.
عبدالزهراء الغروی
.
کیا امیر المومنین کا نام لے کر معاویہ اور اس کی جماعت کو بددعا دینے والی روایت ضعیف “شاذّ” ہے؟
بسم الرحمن الرحیم
فاروق اعظم صاحب کی ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں موصوف نے مندرجہ ذیل حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : ” صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : ” اللهم عليك بمعاوية وأشياعه ، وعمرو بن العاص ، وأشياعه ، وأبي السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه “
عبد الحمٰن بن معقل کہتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز حضرت علیہ السلام کے ساتھ پڑھی اور آپ علیہ السلام نے قنوت کیا اور قنوت میں یہ الفاظ کہے ” اے اللہ معاویہ اور اس کے گروہ ، عمرو بن العاص اور اس کے گروہ ، ابو السلمی اور عبداللہ بن قیس اور اس کے گروہ کو پکڑ لے ان کو برباد کر دے”
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 317)
موصوف ان احادیث پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
یہ روایت آج کل بہت پیش جارہی ہے ہماری نظر میں یہ
(روایت ضعیف ہے )۔
موصوف نے وجہ ضعف “شذوذ” قرار دیا
چنانچہ لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ
ھشیم کی روایت ایک جماعت کے خلاف ہے۔
الجواب:
قارئینِ محترم
حدیثِ شاذ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں
دُکتور محمود الطحان “تیسیرُ مصطلحِ الحدیث” میں لکھتے ہیں:
ما رواہ مقبولٌ مخالفا لمن ھو اَولی منہ
ترجمہ:
وہ (حدیث) جسے مقبول راوی روایت کرے اس(راوی)اس کے خلاف جو اُس (مقبول راوی) سے اعلی اور اوثق ہو۔
اسی طرح تقریب النواوی میں ہے مگر مقبول کی جگہ ثقہ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں:
وهـو عند الشافعيِّ و جماعة من العلماء الحجاز:
ما روی الثقة مخالفا لروایة الناس
لا ان یروی ما لا یروی غیرہ
ترجمہ:
حدیث شاذ امام شافعی اور علماء حجاز کے نزدیک اس حدیث کو کہتے ہیں:
جسے ثقہ روایت کرے لوگو کی روایت کی مخالفت کرتے ہوئے *نا کہ وہ روایت کرے جو اس کے اعلاوہ کسی نے روایت نا کیا ہو*
حضرات مذکورہ بالا تعریفوں سے چند شروط معلوم ہوئیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱ : روایت یا تو ثقہ کی ہو یا ایسے مقبول کی
۲ : یہ کہ وہ (ثقہ یا مقبول) مخالفت کرے اس راوی کی جو قبول کرنے کے اعتبار سے اس سے اَولی ہو
غور طلب بات ہے کہ مخالفت شرط ہے مگر اس مخالفت سے مراد کیا ہے؟
(معجم المصطلحات الحدیثیة) میں علامہ عبد الماجد الغوری رقم طراز ہیں:
و یقصد من المخالفة:
عدم إمکانیة الجمع بین ما رواہ و بین ما رواہ غیرہ
مخالفت کا سے مراد:
اس (ثقہ یا مقبول راوی) کی روایت اور جو اس کا غیر (اس کی مخالفت کرنے والی جماعت یا اَولی راوی) کی روایت کے درمیاں جمع کے امکان کا نا ہونا ہے۔
اسی طرح “محمد بن علوی بن عباس المالکی” نے “المنھل اللطیف”
میں لکھا:
و یُشترط ایضا عدمُ إمکان الجمع بین حدیث الثقة و الاوثق
اسی طرح “محمد محمود بکّار” نے
اسبابُ ردِّ الحدیث” اور “بُلوغُ الآمالِ من المصطلح الحدیث و الرِّجال” میں لکھا:
بشرط الا یُمکن الجمع بینھما
احقر موصوف سے مطالبہ کرتا ہے کہ آپ روایتِ ھشیم اور روایتِ غیر ھشیم میں مخالفت (عدم امکانیة الجمع ) ثابت کیجیے۔
ہم ادعی کرتے ہیں یہ
روایات قابلِ جمع ہیں ایک روایت میں نام ہونا اور دوسری روایت میں نام کا نا ہونا یہ کوئی نقیضین تھوڑی ہیں کہ قابلِ جمع نا ہوں
اور کُتبِ احادیث بھری ہوئی ہیں ایسی روایت سے کہ ایک جگہ متن میں سائل کا یا واقعہ سے متعلق آدمی کا نام ہوتا ہے جبکہ دوسری جگہ نہیں ہوتا۔
افسوس موصوف اس کو مخالفت سمجھ بیٹھے
اگر اسی طرح انسان اپنی فہم کے مطالبق احادیث پر نقد کرے تو ذخیرہ احافیث بازیچہ اطفال بن جائے جس کا جو جی چاہے حکم لگائے۔






