمان میں داخل کرے اور اسے بابرکت بنائے(یاعشائے ربانی ادا کرے)اور اپنا مقدس ہاتھ ان کے بدن پر رکھے تاکہ اس کی برکت ان میں سرایت کرجائے اور ان کو وصیت کریں کہ وہ ان کے بعد بنی اسرائیل کی ذمہ داری سنبھالیں
تاریخ یعقوبی ج 1 ص 46 طبع بیروت
ثابت ہوا کہ واقعی حضرت یوشع بن نون وصی حضرت موسی ؑ تھے
اب آتے ہیں اھلسنت کی روایات کی طرف جس میں ہم اسی نظریے کو اھلسنت کتب میں بھی دیکھائیں گے کہ یہ روایت ابن سبا نے نہیں گھڑی بلکہ خود اھلسنت کی معتبر کتب میں بھی یہ نظریہ موجود ھے
کہ جس نے وصی موسی یوشع بن نون ہیں اسی طرح
علی ؑ وصی پیغمبر ؑ ہیں
و عن سلیمان قال قلت یا رسول اللہ ﷺ ان لکل نبی وصیا فمن وصیک فسکت علی فلما کان رائ فقال یا سلیمان فاسرعت الیہ قلت لبیک قال و نعلم من وصی موسی ؑ قال نعم یوشع بن نون قال لم قلت لانہ کان اعلمھم یومئذ قال فان وصی و موضع سری و خیر من اترک بعدی و ینجز و یقضی دینی علی ابن ابی طالب ؑ
حافظ ہثیمی نے مجمع الزوائد اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اس روایت کو نقل کیا ھے
حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا
اے اللہ کے رسول(ص)ہرنبی کا ایک وصی ہوتاہے۔آپ(ص) کا وصی کون ہے؟
آپ(ص) خاموش رہے۔بعد میں جب مجھے دیکھا تو کہا
اے سلمان ؑ
یہ سن کر میں جلدی سے آپ(ص)کی طرف بڑھا اور عرض کیا۔ لبیک
فرمایا کیاموسی کے وصی کو جانتے ہو؟
میں نے عرض کیا
ہاں وہ یوشع بن نون تھے۔
فرمایا کیوں ؟
میں نے عرض کیاکیونکہ وہ اس وقت سب سے زیادہ عالم تھے۔
فرمایا پس میرا وصی میرے اسرارکا محافظ،میرے بعد سب سے بہترین فرد، میرے وعدوں پر پورا اترنے والا اور میرے قرضوں کو ادا کرنے والا علی ابن ابی طالب(ع)ہے
مجمع الزوائد جلد 9 ص 102 ح 14668
معجم الکبیر طبرانی رقم 6063
اس سے ثابت ہوا کہ ابن سبا کے قول کا کھرا تو مخالفین کے گھر سے بھی نکلتا ھے شیعہ پر تو محض جھوٹ اور افتراء باندھا جاتا ھے
اگر شیعہ کے عقیدے کو گھڑنے والا ابن سبا تھا تو پھر خود رسول کریم ﷺ
نے یہ کیوں فرمایا تھا کہ اے علی ؑ آپ اور آپ کے شیعہ ہی کامیاب ہوں گے
عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَام قٰال: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یٰا عَلِیُّ اِذَ کَانَ یَوْمُ الْقِیٰامَةِ یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ قُبُوْرِھِمْ لِبَاسُھُمُ النُّوْرُ عَلٰی نَجٰائِبَ مِنْ نُوْرٍ أَزِمَّتُھَا یَٰواقِیتُ حُمْرٌ تَزُقُّھُمُ الْمَلاٰئِکَةُ اِلَی الْمَحْشَرِ فَقٰالَ عَلِیُّ تَبٰارَکَ اللّٰہُ مٰا اَکْرَمَ قَوْمًا عَلَی اللّٰہِ قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَا عَلِیُّ ھُمْ اَھْلُ وِلٰایَتِکَ وَ شِیْعَتُکَ وَ مُحِبُّوْکَ،یُحِبُّوْنَکَ بِحُبِّی وَ یُحِبُّوْنِی بِحُبِّ اللّٰہِ۔ ھُمُ الْفٰائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔
امیر الموٴمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے کہ یا علی ! قیامت کے دن قبروں سے ایک گروہ نکلے گا ،اُن کا لباس نوری ہو گا اور اُن کی سواری بھی نوری ہو گی۔ اُن سواریوں کی لگامیں یاقوتِ سرخ سے مزین ہوں گی۔ فرشتے اِن سواریوں کو میدانِ محشر کی طرف لے جا رہے ہوں گے۔ پس علی علیہ السلام نے فرمایا: تبارک اللہ! یہ قوم پیش خدا کتنی عزت والی ہو گی۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: یا علی ! وہ تمہارے شیعہ اور تمہارے حُب دار ہوں گے۔ وہ تمہیں میری دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور مجھے خدا کی دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور وہی قیامت کے روز کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں۔
ابن عساکر تاریخ دمشق باب شرح حالِ امام علی ج2 ص34 846 شرح محمودی
گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب میں باب86 صفحہ313۔
تاریخ بغداد خطیب بغدادی شرح حال فضل بن غانم شمارہ6890 جلد12 صفحہ358
ہیثمی کتاب مجمع الزوائد جلد10 صفحہ21اورجلد9 صفحہ173
یہ روایت بھی ابن سبا کے اس نظریے کا سخی سے رد کرتی ھے
کیونکہ شیعہ ابن سبا کے اس نظریے سے پہلے وجود میں تھے
رسول اللہ ﷺ کے وصی علی ؑ ہی ہیں صحیح حدیث سے ثابت ھے جس سے ابن سبا کا کوئ تعلق نہیں
علی (ع) ہی وصیٴِ برحق اور وارثِ پیغمبر (ص) ہیں
عَنْ اَبِی بُرَیْدَةِ عَن اَبِیْہِ: قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم لِکُلِّ نَبِیٍّ وَصِیٌ وَ وَارِثٌ وَ اِنَّ عَلِیًا وَصِیِّی وَ وَارِثِی۔
ابی بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی وصی اور وارث ہوتا ہے اور بے شک علی علیہ السلام میرے وصی اور وارث ہیں
ابن مغازلی کتاب مناقب میں، حدیث238،صفحہ201،اشاعت اوّل۔
ابن عساکر تاریخ دمشق ، باب شرح امام علی ج3 ص5حدیث1022شرح محمودی
ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد4،صفحہ127،128،شمارہ8590
گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب باب62 صفحہ260
شیخ سلیمان قندوزی حنفی کتاب ینابیع المودة باب15 صفحہ90 ,295 ۔
سیوطی کتاب اللئالی المصنوعة جلد1،صفحہ186،اشاعت اوّل(بولاق)
حموینی، کتاب فرائد السمطین میں باب52 حدیث222۔
خوارزمی کتاب مناقب حدیث22 باب14صفحہ88
اسی طرح حافظ حسکانی شواہد التنزیل میں نقل کرتے ہیں
حافظ حسکانی شواہد تنزیل سورہ بقرہ زیر آیت 30 میں نقل کرتے ہیں
حدثنا محمد بن عبداللہ کذا قال حدثنا محمد بن حماد الاثرم بالبصرة و علی بن داود القنطری عن سفیان الثوری عن منصور عن مجاھد عن سیلمان الفارسی ؓ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول إن وصي و خلیفتي خیر من اترک بعدی و ینجز موعدی و یقضی دینی علی ابن ابی طالب ؑ
سلیمان فارسی ؓ سے روایت ھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا میرے بعد میرا وصی اور میرا خلیفة اور میرے دین کے قاضی علی ابن ابی طالب ؑ ہیں
شواہد التنزیل ج1 ص 76 ,77
ہثیمی نے مجمع الزوائد میں نقل کیا ھے
