کیا جناب سیدہ ؑ علی ؑ سے ناخوش تھیں ؟ معترضین کے اعتراض کا رد

محترم قارئین
بعض لوگ
ایک شیعہ روایت سے استدلال پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب سیدہ ؑ مولا علی ؑ سے شادی کے وقت ناخوش تھیں ان لوگوں کی علمی قابلیت یہ ھے انکو
اس روایت کے اصل مصدر کا بھی علم نہیں تھا کہ اس روایت کا اصل مصدر کونسا ھے
کیونکہ کتب شیعہ سے عدم واقفیت کی بناء پر ہمیشہ سے ہی جھوٹ بولتے ہیں ہمارا دعوی ھے جب ہہ لوگ کتب شیعہ سے روایت پیش کرتے ہیں تو مکمل سیاق و سباق پڑھ کے نہیں کرتے ورنہ انکو ہزیمیت نہ اٹھانا پڑتی کیونکہ جب فریق مخالف ادعا کرتا تو ان لوگوں کے پاس کوئ دلیل نہیں رہ جاتی اور ان لوگوں کی علمی جہالت اور اور خیانت کا عیاں ہو جاتی ھے
خیر موضوع کی طرف بڑھتے ہیں معترضین کہتے ہیں کہ کتب شیعہ میں مولفین شیعہ نے لکھا ھے کہ جناب سیدہ ؑ جناب علی ؑ کو ایک غریب شخص تصور کرتی تھیں
اور اس پر مختلف کتب کے دلائل دئیے
قارئین محترم اب ہم اس روایت کے اصل مصدر کی طرف آتے ہیں
یہ روایت تفسیر علی بن ابراہیم قمی سے نقل ھے اور یہی اس روایت کا اصل مصدر ھے کیونکہ جناب علی بن ابراہیم قمی مذہب شیعہ کے قدیم فقھاء میں سے ھے اور آپ 307 ھجری تک باحیات رہے اور جناب کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں بہت زیادہ روایات آپ سے نقل کی ہیں
جو روایت نے بیان کی ھے وہ جناب علی بن ابراہیم قمی نے سورہ نجم آیت چودہ پندرہ عند سدرة المنتھی عندھا جنت الماوی میں نقل کی ھے
بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے ان دونوں آیات کی تفسیر بیان کر دوں تاکہ آگے آنے والی روایت آسانی سے سمجھ آسکے
عند سدرة المنتھی
یقیناً اس نے اس کو دوسری مرتبہ دیکھا تو آسمان پر دیکھا اور یہ سدرة المنتہی بھی ساتویں آسمان پر ھے کہ جس کے قریب جنت ماوی ھے
عندھا جنة الماوی یعنی جنت الماوی سدرة المنتہی کے قریب ھے اور سدرة المنتہی ساتویں آسمان میں ھے
آگے اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے علی ؑ کو اپنے ساتھ سات مقامات پر فرمایا
پہلا مقام
معراج کی رات جب میں آسمانوں پر تھا جب جبرائیل ؑ نے مجھے کہا اے محمد ﷺ آپ کے بھائ علی کہاں ہیں تو فرمایا میں ان کو اپنے پیچھے خلیفہ بنا کر آیا ہوں تو جبرائیل نے کہا آپ دعا کیجیے وہ علی ؑ کو بھی آپ کے ساتھ لے آۓ تو دعا فرمائ تو علی ؑ کی مثال کو اپنے پاس پایا
دوسرا مقام جب آپ پر ساتوں آسمان کے پردے چاک کیے گئے
تیسرا مقام جب آپ ﷺ کو جنات کی طرف روانہ کیا گیا
چوتھا مقام خدا نے ہمیں لیلة القدر کے ساتھ خاص قرار دیا اور اس میں ہمارے ساتھ کوئ شریک نہیں
پانچواں مقام جب آپ کے بارے میں خدا سے دعا کی تو مجھے آپ علی ؑ میں سب کچھ عطاء کر دیا سواۓ نبوت کے
چھٹا مقام جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو وہاں تمام انبیاء ؑ نے میری اقتداء میں نماز پڑھی
ساتواں مقام
جب خدا مختلف گروہوں کو ہمارے ہاتھوں سے ہلاک کرواۓ گا
اس روایت کی سند کچھ ایسے ھے
علی بن ابراہیم عن ابیہ عن ابراہیم بن محمد ثقفی عن ابان بن عثمان عن ابو داود عن ابو بردہ اسلمی سمعت رسول اللہ ﷺ
اب ہم اصل روایت کی طرف بڑھتے ہیں
اب اس روایت میں
صرف دو سندیں بیان ہوئ ہیں اگلی سند بیان نہیں ہوئ
پہلے سند بیان کر دیتا ہوں پھر روایت بیان کرتا ہوں پھر مزید اس پر کفتگو کو واضح کریں گے
قال علی بن ابراہیم قمی عن ابیہ عن بعض اصحابہ
رفعہ قال کانت فاطمة لا یذکرھا احد رسول اللہ لا اعرض عنہ حتی ایس الناس منھا فلمایراد ان یزوجھا من علی أسر ألیھا فقالت یا رسول اللہ ﷺ أنت أولی بما تری غیر أن النساء قریش تحدثنی أنہ رجل لا مال لہ
اب اس روایت میں جناب علی بن ابراہیم قمی نے اپنے والد سے انہوں نے بعض اصحاب سے اس روایت کو نقل کیا ھے تو عرض کرتا ہوں
جناب ابراہیم جو کہ صاحب القمی کے والد ہیں انہوں نے کسی بھی صحابی کیا تابعی کے زمانہ کو بھی درک نہیں کیا
اس لیے اس روایت کی سند ہی منقطع ھے اور نہ ہی اصحاب کا ذکر ھے کہ کن اصحاب سے اس روایت کو نقل کیا گیا ھے
یعنی علی بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے جناب سیدہ ؑ کا رشتہ طلب کیا جاتا تو آپ منہ موڑ لیتے پس جب آپ نے علی ؑ سے شادی کا ارادہ کیا تو جناب فاطمہ ؑ کے پاس گئے اور آپ سے ان کے بارے میں مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا آپ سب سے بہتر جانتے ہیں جو قریش کی عورتوں نے علی ؑ کے بارے میں مجھ سے بیان کیا ھے کہ علی ؑ کا قد چھوٹا ھے اور پیٹ بڑا ھے بازو لمبے ہیں اور سب کچھ کے علاوہ کہ وہ غریب آدمی ہے جس کے پاس کوئ مال نہیں
اب اگر اس روایت کو یہاں تک منتہی کر دوں تو بھی سند نامکمل ہونے کی وجہ سے یہ روایت دلالت نہیں کرتی
دوسرا علی ؑ جسمانی ساخت یا ان کے غریب ہونے کا عقیدہ جناب سیدہ ؑ کا نہیں بلکہ جو قریشی عورتیں آپ کے پاس آئ ہیں ان کا بیان ھے
اس لیے قریشی عورتوں کے بیان کو جناب سیدہ ؑ نے صیحیح نہیں سمجھا اس لیے جناب رسول اللہ ﷺ سے تصدیق فرمائ جس کا جواب آگے لکھتا ہوں
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اے فاطمة ؑ اللہ نے تمام دنیا کے مردوں پر مجھے شرف بخشا اور کائنات کے مردوں میں سے میرا انتخاب کیا اور مجھے نبی بنایا پھر دوبارہ نگاہ انتخاب کی دوسری مرتبہ علی ؑ کو منتخب فرمایا اور تمام کائنات کے مردوں سے قرار دے کر میرا وصی بنایا اور تمام عورتوں میں سے آپ کا انتخاب فرمایا
آگے روایت چلتی ھے اور جناب رسول اللہ ﷺ علی ؑ کے فضائل جناب سیدہ ؑ کے سامنے بیان فرماتے ہیں
آخر میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے فاطمة خدا نے جتنے بھی نبی مبعوث فرماۓ سب کی ذریت کو خدا نے اس کے صلب سے قرار دیا جبکہ خدا نے میری ذریت و نسل کو علی ؑ کے صلب سے قرار دیا اگر علی ؑ نہ ہوتے تو میری ذریت نہ ہوتی جناب فاطمة نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں علی ؑ کے علاوہ کسی کا انتخاب نہیں کروں گی میں نے اس کو اختیار کیا پس رسول اللہ ﷺ نے فاطمة ؑ کی شادی علی ؑ سے کر دی تو اس وقت ابن عباس نے فرمایا خدا کی قسم اگر علی ؑ نہ ہوتے تو فاطمة کا کوئ کفو نہیں ھے
التفسیر القمی مجلد الثالث ص 1022
جرح
اگر تو آپ تفسیر قمی کی اس روایت کو بلاسند صیحیح مانتے ہیں تو پھر اگلی بات پر بھی یقین رکھیے کہ علی وصی رسول اللہ ﷺ ہیں
دوسرے اگر آپ یہ ادعا کرتے ہیں کہ جناب علی ؑ کی غربت سے جناب سیدہ ؑ نے گلہ کیا تب بھی آپ کا استدلال رد ہو جاتا ھے کیونکہ فضائل مولا ؑ سن کے جناب سیدہ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ میں علی ؑ کے علاوہ کسی کو انتخاب نہیں کروں گی
تو یہ بات بھی آپ کے قول کی تردید کرتی ھے کہ جناب سیدہ ؑ علی سے ناخوش تھی
دوسرا یہ واقع کہ علی ؑ کے پاس مال کی کثرت نہیں یہ صرف چند عورتوں پر محمول ہے اور وہ عورتیں کون تھیں کوئ نہیں جانتا لہذا اس روایت سے عقائد مذہب شیعہ کو کو چھیڑنا محض آپ کی حماقت ھے اور کچھ نہیں
اب کتب اھلسنت سے صرف ایک حوالہ
امام جلال الدین سیوطی تفسیر درمنثور میں
مرج البحرین یلتقین کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد علی اور فاطمة اور لولو والمرجان سے مراد حسن و حسین ؑ ہیں
تفسیر در منثور ج 6 سورہ رحمن
اب اگر آپ کی بات مان لی جاۓ کہ جناب سیدہ علی ؑ سے ناراض تھیں تو خدا نے اس گھرانے کی مدح میں سورہ رحمن کی یہ آیات کیوں نازل فرمائ ہیں
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری