استغاثہ کا جواز اور اس کے معنی ائمہ اہل بیت ع سے مدد طلب کرنا

 Syed Ali Haider Sherazi
استغاثہ کا جواز اور اس کے معنی
زمان و مکان میں بسنے والا انسان اپنی حیات ، شرائط زندگی تلاشِ رزق , تہذیب و تمدن , معاشرتی راہ روش میں بھی باہمی امداد کا محتاج ہے اور جسمانی روحانی لحاظ سے تعاون کے لیے سراپا فقر نظر اتا ہے , ہوا نہ ہو تو سانس نہیں لے سکتا پانی نہ ہو تو پیاس نہیں بجھا سکتا غذا نہ ہو تو شکم سیر نہیں کر سکتا اور اسی طرح باقی اشیاء میں دوسروں کا محتاج ہے
چنانچہ استعانت مزاج انسانی کا حصہ ہے اگر استعانت کو اس کے وجود سے نکال دیا جائے تو ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا چنانچہ استعانت کی جتنی بھی اقسام ہوں گی ظاہری ، باطنی ، مادی اور معنوی سب کا مرکز اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات والا صفات ہے جو رب العالمین ہے ، ہر ایک کی احتیاج ( ضرورت ) کو پورا کرنے والا ہے
بنابریں یہیں یہ درس دیا گیا ہے کہ استعانت کو اسی ذات سے طلب کرنا ہے اسی لیے کہ وہ اپنے وجود میں مستقل ہے اور وہی مستغنی بالذات ہے ، تمام عالم وجود اسی ذات کا محتاج ہے اور باقی موجودات ، اشخاص ، آلات و ادویات ، طبیعی عوامل و عناصر کی اعانت ، استعانت اور مدد مستقل بالذات نہیں ہے اور اگر انہیں مستقل بالذات سمجھ کر ان سے استعانت طلب کی جائے تو یہ شرک ہوگا اور اگر ان اسباب اور عوامل کو اس قادر مطلق کے مظاہر سمجھے تو ان کی حیثیت عارضی قرار پائے گی اور اس کا سبب حقیقی خداوند عالم کی ذات ہوگی ، اس صورت میں کسی قسم کے شرک کا کوئی شائبہ نہ ہوگا
معصومین علیہ السلام سے مدد طلب کرنا در حقیقت خدا ہی کی مدد اور استعانت ہے اس لیے کہ معصومین بارگاہ الہی کے مقربین ہیں اور اسی حوالے سے ان سے استعانت اور استمداد حاصل کرتے ہیں انہیں ابواب الحوائج قرار دیتے ہیں اور ان سے بیماریوں کی شفا چاہتے ہیں اور ان کی مدد دراصل مدد الہی ہے اور ان کی استعانت درحقیقت خدا ہی کی استعانت ہے
تفسیر مرجان ، ص 171
معصومین ع کو جب مخاطب کیا جاتا ہے تو خداوند عالم کے نمائندے کی حیثیت سے مخاطب کیا جاتا ہے تاکہ وہ بارگاہ الہی میں ہمارے لیے سفارش فرمائیں اور بااذن الہی ہماری مدد فرمائیں
آئمہ اہل بیت ع سے مدد طلب کرنے سے متعلق خود معصومین علیہم السلام کا طرز عمل کیا رہا ہے
آئیے دیکھتے ہیں
امام صادق (ع) نے صحیح روايت میں معاويہ ابن عمار کو رسول خدا (ص) کی مطہر قبر کی زیارت کا طریقہ بتایا ہے اور ساتھ ہی اسے رسول خدا (ص) سے توسل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنْ صَفْوَانَ وَ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ:
إِذَا دَخَلْتَ الْمَدِينَةَ فَاغْتَسِلْ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا أَوْ حِينَ تَدْخُلُهَا ثُمَّ تَأْتِي قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله ثُمَّ تَقُومُ فَتُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله …
اللَّهُمَّ إِنَّكَ قُلْتَ- وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً وَ إِنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّكَ مُسْتَغْفِراً تَائِباً مِنْ ذُنُوبِي وَ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى اللَّهِ‏ رَبِّي وَ رَبِّكَ لِيَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي.