و عن علی ؑ قال لما انزلت ھذا الایایة وانذر عشیرتک الاقربین
قسل جمع النبی ﷺ من اھلبیتہ
فاجتمع ثلاثون رجلا فاکلوا واشربو قال فقال لھم من یضمن عنی دینی و مواعیدی و یکون معی فی الجنة و یکون خلیفة من اھلی فقال رجل یسمہ شریک یا رسول اللہ ﷺ أنت کنت بحرا من یقوم بھذا قال لم قال الاخر فعرض ذلک اھل بیتہ فقال علی ؑ انا
رواہ احمد واسنادہ جید ۔
دعوت عشیرہ پر رسول اللہ ﷺ نے علی ؑ کو اپنا خلیفہ بنایا تھا
اس کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ھے اور اس کی اسناد جید ہے
مجمع الزوائد ج 9 ص 101
یاد رہے کہ ابن سبا کے عقیدے کا رد جو کہ شیعہ پر تھونپا جاتا ھے خود اھلسنت کتب میں موجود ھے
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری
.
پچھلے کچھ سالوں سے عبداللہ بن سبا کے وجود پر کافی ابحاث ہو رہے ہیں۔ ایک طرف کچھ اسکے وجود کا سرے سے ہی انکاری ہے تو دوسری طرف ایک طبقہ کا مانا ہے کہ عبداللہ بن سبا اسلام میں ہر اختلاف کی وجہ ہے۔
ھم عبداللہ بن سبا کے بارے میں درمیانی راستے کے قائل ہے کہ عبداللہ بن سبا نام کا ایک فرد تاریخ میں تھا جس نے امام علی بن ابی طالبؑ کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا لیکن بعد میں علی بن ابی طالبؑ کے لئے الووہت (خداوندی) کا عقیدہ وضع کیا جسکی وجہ سے امام علی بن ابی طالبؑ نے اسکو بعد میں قتل کیا۔
اس پوسٹ کا تعلق صرف ان روایات سے ہوگا جو اھل سنت منابع میں موجود ہے تاکہ پڑھنے والوں کے لئے حقیقت واضح ہو کہ اھل سنت کا دعوہ صحیح ہے یا باطل۔ عبداللہ بن سبا کے بارے میں سنی منابع میں صرف دو روایات ایسی ہے جسکو ھمارے اھل سنت محققین قابل اعتبار مانتے ہیں جیسا کہ پاکستان کے محقق زبیر علی زائی نے اپنے فتاوی میں نقل کیا۔
⛔فتاوی علمیہ المعروف توضیع الاحکام – جلد ۱ // صفحہ ۱۵۳ // طبع مکتبہ الفہیم یوپی ھندوستان
⭐پہلی روایت :تاریخ ابن ابی خیثمہ میں “شعبہ عن سلمہ بن کھیل عن زید بن وھب ” کی سند سے آیا ہے جس میں کالے خبیث و عبداللہ بن سبا کا لفظ آیا ہے۔
⛔تاریخ الکبیر – ابن ابی خیثمہ // جلد ۳ // صفحہ ۳۸۱ // رقم ۹۰۱۹ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
لیکن اسی سند سے روایت کو خطیب بغدادی نے ابو اسحاق الفزاری سے نقل کیا جنہوں نے اسکو شعبہ عن سلمہ بن کھیل عن ابو زعراء یا زید وھب کی سند سے نقل کیا ہے۔ اس واسطے میں متن میں کہیں بھی کالے خبیث یا عبداللہ بن سبا کا ذکر ہی نہیں بس اتنا آیا ہے کہ کچھ افراد نے ابوبکر بن عمر کی تنقص کی۔۔۔ الخ۔
⛔الکفایہ فی علم الروایۃ – خطیب بغدادی // صفحہ ۳۲۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اس میں راوی کو وھم ہوا کہ اس نے اسکو ابو زعراء نے یا زید بن وھب سے یہ حدیث لی۔
ابو نعیم اصفہانی نے بھی اس روایت کو اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور وہاں بھی نہ کالے خبیث کا ذکر ہے اور نہ عبداللہ بن سبا۔
⛔طبقات الاولیاء – ابس نعیم اصفہانی // جلد ۵ // صفحہ ۱۸۷ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
ابو اسحاق الفزاری کی سیرت کی کتاب میں بھی یہ روایت اسی سند “شعبہ عن سلمہ بن کھیل عن ابو زعراء یا زید بن وھب” سے منقول ہے اور وہاں بھی اسکے متن میں نہ کالے خبیث کا ذکر ہے اور نا ہی عبداللہ بن سبا کا ذکر ہے۔
⛔کتاب سیر – ابو اسحاق الفزاری // صفحہ ۳۲۷ // رقم ۶۴۷ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
⚠️نوٹ : ابن حجر عسقلانی نے بھی ابو اسحاق الفزاری سے یہی روایت نقل کی ہے جس میں کچھ اضافہ کیا ہوا ہے کہ ان لوگوں میں عبداللہ بن سبا بھی تھا۔
ابن حجر عسقلانی کہتا ہے
وقال أبو إسحاق الفزاري عن شعبة عن سلمة بن كهيل عن أبي الزعراء عن زيد بن وهب أن سويد بن غفلة دخل على علي في إمارته فقال إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر وعمر يرون أنك تضمر لهما مثل ذلك منهم عبد الله ابن سبأ وكان عبد الله أول من أظهر ذلك فقال علي ما لي ولهذا الخبيث الأسود ثم قال معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل ثم أرسل إلى عبد الله ابن سبأ فسيره إلى المدائن وقال لا يساكنني في بلدة أبدا ثم نهض إلى المنبر حتى اجتمع الناس فذكر القصة في ثنائه عليهما بطوله وفي آخره إلا ولا يبلغني عن أحد يفضلني عليهما إلا جلدته حد المفتري وأخبار عبد الله ابن سبأ شهيرة في التواريخ وليس له رواية ولله الحمد وله أتباع يقال لهم السبائية معتقدون إلهية علي بن أبي طالب وقد أحرقهم علي بالنار في خلافته.
سوید بن غفلہ سے روایت کرتا ہے کہ وہ علیؑ کے پاس داخل ہوا اور انہیں کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر و عمر کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے اور دونوں کے لئے ادب رکہتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر رضہ و عمر رضہ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے
⛔لسان المیزان – ابن حجر عسقلانی // جلد ۳ // صفحہ ۳۴۴ – ۳۴۵ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
جبکہ ھم نے اوپر ذکر کیا ہو ہے کہ ابو اسحاق الفزاری کی کتاب میں ایسے الفاظ موجود ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں ابن حجر نے یہ زیادت کہاں سے لی؟
اب اگر اسکی سند میں موجود وھم کے بارے میں بات کی جائے تو یہ شعبہ کی طرف سے ہے کیونکہ محدثین نے تصریح فرمائی ہے کہ شعبہ بن حجاج اکثر راویوں کے بارے میں وھم کر جاتے تھے۔
ابن ابی حاتم الرازی نے اپنی کتاب میں شعبہ کے ایک وھم کے بعد یوں لکھا :
ابو زرعہ نے فرمایا کہ شعبہ کو اکثر راویوں کے بارے میں وھم ہوجاتا تھا۔
⛔کتاب العلل – ابن ابی حاتم الرازی // جلد ۱ // صفحہ ۲۹ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی طرح دارقطنی نے اپنی کتاب العلل میں یہی بات کہی کہ شعبہ راویوں کے بارے میں غلطیان کرتا تھا تاکہ متن کو محفوظ رکھے۔
