عقائد شعیہ اثنا عشری کی تصدیق معصومین علیہم السلام کی زبانی

تحریر:سید اسد عباس نقوی

نظر ثانی:فخر عباس زائر اعوان

(1)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ اَلْجَمَّالِ ، قَالَ: دَخَلَ خَالِدٌ اَلْبَجَلِيُّ عَلَى أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) وَ أَنَا عِنْدَهُ ، فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَصِفَ لَكَ دِينِيَ اَلَّذِي أَدِينُ اَللَّهَ بِهِ! وَ قَدْ قَالَ لَهُ قَبْلَ ذَلِكَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ فَقَالَ لَهُ سَلْنِي فَوَ اَللَّهِ لاَ تَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ إِلاَّ حَدَّثْتُكَ بِهِ عَلَى حَدِّهِ لاَ أَكْتُمُكَ، قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا أَبْدَأُ أَنِّي أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لَيْسَ إِلَهٌ غَيْرَهُ، قَالَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) : كَذَلِكَ رَبُّنَا لَيْسَ مَعَهُ إِلَهٌ غَيْرُهُ، ثُمَّ قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، قَالَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) : كَذَلِكَ مُحَمَّدٌ عَبْدُ اَللَّهِ مُقِرٌّ لَهُ بِالْعُبُودِيَّةِ وَ رَسُولُهُ إِلَى خَلْقِهِ، ثُمَّ قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) كَانَ لَهُ مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْمَفْرُوضَةِ عَلَى اَلْعِبَادِ مِثْلُ مَا كَانَ لِمُحَمَّدٍ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) عَلَى اَلنَّاسِ، قَالَ: كَذَلِكَ كَانَ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ، قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّهُ كَانَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ عَلِيٍّ (عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ) مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْوَاجِبَةِ عَلَى اَلْخَلْقِ مِثْلُ مَا كَانَ لِمُحَمَّدٍ وَ عَلِيٍّ (صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِمَا)، فَقَالَ: كَذَلِكَ كَانَ اَلْحَسَنُ ، قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّهُ كَانَ لِلْحُسَيْنِ مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْوَاجِبَةِ عَلَى اَلْخَلْقِ بَعْدَ اَلْحَسَنِ مَا كَانَ لِمُحَمَّدٍ وَ عَلِيٍّ وَ اَلْحَسَنِ (عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ) قَالَ: فَكَذَلِكَ كَانَ اَلْحُسَيْنُ ، قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ كَانَ لَهُ مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْوَاجِبَةِ عَلَى جَمِيعِ اَلْخَلْقِ كَمَا كَانَ لِلْحُسَيْنِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) قَالَ، فَقَالَ: كَذَلِكَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ ، قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ كَانَ لَهُ مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْوَاجِبَةِ عَلَى اَلْخَلْقِ مِثْلُ مَا كَانَ لِعَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ ، قَالَ فَقَالَ: كَذَلِكَ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ أَوْرَثَكَ اَللَّهُ ذَلِكَ كُلَّهُ، قَالَ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) : حَسْبُكَ اُسْكُتِ اَلْآنَ فَقَدْ قُلْتَ حَقّاً، فَسَكَتَ، فَحَمِدَ اَللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَعَثَ اَللَّهُ نَبِيّاً لَهُ عَقِبٌ وَ ذُرِّيَّةٌ إِلاَّ أَجْرَى لِآخِرِهِمْ مِثْلَ مَا أَجْرَى لِأَوَّلِهِمْ، وَ إِنَّا لحق [نَحْنُ] ذُرِّيَّةُ مُحَمَّدٍ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) أَجْرَى لِآخِرِنَا مِثْلَ مَا أَجْرَى لِأَوَّلِنَا، وَ نَحْنُ عَلَى مِنْهَاجِ نَبِيِّنَا (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) لَنَا مِثْلُ مَا لَهُ مِنَ اَلطَّاعَةِ اَلْوَاجِبَةِ .

ابو سلمہ جمال رض کا بیان ہے کہ خالد بجلی امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا تو میں بھی وہی موجود تھا اس نے عرض کی میں آپ پر فدا ہو جاوں میں اپنا دین اور عقیدہ آپکے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ اس سے پہلے کہہ چکا تھا کہ میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں فرمایا سوال کر خدا کی قسم تو مجھ سے جس چیز کے متعلق سوال کرے گا میں تجھے اسکی حقیقت بتاوں گا اور تجھ سے کوئی چیز نہیں چھپاوں گا اس نے عرض کی ہے کہ میں جس سے ابتداء کرتا ہوں وہ کلمہ طیبہ ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہمارا پرودرگار ایسا ہی ہے ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں پھر اس نے عرض نے کی کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا اس طرح محمد مصطفی خدا کے بندے ہیں اور خدا کے لیے اپنی بندگی کا اقرار اور اظہار کرتے ہیں اور اس کی مخلوق کی طرف اسکے رسول ہیں پھر اس نے عرض کی میں گواہی دیتا ہوں کہ امام علی علیہ السلام کی اطاعت بندگان خدا پر اس طرح واجب اور فرض ہے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت فرض اور واجب ہے امام علیہ السلام ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے عرض کی کہ مین گواہی دیتا ہوں کہ حضرت امام علی علیہ السلام کے بعد امام حسن علیہ السلام کی اطاعت بندگان خدا پر اس طرح فرض اور واجب ہے کہ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کی اطاعت واجب اور فرض ہے امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے عرض کی کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسن علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام کی اطاعت بندگان خدا پر اس طرح فرض اور واجب ہے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کی اطاعت فرض و واجب ہے امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے عرض کی میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی اطاعت بندگان خدا پر اس طرح فرض اور واجب ہے جس طرح امام حسین علیہ السلام کی فرض اور واجب ہے امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے عرض کی میں گواہی دیتا ہوں کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام کی اطاعت بندگان خدا پر اس طرح فرض اور واجب ہے کہ جس طرح امام زین العابدین علیہ السلام کی اطاعت فرض و واجب ہے امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے اس نے عرض کی مولا میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے آپکو ان کا ورث قرار دیا ہے امام نے فرمایا کافی ہے اب خاموش ہو جاو تم نے حق بات کہی ہے وہ تو خاموش ہوگیا پھر آپ علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثناء کی اور فرمایا اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اسکے لیے نسل و ذریت قرار دی تو انکے آخری کے لیے وہی قرار دیا جو ان کے پہلے کے لیے قرار دیا بے شک ہم ذریت اور نسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں خدا ہمارے آخری کے لیے وہی قرار دے جو اس نے ہمارے اول کے لیے جاری کیا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہ پر ہیں اور ہمارے لیے انہی کی طرح اطاعت واجب ہے۔