وَ إِنْ كَانَتْ‏ لَكَ‏ حَاجَةٌ فَاجْعَلْ‏ قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله خَلْفَ كَتِفَيْكَ‏ وَ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَ ارْفَعْ يَدَيْكَ وَ اسْأَلْ حَاجَتَكَ فَإِنَّكَ أَحْرَى أَنْ تُقْضَى إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
معاويہ ابن عمار نے نقل کیا ہے كہ امام صادق (ع) نے فرمایا: مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے یا جب داخل ہو جاؤ تو غسل کرو، پھر رسول خدا کی قبر کے نزدیک جا کر کھڑے ہو جاؤ اور ان حضرت کو سلام کرو ۔۔۔۔۔ الخ
پھر کہو کہ خدایا آپ نے خود فرمایا ہے کہ: اگر کوئی گناہ گار گناہ کی وجہ سے اپنے نفس پر ظلم و ستم کرے اور پھر آپ (ص) کے پاس آ کر آپکے وسیلے سے طلب مغفرت کرے تو تم دیکھ لو گے کہ خداوند اسکی توبہ کو قبول فرما لے گا اور اس پر رحم کرے گا۔
اور میں اس حالت میں کہ استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں پر توبہ کرتا ہوں اور آپکے پیغمبر کے پاس آیا ہوں اور ” اے رسول خدا ! میں آپکے وسیلے سے اپنے اور آپکے پروردگار کی طرف آیا ہوں تا کہ وہ (خدا) میرے گناہوں کو معاف فرما دیں” ۔
اور اگر تمہاری کوئی حاجت ہو تو رسول خدا کی قبر کو اپنے کندھے کے پیچھے قرار دے کر رو بہ قبلہ کھڑے ہو جاؤ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھا کر اپنی حاجت کو خداوند سے طلب کرو کہ انشاء اللہ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی۔
الكافي الفروع , ج‏ ۴ ، ص ۳۱۷ ، ح ۱ بَابُ دُخُولِ الْمَدِينَةِ وَ زِيَارَةِ النَّبِيِّ ص وَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِه‏
اس کے علاوہ یہ روایت تہذیب الاحکام میں بھی نقل ہوئی ہے
تہذیب الاحکام , ج ۷ ، ص ۶ ، ۷
کامل الزیارات میں بھی نقل ہوئی ہے
کامل الزیارات ، ص ۵۰
——–
1 ) علامہ مجلسی رح نے اس حدیث کو ” حسن ” قرار دیا ہے
الحدیث الاول : ” حسن کالصحیح “
مراہ العقول ، ج ۱۸ ، ص ۲۶۰ ح ۱
2 ) علامہ تقی مجلسی رح فرماتے ہیں
روى الكليني في الصحيح ، عن معاوية بن عمار ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إذا دخلت المدينة فاغتسل قبل أن تدخلها…
كلينی نے صحیح روايت کو معاويہ ابن عمار سے اور اس نے امام صادق عليہ السلام سے نقل کیا ہے کہ
روضة المتقین ، ج ۹ ، ص ۲۵۰ , ۲۵۲
3 ) علامہ حلی نے كتاب « منتهي المطلب » میں بھی اس روايت کو صحيح کہا ہے:
وصفة زيارته صلى الله عليه وآله ما رواه الشيخ في الصحيح عن معاوية بن عمار عن أبي عبد الله ( ع ) قال إذا دخلت المدينة فاغتسل قبل أن تدخلها..
رسول خدا (ص) کی زیارت کی کیفیت اور طریقہ وہی ہے کہ جسے شيخ کلینی نے صحیح روایت میں معاویہ ابن عمار اور اس نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے
منتھی المطلب ، ج ۱۳ ، ص ۲۶۲ , ۲۶۳
__________
اس روایت میں امام صادق علیہ السلام نے اپنے صحابی کو رسول اللہ سے توسل کا طریقہ سکھایا اور اس روایت میں واضح ہے کہ رسول اللہ ص سے استغاثہ کیا گیا
(2) دوسری روایت :
علامہ میرزا حسین نوری طبرسی ؒ نے الکافي سے اپنی کتاب ” مستدرک الوسائل ” میں روایت نقل کی ہے کہ معصوم (علیه السلام) فرماتے ہیں :
جب تمہیں کسی بات سے غم پہنچے تو نماز کے آخری سجدوں میں کہو :
يا جبرئيل يا محمد يا جبرئيل يا محمد – تكرر ذلك – اكفياني ما انا فيه فإنكما كافيان، واحفظاني فإنكما حافظان .