⛔کتاب العلل – دارقطنی // جلد ۵ // صفحہ ۴۶۸ // طبع موسسۂ الریان ریاض سعودیہ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سلمہ بن کھیل نے یہ حدیث کس نے لی : زید بن وھب دے یا ابو زعراء سے۔
اسکی تصرح ھمیں تاریخ ابن ابی خیثمہ میں ملتی ہے۔ چناچہ انہوں نے اس سند سے نقل کیا ہے ” شعبہ عن سلمہ بن کھیل عن زید بن وھب ” یہاں شعبہ نے تصریح فرمائی ہے کہ اس روایت کو انہوں نے اصلاً زید بن وھب کے واسطے سے نقل کیا تھا۔
لہذا اب ھمارے پاس دو طرق ہے :
ایک عمرو بن مرزوق عن شعبہ والا اور دوسرا ابو اسحاق الفزاری عن شعبہ والا طرق۔ پہلے طرق کے متن میں کالے خبیث یا عبداللہ بن سبا کا نام آیا ہے جبکہ دوسرے طرق میں کالا خبیث یا عبداللہ بن سبا کا ذکر ہی نہیں آیا ہے۔
جب ھم کتب اسماء الرجال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ابن حجر عسقلانی نے شعبہ سے ان دونوں شاگردوں کے بارے میں یوں کہا :
🍁ابو اسحاق الفزاری :
ابراھیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ بن حصن بن حذیفہ الفزاری : امام، ابو اسحاق، ثقہ، حافظ، اسکی کافی تصانیف ہیں۔۔۔
🍁عمرو بن مرزوق
عمرو بن مرزوق الباھلی، ابو عثمان البصری، ثقہ، فاضل، اسکو وھم ہوتا تھا۔
⛔تقریب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۱۳۱، ۴۵۶ // رقم ۲۳۰، ۵۱۱۰ // طبع دار منھاج ریاض سعودیہ۔
ان دونوں راویوں کے تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو اسحاق الفزاری عمرو بن مرزوق سے اوثق (زیادہ ثقہ) ہے لہذا جب بھی روایت میں اختلاف ہوگا تو اوثق کی روایت کو ترجی دی جائے گی۔
لہذا ثابت ہوگیا کہ اس روایت میں اصلاً کالے خبیث یا عبداللہ بن سبا کا وجود ہی نہیں تھا۔
⭐دوسری روایت : ابن ابی خیثمہ نے ایک اور روایت کو نقل کیا ہے جس میں عبدالجبار بن عباس الھمدانی عن سلمہ بن کھیل عن حجیہ الکندی والی سند موجود ہے۔
⛔تاریخ الکبیر – ابن ابی خیثمہ // جلد ۳ // صفحہ ۳۸۲ // رقم ۹۰۲۰ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
لیکن اسکی سند میں بھی اشکالات موجود ہے :
❄عبدالجبار بن عباد الھمدانی پر جرح مفسر آئی ہے۔
ذھبی نے اسکو اپنی کتاب الضعفاء میں نقل کیا اور یوں لکھا :
عبدالجبار بن عباس شبامی، کوفی، اس نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے۔ یہ شیعہ تھا۔ ابو حاتم اور باقیوں نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ابو نعیم ملائی نے اسکے بارے میں کہا : میں نے کوفہ میں اسکے زیادہ کوئی جھوٹا نہیں دیکھا۔
⛔المغنی فی الضعفاء – ذھبی // جلد ۱ // صفحہ ۵۸۴ // رقم ۳۴۶۰ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
عقیلی نے اپنی کتاب الضعفاء میں اسکا ذکر کیا اور یوں لکھا :
یہ عون بن ابی جحیفہ، اسکی احادیث کی متابعت نہیں ملتی اور یہ شیعہ تھا۔
⛔کتاب الضعفاء – عقیلی // جلد ۳ // صفحہ ۸۸ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
ابن الجوزی نے اسکی ایک حدیث کے بارے میں یوں لکھا ہے :
یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس کو گھڑانے کی تہمت عبدالجبار بن عباس پر ہے جو کبار شیعوں میں شامل تھا۔ ابو نعیم فضل بن دکین نے فرمایا کہ کوفہ میں اس سے زیادہ کوئی کذاب نہ تھا۔
⛔الموضوعات – ابن الجوزی // جلد ۱ // صفحہ ۳۲۵ // طبع مکتبہ عباس احمد عبدالباز مکہ سعودیہ۔
یمن کے مشہور سلفی محدث مقبل بن ھادی الوادعی نے کہا ہے کہ “کذاب” لفظ جرح مفسر ہے۔
اور جب کسی راوی کے جرح و تعدیل میں تعارض موجود ہوگا تو فوقیت جرح مفسر کو دی جائے گی۔ چناچہ پاکستان کے محدث ارشاد الحق الاثری نے اپنی کتاب میں یوں لکھا :
سوال نمبر ۲ : جرح و تعدیل دونوں ہوں تو کس کو مقدم کیا جائے ؟
جواب : عرض کرچکا ہوں کہ جرح اگر مفسر ہو تو مقدم ہے ورنہ تعدیل اور یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جرح کرنے والا متشدد ہے معتدل ہے یا متساہل۔
سوال نمبر ۳ : بعض نے جرح کو تعدیل پر مقدم کیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب : ہاں ! لیکن یہ تب صحیح ہے جب جرح مفسر ہو۔ جب جرح مفسر نہ ہو تو علی الاطلاق مقدم نہ ہوگی۔
⛔ضوابط الجرح و التعدیل – ارشاد الحق الاثری // صفحہ ۱۱۵ // طبع دار العلم ممبئ ھندوستان۔
❄دوسرا اس روایت کا مرکزی راوی جحیہ الکندی کو محدثین نے مجہول قرار دیا ہے۔
ابن ابی حاتم الرازی نے اپنی کتاب میں اسکے بارے میں یوں کہا :
یہ شیخ تھا۔ اسکی احادیث سے احتجاج جائز نہیں۔ یہ مجہول کے مانند ہے۔
⛔کتاب الجرح و التعدیل – ابن ابی حاتم الرازی // جلد ۳ // صفحہ ۱۸۸ // رقم ۱۶۰۰ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
ابن حجر عسقلانی نے اسکا حال اس طرح بیان کیا ہے۔
جحیہ بن عدی الکندی الکوفی۔
ابن مدائنی نے کہا : مجھے معلوم نہیں ہے کہ اسکے علاوہ کسی نے روایت کیا ہے سوائے سلمہ بن کھیل۔
ابو حاتم نے کہا : شیخ، اسکی احادیث دے احتجاج جائز نہیں۔ یہ مجہول کے کے مشبہ ہے۔
میں کہتا ہوں : ابن سعد نے کہا : وہ معروف تھا اور ایسا بلکل نہیں تھا۔
العجلی نے کہا : ثقہ تابعی تھا۔
ابن حبان نے اسکو ثقات میں نقل کیا۔
⛔تہذیب التہذیب – ابن حجر عسقلانی // جلد ۱ // صفحہ ۳۶۶ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
لہذا اسکو محدثین نے صراحت کے ساتھ اسکو مجہول قرار دیا ہے۔ صرف العجلی و ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے جبکہ یہ دونوں متساہل تھے جیسا کہ ذھبی العصر معلمی الیمانی نے اپنی کتاب میں دونوں کے بارے میں کہا کہ یہ دونوں تابعین میں سے مجاھیل کو ثقہ قرار دیتے تھے۔
⛔التنکل بما فی تانیب الکوثری من الاباطیل – عبدالرحمان معلمی الیمانی // جلد ۱ // صفحہ ۶۶ // طبع مکتبہ معارف ریاض سعودیہ۔
لہذا یہ روایت دو وجوھات کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اولا اسکے ایک راوی کے بارے میں جرح مفسر آئی ہے جو توثیق پر مقدم ہوتی ہے اور دوسرا اس میں ایک راوی مجہول ہے۔
دوم : ان دونوں روایات کے متن میں جو ابن سبا کا اضافہ ہے یہ کسی راوی کا اضافہ ہے (اسکو اصول الحدیث میں ادراج کہتے ہیں اور اس قسم کی روایت کو مدرج) کیونکہ متن میں یہ الفاظ اس نشانی (-) کے درمیان ہے۔
