قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خداوند عالم کو کسی صالح اور نیک انسان کی عظمت کا واسطہ دے کر اس سے کوئی چیز طلب کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور توحید خدا سے بھی منافی نہیں ہے، جیسا کہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ اٴَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَہُمْ جَاوٴُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا
(سورہ نساء ، آیت ۶۴)
”اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے“۔

توسل کے سلسلہ میں اہل سنت اور شیعہ کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن سے مکمل طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توسل اور وسیلہ قرار دینے میں کوئی اشکال نہیں پایا جاتا، بلکہ ایک نیک کام ہے، اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات ہیں اور بہت سی کتابوں میں نقل بھی ہوئی ہیں، ہم نمونہ کے طور پراہل سنت کی مشہور و معروف کتابوں سے چند روایات کو نقل کرتے ہیں:

”یَا ربِّ اٴسئلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفرتَ لِی“
”پالنے والے! تجھے محمد کا واسطہ، تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے“۔
(وفاء الوفاء ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۷۱)
اس کے بعد اہل سنت کے مشہور و معروف دانشوروں جیسے ”نسائی“ اور ”ترمذی“ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں او ر اس کو توسل کے جواز پر شاہد کے عنوان سے نقل کرتے ہیں، جس حدیث کا خلاصہ یہ ہے:ایک نابینا شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے اپنی بیماری کی شفاء کے لئے درخواست کی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو:
”اَللَّھُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّہُ إلَیْکَ بِنَیِّکَ مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی تَوجھتُ بِکَ إلیٰ ربّی فِی حَاجَتِی لِتقضی لِی اٴللَّھُمَّ شَفِّعْہُ فِیّ“
”پالنے والے! تیرے پیغمبر رحمت کے واسطہ سے تجھ سے درخواست کرتا ہوں اور اے محمد! آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور آپ ہی کے واسطہ سے اپنی حاجت روائی کے لئے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں، پالنے والے! آنحضرت کو میرا شفیع قرار دے“۔
اس کے بعد پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد توسل کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے یوں بیان کرتے ہیں: حضرت عثمان کے زمانہ میں ایک حاجت مند پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کے نزدیک آیا اور اس نے نماز پڑھی اور اس طرح دعا کرنے لگا:
”اَللَّھُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّہُ إلَیْکَبِنَبِیِّنَا مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی اٴتوجہ إلیٰ رَبکَ اَنْ تَقْضی حَاجَتِی“
”پالنے والے! تیری بارگاہ میں پیغمبر اکرم، پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری مشکل آسان ہوجائے“۔
(وفاء الوفاء ،صفحہ۱۳۷۲)
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس کی مشکل آسان ہوگئی۔

”ابن حجر مکی“ اپنی کتاب ”الصواعق المحرقہ“ میں اہل سنت کے مشہور و معروف”امام شافعی“ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اہل بیت پیغمبر سے توسل کیا اور اس طرح کہا:
آل النَبِیّ ذَریعَتِی وَھُمْ إلَیہ وَسیلتی
اٴرْجُوْبِھمْ اٴعطی غَداً ِبیَدِ الیَمِینِ صَحِیفَتِی
(التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۲۹)
”آل پیغمبر میرا وسیلہ ہیں ، اور وہی خدا کی بارگاہ میں میرے لئے باعث تقرب ہیں “
” میں امیدوار ہوں کہ ان کے وسیلہ سے میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے“
اسی طرح ”بیہقی“ بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں قحط پڑا، جناب بلال چند اصحاب کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک پر آئے اور اس طرح عرض کی:
”یَا رَسُولَ الله استسق لاٴمّتک فَإنَّہُم قَد ہَلَکُوا “
(التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۵۳)
”یا رسول اللہ! اپنی امت کے لئے باران رحمت طلب فرمائیے کیونکہ آپ کی امت ہلاک ہوا چاہتی ہے“۔
یہاں تک کہ ابن حجر اپنی کتاب ”الخیرات الحسان“ میں نقل کرتے ہیں کہ ”امام شافعی“ بغداد میں قیام کے دوران ”ابو حنیفہ“کی زیارت کے لئے جاتے تھے، اور اپنی حاجتوں میں ان کو وسیلہ بناتے تھے اور ان سے متوسل ہوتے تھے۔
نیز ”صحیح دارمی“ میں ”ابی الجوزاء“ سے نقل ہوا ہے کہ ایک سال مدینہ میں بہت سخت قحط پڑگیا، بعض افراد جناب عائشہ کی خدمت میں جاکر شکایت کرنے لگے، اور ان سے درخواست کی کہ قبر پیغمبر کی چھت میں سوراخ کردیا جائے تاکہ قبر پیغمبر کی برکت سے خداوندعالم باران رحمت نازل فرمادے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس وقت بہت زیادہ بارش ہوئی!
تفسیر ”آلوسی“ میں اس سلسلہ میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں اور پھر ان احادیث کا مفصل طریقہ سے تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد اور مذکورہ احادیث میں بہت سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد ان کا اعتراف کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں:
”اس گفتگو کے تمام ہونے کے بعد میرے نزدیک کوئی مانع نہیں ہے کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص) کو وسیلہ قرار دیا جائے، چاہے پیغمبر اکرم کی زندگی میں ہو یا آنحضرت کے انتقال کے بعد “ موصوف اس سلسلہ میں کافی بحث کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ”خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر کے علاوہ کسی دوسرے سے توسل کرنے میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پیغمبر کے علاوہ جس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بلند و بالا ہو۔
(روح المعانی ، جلد ۴۔۶، صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۵)
لیکن شیعہ منابع و مآخذ میں وسیلہ اور توسل کا موضوع اس قدر واضح ہے کہ اس کو بیان کرنے کی (بھی) ضرورت نہیں ہے۔







(آیت اللہ مکارم شیرازی: نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۳۶۶)
التماس دعا 

مولانا شہروز زیدی