قارئین ایک موصوف نے کتاب سلیم کی ایک روایت پر اعتراض کیا کہ رسول اللہ اپنے زوجہ اور مولا علی کے ساتھ ایک لحاف میں تھے
یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روایت اس طرح پیش کی جا رہی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرت کا مسئلہ ہو(العیاذ باللہ)
جبکہ حقیقت یہ کہ روایت کے مطابق ایک سفر میں مولا علی ,رسول ص کے ساتھ تھے (قوی امکان ہے کہ یہ شدید سردی کا موسم تھا) روایت کے الفاظ ہیں کہ تب
پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا
قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَ نِسَاءَهُ بِالْحِجَابِ
رسول اللہ کے پاس صرف ایک ہی لحاف تھا کیونکہ کہ صحرائی سردی میں بغیر لحاف سونا محال ہے تو رسول اللہ نے مولا علی کو اسی لحاف کے اندر ایک سائیڈ پر سلا لیا جبکہ دوسری طرف آپ ص کی زوجہ موجود تھیں اس روایت میں کہیں بھی نبی کی زوجہ اور مولا علی ساتھ موجود تھیں بلکہ درمیان میں ایک محرم موجود تھے جب رسول اللہ وہاں سے رات کی نماز کے لیے اٹھنے لگے تو مولا علی اور حضرت عائشہ کے درمیان ہاتھ سے لحاف کو نیچے کرکے دونوں کے درمیان حد بندی قائم کر دی۔
ہماری نظر میں رسول کے اس فعل میں کوئی قباحت نہیں جبکہ سامنے والا شخص کوئی عام نہیں امیر المومنین مولا علی علیہ السلام جو کہ معصوم عن الخطاء ہیں لیکن رسول نے پھر بھی دونوں کے درمیان پردے کا بندوست کر دیا(اگرچہ پردے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا)
ملاحضہ ہو

سوچنے کی بات ہے جب حضرت عائشہ جنگ جمل کے روانہ ہوئیں پھر میدان جنگ میں اتنے مہینے امی سوئیں نہیں تھیں یا ان کے ارد گرد کوئی غیر محرم نہیں تھا؟
════ ¤❁✿❁¤ ════
اعتراض کرنے والوں کو خبر نہیں کہ ان کی روایت کے مطابق حجاب کی آیت نزول سے پہلے تو جناب عمر اور حضرت عائشہ اس حد تک قریب بیٹھتے تھے کہ دونوں کے ہاتھ تک آپس میں ٹچ ہوتے تھے

اب یہاں آپ کی غیرت کو کوئی دھچکا لگا ہو؟ کیوں کہ مولا علی تو ٹچ نہیں ہوئے یہاں تو لوگ ٹچ /مس بھی ہو رہے ہیں ، کچھ لوگ رفع حاجت کو جاتی ازواج رسول کا بھی پیچھا کرتے اور انکا نام لے کر انکو شرمندہ بھی کرتے تھے کہ ہم نے آپ کو پہچان لیا آپ رسول کی فلاں زوجہ ہو(صحیح بخاری صحیح مسلم)
════ ¤❁✿❁¤ ════
معترض کانچ کا گھر بنا کر دوسروں کے گھروں پر کنکر مارنے کو کوشش کر رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ دوسروں کے ہاتھ میں پھر پتھر ہیں کیا معترض صاحب ایک لحاف میں لیٹے سے گستاخی کے فتویٰ پر پکے ہیں؟ چلیں پھر آزماتے ہیں
حضرت زبیر بن العوام ،رسول اللہ اور المومنین ام سلمہ ایک ہی لحاف میں تھے صحیح سند روایت
أخبرنا روح بن عبادة نا حماد بن سلمة عن هشام بن عروة عن أبيه أن رسول الله (ص) بعث ليلة الأحزاب الزبير ورجلا آخر في ليلة فقال قرة فنظروا ثم جاءوا ورسول الله (ص) في مرط لأم سلمة فأدخلهما في المرط التزق رسول الله (ص) بأم سلمة
¶غزوہ احزاب کی رات رسول اللہ نے حضرت زبیر اور ایک دوسرے شخص کو محافظت کے لیے بلایا
وہ لوگ گئے انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر اس حال میں واپس آئے کہ رسول ام سلمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ایک ہی لحاف کے اندر تھے چنانچہ وہ دونوں حضرات بھی لحاف میں لیٹ گئے اور رسول اللہ ام سلمہ کے ساتھ چمٹ گئے¶

یہ روایت عروہ تک صحیح ہے
یاد رہے اس روایت کو امام ابن حجر عسقلانی نے بھی مرسل صحیح قرار دیا

یہاں رسول تو ایک لحاف میں غیر محرم کی موجودگی میں اپنی زوجہ سے چمٹ بھی رہے ہیں
کیا معترض صاحب عروہ بن زبیر پر ک!ف!ر کا فتویٰ لگائیں گے؟ کیا امام اسحاق ابن راہویہ کر شرم دلائیں گے؟
یہ روایت عروہ تک صحیح ہے اور عروہ اپنے والد کے بارے میں اتنی تو بے احتیاطی نہیں کر سکتا کہ جھوٹ منسوب کرے اور عروہ یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ وہ صرف وہی روایت بیان کرتا جو ثابت ہو جس پر عروہ کو یقین ہو جس کے مطابق عروہ چاہتا ہو کہ لوگ عمل کریں عروہ وہی روایت بیان کرتا یے جو صرف ثقہ عن ثقہ ہو
عروہ کی گواہی لیں
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺷﺎﻛﺮ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺳﻠﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺮﺑﻴﻊ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺷﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ *ﻋﺮﻭﺓ ﺑﻦ اﻟﺰﺑﻴﺮ ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﻷﺳﻤﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﺳﺘﺤﺴﻨﻪ ﻓﻤﺎ ﻳﻤﻦﻋﻦﻳ ﻣﻦ ﺫﻛﺮﻩ ﺇﻻ ﻛﺮاﻫﻴﺔ ﺃﻥ ﻳﺴﻤﻌﻪ ﺳﺎﻣﻊ ﻓﻴﻘﺘﺪﻱ ﺑﻪ ﻭﺫﻟﻚ ﺃﻧﻲ ﺃﺳﻤﻌﻪ ﻣﻦ اﻟﺮﺟﻞ ﻻ ﺃﺛﻖ ﺑﻪ ﻗﺪ ﺣﺪﺙ ﺑﻪ ﻋﻤﻦ ﺃﺛﻖ ﺑﻪ ﺃﻭ ﺃﺳﻤﻌﻪ ﻣﻦ ﺭﺟﻞ ﺃﺛﻖ ﺑﻪ ﻗﺪ ﺣﺪﺙ ﺑﻪ ﻋﻤﻦ ﻻ ﺃﺛﻖ ﺑﻪ ﻓﻼ ﺃﺣﺪﺙ ﺑﻪ*
عروة بن زبیر کہتا ہے کی میں نے حدیث سن رکھی ہوتی ہے جو اچھی ہوتی ہے لیکن مُجھے کچھ چیز منہ نہیں کرتی کے اس کو روایت کرو تم لوگوں سے مگر یہ کے تم اس حدیث پر عمل نہ کرنے لگ جاؤ۔ كيوکی میں نے ایسے شخص سے سن رکھی ہوتی ہے جو ثقة نہیں مگر ثقة سے بیان کیا ہوتا ہے یا پھر ثقة سے سن رکھی ہوتی ہے مگر اسنے غير ثقة سے بیان کی ہوتی ہے

تو اس سے ثابت ہوا کہ عروہ بغیر تحقیق روایت نقل نہیں کرتے تھے تو وہ اپنے باپ کی طرف اتنی بڑی بات کیسے منسوب کر سکتے ہیں؟ امام ابن عبد البر نے بھی عروہ کی مرسل کی حجیت پر دلیل پکڑی
════ ¤❁✿❁¤ ════
اسی مفہوم کی روایت کو امام حاکم نے متصل سند کے ساتھ مستدرک میں نقل کیا ہے
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ، ثنا محمد بن سنان القزاز ، ثنا إسحاق بن إدريس ، ثنا محمد بن حازم ، ثنا هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عبد الله بن الزبير ، عن أبيه۔۔۔۔۔
فأتيته وهو مع بعض نسائه في لحافه
¶ زبیر بن العوام کہتے ہیں رسول نے مجھے بلایا میں آپ ص کی خدمت میں حاضر ہو گیا ، اس وقت حضور اکرم اپنی کسی زوجہ محترمہ کے ہمراہ لحاف میں لیٹے ہوۓ تھے ، رسول اللہ ﷺ و آلہ نے مجھے بھی اسی لحاف میں داخل فرمالیا تو اس لحاف میں ہم تین ہو گئے¶





اگرچہ مستدرک میں اس روایت کی سند ضعیف ہے مگر یہ روایت امام حاکم اور امام ذھبی کے نزدیک صحیح ہے تو حاکم اور ذھبی پر کب فتوی لگا رہے ہیں توہین رسالت کا؟
════ ¤❁✿❁¤ ════
امام احمد بن حنبل نے بھی ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ام المومنین ام سلمہ اس چادر کے اندد داخل ہوئیں جس میں رسول اللہ کے ہمراہ مولا علی موجود تھے
[ کتاب فضائل الصحابہ احمد حنبل جلد 1 حدیث 1392 سندہ حسن ]
اب معترض کو ایسی تمام کتب جلا ڈالی چاہیے اور ان تمام محدثین اور راویان پر لع!نت کرنی چاہیے جنھوں نے ایسی توہین آمیز بیشرمی و بیغیرتی پر مبنی روایات (بقول معترض) درج کیں ٹرانسمٹ کین یا ان روایات کو صحیح کہا