محدثین نے مدرج الفاظ کو احادیث میں ایسی نشانی (-) کے درمیان رکھا مثلاً ابن حبان نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل کی ہے جو اس طرح ہے :
فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏ “‏ أَنَا زَعِيمٌ – وَالزَّعِيمُ الْحَمِيلُ – لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ وَهَاجَرَ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ وَأَنَا زَعِيمٌ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلَمْ يَدَعْ لِلْخَيْرِ مَطْلَبًا وَلاَ مِنَ الشَّرِّ مَهْرَبًا يَمُوتُ حَيْثُ شَاءَ أَنْ يَمُوتَ
´فضالہ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میں قائد ہوں – قائد ضامن ہوتا ہے- جو مجھ پر ایمان لایا، اور میری اطاعت کی، اور ہجرت کی، تو میں اس کے لیے جنت کے احاطے (فصیل) میں ایک گھر اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں۔ اور میں اس شخص کے لیے بھی جو مجھ پر دل سے ایمان لائے، اور میری اطاعت کرے، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرے ضمانت لیتا ہوں جنت کے گرد و نواح میں (فصیل کے اندر) ایک گھر کا، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا اور جنت کے بلند بالا خانوں (منزلوں) میں سے بھی ایک گھر (اونچی منزل) کا۔ جس نے یہ سب کیا (یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد) اس نے خیر کے طلب کی کوئی جگہ نہ چھوڑی اور نہ ہی شر سے بچنے کی کوئی جگہ جہاں مرنا چاہے مرے“
ابن حبان نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد یوں لکھا :
ابو حاتم نے کہا : زعیم مدینے والوں کا لفظ ہے، حمیل بصرہ والوں کا لفظ ہے، کفیل عرآق والوں کا لفظ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ الفاظ وَالزَّعِيمُ الْحَمِيلُ ابن وھب کا قول ہے جس نے اس خبر میں ادراج کیا۔
⛔الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان – ابن بلبان فارسی // جلد ۸ // صفحہ ۴۹ // رقم ۴۶۲۵ // طبع دار الفکر بیروت لبنان۔
خطیب بغدادی نے بھی ایسے ہی اپنی کتاب میں لکھا کہ ابن حبان نے اسکے ادراج کی طرف اشارہ کیا۔
⛔النکت علی ابن صلاح – ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۳۵۲ – ۳۵۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اسی طرح اگر آپ تاریخ ابن ابی خیثمہ والی دونوں روایات کی طرف دیکھیں گے تو وہاں بھی عبداللہ بن سبا والی زیادت بھی بھی ان ہی نشانوں کے درمیان ملے گی (-) جو یقینا کسی راوی کا ادراج ہے۔ یہ راوی شعبہ سے اوپر والے طبقے میں ہوگا مثلاً ابن ابی خثیمہ یا اسکا شاگرد کیونکہ دوسری اسانید جو شعبہ تک ہے ان میں ایسے الفاظ موجود نہیں۔
لہذا اس پوری بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ بن سبا والی ایک بھی روایت اھل سنت منابع میں معتبر اسانید سے ثابت نہیں۔۔۔۔الحمدللہ۔