(رجال کشی ص302الرقم:296حدیث نمبر796)

(1)اس حدیث کی سند صحیح ہے-

(2)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ ، رَوَى عَنْ صَفْوَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) قَالَ: دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَ هُوَ فِي مَنْزِلِ أَخِيهِ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا حَوَّلَكَ إِلَى هَذَا اَلْمَنْزِلِ قَالَ طَلَبُ اَلنُّزْهَةِ، قَالَ، قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَ لاَ أَقُصُّ عَلَيْكَ دِينِيَ اَلَّذِي أَدِينُ بِهِ قَالَ بَلَى يَا عَمْرُو ، قُلْتُ إِنِّي أَدِينُ اَللَّهَ بِشَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، وَ أَنَّ اَلسّٰاعَةَ آتِيَةٌ لاٰ رَيْبَ فِيهٰا وَ أَنَّ اَللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي اَلْقُبُورِ ، وَ إِقَامِ اَلصَّلاَةِ وَ إِيتَاءِ اَلزَّكَاةِ وَ صَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَ حِجِّ اَلْبَيْتِ مَنِ اِسْتَطٰاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ، وَ اَلْوَلاَيَةِ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ بَعْدَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِمَا، وَ اَلْوَلاَيَةِ لِلْحَسَنِ وَ اَلْحُسَيْنِ وَ اَلْوَلاَيَةِ لِعَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ وَ اَلْوَلاَيَةِ لِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَ لَكَ مِنْ بَعْدِهِ، وَ أَنْتُمْ أَئِمَّتِي عَلَيْهِ أَحْيَا وَ عَلَيْهِ أَمُوتُ وَ أَدِينُ اَللَّهَ بِهِ، قَالَ يَا عَمْرُو هَذَا وَ اَللَّهِ دِينِي وَ دِينُ آبَائِيَ اَلَّذِي نَدِينُ اَللَّهَ بِهِ فِي اَلسِّرِّ وَ اَلْعَلاَنِيَةِ، فَاتَّقِ اَللَّهَ وَ كُفَّ لِسَانَكَ إِلاَّ مِنْ خَيْرٍ، وَ لاَ تَقُلْ إِنِّي هَدَيْتُ نَفْسِي بَلِ اَللَّهُ هَدَاكَ، فَأَدِّ شُكْرَ مَا أَنْعَمَ اَللَّهُ عَلَيْكَ، وَ لاَ تَكُنْ مِمَّنْ إِذَا أَقْبَلَ طُعِنَ فِي عَيْنَيْهِ وَ إِذَا أَدْبَرَ طُعِنَ فِي قَفَاهُ، وَ لاَ تَحْمِلِ اَلنَّاسَ عَلَى كَاهِلِكَ فَإِنَّهُ يُوشِكُ إِنْ حَمَلْتَ اَلنَّاسَ عَلَى كَاهِلِكَ أَنْ يُصَدِّعُوا شَعَبَ كَاهِلِكَ .

عمروبن حریث رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے جناب امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:

میں آپ پر قربان ہو جاؤں؛کیا میں اپنا دین اور اعتقاد آپ کی خدمت میں پیش نہ کروں؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں اے عمرو

میں نے عرض کیا میرا دین و اعتقاد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں؛اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے بندہ خاص اور رسول ہیں؛

قیامت کا آنا برحق ہے-اس میں کوئی شک نہیں؛خدا ضرور مردوں کو زندہ کرے گا اور نماز کا پڑھنا؛زکوۃ ادا کرنا؛ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جو استطاعت رکھتا ہو اس پر حج بیت اللہ کرنا واجب ہےاور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور حضرات امام حسن اور حسین علیہم السلام اور امام زین العابدین و امام محمد باقر علیہم السلام اور پھر آپ کی ولایت و امامت کا اعتقاد رکھنا لازم ہے-آپ ہی میرے امام برحق ہیں-اسی عقیدے پر زندہ ہوں اور اسی پر مروں گا-امام علیہ السلام نے فرمایا اے عمرو خدا کی قسم یہی میرا اور میرے آباؤ اجداد علیہم السلام کا دین ہے-

(رجال کشی ص299الرقم:292حدیث نمبر792)

(2)حدیث کی سند صحیح ہے

(3)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ ، عَنْ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِي اَلْيَسَعِ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) حَدَّثَنِي عَنْ دَعَائِمِ اَلْإِسْلاَمِ اَلَّتِي بَنَى عَلَيْهَا، وَ لاَ يَسَعُ أَحَداً مِنَ اَلنَّاسِ تَقْصِيرٌض عَنْ شَيْءٍ مِنْهَا، اَلَّذِي مَنْ قَصَّرَ عَنْ مَعْرِفَةِ شَيْءٍ مِنْهَا كُبَّتْ عَلَيْهِ دِينُهُ وَ لَمْ يُقْبَلْ مِنْهُ عَمَلُهُ، وَ مَنْ عَرَفَهَا وَ عَمِلَ بِهَا صَلَحَ دِينُهُ وَ قُبِلَ مِنْهُ عَمَلُهُ، وَ لَمْ يَضِقْ بِهِ مَا فِيهِ بِجَهْلِ شَيْءٍ مِنَ اَلْأُمُورِ جَهِلَهُ قَالَ، فَقَالَ شَهَادَةُ أَلاَّ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ، وَ اَلْإِيمَانُ بِرَسُولِ اَللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) ، وَ اَلْإِقْرَارُ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اَللَّهِ، ثُمَّ قَالَ اَلزَّكَاةُ وَ اَلْوَلاَيَةُ شَيْءٌ دُونَ شَيْءٍ، فَضْلٌ يُعْرَفُ لِمَنْ أَخَذَ بِهِ، قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) مَنْ مَاتَ لاَ يَعْرِفُ إِمَامَهُ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ، وَ قَالَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ: يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اَللّٰهَ وَ أَطِيعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِي اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ ، وَ كَانَ عَلِيٌّ (عَلَيْهِ اَلسَّلاَمَ) وَ قَالَ اَلْآخَرُونَ لاَ بَلْ مُعَاوِيَةُ ، وَ كَانَ حَسَنٌ ثُمَّ كَانَ حُسَيْنٌ ، وَ قَالَ اَلْآخَرُونَ هُوَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ لاَ سوا [سِوَاهُ] ، ثُمَّ قَالَ أَزِيدُكَ قَالَ بَعْضُ اَلْقَوْمِ زِدْهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ! قَالَ: ثُمَّ كَانَ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ ، ثُمَّ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ ، وَ كَانَتِ اَلشِّيعَةُ قَبْلَهُ لاَ يَعْرِفُونَ مَا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ مِنْ حَلاَلٍ وَ لاَ حَرَامٍ إِلاَّ مَا تَعَلَّمُوا مِنَ اَلنَّاسِ ، حَتَّى كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) فَتَحَ لَهُمْ وَ بَيَّنَ لَهُمْ وَ عَلَّمَهُمْ، فَصَارُوا يُعَلِّمُونَ اَلنَّاسَ بَعْدَ مَا كَانُوا يَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمْ، وَ اَلْأَمْرُ هَكَذَا يَكُونُ، وَ اَلْأَرْضُ لاَ تَصْلُحُ إِلاَّ بِإِمَامٍ، وَ مَنْ مَاتَ لاَ يَعْرِفُ إِمَامَهُ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ، وَ أَحْوَجُ مَا تَكُونُ إِلَى هَذَا إِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَذَا اَلْمَكَانَ، وَ أَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى حَلْقِهِ، وَ اِنْقَطَعْتَ مِنَ اَلدُّنْيَا تَقُولُ لَقَدْ كُنْتُ عَلَى رَأْيٍ حَسَنٍ. قَالَ أَبُو اَلْيَسَعِ عِيسَى بْنُ اَلسَّرِيِّ : وَ كَانَ أَبُو حَمْزَةَ وَ كَانَ حَاضِرَ اَلْمَجْلِسِ، أَنَّهُ قَالَ: لَكَ فَمَا تَقُولُ كَانَ أَبُو جَعْفَرٍ إِمَاماً حَقَّ اَلْإِمَامِ .

عیسیٰ بن سری کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی مجھے اسلام کے ان ارکان کے متعلق بتائے جن پر اسکی بنیاد رکھی گئی ہے کوئی شخص بھی ان سے کسی چیز میں تقصیر اور کمی نہیں کرسکتا اور جو شخص ان میں سے کسی ایک کی بھی معرفت میں کمی کرے تو اسکا دین اسے اوندھا پلٹا دیا جائے گا اور اس سے عمل قبول نہ ہوگا اور جس نے انکی معرفت حاصل کی اور ان پر عمل کیا اسکا دین نیک اور صالح ہوگا اور اسکا عمل قبول ہوگا اور اسے ارکان اسلام کی موجودگی میں دوسری چیزوں کی جہالت کوئی ضرر نہیں پہنچائے گی امام علیہ السلام نے فرمایا کلمہ شہادت لااله الا اللہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت پر ایمان اور جو چیزیں آپ خدا کی طرف سے لائے ان کا اقرار پھر زکواة اور دوسرے تمام مقامات کے علاوہ ولایت کا ایک خصوصی مقام ہے اور اسکی اتنی فضیلت ہے کہ اسکا ماننے والا پہچانا جاتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جو شخص امام کی معرفت کے بغیر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو اور صاحب امر امام علی علیہ السلام تھے دوسروں نے کہا کہ نہیں بلکہ معاویہ تھا، پھر امام حسن مجتبی علیہ السلام اور پھر امام حسین علیہ السلام اولی الامر تھے لیکن دوسروں نے کہا کہ یزید صاحب امر تھاپھر فرمایا کہ مزید بیان کروں اہل مجلس نے عرض کی بیان کریں ہم آپ پر فدا ہوں تو آپ نے فرمایا پھر امام علی ابن الحسین علیہ السلام پھر امام محمد باقر علیہ السلام یاد رکھو شیعہ ان سے پہلے اپنے ضرورت کے حالال و حرام نہیں جانتے تھے مگر وہ جو لوگوں سے سیکھتے تھے یہاں تک کہ امام باقر علیہ السلام نے ان کے لیے علم کے چشمے بہا دیے اور انہیں حلال و حرام کے مسائل کی کھلے عام تعلیم دی وہ پہلے جن سے سیکھا کرتے تھے انکو سیکھانے کے قابل ہو گئے اور حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اور زمین کی بغیر امام کے اصلاح نہیں ہو سکتی اور جو شخص امام کی معرفت کے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور اسکی سب سے زیادہ ضرورت تجھے اس وقت ہوگی جب تیری جان حلق تک پہنچے گی اور دنیا سے امیدیں کٹ جائیں گی اور تو کہے گا خدارا شکر میں بہترین راہ پر قائم تھا راوی کہتا ہے کہ اس مجلس میں میں حاضر تھا تو اس نے کہا آپ یہ کہیں کہ ابو جعفر حق کے امام ہیں۔

(رجال کشی ص303الرقم:299حدیث نمبر799)

(3)حدیث کی سند صحیح ہے

(4)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ ، عَنْ صَفْوَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ حَازِمٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) إِنَّ اَللَّهَ أَجَلُّ وَ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُعْرَفَ بِخَلْقِهِ بَلِ اَلْخَلْقُ يُعْرَفُونَ بِاللَّهِ، قَالَ صَدَقْتَ، قَالَ، قُلْتُ إِنَّ مَنْ عَرَفَ أَنَّ لَهُ رَبّاً فَقَدْ يَنْبَغِي أَنْ يَعْرِفَ أَنَّ لِذَلِكَ اَلرَّبِّ رِضًا وَ سَخَطاً، وَ أَنَّهُ لاَ يُعْرَفُ رِضَاهُ وَ سَخَطُهُ إِلاَّ بِرَسُولٍ لِمَنْ لَمْ يَأْتِهِ اَلْوَحْيُ، فَيَنْبَغِي أَنْ يُطْلَبَ اَلرُّسُلُ، فَإِذَا لَقِيَهُمْ عَرَفَ أَنَّهُمُ اَلْحُجَّةُ وَ أَنَّ لَهُمُ اَلطَّاعَةَ اَلْمُفْتَرَضَةَ، فَقُلْتُ لِلنَّاسِ أَ لَيْسَ يَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اَللَّهِ (صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) كَانَ هُوَ اَلْحُجَّةُ مِنَ اَللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ قَالُوا بَلَى، قُلْتُ فَحِينَ مَضَى رَسُولُ اَللَّهِ (صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) مَنْ كَانَ اَلْحُجَّةُ قَالُوا اَلْقُرْآنُ ، فَنَظَرْتُ فِي اَلْقُرْآنِ فَإِذَا هُوَ يُخَاصِمُ بِهِ اَلْمُرْجِئِيُّ وَ اَلْقَدَرِيُّ وَ اَلزِّنْدِيقُ اَلَّذِي لاَ يُؤْمِنُ بِهِ حَتَّى يَغْلِبَ اَلرِّجَالَ بِخُصُومَتِهِ، فَعَرَفْتُ أَنَّ اَلْقُرْآنَ لاَ يَكُونُ حُجَّةً إِلاَّ بِقَيِّمٍ، مَا قَالَ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ كَانَ حَقّاً، فَقُلْتُ لَهُمْ مَنْ قَيِّمُ اَلْقُرْآنِ فَقَالُوا اِبْنُ مَسْعُودٍ قَدْ كَانَ يَعْلَمُ وَ عُمَرُ يَعْلَمُ وَ حُذَيْفَةُ ، قُلْتُ كُلُّهُ قَالُوا لاَ، فَلَمْ أَجِدْ أَحَداً، فَقَالُوا إِنَّهُ مَا كَانَ يَعْرِفُ ذَلِكَ كُلَّهُ إِلاَّ عَلِيٌّ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ، وَ إِذَا كَانَ اَلشَّيْءُ بَيْنَ اَلْقَوْمِ وَ قَالَ هَذَا لاَ أَدْرِي وَ قَالَ هَذَا لاَ أَدْرِي وَ قَالَ هَذَا لاَ أَدْرِي، وَ قَالَ هَذَا أَدْرِي وَ لَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ: كَانَ اَلْقَوْلُ قَوْلَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) كَانَ قَيِّمَ اَلْقُرْآنِ وَ كَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً وَ كَانَ حُجَّةً عَلَى اَلنَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اَللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) وَ أَنَّهُ مَا قَالَ فِي اَلْقُرْآنِ فَهُوَ حَقٌّ، فَقَالَ رَحِمَكَ اَللَّهُ، فَقُلْتُ إِنَّ عَلِيّاً (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) لَمْ يَذْهَبْ حَتَّى تَرَكَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ كَمَا تَرَكَ رَسُولُ اَللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) وَ أَنَّ اَلْحُجَّةَ بَعْدَ عَلِيٍّ اَلْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَ أَشْهَدُ عَلَى اَلْحَسَنِ أَنَّهُ كَانَ حُجَّةً وَ أَنَّ طَاعَتَهُ مَفْرُوضَةٌ، فَقَالَ رَحِمَكَ اَللَّهُ، وَ قَبَّلْتُ رَأْسَهُ وَ قُلْتُ أَشْهَدُ عَلَى اَلْحَسَنِ أَنَّهُ لَمْ يَذْهَبْ حَتَّى تَرَكَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ كَمَا تَرَكَ أَبُوهُ وَ جَدُّهُ ، وَ أَنَّ اَلْحُجَّةَ بَعْدَ اَلْحَسَنِ اَلْحُسَيْنُ وَ كَانَتْ طَاعَتُهُ مَفْرُوضَةً، فَقَالَ رَحِمَكَ اَللَّهُ، وَ قَبَّلْتُ رَأْسَهُ وَ قُلْتُ أَشْهَدُ عَلَى اَلْحُسَيْنِ أَنَّهُ لَمْ يَذْهَبْ حَتَّى تَرَكَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ، وَ أَنَّ اَلْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِهِ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ وَ كَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً، فَقَالَ رَحِمَكَ اَللَّهُ، وَ قَبَّلْتُ رَأْسَهُ وَ قُلْتُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ لَمْ يَذْهَبْ حَتَّى تَرَكَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ، وَ أَنَّ اَلْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ أَبُو جَعْفَرٍ ، وَ كَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً، فَقَالَ: رَحِمَكَ اَللَّهُ، فَقُلْتُ أَعْطِنِي رَأْسَكَ أُقَبِّلْهُ! فَضَحِكَ، فَقُلْتُ أَصْلَحَكَ اَللَّهُ وَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ أَبَاكَ لَمْ يَذْهَبْ حَتَّى تَرَكَ حُجَّةً مِمَّنْ بَعْدَهُ كَمَا تَرَكَ أَبُوهُ ، وَ أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّكَ أَنْتَ اَلْحُجَّةُ وَ أَنَّ طَاعَتَكَ مُفْتَرَضَةٌ، فَقَالَ كُفَّ رَحِمَكَ اَللَّهُ! قُلْتُ أَعْطِنِي رَأْسَكَ أُقَبِّلْهُ! فَقَبَّلْتُ رَأْسَهُ، فَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: سَلْنِي عَمَّا شِئْتَ فَلاَ أُنْكِرُكَ بَعْدَ اَلْيَوْمِ أَبَداً .

منصور بن حازم رض سے روایت کی جو کہتے ہیں: میں نے امام صادق ع سے عرض کیا: اللہ اس سے زیادہ جلیل اور باعزت ہے کہ اپنی مخلوق سے پہچانا جائے، بلکہ مخلوق اللہ سے پہچانی جاتی ہے۔ امام ع نے فرمایا: تم نے سچ کہا۔ میں نے عرض کیا: جو یہ جانتا ہو کہ اسکا ایک رب ہے تو اسکو چاہئے کہ جانے کہ اس رب کی رضامندی اور ناراضگی ہے اور کہ اسکی رضامندی اور ناراضگی اسکے رسول سے پہچانی جاتی ہے، اس کے لیئے جسکو وحی نہیں آئی۔ پس اسکو چاہیئے کہ اسکے رسولوں کو تلاش کرے، تو جب ان سے ملے تو جان جائے کہ یہ حجت ہیں اور کہ ان کی اطاعت فرض ہے۔ تو میں نے لوگوں سے کہا کہ کیا وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ص اللہ کی طرف سے اسکی مخلوق پر حجت ہیں تو انہوں نے کہا ہاں۔ تو میں نے کہا: تو جب رسول اللہ ص کی وفات ہوئی تو حجت کون ہے؟ انہوں نے کہا قرآن۔ تو میں نے قرآن میں دیکھا تو اس سے مرجئ، قدر اور زندیق استدلال کر رہے ہیں جو اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے تاکہ اس کے ذریعہ سے لوگوں سے بحث جیت سکیں۔ تو میں جان گیا کہ قرآن بغیر کسی نگران کے حجت نہیں ہو سکتا۔ جو کچھ اس میں وہ کہے گا وہ حق ہوگا۔ تو میں نے ان سے کہا: قرآن کا نگران کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابن مسعود، وہ جانتے تھے اور عمر جانتے تھے اور ذیفہ ہیں۔ تو میں نے کہا: پورا قرآن؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو مجھے کوئی نہیں ملا۔ تو انہوں نے کہا: پورا تو بس علی ع ہی جانتے تھے۔ اور جب بات لوگوں کے بیچ ہو اور یہ کہے مجھے نہیں پتا اور یہ کہے مجھے نہیں پتا اور یہ کہے مجھے نہیں پتا اور یہ بھی کہے مجھے نہیں پتا اور اسکا انکار نہ کیا جائے، تو انکا ہی قول درست ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ع قرآن پر نگران ہیں اور انکی اطاعت فرض ہے اور وہ لوگوں پر حجت ہیں رسول اللہ ص کے بعد اور کہ جو وہ قرآن کے بارے میں کہیں وہ حق ہے۔ تو امام صادق ع نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے۔ تو میں نے عرض کیا: علی ع تب تک نہیں گئے جب تک اپنے بعد حجت نہیں چھوڑ دی جیسا کہ رسول اللہ ص نے حجت چھوڑی تھی اور کہ امام علی ع کے بعد حجت امام حسن بن علی ع ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسن ع حجت تھے اور انکی اطاعت فرض ہے۔ امام صادق ع نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے۔ اور میں نے انکا سر چوما اور عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حسن ع تب تک نہیں گئے جب تک انہوں نے اپنے بعد ایک حجت نہیں چھوڑ دی جیسے انکے والد ع اور نانا ع نے چھوڑی تھی۔ اور کہ انکے بعد حجت امام علی بن حسین ع تھے اور انکی اطاعت فرض ہے۔ تو امام صادق ع نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے۔ تو میں نے انکا سر چوما اور عرض کیا: اور میں گواہی دیتا ہوں کہ امام علی بن حسین ع دنیا سے نہیں گئے جب تک انہوں نے اپنے بعد حجت نہیں چھوڑ دی اور انکے بعد حجت محمد بن علی ابو جعفر ع ہیں، اور انکی اطاعت فرض ہے۔ تو امام صادق ع نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے۔ تو میں نے عرض کیا: مجھے اپنا سر دیجیئے تاکہ میں اسکو چوموں۔ امام ع ہنسے، تو میں نے عرض کیا: اللہ آپ کو درست رکھے، اور میں جانتا ہوں کہ آپکے والد بھی نہیں گئے جب تک انہوں نے کوئی حجت نہیں چھوڑی اپنے بعد جیسا کہ انکے والد نے چھوڑی تھی، اور میں گواہی دیتا ہوں خدا کی قسم آپ ہی وہ حجت ہیں اور کہ آپکی اطاعت فرض ہے۔ تو امام ع نے فرمایا: رک جاؤ، اللہ تم پر رحم کرے۔ میں نے عرض کیا: مجھے اپنا سر دیجیئے تاکہ میں اسکا بوسہ لوں۔ تو میں نے انکے سر کا بوسہ لیا، تو وہ ہنسے۔ پھر انہوں نے فرمایا: مجھ سے جو چاہو پوچھو، آج کے بعد میں تمہارا انکار کبھی نہیں کروں گا۔

(رجال کشی ص301الرقم295حدیث نمبر795)

(4)حدیث کی سند صحیح ہے

(5)جَعْفَرٌ وَ فَضَالَةُ ، عَنْ أَبَانٍ ، عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ اَلْعَطَّارِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) قَالَ: قُلْتُ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكَ دِينِي! وَ إِنْ كُنْتُ فِي حِسَابِي مِمَّنْ قَدْ فَرَغَ مِنْ هَذَا، قَالَ فَآتِهِ! قَالَ، قُلْتُ فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، وَ أُقِرُّ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اَللَّهِ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَا قُلْتُ، وَ أَنَّ عَلِيّاً إِمَامٌ فَرَضَ اَللَّهُ طَاعَتَهُ، مَنْ عَرَفَهُ كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ جَهِلَهُ كَانَ ضَالاًّ وَ مَنْ رَدَّ عَلَيْهِ كَانَ كَافِراً، ثُمَّ وَصَفْتُ اَلْأَئِمَّةَ (عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ) حَتَّى اِنْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ مَا اَلَّذِي تُرِيدُ أَ تُرِيدُ أَنِّي أَتَوَلاّكَ عَلَى هَذَا فَإِنِّي أَتَوَلاّكَ عَلَى هَذَا .

حسن بن زیاد عطار رض سے جنہوں نے امام صادق ع سے روایت کی، حسن بن زیاد کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنا دین پیش کروں، چاہے اپنے حساب سے میں اس سے فارغ ہو چکا ہوں۔ تو امام ع نے فرمایا: تو لاؤ۔ اس نے کہا: میں نے عرض کیا: تو میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے اور کہ محمد اسکے بندے اور اسکے رسول ہیں اور میں اسکا اقرار کرتا ہوں جو وہ اللہ کے پاس سے لائے ہیں۔ تو امام ع نے فرمایا: میرا بھی یہی ماننا ہے جو تم نے کہا۔ تو میں نے عرض کیا: اور کہ علی ع امام ہیں جنکی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے، جو ان کو جان لے وہ مؤمن ہے اور جو اس کو نہ جانے وہ گمراہ ہے، اور جو ان کا رد کرے وہ کا؛ف؛ر ہے، پھر میں نے ان کو ائمہ ع بیان کیئے یہاں تک کہ میں ان تک پہنچا۔ تو امام ع نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو، کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں اس بناء پر دوست رکھوں؟ تو میں تمہیں اس بناء پر دوست سمجھتا ہوں۔

(رجالکشی ص303 الرقم 298حدیث 798)

(5)حدیث کی سند موثق کالصحیح ہے

(6)حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى اَلدَّقَّاقُ رَحِمَهُ اَللَّهُ وَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ اَلْوَرَّاقُ جَمِيعاً قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ اَلصُّوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو تُرَابٍ عُبَيْدُ اَللَّهِ بْنُ مُوسَى اَلرُّويَانِيُّ عَنْ عَبْدِ اَلْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اَللَّهِ اَلْحَسَنِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى سَيِّدِي عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَلَمَّا بَصُرَ بِي قَالَ لِي مَرْحَباً بِكَ يَا أَبَا اَلْقَاسِمِ أَنْتَ وَلِيُّنَا حَقّاً قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكَ دِينِي فَإِنْ كَانَ مَرْضِيّاً ثَبَتُّ عَلَيْهِ حَتَّى أَلْقَى اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ هَاتِ يَا أَبَا اَلْقَاسِمِ فَقُلْتُ إِنِّي أَقُولُ إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى وَاحِدٌ « لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ » خَارِجٌ مِنَ اَلْحَدَّيْنِ حَدِّ اَلْإِبْطَالِ وَ حَدِّ اَلتَّشْبِيهِ وَ إِنَّهُ لَيْسَ بِجِسْمٍ وَ لاَ صُورَةٍ وَ لاَ عَرَضٍ وَ لاَ جَوْهَرٍ بَلْ هُوَ مُجَسِّمُ اَلْأَجْسَامِ وَ مُصَوِّرُ اَلصُّوَرِ وَ خَالِقُ اَلْأَعْرَاضِ وَ اَلْجَوَاهِرِ وَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَ مَالِكُهُ وَ جَاعِلُهُ وَ مُحْدِثُهُ وَ إِنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ خَاتَمُ اَلنَّبِيِّينَ فَلاَ نَبِيَّ بَعْدَهُ إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ وَ إِنَّ شَرِيعَتَهُ خَاتِمَةُ اَلشَّرَائِعِ فَلاَ شَرِيعَةَ بَعْدَهَا إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ وَ أَقُولُ إِنَّ اَلْإِمَامَ وَ اَلْخَلِيفَةَ وَ وَلِيَّ اَلْأَمْرِ بَعْدَهُ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ثُمَّ اَلْحَسَنُ ثُمَّ اَلْحُسَيْنُ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ مُوسَى ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ أَنْتَ يَا مَوْلاَيَ فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَ مِنْ بَعْدِي اَلْحَسَنُ اِبْنِي فَكَيْفَ لِلنَّاسِ بِالْخَلَفِ مِنْ بَعْدِهِ قَالَ فَقُلْتُ وَ كَيْفَ ذَاكَ يَا مَوْلاَيَ قَالَ لِأَنَّهُ لاَ يُرَى شَخْصُهُ وَ لاَ يَحِلُّ ذِكْرُهُ بِاسْمِهِ حَتَّى يَخْرُجَ فَيَمْلَأَ اَلْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً قَالَ فَقُلْتُ أَقْرَرْتُ وَ أَقُولُ إِنَّ وَلِيَّهُمْ وَلِيُّ اَللَّهِ وَ عَدُوَّهُمْ عَدُوُّ اَللَّهِ وَ طَاعَتَهُمْ طَاعَةُ اَللَّهِ وَ مَعْصِيَتَهُمْ مَعْصِيَةُ اَللَّهِ وَ أَقُولُ إِنَّ اَلْمِعْرَاجَ حَقٌّ وَ اَلْمُسَاءَلَةَ فِي اَلْقَبْرِ حَقٌّ وَ إِنَّ اَلْجَنَّةَ حَقٌّ وَ اَلنَّارَ حَقٌّ وَ اَلصِّرَاطَ حَقٌّ وَ اَلْمِيزَانَ حَقٌّ وَ إِنَّ « اَلسّٰاعَةَ آتِيَةٌ لاٰ رَيْبَ فِيهٰا » وَ إِنَّ « اَللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي اَلْقُبُورِ » وَ أَقُولُ إِنَّ اَلْفَرَائِضَ اَلْوَاجِبَةَ بَعْدَ اَلْوَلاَيَةِ اَلصَّلاَةُ وَ اَلزَّكَاةُ وَ اَلصَّوْمُ وَ اَلْحَجُّ وَ اَلْجِهَادُ وَ اَلْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَلنَّهْيُ عَنِ اَلْمُنْكَرِ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَا أَبَا اَلْقَاسِمِ هَذَا وَ اَللَّهِ دِينُ اَللَّهِ اَلَّذِي اِرْتَضَاهُ لِعِبَادِهِ فَاثْبُتْ عَلَيْهِ أَثْبَتَكَ اَللَّهُ « بِالْقَوْلِ اَلثّٰابِتِ فِي اَلْحَيٰاةِ اَلدُّنْيٰا وَ فِي اَلْآخِرَةِ » .

حضرت شہزادہ عبدالعظیم رض بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے مولا و آقا حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا؛امام علیہ السلام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: مرحبا اے ابوالقاسم تم ہمارے حقیقی موالی ہو-میں نے عرض کیا فرزند رسول ص میں چاہتا ہوں کہ اپنا دین و اعتقاد آپ کی خدمت میں پیش کروں؛تاکہ اگر پسندیدہ ہو تو تازیست(تاحیات) اس پر ثابت قدم رہوں(اور بصورت دیگر اس سے عدول(پھر جاؤں) کروں) امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں اے ابو القاسم پیش کرو-میں نے عرض کیا (توحید کے بارے میں) میرا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند عالم (ذات وصفات میں) واحد و یگانہ ہے کوئی بھی اس کا ہمسر و نظیر نہیں ہے ابطال و تشبیہ کی دونوں حدود سے خارج ہے (نہ تو وہ معطل محض یعنی معدوم ہےاور نہ ہی ذات وصفات میں مخلوق کی مانند ہے) اور نہ وہ جسم و صورت رکھتا ہے نہ وہ عرض وجوہر کی قسم سے ہے بلکہ وہ جسموں کو بنانے والا ہے؛صورتوں کو صورت عطا کرنے والا اور اعراض وجواہر کا خالق ہے (پھر خالق اپنی مخلوق اور صانع اپنی مصنوع کے ساتھ کیونکر متصف ہوسکتا ہے؟) وہ کائنات کی ہر چیز کا رب اور خالق و مالک ہے-اور نبوت کے متعلق میرا عقیدہ یہ ہے کہ جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سبحانہ کے بندہ خاص اس کے رسول اور تمام انبیاء کے سلسلہ مبارکہ کے ختم کرنے والے ہیں اب قیامت تک ان کے بعد کوئی (نیا یا پرانا نبی بحثیت)نبی نہیں آسکتا ( اور امامت کے بارے میں )میرا اعتقاد یہ ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین امام برحق اور ولی امر حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں؛ان کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام ان کے بعد امام حسین علیہ السلام ان کے بعد علی ابن الحسین علیہ السلام پھر حضرت محمد بن علی علیہ السلام پھر جعفر بن محمد علیہ السلام پھر حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام پھر حضرت محمد بن علی علیہ السلام اور ان کے بعد آپ امام برحق (امام علی نقی علیہ السلام) ہیں-جناب شہزادہ عبدالعظیم کا سلسلہ کلام یہاں تک پہنچا تو امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا اور میرے بعد میرا بیٹا حسن عسکری علیہ السلام امام ہوگا اور اس وقت لوگوں کی کیا حالت ہوگی؟جب جناب امام حسن عسکری علیہ السلام کے خلف(صالح) کا دور ہوگا شہزادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا میرے آقا اس وقت کیا حالت ہوگی؟امام علیہ السلام نے فرمایا (بوجہ غیبت کبریٰ)نہ تو وہ دکھائی دیں گے اور ان کے ظہور تک ان کو ان کے مخصوص نام (م ح م د)سے یاد کرنا بھی ممنوع ہوگاہاں جب ظہور فرمائیں گے تو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دیں گے جس طرح اس سے قبل ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی-شہزادہ کا بیان ہے میں نے(یہ سن کر) عرض کیا میں ان کی امامت و خلافت کا بھی اقرار کرتا ہوں ہو(پھر عقائد کا سلسلہ جاری کرتے ہوئے کہا)اور میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جو شخص ان ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا دوست ہے وہ خدا کا دوست ہے اور جوان کا دشمن ہے وہ خدا کا دشمن ہے ان کی اطاعت خدا کی اطاعت اور ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے اور میرا یہ بھی عقیدہ ہے ہے کہ (جسمانی) معراج (رسول صلی اللہ علیہ وسلم) برحق ہے اور قبر میں سوال و جواب کا ہونا بھی برحق ہے اسی طرح جنت و جہنم کا وجود بھی برحق ہے اسی طرح پل صراط اور اعمال کا میزان پر تولاجانا بھی برحق ہے اور یہ کہ قیامت ضرور آئے گی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ہے ایک دن ضرور خدا تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا کرے اور میرا یہ بھی عقیدہ ہےکہ ولایت اہل بیت علیہ السّلام کے بعد مندرجہ ذیل امور(اہم)واجب ہیں نماز؛ زکوۃ ؛روزہ؛حج جہاد اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر-حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے (یہ اعتقادات حقہ سماعت فرما کر) فرمایا:اے ابوالقاسم خدا کی قسم یہی وہ خدا (پسندیدہ) کا دین ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے منتخب فرمایا ہے اس پر ثابت قدم رہو خدا تمہیں تمام دنیا و آخرت میں اس پر ثابت قدم رکھے-

(التوحید باب نمبر 2توحید کا اثبات اور تشبہ کی نفی حدیث نمبر 37؛امالی صدوق رح ج2ص48؛صفات شعیہ ص82حدیث نمبر 68؛بحار الانوار ج3ص268؛ج36ص412؛ج4ص1؛عوالم العلوم ج15ص294؛روضةالواعظین ج1ص31؛کمال الدین ج2ص379؛کشف الغمہ ج2ص525؛اعلام الوریٰ ج2ص244)

حدیث نمبر 6پرتبصرہ:

شاہ عبد العظیم رض سے عقیدہ پہ مبنی یہ روایت مشہور و معروف ہے اور عقیدہ پہ مبنی دیگر ثقات اور تلقین میت کے موافق ہے ۔ مومن پہ فرض ہے کہ مرنے سے پہلے بھی یہی عقیدہ رکھے تا کہ یہی الفاظ و اقرار اس کی میت کی تلقین کے وقت اسےفائدہ پہنچاسکیں (از فخر عباس زائر اعوان)

(7)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ ، عَنْ نُوحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ اَلْمُخَارِقِيِّ ، قَالَ: وَصَفْتُ اَلْأَئِمَّةَ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ، فَقُلْتُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اَللَّهِ، وَ أَنَّ عَلِيّاً إِمَامٌ ثُمَّ اَلْحَسَنُ ثُمَّ اَلْحُسَيْنُ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ثُمَّ أَنْتَ! فَقَالَ رَحِمَكَ اَللَّهُ، ثُمَّ قَالَ اِتَّقُوا اَللَّهَ اِتَّقُوا اَللَّهَ، عَلَيْكُمْ بِالْوَرَعِ وَ صِدْقِ اَلْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ اَلْأَمَانَةِ وَ عِفَّةِ اَلْبَطْنِ وَ اَلْفَرْجِ .

نوح بن ابراہیم محاربی رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں اس طرح اپنا عقیدہ پیش کیا:

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں؛وہ واحدویگانا ہے؛اس کا کوئی شریک نہیں-جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے عبد خاص اور رسول ہیں؛ان کے بعد جناب علی علیہ السلام امام برحق ہیں؛ان کے بعد امام حسن علیہ السلام پھر امام حسین علیہ السلام پھر علی ابن الحسین علیہ السلام پھرمحمد ابن علی علیہ السلام اور ان کے بعد آپ امام برحق ہیں-یہ سن کر امام علیہ السلام نے فرمایا خدا تم پر رحم فرمائے-پھر فرمایاامام علیہ السلام نےخدا سے ڈرو؛تم پر ورع و تقویٰ؛سچ بولنا؛امانت ادا کرنااور عفت شکم وفرج لازم ہے-

(رجال کشی ص300الرقم:294حدیث نمبر794)

یہ روایت مکمل سند کے ساتھ “الامالی شیخ طوسی رح ” رقم:384 میں نقل ہوئی ہے جس میں ابراہیم مخارقی کے علاوہ تمام راویان ثقات میں سے ہیں ۔ یہ روایت ابراہیم مخارقی کے امامی ہونے پہ دلالت کرتی ہے اس لہذا سے روایت معتبر ثابت ہوتی ہے (از فخر عباس زائر اعوان)

(8)جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ اَلْحَسَنِ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ يُوسُفَ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) أَصِفُ لَكَ دِينِيَ اَلَّذِي أَدِينُ اَللَّهَ بِهِ، فَإِنْ أَكُنْ عَلَى حَقٍّ فَثَبِّتْنِي وَ إِنْ كُنْتُ عَلَى غَيْرِ اَلْحَقِّ فَرُدَّنِي إِلَى اَلْحَقِّ، قَالَ: هَاتِ! قُلْتُ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ)، وَ أَنَّ عَلِيّاً كَانَ إِمَامِي وَ أَنَّ اَلْحَسَنَ كَانَ إِمَامِي، وَ أَنَّ اَلْحُسَيْنَ كَانَ إِمَامِي، وَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَلْحُسَيْنِ كَانَ إِمَامِي، وَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ كَانَ إِمَامِي، وَ أَنْتَ جُعِلْتُ فِدَاكَ عَلَى مِنْهَاجِ آبَائِكَ ، قَالَ، فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ مِرَاراً رَحِمَكَ اَللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وَ اَللَّهِ دِينُ اَللَّهِ وَ دِينُ مَلاَئِكَتِهِ وَ دِينِي وَ دِينُ آبَائِيَ اَلَّذِي لاَ يَقْبَلُ اَللَّهُ غَيْرَهُ .

(رجالکشی ص303الرقم:297حدیث نمبر797)

یوسف سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیامیں اپنا اعتقاد آپ علیہ السلام کے سامنے بیان کرتا ہوں؛اگر میں حق پر ہوں تو مجھے اس پر ثابت رکھیےاور اگر باطل پر ہوں تو حق کی طرف میری رہبری فرمائے-

امام علیہ السلام نے فرمایا پیش کروں-

میں نے عرض کیا میرا یہ عقیدہ ہے اللہ سبحانہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ہے؛اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے؛اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندہ خاص اور رسول ہیں؛اور یہ کہ حضرت علی علیہ السلام میرے امام ہیں؛اور ان کے یکے بعد دیگرے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت علی بن حسین علیہ السلام اور حضرت محمد بن علی علیہ السلام میرے امام ہیں ان کے بعد آپ اپنے آبائے طاہرین کے طریقے پر (میرے امام) ہیں-راوی کہتا ہے یہ سن کر امام علیہ السلام نے کئی بار مجھے فرمایا خدا تم پر رحم کرے؛بخدا یہی خدا اور اس کے ملائکہ اور میرامیرے آباؤ اجداد کا وہ دین ہے جس کے علاوہ اور کوئی دین خدا قبول نہیں کرتا-

(رجال کشی ص303الرقم:297حدیث نمبر797)

یہ روایت دیگر صحیح روایات کی بناء پہ متن کے لحاظ سے معتبر ہے ۔(از فخر عباس زائر اعوان)