روایات در شہادت حضرت زهراء ۜ

شیخ صدوق ؒ نے اپنی سند سے حضرت عبداللّٰه ابن عباس ؓ سے ایک طویل روایت نقل کی ہے کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے حضرت سیدہ فاطمه (سلام اللّٰه علیها) کو دیکھ کر فرمایا :
[مطلوبہ عبارت کو نقل کیا جا رہا ہے ]
وإني لما رأيتها ذكرت ما يصنع بها بعدي، كأني بها وقد دخل الذل بيتها، وانتهكت حرمتها، وغصبت حقها، ومنعت إرثها، وكسر جنبها، وأسقطت جنينها، وهي تنادي: يا محمداه، فلا تجاب، وتستغيث فلا تغاث،
میں ؐ جب اپنی بیٹی ؐ کو دیکھتا ہوں ، تو مجھے وہ وقت یاد آنے لگتا ہے کہ میرے ؐ بعد ان کے ساتھ کیا رویہ اپنایا جائے گا ، گویا میں ؐ ان ؐ کے ساتھ ہی ہوں گا جب توہین و بے احترامی ان ؐ کے گھر تک آن پہنچے گی ، اور ان کی حرمت و عظمت کو ضائع کر دیا جائے گا ، اور ان ؐ کے حق کو چھین لیا جائے گا ، اور انؐ کی وراثت دینے سے انہیں منع و انکار دیا جائے گا ، اور انؐ کی پسلی کو توڑ دیا جائے گا ، اور ان ؐ کے بیٹےؐ (محسنؐ) کو قتل کر دیا جائے گا ، اور اُس وقت یہ ؐ ندا دیں گی ، یا محمداہ ؐ ….! مگر انہیںؐ جواب نہ دیا جائے گا ، یہؐ استغاثہ فرمائیں گی مگر کوئی بھی ان کے استغاثہ پر لبیک کہنے والا نہ ہو گا.
فلا تزال بعدي محزونة مكروبة باكية، تتذكر انقطاع الوحي عن بيتها مرة، وتتذكر فراقي أخرى، وتستوحش إذا جنها الليل لفقد صوتي الذي كانت تستمع إليه إذا تهجدت بالقرآن، ثم ترى نفسها ذليلة بعد أن كانت في أيام أبيها عزيزة،
میرے ؐ بعد یہ ؐ ہمیشہ غم زدہ اور روتی رہے گی، کبھی اپنے گھر سے وحی کے منقطع ہونے کو یاد کرکے رو رہی ہے، اور کبھی میری جدائی کو یاد کرکے روتی ہے، راتوں کو جب وہ میری ؐ آواز کو نہیں سنتی تو ان ؐ کو وحشت ہوتی ہے وہ آواز جس کو اس وقت سنتی تھی جس وقت میں ؐ تہجد کے وقت تلاوت قرآن کرتا ہوں، پھر وہ ؐ دیکھیں گی کہ جب تک ان ؐ کے بابا ؐ تھے تب تک تو ان کی تکریم کی جاتی تھی اور پھر ان ؐ کے بابا ؐ کے بعد ان ؐ کی تعظیم و اکرام کو چھوڑ دیا گیا ۔
فتكون أول من يلحقني من أهل بيتي، فتقدم علي محزونة مكروبة مغمومة مغصوبة مقتولة، فأقول عند ذلك: اللهم العن من ظلمها، وعاقب من غصبها، وأذل من أذلها، وخلد في نارك من ضرب جنبها حتى ألقت ولدها، فتقول الملائكة عند ذلك: آمين.
میرے ؐ اہل بیت میں سب سے پہلے ملحق ہونے والی یہ میری بیٹی ؐ ہوگی، محزون و مصائب میں گرفتار غم زدہ اور شہیدہ ہو کر میرے پاس آئے گی، پس اس وقت میں ؐ بارگاہ خداوند میں عرض کروں گا : اے میرے اللّٰه ! جس نے ان ؐ پر ظلم کیا ہے اس پر لـعـ ـنـ ـت فرما اور ہر وہ شخص جس نے ان ؐ کا حق غصب کیا ہے اس کو کیفر کردار تک پہنچا اور جس نے ان ؑ کی توہین و بے احترامی کی ہے تُو اس کو ذلیل کر دے اور جس نے ان ؐ کے پہلو کو زخمی کیا ہے اور جس کی وجہ سے ان ؐ کا جنین سقط ہوا ہے اس کو جہنـم کا ہمیشہ کیلئے ایندھن قرار دے ، تو اس پر فرشتوں نے آمین کہی ۔
الأمالي الشيخ الصدوق
الصفحة ٩١
No photo description available.
.
شیخ صدوق ؒ نے اپنی سند سے امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (علیه السلام) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ کا بیان ہے :
بينا أنا وفاطمة والحسن والحسين عند رسول الله (صلى الله عليه وآله)، إذا التفت إلينا فبكى، فقلت: ما يبكيك يا رسول الله؟ فقال: أبكي مما يصنع بكم بعدي. فقلت: وما ذاك يا رسول الله؟ قال: أبكي من ضربتك على القرن، ولطم فاطمة خدها، وطعنة الحسن في الفخذ، والسم الذي يسقى، وقتل الحسين.
قال: فبكى أهل البيت جميعا، فقلت: يا رسول الله، ما خلقنا ربنا إلا للبلاء! قال: ابشر يا علي، فإن الله عز وجل قد عهد إلي أنه لا يحبك إلا مؤمن، ولا يبغضك إلا منا_فق .
