واقعه کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام حقائق کی روشنی میں

ســیـد نــادر حـسـیـن نــقـوی
محرم الحرام کے مہینہ کی مناسبت سے “واقعه کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام” پر کئے گئے مختلف قسم کے اعتراضات کے جوابات میں ایک تحریری سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔
ان شاءاللہ تعالیٰ اس سلسلے سے مومنین کرام بھر پور استفادہ کرے گے
یہ اعتراضات مختلف نوعیت کے ہیں
بعض حضرات نے تو خود واقعه کربلا کا ہی انکار کر دیا جیسا مرزا حیرت دہلوی نے کیا
بعض نے یزید کو خلیفہ برحق ثابت کرنے کی کوشش کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کا یزید کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا (معاذالله)
بعض نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد یزید کے خلاف خروج کرنا نہیں تھا بلکہ وہ تو یزید کی بیعت کرنا چاہتے تھے لیکن کوفیوں نے ایسا نہیں کرنے دیا
بعض نے یزید کو نیک و صالح اور متقی ثابت کرنے کی کوشش کی
بعض نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید کی رشتہ داری کو آڑ بنا کر شہادت امام حسین علیہ السلام کو حادثہ ثابت کرنے کی کوشش کی
بعض ض نے حضرت امام حسین علیہ السلام پر کئے گئے ظلم کو جھوٹا اور افسانہ ثابت کرنے کی کوشش کی
اس طرح کے اور بہت سے اعتراضات ہیں جن کے جوابات اس تحریری سلسلہ میں دیئے جائے گے (ان شاءاللہ تعالیٰ)
اہلحدیث مسلک کے ایک عالم محمد عمران جس نے یزید کے دفاع میں ایک پوری کتاب لکھ دی ان کا ایک رسالہ نظر سے گزرا جس کا نام “دو مظلوم بھائی” ہے۔
اس رسالہ کے ابتداء میں وہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید کی رشتہ داری کو آڑ بنا کر یزید کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ لکھتا ہے
“حضرت حسین رض اور یزید کی آپس میں محبت اور گہری رشتہ داری تھی۔ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسین کے نانا اور یزید کے پھوپھا تھے”
(دو مظلوم بھائی/ صفحہ 1 )
عمران صاحب یزید کی محبت میں یہ بھی بھول گئے کہ اسلام میں نجات کا معیار رشتہ داری نہیں ہے قرآن مجید و احادیث صحیحہ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ہابیل اور قابیل کا واقعہ
وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۲۷﴾
ترجمه: “اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے”.
قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا ذکر موجود ہے دونوں نبی کے بیٹے ہیں لیکن ایک مظلوم اور دوسرا ظالم ہے
کیا قابیل کو حضرت آدم علیہ السلام کی رشتہ داری فائدہ دے گی اور وہ اس رشتہ داری کی وجہ سے عذاب سے بچ جائے گا؟
حضرت نوح کا بیٹا
وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۴۲﴾
ترجمه: “اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو”.
قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو جہنمی قرار دیا گیا کیا پسر نوح کو حضرت نوح علیہ السلام سے رشتہ داری فایدہ دے گی؟
ابو لہب اور اس کی بیوی
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ
ترجمه: “ہلاکت میں جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو جائے”.
ابو لہب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا تھا لیکن اس کے باوجود قرآن مجید نے ابو لہب کو جہنمی کہا ہے کیا ابو لہب کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رشتہ داری فایدہ دے گی؟
زوجہ فرعون حضرت آسیہ بنت مزاحم
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾
ترجمه: “اور اللہ نے مومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، اس نے دعا کی: اے میرے رب! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما”.
اہلسنت والجماعت کی تفاسیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے
(قولھوا سمھا آسیه) با لمد و کسر السطین بنت مزاحم قیل آنھا اسرئیلیة و آنھا عمته موسیٰ
ترجمه: “حضرت آسیہ بنت مزاحم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی عورت تھی اور حضرت موسیٰ نبی خدا کی پھوپھی تھی”
(تفسیر الفتوحات الٰہیہ /جلد 8 / صفحہ 53 )
فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پھوپھا تھا کیا فرعون کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پھوپھا اور حضرت آسیہ بنت مزاحم کا شوہر ہونا اس کو کوئی فایدہ دے گا ؟
ابو یعلی الموصلی(المتوفیٰ 307ھ) نے اپنی مُسند میں صحابی رسولؐ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضي الله عنه سے قول رسولؐ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نقل کیا ہے:
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ حَتَّى يَكُونَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ يُقَالُ لَهُ: يَزِيدُ “
ترجمه: “هم سے حکم بن موسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، جنہوں نے اوزاعی سے جنہوں نے مکحول سے جنہوں نے حضرت ابو عبیدہ سے روایت کی، کہا:
رسول الله ص نے فرمایا:
’’میری امت انصاف کے ساتھ قائم رہے گی حتی کہ پہلا شخص جو اس میں دراڑ ڈالے گا وہ بنی امیہ میں سے ایک مرد ہوگا، اسکا نام یزید ہوگا۔‘‘
اس سند میں تمام راوی ’’ثقہ‘‘ ہیں۔
(مسند ابی یعلیٰ/ جلد ۲ / صفحہ ۱۷۶)
صحابی رسولؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ کا یزید کو بقول رسولؐ، سنت رسولؐ کا بدلنے والا بتانا
ابن ابی عاصم (المتوفیٰ 287ھ) کی کتاب ’’الأوائل‘‘ میں آیا ہے:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»
ترجمه: “ہم سے عبید اللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، جس نے مھاجر بن مخلد سے جس نے ابو عالیہ سے جس نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے یزید بن ابی سفیان سے کہا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا تھا:
“پہلا شخص جو میری سنت تبدیل کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ایک مرد ہوگا‘‘
قال البانی: اسنادہ حسن
(سلسلہ احادیث صحیحة / جلد ۴ / صفحہ ۲۲۹
قال حافظ زبیر علی زئی: اسنادہ حسن لذاتة
(مقالات/ جلد ۶/ صفحہ ۳۸۸)
اہلحدیث مسلک کے عالم کفایت اللّٰہ سنابلی ہندی نے یزید کے دفاع میں ایک مکمل کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے “یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ” اس کتاب میں موصوف نے یزید کے دفاع کی آڑ میں نا صرف یہ کہ جھوٹ سے کام لیا بلکہ اھلبیت علیھم السلام اور اصحاب رسول رضوان الله علیہم اجمعین کی بھی توہین کی۔
اس میں سنابلی صاحب نے یزید کا دفاع کرتے ہوئے ایک صحیح اور حسن درجہ کی روایت کو مردود، موضوع اور من گھڑت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ایسا کرنے میں انہوں نے بہت زیادہ جھوٹ سے کام لیا ان کے دس جھوٹ کا خود ان کے مسلک کے عالم حافظ زبیر علی زئی صاحب نے چاک کیا ۔
حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب “مقالات/ جلد ۶ / صفحہ ۳۸۸” پر یہ عنوان قائم کیا:
“کفایت اللّٰہ سنابلی ہندی کے دس (۱۰) جھوٹ “
اس میں حافظ زبیر علی زئی صاحب نے تقریباً 23 صفحات پر سنابلی صاحب کے دس جھوٹ بھی ثابت کئے اور اس حدیث کو صحیح اور حسن بھی ثابت کیا
تفصیلی جواب پڑھنے کے لئے مقالات کی طرف رجوع کیا جائے
محمد عمران صاحب اپنے پیر و مرشد یزید کی وکالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“۵۳ ھ میں حج سے واپسی پر مدینہ منورہ یزید کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضي الله عنه (جو کہ حضرت علی رضي الله عنه کے داماد اور حضرت حسن و حسین رض کے بہنوئی تھے) کی بیٹی ام محمد سے ہوئی اس رشتہ ازواج سے یزید کی حضرت علی رض کے خاندان سے قرابت داری اور وابستگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے”.
(دو مظلوم بھائی/ صفحہ 2 )
سب سے پہلی بات کہ عمران صاحب یزید کی محبت میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ خود ساختہ رشتے بنا کر اپنے پیر و مرشد یزید کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ایسا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہے حتیٰ کہ معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر رضي الله عنه یزید سے نفرت کرتے تھے بطور نمونہ ہم تاریخ طبری سے صرف ایک حوالہ پیش کرتے ہیں
علامہ طبری لکھتے ہیں:
“عبداللہ بن جعفر رضي الله عنه کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنے دونوں بیٹوں کے قتل ہونے کی خبر پہنچی تو ان کے بعض خدام اور سب لوگ پرسہ دینے کو ان کے پاس آئے۔ خدام میں ایک ان کا غلام آزاد شائد ابو السلام کہنے لگا۔
یہ مصیبت ہم پر حسین ع نے ڈالی (معاذ اللہ)
عبداللہ بن جعفر رض نے یہ سن کر اسے جوتا کھینچ کر مارا اور کہا:
او پسر لخناء! حسین ع کی نسبت ایسے کلمہ کہتا ہے
والله ! اگر میں وہاں ہوتا تو ہرگز ان سے جدا نہ ہوتا اور یہی چاہتا کہ ان کے ساتھ میں بھی شہید ہو جاؤں
والله ! وہ ایسے (نیک بخت) ہیں کہ ان دونوں فرزندوں کے عوض اپنی جان میں بھی ان پر فدا کرتا۔
ان دونوں فرزندوں کی مصیبت کو میں مصیبت نہیں سمجھتا انہوں نے میرے بھائی میرے ابن عم کے ساتھ ان کی رفاقت میں صبر و رضا کے ساتھ اپنی جان دی ہے۔
یہ کہہ کر اپنے ہم نشینوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا شکر ہے خداوند عالم کا جس نے شہادت حسین ع کے غم میں ہم کو مبتلاء کیا کہ حسین ع کی نصرت میرے ہاتھوں سے نہ ہوئی تو میرے فرزندوں سے ہوئی”.
دوسری بات اگر بفرض محال ایسا کوئی رشتہ ہوا بھی ہو تو ہم پہلی قسط میں قرآن مجید کی 5 عدد آیات سے ثابت کر چکے ہیں کہ اسلام میں رشتہ داری راہ نجات نہیں ہے اگرچہ رشتہ میں کوئی کسی نبی کا بیٹا، بیویاں یا پھوپھا (فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پھوپھا تھا) ہی کیوں نا ہو نجات کا دارومدار ایمان و عمل سے ہے
اہلسنت والجماعت کے مشہور عالم منظور حسین نعمانی صاحب کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نے یزید کے دفاع میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام “واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ایک نئے مطالعہ کی روشنی میں” اس کتاب میں موصوف نے نا صرف یہ کہ یزید کی وکالت کی بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ان کے اہل و عیال اور اصحاب و انصار پر ہونے والے مظالم پر بھی اعتراضات کئے اور ان کو افسانے قرار دینے کی جسارت کی ہے
سنبھلی صاحب اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں:
“اس کی بے حد شہرت ہے یہ (کربلا) آب و گیاہ رتیلا میدان تھا مگر واقعہ میں یہ بات بے اصل ہے۔۔۔۔۔وہاں بانس اور نرکل (قصباء) کا جنگل تھا”
(واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ایک نئے مطالعہ کی روشنی میں/ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ)
اے کاش مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب اپنی ہی کتابوں کا ہی مطالعہ کرتے تو ان کو ابن زیاد کا وہ خط نظر آتا جو اس نے حر کو لکھا تھا
علامہ طبری اس خط کو نقل کرتے ہیں:
حر کو ابن زیاد کا خط
“میرا قاصد اور میرا خط جب تم کو پہنچے تو حسین (علیہ السلام) کو بہت تنگ کرنا۔ ان کو ایسی جگہ اترنے دینا جہاں چٹیل میدان ہو کوئی پناہ کی جگہ نہ ہو۔ جہاں پانی نا ہو۔ دیکھو قاصد کو میں نے حکم دے دیا ہے کہ وہ تم پر نگران رہے تمہارا ساتھ نہ چھوڑے جب تک کہ میرے پاس یہ خبر لے کر نہ آئے کہ تم نے میرے حکم کو پورا کر دیا”.
(تاریخ طبری/ جلد ۴ / صفحہ ۱۹۵ / حصہ اول مترجم)
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب نے اپنی کتاب “واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ایک نئے مطالعے کی روشنی میں” نا صرف یہ کہ یزید کی وکالت اور دفاع کرنے کوشش کی بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ان کے اہل و عیال اور اصحاب و انصار پر ہونے والے مظالم کو چھپانے اور انکار کرنے کی بھی ناکام کوشش کی
سنبھلی صاحب لکھتے ہیں:
“کربلا جیسی لب دریا سر زمین پر اس بات کو ممکن سمجھ لینا کہ وہاں ڈیرھ سو ایسے مسلح انسانوں پر جن میں تیس تیس سوار بھی تھے، مسلسل تین دن تک پانی کی مکمل بندش کی جا سکتی تھی، یہ بات عقل و خرد سے مکمل رخصت لیے بغیر ممکن نہیں”.
(واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ایک نئے مطالعے کی روشنی میں/ صفحہ ۲۴۰)
سنبھلی صاحب یزید کی محبت میں بغیر سوچے سمجھے تمام حقائق کا انکار کرتے جا رہے ہیں شیعوں کی کتابوں سے تو وہ جاہل تھے ہی لگتا ہے کہ اپنی کتابوں کو بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی صاحب اپنی کتاب “سر الشہادتین” میں لکھتے ہیں:
“بائیس ہزار کے اس لشکر عظیم نے نہر فرات کے کنارے اپنا کیمپ لگا دیا اور حضرت امام حسین رضي الله عنه اور ان کی اہلبیت ع اور ان کے ساتھیوں پر فرات سے پانی لینے میں رکاوٹ بن گئے (اس طریقہ سے اھلبیت رسول کا پانی بند کر دیا)
(شہادت حسنین ترجمہ سر الشہادتین / صفحہ 66)
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی صاحب کی اسی کتاب سر الشہادتین کے مترجم شاہ سلامت الله ” تحریر الشہادتین” میں رقمطراز ہیں:
“اھلبیت ع اور تمام دوست و اصحاب بلکہ جانور تک پیسے اور بیتاب تھے۔ زبانوں کو خشکی کے باعث قوت گفتار نہیں رہ گئی تھی، اشاروں میں گفتگو ہوتی تھی اور نمازیں تیمم سے ادا ہوتی تھیں”.
(تحریر الشہادتین/ صفحہ 29)
مولانا طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں:
“ابن زیاد کے کہنے پر پانچ سو شکریوں کو بھیجا کے وہ فرات پر قبضہ کر لیں اور امام حسین ص کو ایک گھونٹ پانی تک نہ لینے دیں”۔
(شہادتٍ امام حسین ع / صفحہ 40)
سید شاہ تراب الحق قادری لکھتے ہیں:
“اس کے با وجود ظالموں نے اہل بیتٍ اطہار پر دریاۓ فرات کا پانی بند کر ،تین دن کے بھوکے اور پیاسے امام عالی مقام۔۔۔یعنی امام حسین ع “.
(شہادت امامٍ حسین، سنی داستان اہل بیت ع/ صفحہ)
   
کفایت اللّٰہ سنابلی صاحب اپنے پیر و مرشد یزید کی وکالت کرتے ہوئے اپنی کتاب “یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ” میں ایک عنوان قائم کیا جس کا نام ہے” حسین (علیہ السلام) کے قاتل یزید نہیں، بلکہ اہل کوفہ تھے” اس عنوان کے زیر میں وہ لکھتے ہیں:
یزید پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے حسین (علیہ السلام) کو قتل کروایا۔ یہ الزام سراسر جھوٹ ہے کسی بھی معتبر کتاب میں یہ نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔
(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ/ صفحہ 329)
معجم طبرانی میں صحیح السند روایت ملاحظہ فرمائیں
حدثنا علي بن عبد العزيز ثنا الزبير بن بكار حدثني محمد بن الضحاك بن عثمان الحزامي عن أبيه قال خرج الحسين بن علي رضي الله عنهما إلى الكوفة ساخطا لولاية يزيد بن معاوية فكتب يزيد بن معاوية إلى عبيد الله بن زياد وهو واليه على العراق إنه قد بلغني أن حسينا قد سار إلى الكوفة وقد ابتلى به زمانك من بين الأزمان وبلدك من بين البلدان وابتليت به من بين العمال وعندها يعتق أو يعود عبدا كما يعتبد العبيد فقتله عبيد الله بن زياد وبعث برأسه إليه فلما وضع بين يديه تمثل بقول الحسين بن الحمام
ترجمه: “محمد بن ضحاک بن عثمان حزامی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہا کوفہ کی طرف اس حال میں تشریف لے چلے کہ آپ یزید بن معاویہ کی حکومت سے نالاں تھے پس یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کی طرف جبکہ وہ عراق پر حاکم تھا خط لکھا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف چل پڑے ہیں جبکہ تو ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور حاکموں میں سے تجھے ان کے ساتھ جنگ کرنے کی تکلیف دی جاتی ہے۔ عبید اللہ بن زیاد نے آپ کو شہید کر کے آپ کا سر یزید کی طرف بھیج دیا، پس جب وہ اس کے سامنے رکھا گیا تو اس نے حسین بن حمام کے قول کے ساتھ مثال دی: ہم نے ان لوگوں کی کھوپڑیاں پھوڑ دی، وہ ہمیں پسند تھے لیکن وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔۔۔
(معجم الکبیر جلد 2 ح 2846)
(معجم الکبیر اردو جلد 2 ص 418 ح 7277)