اے جبرائیل ؑ ، اے محمد (ص)، ( اس کا تکرار کرو) …… میں جس میں مبتلا ہوں ، میری کفایت کیجئے، کیونکہ آپ دونوں کافی ہیں اور اللہ کے اذن سے میری حفاظت کیجئے ، کیونکہ آپ دونوں حفاظت کرنے والے ہیں ۔
مستدرك الوسائل – الميرزا النوري – ج ٤ – الصفحة ٤٦٤
یہاں بھی اسی طرح رسول اللہ سے توسل کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہاں یہ بات واضح ہے کہ رسول اور یہاں یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ ص کو قربت الہی کی بنیاد پر پکارا جا رہا ہے یعنی وہ اللہ کے اذن سے ہماری مدد کر سکتے ہیں
چونکہ یہاں پر اللہ تعالی ہی حقیقی فاعل ہے اور اللہ کا اذن رسول اللہ کو حاصل ہے لہذا یہ عمل شرک شمار نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر حقیقی فاعل خداوند عالم کی ذات کو سمجھا جا رہا ہے
ثقه الاسلام کُلینی روایت کرتے ہیں:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زِيَادٍ الْقَنْدِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْقَصِيرِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي اخْتَرَعْتُ دُعَاءً قَالَ دَعْنِي مِنِ اخْتِرَاعِكَ إِذَا نَزَلَ بِكَ أَمْرٌ فَافْزَعْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ( صلى الله عليه وآله ) وَ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ تُهْدِيهِمَا ۔۔۔۔ الخ
يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشْكُو إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكَ حَاجَتِي وَ إِلَى أَهْلِ بَيْتِكَ الرَّاشِدِينَ حَاجَتِي وَ بِكُمْ أَتَوَجَّهُ إِلَى اللَّهِ فِي حَاجَتِي ثُمَّ تَسْجُدُ وَ تَقُولُ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ حَتَّى يَنْقَطِعَ نَفَسُكَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ افْعَلْ بِي كَذَا وَ كَذَا۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) فَأَنَا الضَّامِنُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يَبْرَحَ حَتَّى تُقْضَى حَاجَتُهُ.
عبد الرحیم قصیر روایت کرتا ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس گیا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان ! میں نے ایک دعاء بنائی ہے۔ آپ (ع) نے فرمایا: اپنی بنائی ہوئی دعا کو چھوڑو ، جب بھی تمہیں کوئی مشکل پیش آئےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے استغاثہ کرو۔دو رکعت نماز پڑھ کراسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدیہ کرو۔ راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: یہ عمل کس طرح انجام دوں۔ آپ (ع) نے فرمایا: غسل کرودو رکعت نماز فریضہ نماز کی طرح ادا کرو اور فریضہ نماز کی طرح تشہد پڑھو، جب سلام پڑھ چکو تو یہ دعا پڑھو: اے میرے معبود!تو سلام ہے، تیری طرف سے سلامتی ہے اور تیری ہی طرف سلامتی منتہی ہوتی ہے۔ اے میرے معبود! محمد اور اس کی آل پر اپنی رحمت فرما۔میرا سلام پہنچا روح محمد تک اور آئمه الصادقین تک میرا سلام پہنچا۔ اور ان کی طرف سے مجھے سلامتی عطافرما! سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ان پر۔۔
” یا محمد! یا رسول اللہ! میں اپنی حاجت اللہ کے حضور اور آپ کے حضور پیش کرتا ہوں اور ہدایت یافتہ اہلبیت کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں “
الفروع الکافي: ج ۳ ، ص ۲۷۲ ، کتاب الصلواة:
باب: صَلَاةِ الْحَوَائِجِ: حديث: 1
اس حدیث میں رسول اللہ ص سے استغاثہ کی ترغیب دلائل گئی ہے
دوسری حدیث :
عَنْهُ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِالْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ فِيمَا يُحِبُّ اللَّهُ وَ يَرْضَى الْأَوْصِيَاءُ وَ أَتْبَاعُهُمْ أَ مَا تَرْضَوْنَ أَنَّهُ لَوْ كَانَتْ فَزْعَةٌ مِنَ السَّمَاءِ فَزِعَ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَأْمَنِهِمْ وَ فَزِعْتُمْ إِلَيْنَا وَ فَزِعْنَا إِلَى نَبِيِّنَا إِنَّ نَبِيَّنَا آخُذٌ بِحُجْزَةِ رَبِّهِ وَ نَحْنُ آخِذُونَ بِحُجْزَةِ نَبِيِّنَا وَ شِيعَتُنَا آخِذُونَ بِحُجْزَتِنَا.
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے تھے:
پرہیزگاری اور اللہ کی رضا اور محبت کی راہ میں جدوجہدکے لیے سب سے زیادہ لائق اوصیاء اور ان کے اتباع کرنے والے ہیں۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جب آسمان سے کوئی مصیبت آتی ہے تو ہر قوم اپنی پناہ دینے والے سے فریاد کرتی ہے اور تم ہم سے استغاثہ کرتے ہو اور ہم اپنے نبی سےاستغاثہ کرتے ہیں اور ہمارے نبی اپنے رب سے استغاثہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ہمارے نبی کا دامن ہوتا ہے اور ہمارے شیعوں کے ہاتھ میں ہمارے دامن۔
المحاسن البرقی ، باب ۴۴ ، ح ۱۸۳
تیسری حدیث
عَنْهُ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْعِجْلِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع‏ مَا تَبْغُونَ أَوْ مَا تُرِيدُونَ غَيْرَ أَنَّهَا لَوْ كَانَتْ فَزْعَةٌ مِنَ السَّمَاءِ فَزِعَ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى مَأْمَنِهِمْ وَ فَزِعْنَا إِلَى نَبِيِّنَا وَ فَزِعْتُمْ إِلَيْنَا۔
بُرید کہتا ہے امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
تمہیں اور کیا چاہیے.. اگر آسمان سے کوئی مصیبت آئے تو ہر قوم اپنے پناہ دینے والے سے فریاد کرتی ہے ، ہم اپنے نبی سے فریاد کرتے ہیں اور تم ہم سے فریاد کرتے ہو
المحاسن البرقی ، باب ۴۴ ، ح ۱۸۴
ان تینوں آیات میں بھی رسول اللہ ص سے استغاثہ کا حکم ہو رہا ہے اور سابقہ قسط میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ استغاثہ بطور وسیلہ ہوگا یعنی خداوند عالم نے ان ہستیوں کو یہ ازن عطا فرمایا ہے کہ یہ بارگاہ الہی میں ہماری سفارش کر سکتے ہیں اور خداوند عالم کے حکم سے ہماری مدد کر سکتے ہیں
رسول اللہ ص کی وفات کے بعد انہیں پکارا جانا
1) ) حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ الْمِيثَمِيِّ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُفَضَّلِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السلام ) يَقُولُ جَاءَتْ فَاطِمَةُ (عليها السلام ) إِلَى سَارِيَةٍ فِي الْمَسْجِدِ وَ هِيَ تَقُولُ وَ تُخَاطِبُ النَّبِيَّ ( صلى الله عليه وآله ): قَدْ كَانَ بَعْدَكَ أَنْبَاءٌ وَ هَنْبَثَةٌ لَوْ كُنْتَ شَاهِدَهَا لَمْ يَكْثُرِ الْخَطْبُ إِنَّا فَقَدْنَاكَ فَقْدَ الْأَرْضِ وَابِلَهَا وَ اخْتَلَّ قَوْمُكَ فَاشْهَدْهُمْ وَ لَا تَغِبُ
امام جعفر صادق ع فرمایا:
حضرت فاطمه الزہراء مسجد کے ستون کی طرف آئیں اورانہوں نے نبی اکرم کو مخاطب کرکے فرمایا: آپ کے بعد کچھ ایسی خبریں اور باتیں ہیں کہ اگر آپ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ہم نے آپ کو کھودیا اور زمین نے بارش کو۔
الروضه الکافی: حدیث: ۵۶۴
————-
2 ) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ ( صلى الله عليه وآله ) إِنَّهُ يَمُوتُ مَنْ مَاتَ مِنَّا وَ لَيْسَ بِمَيِّتٍ.
اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ: ہم میں سے جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے۔
نہج البلاغه : خطبه ۸۶ ، ص ۱۹۸
————-
3 ) حضرت علی علیہ السلام جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب غسل دے رہے تھے تو فرمارہے تھے:
بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَ الْإِنْبَاءِ وَأَخْبَارِ السَّمَاءِ خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ وَعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً وَلَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَنَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ لَأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ وَلَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا وَالْكَمَدُ مُحَالِفاً وَقَلَّا لَكَ وَلَكِنَّهُ مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّهُ وَلَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُهُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ وَاجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ
یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کے رحلت فرمانے سے، نبوت، خدائی احکاماور آسمانی خبروں کا سلسلہ قطع ہوگیا جو کسی اور (نبی) کے انتقال سے قطع نہیں ہوا۔۔۔۔۔میرے ماں باپ آپ پر قربان ! ہمیں اپنے پروردگار کے پاس یاد کیجیے گا اور ہمارا خیال رکھیے گا۔
نھج البلاغه: خطبه ۲۳۴ ، ص ۵۴۲
اب ہم معصومین ع سے استغاثہ و مدد کے سلسلے میں بعض علمائے امامیہ کے اقوال پیش کرتے ہیں
مجلسی اول (تقی مجلسیؒ) :
تقی مجلسی رح نے اپنی کتاب روضة المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ میں، حج کرنے کے بعد قبور آئمہ کی زیارت اور ان سے مددطلب کرنا مستحب قرار دیا ہے۔
آپ نے امام باقر علیہ السلام کے قول:
:« ابدءوا بمکة و اختموا بنا»
“مکہ سے ابتدا کرو اور ہم پر اختتام کرو” کی شرح میں لکھتے ہیں:
“لتعلم الأحکام کما کان دأب أصحاب الأئمة صلوات الله علیهم، و بعد وفاتهم لزیارة قبورهم و تجدید عهودهم و الاستمداد منهم و الاستشفاع بهم”
“(انکی زندگی میں) ان سے احکام کی تعلیم حاصل کرنا جیسے اصحاب آئمہ کرتے تھے اور ان کی وفات کے بعد انکی قبور کی زیارت کرنا، ان سے تجدید عہد کرنا اور ان سے مدد مانگنا اور ان سے شفاعت چاہنا۔”
روضة المتقین فی شرح من لا یحضره الفقیه، ج ۹ ، ص ۲۳۶
2 ( شیخ جعفر کاشف الغطاء ؒ:
انہوں نے اپنی فقہی کتاب “کشف الغطاء”میں اہلبیت علیہم السلام سے استغاثہ کو اللہ تعالیٰ سے استغاثہ قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ واسطہ فیض الاہی ہیں۔
أنّ نداء النبيّ صلّى اللّه عليه و آله و سلّم، و آله عليهم السلام، و سائر أولياء اللّه عليهم السلام، و ترجّيهم، و الاستغاثة بهم،و الالتجاء إليهم، و الاعتماد عليهم، و التعويل عليهم و نحوها مرجعها إلى اللّه تعالى.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انکی آل اطہار(ع) اور سب اولیاء اللہ (ع) کو پکارنا، ان سے استغاثہ، ان سے التجا اور ان پر اعتماد کرنا وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹتے ہیں
(کشف الغطاء عن مبهمات الشریعة الغراء، ج3 ص 519)
3 ) آیت اللہ ابوالقاسم خوئیؒ:
آپ اپنی فقہی کتاب “صراط النجاة” میں ایک سوال کے جواب میں اہلبیت علیہم السلام سے حاجت طلب کرنے اور استغاثہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔
سؤال 1426:
من الرسوم في هذه البلاد ان المؤمنين يستغيثون «بالإمام الحجة» عليه السّلام بعد كل صلاة و يقولون يا صاحب الزمان يا ابن الحسن العسكري عجل على ظهورك، و استشكل عليهم بعض العلماء بأن هذا ينافي عقيدة الشيعة، فإن الإمام لا يملك أمره، و الدعاء لا بدّ ان يكون من‌ اللّٰه فهل يرد هذا الاشكال و يحرم مثل هذه الاستغاثة أم لا؟
الخوئي: الإشكال المذكور غير وارد فان الغرض من الجملة المذكورة الدعاء و الالتماس منه عليه السّلام بتعجيل ظهوره بطلبه عليه السّلام من اللّٰه تعالى ذلك كما هو الحال في سائر الأدعية المشتملة على طلب الحوائج من الأئمة الأطهار عليهم السّلام، فان معنى ذلك هو جعلهم عليهم السّلام واسطة عند اللّٰه تعالى و قد ذكر مضمونه في ذيل دعاء العهد الوارد في صباح أربعين يوما عن الصادق عليه السّلام، و اللّٰه العالم.
سوال: اس شہر کے لوگوں میں رائج ہے کہ مؤمنین ہر نماز کے بعد امام حجت علیہ السلام سے استغاثہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یا صاحب الزمان! یا ابن الحسن العسکری اپنے ظہور میں تعجیل کیجیے۔ بعض علماء نے اس پر اعتراض کیا ہےکہ یہ شیعہ عقیدہ کے خلاف ہےکیونکہ امام کو یہ اختیار نہیں ہے پکار صرف اللہ کے لیے ہے۔ کیا یہ اعتراض صحیح ہے اور اس طرح کا استغاثہ حرام ہے یا نہیں؟
جواب:مذکورہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔ اس پکار اور ان علیہ السلام سے ظہور کی التماس سے مراد ان کے ذریعے اللہ سے دعا ہے اور یہی حال باقی ان سب دعاؤں کا ہے جس میں آئمہ اطہار علیہم السلام سے حاجات طلب کی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں واسطہ بنایا ہے۔ اس کا مضمون دعاء عہد کے ذیل میں گذرا ہےجو امام صادق علیہ السلام سے چالیس صبح کے لیے وارد ہوئی ہے۔
صراط النجاة المحشى للخوئي، ج ‌2، ص: 456‌
4 )ڈاکٹر غلام حسین عدیل
دور حاضر کے بہترین محقق و مفسر ڈاکٹر غلام حسین عدیل لکھتے ہیں
جس طرح عبادت کا تعلق صرف اور صرف خداوند عالم کے ساتھ ہے، اسی طرح ” استعانت ” بھی پروردگار عالم کے ساتھ مخصوص ہے۔ عبادت بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ اور استعانت بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ذات و ذوالجلال کے ساتھ مختص ہے۔ انبیاء و معصومین (علیه السلام) اور ملائکہ مقربین خداوند عالم کی مقرب ہستیاں ہیں۔ ان کا قول، قولِ خدا اور ان کا فعل، فعلِ الہی ہے۔ کوئی بھی انہیں رب مطلق مان کر ان سے مدد اور شفاعت نہیں چاہتا ہے بلکہ انہیں وسیلہ، ذریعہ، رابطہ، شفیع اور ذریعہ نجات سمجھ کر ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔
اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ معصومین ؑ بارگاہِ الہی میں مقرب مخلوق ہیں۔ ان میں وسیلہ ہونے کی اہلیت ہے کہ یہ ہماری دعاؤوں کو قبول کرائیں گے، ہماری مشکلات کو دور کرائیں گے اور قیامت کے میدان میں ہماری مغفرت کیلئے شفاعت فرمائیں گے۔ یہ دراصل ذاتِ پروردگار کا اپنے بندوں پر لطف و احسان اور مہربانی ہے ۔
واضح رہے کہ جہاں جہاں قرآن میں ” من دون الله ” کا تذکرہ اور ان سے چھٹکارے کی تاکید ہے وہاں غیر الله سے مراد کف ا ر و مشر کین کے خدا اور ان کے معبود مراد ہیں، کیونکہ عرب ان بتوں کو اپنا وسیلہ سمجھتے تھے چنانچہ ارشاد پروردگار ہے :
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُـمْ وَلَا يَنْفَعُهُـمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّـٰهِ ۔
اور الله کو چھوڑ کر ان بتوں کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ (باطل معبود) الله کے نزدیک ہماری شفاعت اور سفارش کرنے والے ہیں ۔
سورہ یونس ١٨
اور پهر ارشاد فرمایا :
وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ ۔
وہ لوگ جنہوں نے الله کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا سرپرست قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اس لیئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کے نزدیک کر دیتے ہیں ۔
سورہ زمر ٣
ک فا ر و مشر کین ان بتوں کو خدا کے تقرب کا ذریعہ اور اپنے لیئے شفیع سمجھتے تھے، حالانکہ وہ شفیع و تقرب خداوندی کا ذریعہ کہاں بلکہ جہنم کا ایندهن ہیں، اسی لئے ارشاد فرمایا :
فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّـٰهِ اَحَدًا ۔
الله کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو ۔
سورہ جن ١٨
پس ان آیات مبارکہ اور ان کے مفاہیم میں غور و فکر کرنے سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ بتوں میں شفاعت، سفارش اور وسیلہ بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ خدا کی بارگاہ میں ایسے ویسے سفارش کرنے والے تلاش کرنا باطل کوشش ہے، جبکہ شفاعت اور توسل خدا کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو وسیلہ نہیں بنایا جا سکتا جیسا کہ کفا ر و مشر کین نے اپنی مرضی سے انہیں وسیلہ قرار دیا۔ یہ بات وہ ہے جو دین خالص کے خلاف ہے اور اسے کوئی صاحب ِ ایمان تسلیم نہیں کرتا چنانچہ یہ کہاں سے ثابت ہے کہ جنہیں پروردگار اپنی بارگاہ شفیع اور اپنی اجازت سے شفاعت کرنے والا اور جنہیں وہ خود وسیلہ بننے کی صلاحیت عطا کر دے، ان سے شفاعت/سفارش کی درخواست کرنا اور انہیں اپنی مشکلات و حاجات میں وسیلہ قرار دینا جائز نہیں ہے ؟ وہ مقدس نفوس ہیں، ان سے توسل کیونکر جائز نہ ہو ؟؟؟
کتاب : المرجان في تفسیر القرآن
تالیف : علامہ غلام حسین عدیل
صفحہ : ١٧٧،١٧٨،١٧٩
————
گفتگو تمام ہوئی , یہ موضوع بحث طلب ہے ، ہم نے اختصار کے پیش نظر فقط کلام معصومین ع سے استدلال کیا اور چند علماء اعلام کے اقوال پیش کردیے جنہوں نے استمداد و استعانت کو جائز قرار دیا ہے
خداوند عالم ہمیں حقیقی معنوں میں اہل بیت ع سے تمسک کی توفیق عنایت فرمائے
.
💞 *مولا امام جعفرالصادق علیہ الصلٰوۃ والسّلام سے مروی زیارتِ مولا امیرالمومنین علی علیہ الصلٰوۃ والسّلام کے جُملے*
🙇🏻‍♂️ *وعَلَى العَدُوِّ نَصيرا ، وعَلَى الدَّهرِ ظَهيراً *
✔️ *یا مولا (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) دشمن کے مقابلے میں میرےؐ مددگار بنیں۔*
✔️ *یا مولا (علیہ الصلٰوۃ والسّلام) آپؐ زمانے کی سختیوں میں میرےؐ مددگار بنیں۔*
📚 *حوالہ جات:*
📕المزار، الشهيد الأول، صفحه 97
📗زاد المعاد، العلامة المجلسي، صفحه 480
📘موسوعة الإمام عليّ بن أبي طالب (ع) في الكتاب و السُّنَّة و التّاريخ، الشيخ محمد المحمدي الري شهري، جلد 4، صفحه 346