میں، فاطمہ ؑ، حسن ؑ اور حسین ؑ حضرت رسول الله ؐ کے پاس تھے کہ حضور ؐ ہماری طرف متوجہ ہو کر رو پڑے تو میں نے عرض کیا : آپ ؑ کو کس بات نے رُلایا ؟ تو حضور ؐ نے فرمایا : جو میرے بعد تم لوگوں کے ساتھ ہوگا اس نے مجھے رُلایا ہے، تو میں نے کہا : اے الله کے رسول ؐ وہ کیا ہے ؟ تو حضور ؐ نے فرمایا : تمھارے سر کی ضربت، فاطمہ ؑ کے رخسار پر طمانچے، حسن ؑ کی ران میں نیزے اور ان کو پلائے جانے والے زہر اور حسین ؑ کے قتل پر رو رہا ہوں ۔ تو حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ تمام اہل بیت ؑ رونے لگے، تو میں نے عرض کیا : اے اللّٰه کے رسول ؐ! اللّٰه تعالی نے ہمیں صرف آزمائش اور مصیبت کے لئے پیدا فرمایا ہے، تو حضور ؐ نے فرمایا : بشارت ہو اے علی ؑ! الله تعالی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے تم سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کرے گا اور مـنـا_فـق کے علاوہ کوئی تم سے بغض نہیں رکھے گا ۔
الأمالي الشيخ الصدوق
الصفحة ١٠٥
No photo description available.
.
السید ابن طاؤوس ؒ نے محمد بن جریر طبري عامي کی کتاب ” مناقب اھل بیت ؑ ” سے روایت نقل کی ہے جو سند کے ساتھ حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے حضرت سیدہ فاطمہ ۜ سے فرمایا :
وأنت تظلمين وعن حقك تدفعين، وأنت أول أهل بيتي لاحق بي بعد أربعين. يا فاطمة، أنا سلم لمن سالمك وحرب لمن حاربك، أستودعك الله تعالى وجبرئيل وصالح المؤمنين. قال: قلت: يا رسول الله، من صالح المؤمنين؟ قال: علي بن أبي طالب .
اور آپ ۜ پر بھی ظلم کیا جائے گا اور آپ ۜ کو آپ ۜ کے حق سے دور رکھا جائے گا اور چالیس دن کے بعد میرے اہلبیت میں سے آپ ۜ ہی مجھ سے پہلے ملحق ہو جائیں گی۔ اے فاطمہ ۜ میری اس سے سلامتی ہے جو آپ ۜ سے سلامتی رکھے اور میری اس سے جنگ ہے جو آپ ۜ سے جنگ کرے۔ آپ کو اللّٰه تعالی اور جبرئیل ؑ اور صالح المومنین کے حوالے کیا ۔
میں (سلمان ؓ) نے پوچھا : یا رسول اللّٰه ؐ صالح المومنین کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : علی ابن ابی طالب ؐ ۔
اليقين باختصاص مولانا علي (عليه السلام) – السيد ابن طاووس – الصفحة ٤٨٨
No photo description available.
.
حضرت سلیم بن قیس هلالي ؒ نے اپنی کتاب میں اصحاب رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمه (سلام اللّٰه علیها) سے فرمایا :
إنك أول من يلحقني من أهل بيتي، وأنت سيدة نساء أهل الجنة. وسترين بعدي ظلما وغيظا حتى تضربي ويكسر ضلع من أضلاعك. لـعـ ـن الله قاتلك ولـعـ ـن الأمر والراضي والمعين والمظاهر عليك وظالم بعلك وابنيك.
میرے اہل بیت میں سے آپ ۜ پہلی ہیں جو مجھ سے آن ملیں گی اور آپ ۜ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور آپ ۜ میرے بعد ظلم اور غصے کو دیکھیں گی یہاں تک کہ آپ ۜ کو مارا جائے گا اور آپ ۜ کی پسلیوں میں سے ایک پسلی توڑ دی جائے گی ، اللّٰه تعالی آپ ۜ کے قاتل پر لعـ ـنت کرے، اور حکم دینے والے، راضی ہونے والے، مددگار ، تیرے مخالف، تیرے شوہر ؑ اور بچوں ؑ پر ظلم کرنے والوں پر بھی لعـ ـنت کرے ۔
كتاب سليم بن قيس – تحقيق محمد باقر الأنصاري – الصفحة ٤٢٧
No photo description available.
.
محمد بن یعقوب کلینی ؒ نے اپنی کتاب الکافي میں سند معتبر سے روایت نقل کی ہے :
محمد بن يحيى، عن العمركي بن علي، عن علي بن جعفر أخيه، أبي الحسن عليه السلام قال: إن فاطمة عليها السلام صديقة شهيدة ، الخ۔
علی ابن جعفر ؑ نے اپنے بھائی امام موسی کاظم (علیه السلام) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا :
فاطمه (عليها السلام) صدیقہ اور شہیدہ (قتل کی گئی) ہیں ۔
الكافي – الشيخ الكليني – ج ١ – الصفحة ٢٩١
No photo description available.
.
شیخ جعفر بن محمد بن قولويه ؒ نے اپنی سند سے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے فرمایا :
لما أسري بالنبي (صلى الله عليه وآله) إلى السماء قيل له: ان الله تبارك وتعالى يختبرك في ثلاث لينظر كيف صبرك …………… وأما ابنتك فتظلم وتحرم ويؤخذ حقها غصبا الذي تجعله لها، وتضرب وهي حامل، ويدخل عليها وعلى حريمها ومنزلها بغير اذن، ثم يمسها هوان وذل ثم لا تجد مانعا، وتطرح ما في بطنها من الضرب وتموت من ذلك الضرب.
