اہل سنت محدثین کا اپنے خلاف احادیث کے ساتھ حسن سلوک

اہل سنت کے محدث ابوبکر الخلال (المتوفی ۳۱۱ھ) نے اپنی اسانید سے اس طرح نقل کیا ہے :
👈أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حَمْدُونَ، قَالَ: ثَنَا حَنْبَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: كَانَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ أَخَذَ كِتَابَ أَبِي عَوَانَةَ الَّذِي فِيهِ ذِكْرُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْرَقَ أَحَادِيثَ الْأَعْمَشِ تِلْكَ
احمد بن حنبل نے فرمایا کہ سلام بن ابی مطیع نے ابو عوانہ کی وہ کتاب نکالی جس میں نبی ﷺ کے صحابہ کا ذکر تھا اور پھر اسکو جلایا جس میں الاعمش کی احادیث تھی۔
کتاب کے محقق نے کہا ہے کہ اسکے تمام راوی ثقہ ہے۔
👈وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: قَالَ سَلَّامٌ: وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ خِدَاشٍ، قَالَ: جَاءَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ إِلَى أَبِي عَوَانَةَ، فَقَالَ: هَاتِ هَذِهِ الْبِدَعَ الَّتِي قَدْ جِئْتَنَا بِهَا مِنَ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ أَبُو عَوَانَةَ كُتَبَهُ، فَأَلْقَاهَا فِي التَّنَّورِ، فَسَأَلْتُ خَالِدًا مَا كَانَ فِيهَا؟ قَالَ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَقِيمُوا لِقُرَيْشٍ ، وَأَشْبَاهِهِ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: وَأَيْشِ؟ قَالَ: حَدِيثُ عَلِيٍّ: أَنَا قَسِيمُ النَّارِ ، قُلْتُ لِخَالِدٍ: حَدَّثَكُمْ بِهِ أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
یحیی سے روایت ہے کہ خالد بن خداش نے بیان کہ سلام ابن ابی مطیع ابو عوانۃ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ مجھے وہ بدعت دو تم نے کوفہ سے لائی تھی۔ پس ابو عوانۃ ایک کتاب کے ساتھ نکلے۔ پس اس (ابو مطیع) نے اسکو تندور میں جلا دیا۔
میں نے خالد سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا تھا ؟
اس نے جواب دیا : احادیث جو الاعمش عن سالم ابن ابی الجعد عن ثوبان عن النبی (ﷺ) کی سند سے تھیں کہ انہوں نے فرمایا : پس قریش کی پیر کرو اور اسی مانند۔
میں نے خالد سے پوچھا : اور کیا تھا اس میں ؟
اس نے جواب دیا : علی ابن ابی طالبؑ کی حدیث : میں جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں۔
میں نے خالد سے پوچھا : کیا آپ کو یہ بات ابو عوانۃ نے بتائی ؟
اس نے جواب دیا : ہاں۔
اسکی سند بھی صحیح ہے۔
👈أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ : سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنَ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ أَيُّوبَ ، وَكَانَ رَجُلا صَالِحًا ، حَدَّثَنَا عَنْهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، ثُمَّ قَالَ أَبِي : كَانَ أَبُو عَوَانَةَ وَضَعَ كِتَابًا فِيهِ مَعَايِبُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِ بَلايَا ، فَجَاءَ إِلَيْهِ سَلامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ ، فَقَالَ : يَا أَبَا عَوَانَةَ ، أَعْطِنِي ذَلِكَ الْكِتَابَ ، فَأَعْطَاهُ ، فَأَخَذَهُ سَلامٌ فَأَحْرَقَهُ۔
احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع ، یہ ایوب سختیانی کے ثقہ اصحاب میں سے تھے، وہ نیک آدمی تھا، اس سے عبدالرحمان بن مہدی نے احادیث لی، پھر انہوں نے کہا کہ ابو عوانہ نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس نے نبیﷺ کے صحابہ کے عیوب کو جمع کیا تھا اور اس میں ”مصیبتیں” تھی، تو سلام بن ابی مطیع انکے پاس آئے اور کہا اے : ابو عوانہ! وہ کتاب مجھے دو تو انہوں نے وہ کتاب انہیں دے دی، پس سلام نے ان سے وہ کتاب لی اور اسے جلادیا۔
اسکے تمام راوی ثقہ ہے۔
👈أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: اسْتَعرْتُ مِنْ صَاحِبِ حَدِيثٍ كِتَابًا، يَعْنِي فِيهِ الْأَحَادِيثَ الرَّدِيئَةَ، تَرَى أَنْ أُحَرِّقَهُ، أَوْ أُخَرِّقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَقَدِ اسْتَعَارَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ مِنْ أَبِي عَوَانَةَ كِتَابًا، فِيهِ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ، فَأَحْرَقَ سَلَّامٌ الْكِتَابَ، قُلْتُ: ” فَأَحْرِقُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ابوبکر مروزی سے روایت ہے کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا کہ ایک محدث نے مجھے ایک کتاب دی جس میں خراب احادیث تھی، کیا اسکو جلایا جائے یا پھاڈ دیا جائے ؟ تو احمد بن حنبل نے کہا : جی جلایا جائے کیونکہ سلام بن ابی مطیع نے بھی ابو عوانہ سے ایک کتاب لی تھی جس میں اس قسم کی احادیث تھی، پس سلام نے اسکو چلایا تھا۔ میں نے تعجب میں کہا : چلایا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں۔
اسکے تمام راوی ثقہ ہے۔
⛔️السنۃ – ابوبکر الخلال // جلد ۱ // صفحہ ۴۰۱، ۴۰۲ // رقم ۸۱۸،۸۱۹،۸۲۰،۸۲۱ // طبع الفاروق الحدیثیہ قاہرہ مصر۔