اس روایت کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں
مزید اس روایت کے شواہد اور متابعت میں بھی ایک روایت پیش کرتے ہیں :
-حَدَّلْنَا أَبُو الزَّنْبَاعِ رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ فَجَلَ خَلْفَ . الْمِصْرِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْتُ، قَالَ : ابِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنْ يُسْتَأْسَرَ، فَقاتَلُوهُ فَقَتَلُوهُ، وَقَتَلُوا ابْنَيْهِ وَأَصْحَابَهُ الَّذِينَ قَاتَلُوا مِنْهُ بِمَكَانِ يُقَالُ لَهُ الطَّقُ، وَانْطلِقَ بِعَلِيِّ بنِ حُسَيْنِ، وَفَاطِمَةَ بِنْتِ حُسَيْنٍ، وَسُكَيْنَة بِنْتِ حُسَيْنٍ عُبَيْدِ اللهِ بنِ زِيَادٍ، وَعَلِيٌّ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ قَدْ بَلَغَ ك بِهِمْ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَرَ بِسُكَيْنَة يرِهِ لِئَلَّا تَرَى رَأْسَ آبِيهَا وَذَوِی قَرايَتِهَا، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي غل، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، فَضَرَبَ عَلَى ثَنِيَّتِي الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:
(البحر الطويل) نُفَلِقُ مَامًا مِنْ رِجَالٍ اَحِيَّةٍ … إِلَيْنَا وَهُمْ كَانُوا
ترجمه: “لیث کہتے ہیں که امام حسین ؑ بن علی رضی اللہ عنہما نے لڑنے سے انکار کیا تھا آپ لڑے اور شہید ہو گئے آپ کے بیٹے اور ساتھی آپ کے ساتھ اس جگہ شہید ہوئے اُسے طف کہا جاتا تھا۔ حضرت علی بن حسین اور فاطمہ بنت حسین اور سکینہ بنت حسين كو عبداللہ بن زیادہ کے پاس بھیجا گیا، حضرت علی بن حسین بلوغت کے قریب تھے ان کو عبید نے یزید بن معاویہ کی طرف بھیجا، سکینہ کے متعلق حکم دیا کہ ان کو پردہ کے پیچھے کروں گا کہ اپنے والد کا سر نہ دیکھیں اور اپنے قریبیوں کو ۔ حضرت علی بن حسین کو زنجیریں پہنائی گئی تھیں یزید نے آپ کا سر رکھا آپ کے ہونٹوں پر مارا کہا:
ہم ان لوگوں کے سر پھوڑتے ہیں جو ہمیں پیارے ہیں لیکن وہ نافرمان اور ظالم ہیں۔۔۔۔
اس روایت کے بھی سب رجال ثقات میں سے ہیں
یزید نے ولید بن عتبہ کو خط لکھا که:
“مابعد! حضرت حسینؑ، عبداللّہ بن عمرؓ، عبداللّہ بن زبیر کو بیعت کیلئے سختی سے پکڑ لو اور اس میں کسی قسم کی نرمی نہیں حتیٰ کہ وہ بیعت کرلیں” والسلام
قبل اس کے کہ انھیں حضرت معاویہ رضي الله عنه کی موت کا علم ہو آپ انھیں بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر وہ انکار کریں تو انھیں قتل کر دیا جائے
(البدایہ والنہایہ / مصنف ابن کثیر دمشقی/ صفحہ 191)
حافظ ابن حجر نے کہا:
“حقیقت حال یہ تھی کہ جب سیدنا معاویہ رضي الله عنه نے وفات پائی اور ان کے بعد یزید مسند خلافت پر متمکن ہوا تو اہل کوفہ نے سیدنا حسینؑ سے خط و کتابت کی کہ وہ تو ان کی اطاعت کرینگے، نہ کہ یزید کی، پس سیدنا حسینؑ کوفہ والوں کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن ان سے پہلے عبیداللّہ ابن زیاد کوفہ پہنچ گیا اور اس نے اکثر لوگوں کو سیدنا حسینؑ سے دور کردیا بعض لوگ رغبت کی وجہ سے اور بعض لوگ ڈر کی وجہ سے سیدنا حسینؑ کا ساتھ چھوڑ گئے، اور ابن زیاد نے سیدنا حسینؑ کے چچا زاد سیدنا مسلم بن عقیلؑ کو بھی قتل کردیا، سیدنا حسینؑ نے لوگوں سے بیعت لینے کیلئے انھیں بھیجا تھا، پھر ابن زیاد نے ایک لشکر تیار کیا اور امام حسینؑ سے جنگ شروع کردی، یہاں تک کہ نواسہ رسولﷺ اور ان کے اہلبیتؑ کے کافی افراد شہید ہوگئے
(فتح الباری فی شرح بخاری /جلد 7 / صفحہ 92 بحوالہ مسند احمد بن حنبل)
اہل سنت کے ایک بزرگ عالم شمس الدين ذہبی نے یزید کے بارے میں لکھتے ہیں:
قلت: ولما فعل يزيد بأهل المدينة ما فعل، وقتل الحسين وإخوته وآله، وشرب يزيد الخمر ، وارتكب أشياء منكرة ، بغضه الناس ، وخرج عليه غير واحد ، ولم يبارك الله في عمره