جب نبی (صلى الله عليه وآله وسلم) کو آسمان کی سیر کروائی گئی تو کہا گیا کہ اللّٰه عزوجل آپ ؐ کا تین باتوں میں امتحان لے گا تا کہ آپ ؐ کا صبر دیکھے ……………
[مطلوبہ عبارت کو نقل کیا جا رہا ہے]
آپ ؑ کی بیٹی (فاطمه ؐ) پر ظلم کیا جائے گا اور محروم ٹھہرائی جائے گی اور ان کا وہ حق چھین لیا جائے گا جو آپ ؐ نے ان کیلئے قرار دیا تھا اور ان کو مارا جائے گا جبکہ وہ حاملہ ہونگی اور داخل ہوا جائے گا ان پر، ان کے حریم پر اور ان کے گھر پر بغیر اجازت کے، پھر شدید پریشانیاں اور بے مائگی کا سامنا ہوگا جس کا کوئی دفعیہ نہیں ہوگا، اور جو ان کے بطن مبارک میں بچہؑ (محسنؑ ) ہے اس کو بھی حملہ کی وجہ سے ضائع کردیا جائے گا اور ان کی وفات اس حملہ کی وجہ سے ضرب سے ہوگی۔
كامل الزيارات – جعفر بن محمد بن قولويه – الصفحة ٥٢٧
No photo description available.
.
علامه سید هاشم بحرانی ؒ اور علامه مجلسی ؒ نے علامه جلیل سید ابن طاؤوس ؒ کی کتاب الطرف سے اور انہوں نے عیسی بن المستفاد کی کتاب الوصیة سے اور انہوں نے امام موسی کاظم (علیه السلام) سے روایت نقل کی اور انہوں نے اپنے والد سے (طویل روایت) نقل کی ہے کہ رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا :
” ألا إن فاطمة بابها بابي وبيتها بيتي، فمن هتكه فقد هتك حجاب الله “،
” آگاہ رہو کہ فاطمہ ۜ کا دروازہ میرا دروازہ ہے اور ان کا گھر میرا گھر ہے “،
قال عيسى: فبكى أبو الحسن (عليه السلام) طويلا، وقطع بقية كلامه، وقال: هتك والله حجاب الله، هتك والله حجاب الله، هتك والله حجاب الله يا أمه صلوات الله عليها.
عیسی بن مستفاد نے کہا : امام موسی کاظم ؑ جنہوں نے اس حدیث کو رسول اللّٰه (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) سے نقل فرمایا ، اس وقت اپنے سخن کو قطع فرما کر کافی دیر تک روتے اور اس کے بعد فرمایا : ” بخدا حجاب اللّٰه کو چاک کیا گیا، بخدا حجاب اللّٰه کو چاک کیا گیا، بخدا حجاب اللّٰه کو چاک کیا گیا، اے میری ماں (سیدہ فاطمہ ؑ) خدا کی آپ پر رحمتیں نازل ہوں ۔
غاية المرام – السيد هاشم البحراني – ج ٢ – الصفحة ١١٩
بحار الأنوار – العلامة المجلسي – ج ٢٢ – الصفحة ٤٧٧
.
شیخ أبو جعفر محمد بن جرير طبری امامي ؒ نے کتاب ” دلائل الامامة ” میں اپنی سند سے ایک روایت نقل کی ہے کہ امام زین العابدین (علیه السلام) نے محمد بن عمار بن یاسر ؓ سے روایت نقل کی انہوں نے اپنے والد حضرت عمار بن یاسر ؓ کو فرماتے ہوئے سنا :
[مطلوبہ عبارت کو نقل کیا جا رہا ہے]
وحملت بمحسن، فلما قبض رسول الله (صلى الله عليه وآله)، وجرى ما جرى في يوم دخول القوم عليها دارها، وإخراج ابن عمها أمير المؤمنين (عليه السلام)، وما لحقها من الرجل (3) أسقطت به ولدا تماما، وكان ذلك أصل مرضها ووفاتها (صلوات الله عليها) ۔
جناب محسن ؑ صدفِ مادر میں تھے کہ رسول الله (صلى الله عليه وآله) دنیا سے رخصت ہو گئے اور شہزادی کونین ۜ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور سیدہ عالم ۜ کے گھر میں کچھ لوگ داخل ہوئے اور آپ کے چچازاد امیرالمومنین (عليه السلام) کو زبردستی گرفتار کرکے لے جایا گیا اور ان حملہ آور افراد میں سے ایک شخص کے ظلم سے آپ ۜ کا بیٹا (محسن ؑ) سقط ہو گیا، اور یہی شہزادی ۜ کی اصل بیماری تھی اور آپ ۜ دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔
دلائل الامامة – محمد بن جرير الطبري ( الشيعي) – الصفحة ١٠٤
.
شیخ أبو منصور طبرسي ؒ نے اپنی کتاب ” الاحتجاج ” میں شعبی، ابي مخنف اور يزيد بن أبي حبيب مصري سے احتجاج امام حسن (علیه السلام) کے ضمن میں ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں امام حسن ؑ نے عمرو ابن عاص، ولید ابن عقبہ، عمرو ابن عثمان، عتبہ ابن ابي سفیان اور مغیرہ بن شعبہ کے خلاف معاویہ کے سامنے احتجاج کیا ہے ۔
اس میں امام حسن مجتبیٰ (علیه السلام) مغیرہ ابن شعبہ سے فرماتے ہیں :
[مطلوبہ عبارت کو نقل کیا جا رہا ہے]
وأنت الذي ضربت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وآله حتى أدميتها وألقت ما في بطنها، استدلالا منك لرسول الله صلى الله عليه وآله ومخالفة منك لأمره، وانتهاكا لحرمته .
