اہل سنت کے امام المزی (المتوفی ۷۴۲ھ) نے اپنی کتاب میں ایک شیعہ راوی پر یحیی ابن معین کا قول نقل کیا ہے جو اس طرح ہے :
وقال في موضع آخر كذاب كان يشتم عثمان وكل من شتم عثمان أو طلحة أو واحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم دجال لا يكتب عنه وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين
ایک اور جگہ ابن معین نے کہا کہ وہ کذاب تھا۔ وہ عثمان کو گالیاں دیتا تھا۔ جو کوئی شخص عثمان، طلحہ یا کسی بھی صحابی کو گالی دیں وہ دجال ہے۔ اس سے حدیث نہیں لکھی جائے گی۔ اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔

یہی قول ابن حجر عسقلانی (المتوفی ۸۵۲ھ) نے بھی نقل کیا ہے۔
تھذیب التہذیب – ابن حجر // جلد ۱ // صفحہ ۲۵۸ // طبع الرسالہ العالمیہ بیروت لبنان۔
اس زبردست قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے غیور محدثین صحابہ کے دفاع میں کس حد تک چلے جاتے تھے۔
لیکن سوال اٹھتا ہے کہ جو غیرت انکے یہاں ابوبکر، عمر ، عثمان بن عفان، طلحہ اور باقی صحابہ کے بارے میں پائی جاتی ہے۔ کیا یہی غیرت امام علی ابن ابی طالبؑ کے لئے انکے یہاں پائی جاتی ہے؟
اہل سنت کے محدث شمس الدین ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) نے اپنی کتاب میں ایک ایسے راوی کے بارے میں یوں کہا جو علیؑ کو اعلانیہ گالیاں دیتا تھا :
حریث بن عثمان الرجی الحمصی، تابعی صغیر، ثبت، لكنه ناصبي.
حریث بن عثمان رجی، حصم کا تھا۔ چھوٹا تابعی، حدیث میں مضبوط لیکن ناسبی تھا۔

اگر اصول یہ ہے کہ جو کوئی کسی صحابی کو برا کہے تو وہ ثقہ نہیں پھر ایک ناسبی ثقہ کیسے بن گیا اور اسکی روایات صحیح بخاری میں موجود کیسے ہے؟





