فتح الباري شرح صحيح البخاري میں لکھا ہے
وقد صرح بذلك الدار قطني ، وأبو مسعود ، وأبو نعيم ، والحميدي ،وقال إبن بطال ، يجوز تزويجالصغيرة بالكبير إجماعاًً ولو كانت في المهد ،
امام ابن حجر لکھتے ہیں یہ صراحت کے ساتھ ثابت ہے جس کو دار القطنی، ابو مسعود، حمیدی، ابو نعیم ، ابن بطال نے کہا چھوٹی بچی سے جوان شخص نکاح کر سکتا ہے اگرچہ وہ گہوارے میں کیوں نہ ہو
اس کے علاوہ امام شوکانی نے لکھا ہے
اور امام نــووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے
.
امـــام ابوحنیـــفہ کا فتوی موجود ہے عورت کو کرایہ پر دینا بھی جائز ہے اور وہ عورت ادھر زنا کروائے تو اس پر کوئـی حد نہیں ہے
امام اہل سنت اپنی کتاب مبسوط میں لکھتے ہیں
قال : رجل إستأجر إمرأة ليزني بها فزنى بها فلا حد عليهما في قول أبى حنيفة.
ترجمہ:عورت کو کرایہ پر دینا جائز ہے اور وہ عورت ادھر زنا کروائے تو اس پر کوئـی شرعی حد نہیں ہے
حوالہ: السرخسي – المبسوط – الجزء : ( 9 ) – رقم الصفحة : ( 58 )
.
حدثنا : سليمان بن شعيب ، عن أبيه ، عن محمد ، عن أبي يوسف ، عن أبي حنيفة بذلك ، حدثنا : فهد قال : ، ثنا : أبو نعيم قال : سمعت سفيان يقول في رجل تزوج محرم منه فدخل بها ، قال : لا حد عليه.
ترجمہ: امام سفیان کہتا ہے اگر کوئی شخص اپنی محرم ( بھن اور ماں ) سے دخول کرے تو اس پر کوئی حد نہیں ہے
حوالہ: شرح معاني الآثار – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 149 )
.
اہل سنت کا عالم إبن حزم اپنی کتاب المحلى میں لکھتے ہیں
عبد الرزاق ، أنا : إبن جريج أخبرني : من أصدق ، عن الحسن البصري : أنه كان لا يرى بأساًًً بالمرأة تدخل شيئاًً تريد الستر تستغنى به عن الزنا.
ترجمہ: اگر کـوئی عورت اپنی شرم شھوت ختم کرنے کے لئے ڈالے تو جائز ہے تاکہ زنا سے بچ جائے تو یہ جائز ہے
حوالہ: إبن حزم – المحلى – الجزء : ( 11 ) – رقم الصفحة : ( 390 )