اور تُو ہی وہ ہے جس نے رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) کی بے عزتی کرتے ہوئے، انکے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اور انکی حرمت کو پامال کرتے ہوئے حضرت سیدہ فاطمہ ؑ بنت رسول الله ؐ کو ضرب لگائی جس سے تُو نے انہیں لہو لہان کر دیا اور آپ ۜ کے بطن سے بچہ ساقط ہوگیا ۔
الاحتجاج – الشيخ الطبرسي – ج ١ – الصفحة ٣٦٤
No photo description available.
.
شیخ صدوق ؒ نے اپنی کتاب الخصال میں سند کے ساتھ اعمش سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں ایک مقام پر حضرت امام جعفر صادق (علیه السلام) فرماتے ہیں :
وحب أولياء الله والولاية لهم واجبة، والبراءة من أعدائهم واجبة ومن الذين ظلموا آل محمد عليهم السلام وهتكوا حجابه فأخذوا من فاطمة عليها السلام فدك، ومنعوها ميراثها وغصبوها وزوجها حقوقهما، وهموا باحراق بيتها، وأسسوا الظلم وغيروا سنة رسول الله، والبراءة من الناكثين والقاسطين والمارقين واجبة، والبراءة من الأنصاب والأزلام: أئمة الضلال وقادة الجور كلهم أولهم وآخرهم واجبة، والبراءة من أشقى الأولين والآخرين شقيق عاقر ناقة ثمود قاتل أمير المؤمنين عليه السلام واجبة، و البراءة من جميع قتلة أهل البيت عليهم السلام واجبة،
اور الله کے اولیاء سے محبت اور ان کی ولایت واجب ہے، اور ان کے دشمنوں سے برائت کا اظہار کرنا بھی واجب ہے، ان میں وہ ہیں کہ جنہوں نے آل محمد (علیهم السلام) پر ظلـم کیا اور ان کی بےحرمتی کی اور حضرت فاطمہ (سلام الله علیها) سے فدک چھینا، انہیں ان کی میراث سے محروم کرکے اس کو غصب کیا اور ان کے شوہر (حضرت امیرالمومنین ؑ) کے حقوق پر قبضہ کیا اور ان کے گھر کو جلایا اور اسطرح انہوں نے ظلم کی بنیاد ڈالی اور سنت رسول (صلی الله علیه وآله وسلم) میں تبدیلی لے آئے اور ناکثین، قاسطین اور مارقین سے بھی اظہار برائت کرنا واجب ہے، اور اسی طرح بتــوں، جوؤوں، گمـراہ کن پیشواؤں، قائدین ظلـم و جور اور ان کے اول سے لے کر آخر فرد تک یعنی سب کے سب سے بیزاری واجب ہے، اور اولین و آخرین کے بدترین فرد ناقہ ثمود کو پے کرنے والے کے بھائی یعنی حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب ؑ کے قاتل سے بیزاری واجب ہے اور اھل بیت ؑ کے تمام قاتلوں سے بھی اظہار بیزاری واجب ہے ۔
الخصال – الشيخ الصدوق – الصفحة ٦٦٧
No photo description available.
.
شیخ أبو جعفر محمد بن جرير طبری امامي ؒ نے کتاب ” دلائل الامامة ” میں اپنی سند سے ابو بصیر سے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے فرمایا :
ولدت فاطمة (عليها السلام) في جمادى الآخرة، يوم العشرين منه، سنة خمس وأربعين من مولد النبي (صلى الله عليه وآله).
وأقامت بمكة ثمان سنين، وبالمدينة عشر سنين، وبعد وفاة أبيها خمسة وسبعين يوما.
وقبضت في جمادي الآخرة يوم الثلاثاء لثلاث خلون منه، سنة إحدى عشرة من الهجرة.
وكان سبب وفاتها أن قنفذا مولى عمر لكزها بنعل السيف بأمره، فأسقطت محسنا ومرضت من ذلك مرضا شديدا، ولم تدع أحدا ممن آذاها يدخل عليها.
وكان الرجلان من أصحاب النبي (صلى الله عليه وآله) سألا أمير المؤمنين أن يشفع لهما إليها ، فسألها أمير المؤمنين (عليه السلام) فأجابت، فلما دخلا عليها قالا لها: كيف أنت يا بنت رسول الله؟
قالت: بخير بحمد الله.
ثم قالت لهما: ما سمعتما النبي (صلى الله عليه وآله) يقول: ” فاطمة بضعة مني، فمن آذاها فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله “؟ قالا: بلى.
قالت: فوالله، لقد آذيتماني.
قال: فخرجا من عندها وهي ساخطة عليهما.
حضرت فاطمہ (سلام اللّٰه علیها) کی ولادت بیس (٢٠) جمادی الآخر میں ہوئی، ولادت نبی (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) کے پینتالیس سال بعد پیدا ہوئیں، آپ ؑ آٹھ سال مکہ اور دس سال مدینہ میں مقیم رہیں اور رسول اللّٰه ؐ کی رحلت کے پچہتر (٧٥) دن بعد تین (٣) جمادی الثاني گیارہ (١١) ہجری کو دنیا سے کوچ فرمایا ۔
سیدہ عالم ؐ کی رحلت کا سبب ایک شخص (ثانی) کے غلام قنفذ کا اپنے آقا کے حکم سے آپ ؐ کو تلوار کی میان کے لوہے کا سرا مارنا ہے جس سے شہزادہ محسن ؐ سقط ہوا اور اسی ظلم کی وجہ سے آپ ؐ سخت بیمار ہو گئیں، جبکہ اس بیماری کے دوران آپ ؐ نے کسی کو اجازت نہ دی کہ آپ ؐ کے پاس دو افراد آ سکیں جنہوں نے ان کو اذیت دی ہے ۔
پھر ایک دن ان دو اشخاص نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (علیه السلام) سے کہا کہ آپ ؐ ہماری سفارش کریں تو حضرت علی ؐ کی سفارش پر حضرت سیدہ فاطمہ ؐ نے انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دے دی، جب وہ دونوں اشخاص آپ ؐ کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ ؐ سے سوال کیا : یا بنتِ رسول ؐ آپ کا کیا حال ہے ؟
سیدہ ؐ نے جواب دیا : میں بحمداللّٰه ٹھیک ہوں ۔
پھر آپ ؐ نے ان دونوں سے فرمایا : کیا تم دونوں نے رسول اکرم ؐ سے یہ نہیں سنا تھا کہ انہوں ؐ نے فرمایا :
* فاطمہ ؑ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللّٰه کو اذیت دی * ۔
اس پر ان دونوں نے جواب دیا : جی ہاں! ہم نے رسول اللّٰه ؐ سے یہ حدیث سنی ہے ۔
حضرت سیدہ فاطمہ ؐ نے فرمایا : اللّٰه کی قسم! تم دونوں نے مجھے اذیت پہنچائی ہے ۔
یہ سن کر وہ دونوں وہاں سے باہر نکل گئے جبکہ رسول اللّٰه کی بیٹی ؐ ان دونوں سے ناراض تھیں ۔
دلائل الامامة – محمد بن جرير الطبري ( الشيعي) – الصفحة ٤٥،٤٦
.
عالم ربانی سید حسن مير جهاني طباطبائي ؒ نے ” ابن العرندس ” کی کتاب ” كشف اللئالي ” سے امیرالمومنین (علیه السلام) کا ایک مخالفین سے کیا گیا ایک طویل کلام نقل کیا ہے جس میں امیرالمومنین (علیه السلام) نے ایک مقام پر مخالفین سے فرمایا :
لظلمكم لنا أهل البيت احتسابا أو تضرب الزهراء نهرا ويؤخذ منا حقنا قهرا وجبرا فلا نصير ولا مجير ولا مسعد ولا منجد فليت ابن أبي طالب مات قبل يومه فلا يرى الـ كـ ـفـ رة الـ فـ ـجـ رة قد ازدحموا على ظلم الطاهرة البرة فتبا تبا وسحقا سحقا ذلك أمر إلى الله مرجعه والى رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) مدفعه فقد عز على ابن أبي طالب ان يسود متن فاطمة ضربا وقد عرف مقامه وشوهدت …… ،
اور ہم اھل بیت ؑ پر اپنے کیئے گئے ظلم کے حساب کیلئے تیار ہو جاؤ ، یا زہراء ؑ کو جو سختی سے بات کر کے مارا گیا اور ہم سے زبردستی ہمارا حق چھین لیا گیا ، لہذا کوئی مونس و مددگار نہیں تھا اورکوئی خوش اور سکون نہیں تھا ، ** کاش ابو طالب ؑ کا بیٹا مر گیا ہوتا اس دن سے پہلے ** ……… کہ ان ……… کے چہرے نہ دیکھتا کہ جب وہ طاہرہ ؑ اور نیکوکار پر ظلم کرنے کے لیے جمع ہوئے، پس ہلاکت ہے پس ہلاکت ہے اور موت ہے موت ہے، یہ امر وہ کہ جس میں الله کی طرف رجوع ہے اور رسول الله ؐ ہی اس کا دفاع کریں گے، علی ؑ کے لیئے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ فاطمہ ؑ کا گوشت مار سے سیاہ ہو جائے، اور وہ اس جگہ کو پہچانتا ہے ، اور ان دنوں کا مشاہدہ کیا گیا ۔
مصباح البلاغة (مستدرك نهج البلاغة) – الميرجهاني – ج ١ – الصفحة ٢٨٦
No photo description available.
.
شیخ صدوق ؒ نے اپنی کتاب ” معاني الاخبار ” میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امیرالمومنین (علیه السلام) کی ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا :
لما حضرت فاطمة عليها السلام الوفاة دعتني فقالت: أمنفذ أنت وصيتي وعهدي؟ قال: قلت: بلى، أنفذها. فأوصت إلي وقالت: إذا أنا مت فادفني ليلا ولا تؤذنن رجلين ذكرتهما. قال: فلما اشتدت علتها اجتمع إليها نساء المهاجرين والأنصار فقلن: كيف أصبحت يا بنت رسول الله من علتك؟ فقالت: أصبحت والله عائفة لدنياكم وذكر الحديث نحوه .
جب سیدہ فاطمہ (سلام الله علیها) کا وقت رحلت قریب آیا تو مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ آپ ؑ میری وصیت کو پورا کریں گے ؟ (مولا ؑ نے) کہا : ہاں ، پس آپ ؑ نے مولا ؑ کو وصیت فرمائی، اور فرمایا کہ جب میں وفات پا جاؤں تو مجھے رات میں دفن کرنا، اور ان دو (ابوبکر و عمر) کو جن کا ذکر میں نے کیا شامل ہونے کی اجازت نہ دینا ، پھر مولا ؑ نے فرمایا : جب آپ کی بیماری شدت پکڑ گئی تو مہاجرین و انصار کی عورتیں جمع ہو کر آپ کے پاس آئیں ، اور آپ ؑ سے احوال پرسی کی ، جناب زہرا نے فرمایا میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ تمہاری دنیا سے بیزار ہوں ……
معاني الأخبار – الشيخ الصدوق – الصفحة ٢٥٨
No photo description available.
.
شیخ أبو جعفر محمد بن جرير طبری امامي ؒ نے کتاب ” دلائل الامامة ” میں اپنی سند سے أبو علي محمد بن همام بن سهيل (رضي الله عنه) سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :
وأخرجها إلى البقيع في الليل، ومعه الحسن والحسين، وصلى عليها، ولم يعلم بها، ولا حضر وفاتها، ولا صلى عليها أحد من سائر الناس غيرهم، ودفنها في الروضة، وعفى موضع قبرها، وأصبح البقيع ليلة دفنت وفيه أربعون قبرا جددا؟
وإن المسلمين لما علموا وفاتها جاءوا إلى البقيع، فوجدوا فيه أربعين قبرا، فأشكل عليهم قبرها من سائر القبور، فضج الناس ولام بعضهم بعضا، وقالوا: لم يخلف نبيكم فيكم إلا بنتا واحدة، تموت وتدفن ولم تحضروا وفاتها ولا دفنها ولا الصلاة عليها! بل ولم تعرفوا قبرها!
فقال ولاة الأمر منهم: هاتوا من نساء المسلمين من ينبش هذه القبور حتى نجدها فنصلي عليها ونزور قبرها.
فبلغ ذلك أمير المؤمنين (صلى الله عليه)، فخرج مغضبا قد احمرت عيناه، ودرت أوداجه ، وعليه قباؤه الأصفر الذي كان يلبسه في كل كريهة، وهو يتوكأ على سيفه ذي الفقار، حتى ورد البقيع، فسار إلى الناس من أنذرهم، وقال : هذا علي بن أبي طالب قد أقبل كما ترونه، يقسم بالله لئن حول من هذه القبور حجر ليضعن السيف في رقاب الآمرين .
فتلقاه عمر ومن معه من أصحابه، وقال له: مالك يا أبا الحسن، والله لننبشن قبرها ولنصلين عليها.
فضرب علي (عليه السلام) بيده إلى جوامع ثوبه فهزه ثم ضرب به الأرض، وقال له:
يا بن السوداء، أما حقي فقد تركته مخافة أن يرتد الناس عن دينهم، وأما قبر فاطمة فوالذي نفس علي بيده لئن رمت وأصحابك شيئا من ذلك لأسقين الأرض من دمائكم، فإن شئت فاعرض يا عمر.
فتلقاه أبو بكر فقال: يا أبا الحسن، بحق رسول الله وبحق من فوق العرش إلا خليت عنه، فإنا غير فاعلين شيئا تكرهه.
حضرت امیرالمومنین (علیه السلام) رات کی تاریکی میں سیدہ کونین (سلام الله علیها) کا جنازہ جنت البقیع کی طرف لے گئے اور اس وقت آپ کے ہمراہ امام حسن ؑ و امام حسین ؑ تھے، آپ ؑ نے جناب سیدہ ۜ پر نماز جنازہ پڑھائی جبکہ کسی اور معلوم نہ تھا، آپ ؑ کے علاوہ باقی لوگوں میں سے کسی نے حضرت فاطمہ ۜ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اور اس کے بعد حضرت فاطمہ ۜ کو قبر رسول ؐ اور منبر رسول ؐ کے درمیان روضہ میں دفن کیا گیا اور آپ ۜ کی قبر کا نشان مٹا دیا گیا، اور جس رات بنت رسول ؐ کو دفن کیا گیا وہاں اس رات (امیرالمومنین ؑ نے) مزید چالیس نئی قبریں بنائیں ۔۔
جب مسلمانوں کو آپ ۜ کی وفات کا پتہ چلا تو وہ لوگ بقیع کی طرف آئے پس انہوں نے وہاں پر چالیس جدید قبر پائے جانے کی وجہ سے آپ ۜ کی قبر کی پہچان مشکل ہوئی پس لوگوں یہ بات کو سخت گزری اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور انہوں نے کہا : تمہارے نبی ؐ نے تمھارے درمیان اپنے بعد ایک ہی بیٹی کو چھوڑا تھا وہ فوت ہو جاتی ہے اور اسے دفن کیا جاتا ہے اور تم لوگ اس کی وفات کے وقت حاضر نہیں ھوئے اور نہ اس کی نماز جنازہ میں حاضر ھوئے اور نہ تم لوگ اس کی قبر کے بارے میں جانتے ہو ۔
اسکے بعد فلاں نے کہا کہ مسلمانوں کی عورتوں کو بلا کر لایا جائے اور ہم ان قبروں کو کھود کر ان کا جنازہ نکالنے کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے .
یہ خبر جب مولائے کائنات ؐ کو ملی تو آپ نے اپنی وہ زرد قبا پہنی جو آپ جنگوں میں پہنتے تھے، پھر آپ نے ذوالفقار اٹھائی جلال کی وجہ سے آپ کی آنکھیں بالکل سرخ ہوچکی تھیں اور رگیں پھول گئی تھیں، یہاں تک کہ آپ بقیع میں پہنچ گئے آپ کو دیکھ کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔۔۔
کسی نے چیخ کر کہا : تم لوگ خود دیکھ رہے ہو کہ اُدھر سے علی بن ابی طالب ؐ چلے آ رہے ہیں، انہوں نے یہ قسم کھائی ہے کہ اگر ان قبروں کا ایک ڈھیلا بھی ادھر سے ادھر ہوگیا تو یہ اس کا حکم دینے والوں کی گردن اڑا دیں گے، تو کسی شخص نے کہا: اے ابو الحسن ؑ! تم سے کیا مطلب، خدا کی قسم! ہم قبر کو کھود کر ان کی نماز جنازہ ضرور پڑھیں گے، تو حضرت علی ؑ نے اس کا گریبان پکڑ کر ایک بار جھٹکا دیا اور اسے زمین پر پٹخ دیا اور اس سے کہا : اے فلاں کے بیٹے اپنا حق تو میں نے صرف اس خوف سے چھوڑ دیا کہ کہیں لوگ اپنے دین سے نہ پلٹ جائیں لیکن جہاں تک فاطمہ ۜ کی قبر کا سوال ہے تو اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں علی ؐ کی جان ہے اگر تُو نے اور تیرے ساتھیوں نے اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا بھی تو زمین کو تمہارے خون سے سیراب کر دوں گا ۔
تو ابوبکر بولے : اے ابو الحسن ؐ ! تمہیں رسول الله ؐ کے حق کا واسطہ اور عرش کے اوپر والی ھستی کا واسطہ اسے چھوڑ دو اور ہم آپ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کریں گے، تو آپ نے اسے چھوڑ دیا اور پھر تمام لوگ متفرق ہوگئے اور پھر اس طرف واپس نہیں لوٹے ۔
دلائل الامامة – محمد بن جرير الطبري ( الشيعي) – الصفحة ١٣٦،١٣٧
.
السید الشریف الرضي ؒ نے کتاب نهج البلاغه میں خطبات میں ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں امیرالمومنین (علیه السلام) کی زبانی مظلومیت سیدہ فاطمہ (سلام الله علیها) کا ذکر ہوا ہے ۔
امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (علیه السلام) نے سیّدة النساء العالمین حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیها) کی تدفین کے موقع پر [رسول الله کی قبر کی طرف رخ کرکے] فرمایا :
السَّلَامُ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللهِ عَنِّیْ، وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِیْ جِوَارِكَ، وَ السَّرِیْعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ! قَلَّ یَا رَسُوْلَ اللهِ! عَنْ صَفِیَّتِكَ صَبْرِیْ، وَ رَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِیْ، اِلَّاۤ اَنَّ لِیْ فِی التَّاَسِّیْ بِعَظِیْمِ فُرْقَتِكَ، وَ فَادِحِ مُصِیْبَتِكَ، مَوْضِعَ تَعَزٍّ، فَلَقَدْ وَسَّدْتُّكَ فِیْ مَلْحُوْدَةِ قَبْرِكَ، وَ فَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِیْ وَ صَدْرِیْ نَفْسُكَ.
یا رسول الله ؐ! آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی (فاطمه ؐ) کی طرف سے سلام ہو۔
یا رسول الله ؐ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا، میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن آپؐ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا، جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
[اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ]، فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ، وَ اُخِذَتِ الرَّهِیْنَةُ! اَمَّا حُزْنِیْ فَسَرْمَدٌ، وَ اَمَّا لَیْلِیْ فَمُسَهَّدٌ، اِلٰۤی اَنْ یَّخْتَارَ اللهُ لِیْ دَارَكَ الَّتِیْۤ اَنْتَ بِهَا مُقِیْمٌ.
انا لله و انا الیه راجعون ، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔
وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ اُمَّتِكَ عَلٰی هَضْمِهَا، فَاَحْفِهَا السُّؤَالَ، وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ، هٰذَا وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ، وَ لَمْ یَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ.
وہ وقت آ گیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا ۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔
وَ السَّلَامُ عَلَیْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ، لَا قَالٍ وَّ لَا سَئِمٍ، فَاِنْ اَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَّلَالَةٍ، وَ اِنْ اُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْٓءِ ظَنٍّۭ بِمَا وَعَدَ اللهُ الصَّابِرِیْنَ.
آپؐ دونوں پر میرا سلامِ رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔
نهج البلاغة – الشريف الرضي – الصفحة ٤٩١،٤٩٢
شہادت سیدہ فاطمه (سلام الله علیها) اور السید الخوئی ؒ
ابو القاسم السید الخوئی ؒ سے سوال کیا گیا :
س 1264: هل هناك خصوصية للزهراء (ع) في خلقتها، وبالنسبة للمصائب التي جرت عليها بعد أبيها (ص) من ظلم القوم لها، وكسر ضلعها واسقاط جنينها، ما رأيكم بذلك؟
❓سوال #
کیا جناب زھراء (سلام الله علیها) کو ان کی خلقت کے اعتبار سے کوئی اختصاص حاصل ہے؟
اور ان کے مصائب کی نسبت جو ان کے بابا ؐ کے بعد امت نے آں پر ڈھائے، پسلیوں کا ٹوٹنا اور حضرت محسن ؑ کا ساقط ہونا ۔
آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
📚 جواب #
نعم، فإن خلقتها كخلقة سائر الأئمة (سلام الله عليهم أجمعين) بلطف من الله سبحانه وتعالى، حيث ميزهم في خلقهم عن سائر الناس، بما أنه يعلم أنهم يعبدون الله ويخلصون الطاعة له، وخصص في خلقتهم خصيصة يمتازون بها عن سائر الخلق، كما يشهد بذلك خلقه عيسى (ع) حيث تكلم وهو في المهد، (قال إني عبد الله آتني الكتاب وجعلني نبيا). وكانت فاطمة (ع) في بطن أمها محدثة، وكانت تنزل عليها الملائكة بعد وفاة الرسول (ص)، ويشهد بذلك الروايات المتعددة، منها صحيحة أبي عبيدة عن أبي عبد الله (ع) قال: إن فاطمة (ع) مكثت بعد رسول الله (ص) خمسة وسبعين يوما، وكان دخلها حزن شديد على أبيها، وكان يأتيها جبرئيل (ع) فيحسن عزاءها على أبيها، ويطيب نفسها، ويخبرها عن أبيها ومكانه، ويخبرها بما يكون بعدها في ذريتها، وكان علي (ع) يكتب ذلك، وكذا غيرها من الروايات الواردة في المقام.
ہاں، کیونکہ ان (فاطمہ) کی خلقت بھی سارے آئمہ ؑ کی طرح الله سبحانہ و تعالی کے لطف خاص سے ہوئی ہے جب الله نے آئمہ ؑ کو انکی خلقت میں تمام انسانوں سے ممتاز رکھا کیونکہ الله کو علم تھا کہ وہ لوگ الله کی بندگی کرینگے اور خالص اسکی اطاعت کرینگے تو الله نے انکی خلقت میں ایسی خصوصیت برتی کہ وہ تمام مخلوقات سے ممتاز رہیں جس طرح الله کا جناب عیسی ؑ کو خلق کرنا اس خصوصیت کا شاہد ہے جب انھوں نے گہوارے سے کلام کیا اور کہا کہ ” بیشک میں الله کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے “ بالکل اسی طرح جناب فاطمہ ؑ بھی اپنی ماں کے بطن میں گفت و گو کرتی تھیں (یعنی محدِثہ تھیں) اور رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم) کی وفات کے بعد انپر ملائکہ نازل ہوتے تھے جسکی شاہد بہت سی روایات ہیں ۔
جیسا کہ ابی عبیدہ کی صحیح روایت میں مروی ہے کہ جس میں امام صادق (علیه السلام) فرماتے ہیں : ** حضرت فاطمہ (ع) بعد رحلت رسول الله (ص) ٧٥ دن زندہ رہیں اور ان پر باپ کا شدید غم طاری تھا، اور جبرائیل ؑ ان کے پاس آتے تھے اور تعزیت کرتے تھے اور ان کا دل بہلاتے تھے اور ان کے پدر بزرگوار کا حال سناتے تھے اور ان کی جگہ بتاتے اور وہ تمام واقعات سناتے جو ان کو پیش آنے والے تھے، اور حضرت علی ؑ ان واقعات کو لکھتے تھے ** ۔
اس روایت کے علاوہ دوسری روایات بھی ہیں جو اس مفہوم پر دلالت کرتی ہیں ۔
اس کے بعد السید الخوئی ؒ شہادت و مظلومیت سیدہ فاطمہ (سلام الله علیها) کے متعلق لکھتے ہیں :
وأما ما جرى عليها من الظلم فهو متواتر اجمالا، فإن خفاء قبرها (ع) إلى يومنا هذا، ودفنها ليلا بوصية منها شاهدان على ما جرى عليها بعد أبيها،
اور جناب سیدہ ۜ پر جو ظلم ہوا وہ اجمالاً متواتر ہے، پس ان کی قبر کا آج تک مخفی ہونا، ان کا رات میں دفن کرنے کی وصیت کرنا، یہ دونوں چیزیں گواہ ہیں کہ ان کے بابا (نبی اکرم ؐ) کے بعد ان پر کیا کیا ظلم ہوئے ۔
جیسا کہ الکافي میں حضرت امیرالمومنین (علیه السلام) کے کلمات میں ملتا ہے کہ جب آپ ؑ نے حضرت سیدہ ؑ کو دفن کر لیا تو اس وقت قبر رسول الله ؐ کی طرف رُخ کرکے فرمایا :
((وستنبئك ابنتك بتظافر أمتك على هضمها. فأحفها السؤال واستخبرها الحال، فكل من غليل معتلج بصدرها لم تجد إلى بثه سبيلا، وستقوله ويحكم الله وهو خير الحاكمين)) وقال (ع): ((فبعين الله تدفن ابنتك سرا، وتهضم حقها، وتمنع إرثها جهرا، ولم يتباعد العهد، ولم يخلق منك الذكر، وإلى الله يا رسول الله المشتكى)).
** وہ وقت آ گیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں گی کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا ۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ غم ان کے سینے میں ہی موجزن تھے جبکہ انہیں باہر نکالنے کی کوئی سبیل نہ تھی۔ وہ یہی کہتی تھی کہ الله انصاف کرے گا اور وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے ** ۔
اور مزید فرماتے ہیں : ** الله گواہ ہے کہ آپ ؑ کی بیٹی ؑ رات کی تاریکی میں دفنائی گئی ہے جبکہ ان کا حق غصب اور انہیں ان کی میراث سے دن کی روشنی میں محروم کیا گیا تھا۔ اب ان کے بعد آپ سے اور کوئی عہد نہیں اور نہ کسی اور یاد کی امید ہے
اے الله کے رسول (ص)! اب الله کی بارگاہ میں ہی شکایت ہے اور آپ کو احسن انداز میں آپ کی بیٹی کی تعزیت پیش کرتا ہوں … ** ۔
(و ح 2 من نفس الباب) بسند معتبر عن الكاظم (ع) قال: إن فاطمة (ع) صديقة شهيدة، وهو ظاهر في مظلوميتها وشهادتها، ويؤيده أيضا ما في البحار (ج 43 باب 7 رقم 11) عن دلائل الإمامة للطبري بسند معتبر عن الصادق (ع): ((… وكان سبب وفاتها أن قنفذا مولى الرجل لكزها بنعل السيف بأمره فأسقطت محسنا)).
الکافی میں ایک اور روایت سند معتبر کے ساتھ مروی ہے کہ امام موسی الکاظم (علیه السلام) نے فرمایا : ** فاطمہ ؑ صدیقہ اور شہیدہ ہیں **، اور ظاہراً اس میں سیدہ کائنات ؑ کی مظلومیت اور شہادت کا ذکر ہے ۔
اس کے علاوہ دلائل الامامة میں طبری امامی ؒ نے سند معتبر کے ساتھ امام صادق (علیه السلام) کا قول نقل کیا ہے : ** اور آپ ؑ کی وفات کا سبب قنفذ کا اپنے آقا کے حکم سے آپ ؐ کو تلوار کی میان کے لوہے کا سرا مارنا ہے جس سے شہزادہ محسن ؐ سقط ہوا **۔۔
صراط النجاة – الميرزا جواد التبريزي – ج ٣ – الصفحة ٤٣٩،٤٤٠،٤٤١
✍🏻 : جبران علی