سنی محدث کا واقعہ اسقاط محسنؑ کی وجہ سے رافظی ہونا

اہل سنت کے امام شمس الدین ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) نے اپنی ایک تالیف میں یوں لکھا ہے :
ابن أبي دارم : الإِمَامُ الحَافِظُ الفَاضِلُ, أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بنُ محمد السري بن يحيى بن السَّرِيِّ بنِ أَبِي دَارمٍ, التَّمِيْمِيُّ الكُوْفِيّ الشِّيْعِيّ, محدِّث الكُوْفَة.
حدَّث عنه: الحاكم, وأبو بكر بن مردويه, وَيَحْيَى بنُ إِبْرَاهِيْمَ المُزَكِّي، وَأَبُو الحَسَنِ بنُ الحمَّامي, وَالقَاضِي أَبُو بَكْرٍ الحِيْرِيُّ, وَآخَرُوْنَ.
كَانَ مَوْصُوَفاً بِالحِفْظِ وَالمعرفَةِ, إلَّا أَنَّهُ يترفَّض, قَدْ ألَّف فِي الحطِّ عَلَى بَعْض الصَّحَابَة، وَهُوَ مَعَ ذَلِكَ لَيْسَ بِثِقَةٍ فِي النَّقْل,
قَالَ الحَاكِمُ: هُوَ رافضيٌّ غَيْرُ ثِقَةٍ.
وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ حمَّاد الحَافِظ: كَانَ مُسْتَقِيْمَ الأَمْر عامَّة دَهْره, ثُمَّ فِي آخر أَيَّامه كَانَ أَكْثَرَ مَا يُقْرَأ عَلَيْهِ المَثَالب, حَضَرْتُه وَرَجُل يَقْرأُ عَلَيْهِ أنَّ عُمر رَفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً.
وفِي خبرٍ آخر قَوْله تَعَالَى: {وَجَاءَ فِرْعَوْن} عمر {وَمَنْ قَبْلَه} أبو بكر {وَالْمُؤْتَفِكَاتُ} عَائِشَة وَحَفْصَة, فَوَافقتُه وَتركتُ حَدِيْثه.
قُلْتُ: شَيْخٌ ضالّ مُعَثَّر.
ابن ابی دارم : امام ، حافظ، فاضل، ابوبکر احمد بن محمد سری بن یحیی بن سری بن ابی دارم تمیمی کوفی شیعی ، کوفہ کا محدث۔
اس سے احادیث لینے والے : حاکم، ابوبکر بن مردویہ، یحیی بن ابراھیم مزکی، ابو حسن بن حمانی، قاضی ابوبکر خیری اور باقیوں نے بھی۔
یہ احادیث کو حفظ اور انکی معرفت سے موصوف تھے سوائے کہ یہ رافظی ہوگئے۔ اس نے بعض صحابہ کے خلاف کتاب لکھی اور یہ اس وجہ سے نقل کرنے میں ثقہ نہ تھے۔
حاکم نے انکے بارے میں کہا : یہ رافظی اور غیر ثقہ تھا۔
محمد بن حماد حافظ نے انکے بارے میں کہا : یہ سیدھے راستے پر تھا لیکن آخری زندگی ان پر کثرت سے مثالب (صحابہ کے برے کارنامے) پڑھایا جاتا تھا، یہ بیٹھ جاتے اور آدمی اسکے سامنے پڑھتا کہ عمر بن خطاب نے فاطمہؑ کو مارا جسکی وجہ سے محسنؑ ساقط ہوگئے۔
اور دوسری خبر میں وہ اللہ کے اس کلام : ﴿اور فرعون آیا﴾ سے مراد عمر ﴿اور اس سے پہلے والے﴾ سے مراد ابوبکر ﴿اور اجتماعات﴾ سے مراد عائشہ اور حفصہ، تو میں نے غور کیا اور ان کی حدیث کو ترک کردیا۔
میں (ذہبی) : کہتا ہوں : یہ گمراہ شیخ تھا۔
⛔️سير أعلام النبلاء – ذہبی // جلد ۱۲ // صفحہ ۱۹۵، ۱۹۶ // طبع مکتبہ توفقیہ قاہرہ مصر۔
اوپر نقل ہوا ہے کہ حاکم نے اسکو غیر ثقہ اور رافظی کہا اور ذہبی نے اسکو ضال و مضل قرار دیا لیکن المستدرک علی الصحیحین میں حاکم نے اس سے روایت لی ہے اور اسکو حافظ لکھنے کے بعد اسکی حدیث کی تصحیح کی۔ ذہبی نے موافقت کی۔
المستدرک – ذہبی // جلد ۱ // صفحہ ۴۲۷ // رقم ۱۱۰۲ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