ترجمه: جب یزید نے اہل مدینہ کے ساتھ جو کرنا تھا وہ [ واقعہ حرہ ] کر دیا، اور [امام] حسین [ علیہ السلام ]، ان کے بھائیوں اور اعزاء و اقرباء کو شہید کیا، شراب خواری اور ہر قسم کے حرام اور خلاف [ شرع ] اعمال انجام دئیے تو عوام یزید سے متنفر ہو گئی اور بہت سے لوگوں نے یزید کے خلاف خروج (قیام) کیا اور اللہ نے اس کی عمر کو مبارک قرار نہیں دیا۔
(شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ، ص 30، ناشر: دار الكتاب العربي – لبنان/ بيروت – 1407هـ – 1987م ، الطبعة: الأولى ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى)
اھل سنت عالم قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفیسر میں لکھتے ہیں :
“یذید اور اس کے حواریوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کی کہ انہوں نے آل نبی ﷺ سے عداوت رکھی اور امام حسین رضی اللہ عنی کو ظلما قتل کیا یذید نے دین محمدی کا انکار کیا تھا جب اس نے امام حسین رض کو قتل کیا تھا اور اس نے یہ شعر کہے تھے جن کا مفہوم یہ تھا که:
میرے بزرگ کہاں ہیں ؟ وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے میں نے آل محمد اور بنی ہاشم سے انتقام لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح یزید نے شراب کو حلال قراردیا تھا ۔۔۔۔۔۔“
( تفسیر مظہری جلد 5 ص 327 سورہ ابراہیم آیت 28 )
کفایت الله سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں یزید کا دفاع کرتے ہوئے ایک روایت پیش کی جو انساب الاشرف میں اس طرح ہے :
حدثنا سعدويه، حدثنا عباد بْن العوام، حَدَّثَنِي حصين، حَدَّثَنِي هلال بن إساف قال:
أمر ابن زياد فأخذ مَا بين واقصة، إِلَى طريق الشَّام إِلَى طريق الْبَصْرَة، فلا يترك أحد يلج وَلا يخرج، فانطلق الْحُسَيْن: يسير نحو طريق الشَّام يريد يزيد بْن مُعَاوِيَة فتلقته الخيول فنزل كربلاء، وَكَانَ فيمن بعث إِلَيْهِ عمر ابن سعد بن أبي وقاص، وشمر ابن ذي الجوشن، وحصين بْن نمير، فناشدهم الْحُسَيْن أن يسيروه إِلَى يزيد فيضع يده فِي يده فأبوا إِلا حكم ابْن زياد.
ترجمه: “عبید الله بن زیاد نے حکم دیا کہ واقصہ اور شام و بصرہ کے بیچ پہرہ لگا دیا جائے اور کسی کو بھی آنے جانے سے روک دیا جائے ، چنانچہ حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ سے ملنے کے لیے شام کی طرف چل پڑے، پھر راستے میں گھوڑ سواروں نے انھیں روک لیا اور وہ کربلا میں رک گئے ،ان گھوڑ سواروں میں عمر بن سعد بن ابی وقاص ، شمر بن ذی الجوشن ، اور حصین بن نمیر تھے۔حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے التجا کی کہ انھیں یزید کے پاس لے چلیں، تاکہ وہ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم عبید اللہ ابن زیاد کی اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتے۔
(انساب الاشرف بلاذری / جلد ۲ / صفحہ ۳۴۳ / طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
سنابلی صاحب نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حاشیہ پر لکھا ہے کہ:
” مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے”۔
(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ / صفحہ ۳۴۹ / طبع دار السنۃ ممبئی)
لیکن یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی حصین بن عبد الرحمان السلمی اگرچہ ثقہ تھا لیکن آخری عمر میں یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا اور اس کے شاگرد عباد بن العوام کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ انہوں نے ان سے احادیث اختلاط سے پہلے لی یا اس کے بعد
امام اہل سنت ابو حاتم الرازی انکے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
حصین بن عبد الرحمان حدیث میں ثقہ تھا لیکن آخری عمر میں اسکا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔
(کتاب الجرح و التعدیل, ابن ابی حاتم الرازی / جلد ۳ / صفحہ ۱۱۸ / رقم ۸۳۷ / طبع دار الفکر بیروت لبنان)
ابن رجب حنبلی نے اپنی کتاب میں اسکو مختلطین میں شمار کیا اور یوں لکھا :
ابن معین نے کہا : یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگیا تھا۔
ابو حاتم الرازی نے کہا : آخری عمر میں اسکا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔
یزید بن ھشیم نے یحیی بن معین کے بارے میں فرمایا کہ : جو کچھ ھثیم و سفیان نے حصین سے نقل کیا وہ صحیح ہے اور اسکے بعد یہ اختلاط کا شکار ہوگیا تھا۔
(شرح العلل ،ابن رجب حنبلی / جلد ۲ / صفحہ ۵۶۱ / طبع دار السلام قاھرہ مصر)
پاکستان کے اہل حدیث محقق ارشاد الحق الاثری نے بھی حصین بن عبد الرحمان کے اختلاط کو تسلیم کیا۔
(توضیع الاحکام، ارشاد الحق الاثری / صفحہ ۴۹۳ / طبع الکتاب انٹرنیشنل دھلی ھندوستان)
یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عباد بن العوام کے بارے میں معلوم نہیں کہ اس نے اپنے استاد حصین بن عبد الرحمان سے اس کے اختلاط سے پہلے سنا تھا یا بعد میں
اب اختلاط والے راوی (مختلط) کے بارے میں اصول، اھل سنت محدث ابن کثیر اس طرح بیان بیان کرتا ہے :
خوف، تکلیف، مرض یا حادثے کی وجہ سے راویوں کو اختلاط ہو مثلاً عبداللہ بن لہیعہ کی کتابیں ضائع ہوگئیں تو وہ حافظے میں اختلاط کا شکار ہوگئے۔
ایسے لوگوں سے جس نے اختلاط سے پہلے سنا ہے وہ روایت مقبول (قبول) ہوگی۔ جس نے بعد میں سنا یا شک ہے (آیا پہلے سنا یا بعد میں) تو اسکی روایت مقبول نہیں ہیں۔
(اختصار علوم الحدیث – ابن کثیر (اردو) / صفحہ ۱۶۶ /طبع اریب پبلیشر دھلی ھندوستان)
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لہذا اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔
اہلحدیث عالم حافظ زبیر علی زئی صاحب سے اس حدیث سے متعلق سؤال کیا گیا
وہابی سکالر و محدث حافظ زبیر علی زئی صاحب سے مذکورہ روایت کے بارے میں ایک سوال پوچھا گیا که:
ســـوال: کیا امام حسین رضي الله عنه یزید کی بیعت کرنا چاہتے تھے؟
ہلال بن یساف کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے که سیدنا حسین رضي الله عنه نے کربلا میں فرمایا تھا:
مجھے یزید کے پاس جانے دو،
تاکه میں اس کے ہاتھ پر ہاتھ دے دوں یعنی بیعت کر لوں۔
(انساب الاشراف, ۳/۱۳۴۹ ، الحدیث حضرو، ۲۷ ، ص۶۳ )
جــواب: انساب الاشراف کی یه روایت کئی وجہ سے ضعیف مردود ہے:
۱ : انساب الاشراف کے مطبوعہ نسخے کی اصل سند نامعلوم ہے
۲ : بلاذری سے اس کتاب کے راوی کا نام معلوم نہیں
۳ : انساب الاشراف کی کئی روایات صحیحین و صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر و مردود ہیں”.
(رسالہ اہلحدیث /108 ، صفحہ 34 )
اس روایت کو علامہ طبری نے بھی اپنی تاریخ میں اسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں “امیر المومنین” کے الفاظ کا اضافہ ہے یہ روایت بھی اسی علت کی وجہ سے ضعیف ہے
تاریخ طبری کی سند ملاحظہ فرمائیں
حدثنا محمد بن عمار الرازي قال حدثنا سعيد بن سليمان قال حدثنا عباد بن العوام قال حدثنا حصين ۔۔۔قال حصين فحدثني هلال بن يساف أن ابن زياد أمر بأخذ ما بين واقصة إلى طريق الشأم إلى طريق البصرة فلا يدعون أحدا يلج ولا أحدا يخرج فأقبل الحسين ولا يشعر بشيء حتى لقي الأعراب فسألهم فقالوا لا والله ما ندري غير أنا لا نستطيع أن نلج ولا نخرج قال فانطلق يسير نحو طريق الشأم نحو يزيد فلقيته الخيول بكربلاء فنزل يناشدهم الله والإسلام قال وكان بعث إليه عمر بن سعد وشمر بن ذي الجوشن وحصين بن نميم فناشدهم الحسين الله والإسلام أن يسيروه إلى أمير المؤمنين فيضع يده في يده
[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 )
اہلسنت والجماعت کے بہت بڑے عالم امام ابن کثیر اپنی کتاب “البدایه والنہایه” میں ایک روایت نقل کرتے ہیں که:
“ابو عبدالرحمن جندب عقبه بن سمعان کے حواله سے مجھے بتایا ہے کہ عقبه بن سمعان نے کہا که
میں مکه سے شہید ہونے تک امام حسین رضي الله عنه کے ساتھ رہا ہوں
الله کی قسم!
آپ رضي الله عنه نے میدان کار زار میں جو بات بھی کی ہے میں نے اسے سنا،
آپ رضي الله عنه نے یہ مطالبه نہیں کیا که آپ رضي الله عنه یزید کے پاس جاتے ہیں”
(تاریخ ابن کثیر، جلد 4، صفحہ 506 )
کفایت اللّٰہ سنابلی صاحب ا اپنی کتاب “یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ” لکھتا ہے:
” عبید الله ابن زیاد کا قتل حسین (علیہ السلام) میں کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں، اس لئے اسے سزا دینے کا تصور ہی بے بنیاد ہے”
(یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ/ صفحہ 374)
معجم طبرانی میں صحیح السند روایت ملاحظہ فرمائیں
حدثنا علي بن عبد العزيز ثنا الزبير بن بكار حدثني محمد بن الضحاك بن عثمان الحزامي عن أبيه قال خرج الحسين بن علي رضي الله عنهما إلى الكوفة ساخطا لولاية يزيد بن معاوية فكتب يزيد بن معاوية إلى عبيد الله بن زياد وهو واليه على العراق إنه قد بلغني أن حسينا قد سار إلى الكوفة وقد ابتلى به زمانك من بين الأزمان وبلدك من بين البلدان وابتليت به من بين العمال وعندها يعتق أو يعود عبدا كما يعتبد العبيد فقتله عبيد الله بن زياد وبعث برأسه إليه فلما وضع بين يديه تمثل بقول الحسين بن الحمام
ترجمه: “محمد بن ضحاک بن عثمان حزامی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہا کوفہ کی طرف اس حال میں تشریف لے چلے کہ آپ یزید بن معاویہ کی حکومت سے نالاں تھے پس یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کی طرف جبکہ وہ عراق پر حاکم تھا خط لکھا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف چل پڑے ہیں جبکہ تو ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور حاکموں میں سے تجھے ان کے ساتھ جنگ کرنے کی تکلیف دی جاتی ہے۔ عبید اللہ بن زیاد نے آپ کو شہید کر کے آپ کا سر یزید کی طرف بھیج دیا، پس جب وہ اس کے سامنے رکھا گیا تو اس نے حسین بن حمام کے قول کے ساتھ مثال دی: ہم نے ان لوگوں کی کھوپڑیاں پھوڑ دی، وہ ہمیں پسند تھے لیکن وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔۔۔
(معجم الکبیر جلد 2 ح 2846)
(معجم الکبیر اردو جلد 2 ص 418 ح 7277)
اس روایت کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں
اس صحیح روایت میں واضح لکھا ہے که:
“عبید اللہ بن زیاد نے آپ کو شہید کر کے آپ کا سر یزید کی طرف بھیج دیا”
ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا که:
أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.
ترجمه: “میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا تھا اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا”
( الكامل في التاريخ / جلد 3 / صفحہ 324، لابن اثیر )
۔
ترجمه: “انس بن مالک کہتے ہیں کہ عبیداللہ ابن زیاد کے پاس امام حسینؑ کا سر مبارک لایا گیا جو ایک طشت میں رکھا گیا، وہ مردود ایک چھڑی سے آپؑ کی ناک اور آنکھ پر مارنے اور آپؑ کے حُ کیسن نسبت کچھ کہنے لگا۔ انس نے کہا چھڑی ہٹا حضرت حسینؑ سب سے زیادہ رسول اللہﷺ سے مشابہت رکھتے تھے”
(صحیح بخاری / کتاب المناقب/ جلد ۲ / صفحہ ۴۱۷ )
ترجمه: “پھر ابن زیاد نے امام الحرمین عمرو بن سعید کو امام حسینؑ کی شہادت کی خوشخبری کے متعلق خط لکھا اور اس نے منادی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کردیا اور جب بنو ہاشم کی عورتوں نے یہ اعلان سُنا تو ان کی گریہ و نوحہ کی آوازیں بلند ہوگئیں اور عمرو بن سعید کہنے لگا”.
(تاریخ ابن کثیر / جلد ہشتم / صفحہ ۲۵۲)
علامہ جلال الدین سيوطی صاحب نے بھی لکھا ہے که:
فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.
ترجمه: “يزيد نے عبيد الله بن زياد کہ جو والی عراق تھا اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا”
(تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت)