تحریر: سید علی اصدق نقوی
بعض افراد کا شیعہ متون و کتب حدیث پر اشکال ہوتا ہے کہ آپ کی کتب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے مروی احادیث کی تعداد کم ہے اور اکثر و بیشتر احادیث آپ کی کتب میں آپ کے ائمہ علیہم السلام سے ہیں، لا سيما عن الصادقين (عليهم السلام) یعنی خصوصا امام باقر و صادق علیہما السلام سے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ان کا یہ اشکال وارد نہیں ہے بوجوہ۔ ان وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے خود بیان کیا ہے کہ جو کچھ بھی وہ بیان کرتے ہیں وہ حدیثِ نبوی ہی شمار کی جاتی ہے۔ اس پر ایک حدیث جو بطور دلیل شیعہ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے:
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ وَحَمَّادِ بْنِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ قَالُوا سَمِعْنَا أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) يَقُولُ حَدِيثِي حَدِيثُ أَبِي وَحَدِيثُ أَبِي حَدِيثُ جَدِّي وَحَدِيثُ جَدِّي حَدِيثُ الْحُسَيْنِ وَحَدِيثُ الْحُسَيْنِ حَدِيثُ الْحَسَنِ وَحَدِيثُ الْحَسَنِ حَدِيثُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام) وَحَدِيثُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَدِيثُ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) وَحَدِيثُ رَسُولِ الله قَوْلُ الله عَزَّ وَجَلَّ.
ہشام بن سالم، حماد بن عثمان وغیرہ نے کہا: ہم نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے: میری حدیث، میرے والد (امام باقر علیہ السلام) کی حدیث ہے۔ میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام سجاد علیہ السلام) کی حدیث ہے۔ میرے دادا کی حدیث امام حسین علیہ السلام کی حدیث ہے، امام حسین علیہ السلام کی حدیث امام حسن علیہ السلام کی حدیث ہے۔ امام حسن علیہ السلام کی حدیث امیر المؤمنین علیہ السلام کی حدیث ہے۔ امیر المؤمنین علیہ السلام کی حدیث رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث ہے اور رسو خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث اللہ عز و جل کا فرمان ہے۔ (1)
اس حدیث کی دلالت یہ ہے کہ ان ائمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک کا بھی فرمان ہو تو وہ فرمان نبوی اور تبعاً امرِ خداوند شمار ہوگا۔ مگر اس کے باوجود معترضین کا اشکال ہوتا ہے کہ یہ حدیث جس سے آپ نے احتجاج یعنی استدلال کیا ہے خود ضعیف السند ہے کیونکہ اس میں سہل بن زیاد ہے جو کہ ضعیف راوی ہے۔ سہل بن زیاد کے امر کے لیئے آپ حقیر کی ذاتی کتاب، کتاب الممدوحین والمقدوحین کی مجلدِ اول سے رجوع کر سکتے ہیں جہاں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ اور حقیر کا ماننا ہے کہ سہل بن زیاد کے ضعف کے باوجود اس کی روایات بالقرائن مقبول ہیں۔ بہر کیف، ان کا اشکال اپنی جگہ اور علامہ مجلسی کا بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دینا اپنی جگہ (2)، اور اس روایت کے بنیادی راویان کم از کم تین ہیں ہشام اور حماد کے علاوہ، جو کہ اس حدیث کو مزید تقویت دیتا ہے۔ بہر کیف، ہم سندی یا رجالی منہج کے قائل نہیں ہیں جو کہ ایک سخیف و ضعیف منہج ہے، کہ راویان کو دیکھ کر احادیث کو رد و قبول کرلیا جائے، بہ این سبب کہ روایت سے افضل درایت ہے، اور بہت کم افراد یہ ملکہ رکھتے ہیں کہ وہ روایت کے دائرے سے باہر آکر درایت پر چلیں۔ اگر ہم تمام احادیث کو جمع کریں جو اس اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں تب بھی یہ مقدمہ ثابت ہے کہ فرمانِ امام عین فرمانِ نبوی ہوتا ہے۔ فاعلم أن منهجنا ليس كمنهج غيرنا في رد الأحاديث وقبولها۔ ہم دیگر احادیث کو ذکر کرنا چاہیں گے جو اس ہی مطلب پر دلالت کرتی ہیں اور ان کی سند کا ضعف کوئی ضرر نہیں پہنچاتا کیونکہ تعددِ طُرُق کے سبب یہ روایات بالمجموع قابلِ اعتماد ہوجاتی ہیں۔ مذکور و مزبور روایت جو گذر چکی ہے اس کے بعد اگلی روایت ہے:
قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو اَلْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ اَلْقُمِّيُّ رَحِمَهُ اَللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَسْبَاطٍ عَنْ سَيْفِ بْنِ عَمِيرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شِمْرٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ اَلْبَاقِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِذَا حَدَّثْتَنِي بِحَدِيثٍ فَأَسْنِدْهُ لِي فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ عَنْ جَبْرَئِيلَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَنِ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكُلُّ مَا أُحَدِّثُكَ بِهَذَا اَلْإِسْنَادِ وَقَالَ يَا جَابِرُ لَحَدِيثٌ وَاحِدٌ تَأْخُذُهُ عَنْ صَادِقٍ خَيْرٌ لَكَ مِنَ اَلدُّنْيَا وَمَا فِيهَا .
جابر کہتے ہیں: میں نے امام ابو جعفر محمد بن علی باقر علیہ السلام سے عرض کیا: جب آپ مجھے حدیث بیان کیا کریں تو آپ اس کی سند بھی مجھے بیان کیا کریں۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا: مجھ سے میرے والد (امام سجاد علیہ السلام) نے بیان کیا ہے جنہوں نے میرے دادا (امام حسین علیہ السلام) سے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے جنہوں نے جبرئیل علیہ السلام سے جنہوں نے اللہ عز و جل سے بیان کیا ہے۔ اور جو کچھ بھی میں تمہیں بیان کرتا ہوں وہ اس ہی سند سے ہے۔ اور انہوں نے فرمایا: اے جابر! ایک حدیث جو تم سچے سے لے لو تمہارے لیئے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ (3)
اس حدیث میں بھی یہی دلالت ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی سند اپنے آباء و اجداد سے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ تک ہی منتہی ہوتی تھی۔ شاید کوئی کہے کہ اس کی سند میں عمرو بن شمر ہے جس کی تضعیف کی گئی ہے، اور اس کی تضعیف کے اقوال بھی حقیر نے اپنی کتاب الممدوحین والمقدوحین کی جلد اول میں ذکر کیئے ہیں۔ نیز اس کتاب امالیِ مفید کی نسبت پر بھی اشکالات ممکن ہیں شیخِ مفید رحمہ اللہ سے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا متن اور معنی درست ہے کیونکہ اس کی تائید میں اور کئی اخبار و آثار ہیں۔ پس اس روایت کی دلالت یہ ہے کہ ان یعنی ائمہ علیہم السلام کا ہر بار مرارا و تکرارا ایک ہی سنت ذکر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ یہ بات understood تھی کہ ان کی سند یہی ہے۔ ایک اور روایت اس کی تائید میں ہے:
قَالَ وَمِمَّا رُوِّينَاهُ مِنْ كِتَابِ حَفْصِ بْنِ اَلْبَخْتَرِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ نَسْمَعُ اَلْحَدِيثَ مِنْكَ فَلاَ أَدْرِي مِنْكَ سَمَاعُهُ أَوْ مِنْ أَبِيكَ فَقَالَ مَا سَمِعْتَهُ مِنِّي فَارْوِهِ عَنْ أَبِي، وَمَا سَمِعْتَهُ مِنِّي فَارْوِهِ عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.
کہا: اور جو ہمیں مروی ہے حفص بن بختری کی کتاب سے، انہوں نے کہا: میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا: ہم آپ سے حدیث سنتے ہیں تو میں نہیں جانتا کہ آپ سے سنی تھی یا آپ کے والد (امام باقر علیہ السلام) سے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: جو تم نے مجھ سے سنا ہے تو وہ میرے والد سے روایت کیا کرو، اور جو تم نے مجھ سے سنا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے روایت کیا کرو۔ (4)
یہ روایت بھی اگرچہ مرسلاً مروی ہے لیکن اس کا معنی بھی سابقہ روایات جیسا ہے۔ ایک اور سند سے سید ابن طاووس نے بھی اس کو کتاب الاجازات میں حسن بن محبوب کی سند سے نقل کیا ہے (5)۔ اور اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک روایت الکافی میں بھی ہے (6)۔ ایک اور روایت ہے:
عَلِيٌّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ قُتَيْبَةَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ فِيهَا فَقَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ كَذَا وَكَذَا مَا يَكُونُ الْقَوْلُ فِيهَا فَقَالَ لَهُ مَهْ مَا أَجَبْتُكَ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ عَنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) لَسْنَا مِنْ أَ رَأَيْتَ فِي شَيْءٍ.
امام صادق علیہ السلام سے کسی نے ایک مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس کو اس کا جواب دیا۔ پس اس شخص نے کہا: آپ کی رائے کیا ہے کہ اگر ایسا اور ایسا ہو تو اس بارے میں کیا بات ہوگی؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ چھوڑو۔ جو میں نے تمہیں کسی چیز کا جواب دیا ہے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہے۔ ہم “آپ کی کیا رائے ہے” میں سے کسی چیز کو نہیں اپناتے۔ (7)
اس روایت پر بھی ممکن ہے کہ کوئی سندی اشکال کرے ولكن لا ضير، لأن معناها صحيح كما تقدم۔ لہذا ان کا جو بھی فرمان ہوتا ہے وہ آراء پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ فرمان نبوی ہی ہوتا ہے۔ ایک اور روایت امام رضا علیہ السلام سے ہے:
…إِنَّا عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ نُحَدِّثُ، وَلَا نَقُولُ قَالَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَيَتَنَاقَضَ كَلَامُنَا إِنَّ- كَلَامَ آخِرِنَا مِثْلُ كَلَامِ أَوَّلِنَا وَكَلَامَ أَوَّلِنَا مُصَادِقٌ لِكَلَامِ آخِرِنَا…
۔۔۔ ہم اللہ اور اس کے رسول سے ہی حدیث بیان کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں اور فلاں نے کہا ہے کہ ہمارا کلام متضاد ہوجائے۔ ہمارے آخری فرد کا کلام ہمارے پہلے فرد کے کلام کی مانند ہے، اور ہمارے پہلے فرد کا کلام ہمارے آخری فرد کے کلام کی تصدیق میں ہوتا ہے۔ (

لہذا، اہل بیت علیہم السلام کے تمام افراد کا کلام ایک ہی جیسا ہوتا ہے چاہے وہ ان ائمہ ہدیٰ میں سے کسی کا بھی فرمان ہو، وہ بالآخر فرمان نبوی ہی ہوتا ہے۔ اور اس روایت کی سند بھی معتبر ہے تاکہ کسی کو سند اشکال بھی نہ رہے اور تاکہ منہج سندی اپنانے والے افراد کا اشکال بھی مرفوع و مدفوع ہوجائے۔ ایک اور روایت جو کہ اگرچہ مرسل ہے یوں مروی ہے:
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ يُونُسَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ فَرْقَدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ قَالَ مَا ذَكَرْتُ حَدِيثاً سَمِعْتُهُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهما السَّلام) إِلا كَادَ أَنْ يَتَصَدَّعَ قَلْبِي قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه) قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ وَأُقْسِمُ بِالله مَا كَذَبَ أَبُوهُ عَلَى جَدِّهِ وَلا جَدُّهُ عَلَى رَسُولِ الله (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه)…
ابن شبرمہ نے کہا: میں ںے ایک حدیث یاد کی ہے جو میں نے جعفر بن محمد علیہما السلام سے سنی تھی، مگر یہ کہ قریب ہے کہ میرا دل پھٹ جائے۔ انہوں نے فرمایا تھا: مجھ سے میرے والد (امام باقر علیہ السلام) نے بیان کیا جنہوں نے میرے دادا (امام سجاد علیہ السلام) سے بیان کیا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے بیان کیا ہے۔ ابن شبرمہ نے کہا: اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں، ان کے والد نے ان کے دادا پر اور نہ ہی ان کے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ پر جھوٹ باندھا ہے۔۔۔ (9)
یہ روایت بھی اگرچہ سندا مرسل ہے اور ابن شبرمہ مجروح ہے، اس کا حال بھی آپ کو خاکسار کی کتاب کی پہلی جلد میں ملے گا جو کہ ضعفاء سے مختص ہے۔ لیکن اس حدیث میں بھی راوی کے کلمات دلیل ہیں کہ امام علیہ السلام یوں ہی حدیث بیان کیا کرتے تھے، والفضل ما شهدت به الأعداء كما يقولون۔ علاوہ ازیں ہمارے پاس بطور مثال حدیث سلسلۃ الذہب ہے جس میں امام رضا علیہ السلام نے حدیث بیان کی ہے جو کہ ان کے اجداد علیہم السلام سے ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ تک اور ان کے ملائکہ سے خدا تک پہنچتی ہے جو کہ پھر حدیث قدسی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اس کے لیئے آپ کتب حدیث سے رجوع کر سکتے ہیں (10)۔
اور خود خاکسار کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ اس کے پاس اس حدیث کا خصوصی اجازہ ہے جس میں خاکسار سے لیکر مشایخ کے ایک سلسلے سے ابو صلت ہروی تک متصل سند ہے جو کہ پھر امام رضا علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ تک ہے جس میں وہ ایمان کی تعریف پر حدیث بیان کرتے ہیں، والحمد للہ۔ علاوہ ازیں اگر انسان کتب مثلِ بصائر الدرجات کا تصفّح و تتبّع کرے تو اس میں کئی روایات اس مفہوم کی ملتی ہیں بلکہ پورے ابواب ملتے ہیں جیسے:
باب في الأئمة أن عندهم أصول العلم ما ورثوه عن النبي (ص) لا يقولون برأيهم
باب: کہ ائمہ علیہم السلام کے پاس اصولِ علم ہیں جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سے وراثت میں لیئے ہیں اور کہ وہ اپنی رائے سے کچھ نہیں فرماتے۔ (11)
اور اس ہی باب میں آپ کو کثیر احادیث اس ہی مطلب پر ملیں گی، مثلا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ (ع) يَا جَابِرُ وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نُحَدِّثُ النَّاسَ أَوْ حَدَّثْنَاهُمْ بِرَأْيِنَا لَكُنَّا مِنَ الْهَالِكِينَ وَلَكِنَّا نُحَدِّثُهُمْ بِآثَارٍ عِنْدَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (ص) يَتَوَارَثُهَا كَابِرٌ عَنْ كَابِرٍ نَكْنِزُهَا كَمَا يَكْنِزُ هَؤُلَاءِ ذَهَبَهُمْ وَفِضَّتَهُمْ.
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر! خدا کی قسم اگر ہم لوگوں کو حدیث بیان کریں یا ان کو حدیث اپنی رائے سے بیان کریں تو ہم ہلاک لوگوں میں سے ہونگے۔ مگر ہم تمہیں وہ آثار بیان کرتے ہیں جو ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ہیں۔ اس کو بڑا اپنے بڑے سے وراثت میں لیتا ہے۔ ہم اس کو ایسے ہی ذخیرہ کرتے ہیں جیسے یہ لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں۔ (12)
اس روایت کی سند صحیح ہے، اگرچہ ہمارے علم میں ہے کہ بعض افراد بصائر الدرجات کے انتساب پر اشکال کریں گے۔ لیکن اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ انتساب میں اشکال ہے، تب بھی اس روایت کا مفہوم وہی ہے جو سابقہ روایات کا ہے اور ان روایات کی تعداد اس حد تک ہے کہ اس پر پورا رسالہ لکھا جا سکتا ہے۔ خود بصائر الدرجات کے مُشار إليه باب میں دس روایات ہیں اور اس کے اگلا باب بھی اس ہی مفہوم پر ہے جس میں چار روایات ہیں (13)۔
بلکہ اس کے بعد ایک اور باب بھی ہے اس ہی مفہوم پر جس میں نو احادیث ہیں، یعنی ان احادیث کی تعداد صرف بصائر الدرجات میں ہی بیس سے زیادہ ہے، اور اگر دیگر کتب کو ملایا جائے تو ان کی تعداد تیس سے زائد ہوجاتی ہے۔ اور اس کے علاوہ الکافی میں بھی کئی روایات ہیں جو اس ہی مفہوم پر ہیں جن میں سے بہت سی روایات کی سند بھی صحیح اور موثق و حسن ہے جیسا کہ الکافی کا باب ہے بَابُ أَنَّ الائِمَّةَ (عليهم السلم) وَرَثَةُ الْعِلْمِ يَرِثُ بَعْضُهُمْ بَعْضاً الْعِلْمَ یعنی باب: کہ ائمہ علیہم السلام علم کے وارثان ہیں، وہ ایک دوسرے سے علم وراثت میں لیتے ہیں۔ اس باب میں کُل آٹھ روایات ہیں اور بعض کی سند بھی معتبر و معتمد ہے۔ (14)
اور یہ ایک عمومی قاعدہ ہے جو کسی پر مخفی نہیں ہے کہ جب ایک محدث ایک باب باندھتا ہے تو وہ اس کا اعتقاد اور فقہی فتویٰ بھی ہوتا ہے جو وہ دے رہا ہوتا ہے۔ اور اس باب میں درج روایات کو اس باب کے عنوان سے جوڑ کر ہی پڑھا جاتا ہے۔ اس باب میں بھی جو روایات ہیں ان کا مفہوم یہی ہے جو ہم سابقاً بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض بصائر الدرجات کی روایات کے ہی مشابہ ہیں۔ الکافی میں اس سے اگلا باب ہے، بَابُ أَنَّ الائِمَّةَ وَرِثُوا عِلْمَ النَّبِيِّ وَجَمِيعِ الانْبِيَاءِ وَالاوْصِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ یعنی باب: کہ ائمہ علیہم السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہا ور تمام انبیاء و اوصیاء جو ان سے قبل تھے ان کا علم وراثت میں لیا ہے۔ اس باب میں بھی سات روایات ہیں (15)۔ اور بعض سندی لحاظ سے بھی درجہِ وثوق پر ہیں۔ ان روایات کی دلالت بھی اس ہی معنی پر ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بے تحاشا روایات ہیں جس میں ائمہ علیہم السلام مکمل سند بھی بیان کیا کرتے تھے اپنے اجداد سے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ تک اور بعض میں وہ مرسلاً بھی فرما دیا کرتے تھے کہ قال رسول الله صلى الله عليه وآله إلى آخره۔ یہ سب اس ہی معنی پر دال ہے جو ہم نے بیان کیا اور سندی اشکال اس سے برطرف ہوجاتا ہے کہ یہ روایات تواترِ لفظی پر نہ بھی ہوں تو تواترِ معنوی کی حد تک ہیں کتبِ تشیع میں۔ اس بارے میں قاضی ابن براج فرماتے ہیں:
وقد وردت في هذا الصعيد نصوص لا مجال لنقلها برمتها.
اور اس مقام پر ایسے نصوص وارد ہوئے ہیں کہ سب کے سب کو نقل کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے۔ (16)
اور نوادر المعجزات کے حاشیے میں درج ہے:
او لعلها ذكرت باعتبار ما تواتر عنهم (عليهم السلام) من ان حديثي حديث ابي
اور شاید یہ احادیث اس اعتبار سے ذکر ہوئی ہیں جو ان (علیہم السلام) سے تواتر سے مروی ہے کہ میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے۔ (17)
علامہ مازندرانی نے بھی یہی فرمایا ہے شرح اصول کافی میں کہ ایک امام کی حدیث باقی ائمہ علیہم السلام اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا فرمان ہی ہے (18)۔ اور یہی بات حاشیہ اصول کافی میں علامہ رفیع الدین فرماتے ہیں (19)۔ نيز علامہ مجلسی نے بھی یہی ذکر کیا ہے اپنی شرح الکافی یعنی مرآة العقول میں (20)۔
الحاصل
پس بعد از این بحث می گوییم کہ یہ روایات حدِ تواتر تک کتب شیعہ میں پائی جاتی ہیں جس سے ہم سندی بحث سے مستغنی ہوجاتے ہیں کیونکہ اس کا صدور معصومین علیہم السلام سے اطمئنان بخش ہے لتواتر الأخبار الدالة على أن حديثهم حديث الرسول صلى الله عليه وآله، فلهذا ثبت المطلوب وبطل الإشكال، والحمد لله۔ اس لیئے جب کتبِ شیعہ میں کوئی حدیث ائمہ علیہم السلام میں سے کسی سے بھی مروی ہو تو اہل تشیع کے لیئے فرمان نبوی ہی محسوب ہوگا اور اس کی حیثیت و حجیت وہی ہوگی جو اس حدیث کی ہوگی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے ثابت ہو کیونکہ وہ اپنی رائے سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہی بیان کرتے ہیں جو ان تک علم پہنچا ہے۔
مآخذ:
(1) الكافي، ج 1، ص 53
(2) مرآة العقول، ج 1، ص 182
(3) الأمالي للمفيد، ص 42
(4) وسائل الشيعة، الرقم: 33315
(5) بحار الأنوار، ج 2، ص 161: كِتَابُ اَلْإِجَازَاتِ، لِلسَّيِّدِ بْنِ طَاوُسٍ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ، مِمَّا أَخْرَجَهُ مِنْ كِتَابِ اَلْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ بِإِسْنَادِهِ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَسْمَعُ اَلْحَدِيثَ فَلاَ أَدْرِي مِنْكَ سَمَاعُهُ أَوْ مِنْ أَبِيكَ قَالَ مَا سَمِعْتَهُ مِنِّي فَارْوِهِ عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.
(6) الكافي، ج 1، ص 51: وَعَنْهُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ قُلْتُ لابِي عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) الْحَدِيثُ أَسْمَعُهُ مِنْكَ أَرْوِيهِ عَنْ أَبِيكَ أَوْ أَسْمَعُهُ مِنْ أَبِيكَ أَرْوِيهِ عَنْكَ قَالَ سَوَاءٌ إِلا أَنَّكَ تَرْوِيهِ عَنْ أَبِي أَحَبُّ إِلَيَّ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (عَلَيْهِ السَّلام) لِجَمِيلٍ مَا سَمِعْتَ مِنِّي فَارْوِهِ عَنْ أَبِي.
(7) الكافي، ج 1، ص 58، بصائر الدرجات، ص 321
(
رجال الكشي، الرقم: 401

(9) الكافي، ج 1، ص 43
(10) الأمالي للصدوق، الرقم: 349، التوحيد، ص 25، ثواب الأعمال، ص 7، عيون أخبار الرضا، ج 2، ص 134 – 137، معاني الأخبار، ص 371، الأمالي للطوسي، الرقم: 536
(11) بصائر الدرجات، ص 299
(12) بصائر الدرجات، ص 300
(13) بصائر الدرجات، 299 – 302
(14) الكافي، ج 1، ص 221 – 223
(15) الكافي، ج 1، ص 223 – 226
(16) المهذب للقاضي ابن براج، ج 1، ص 20
(17) حاشية نوادر المعجزات، ص 194
(18) شرح أصول الكافي، ج 2، ص 225
(19) الحاشية على أصول الكافي، ص 187
(20) مرآة العقول، ج 1، ص 182
.
.
.
شیعہ کتب میں احادیث آئمہ اہلبیت کے سلسلہ سند سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث ہیں۔
جبکہ عمریوں کے پاس نبی کی وصیت کے مخالف اہلبیت سے دین نہیں لیا گیا۔
ان لوگوں نے منافق صحابہ کو بطور دین کا ٹھیکیدار سمجھا جبکہ نہ قرآن اور نبی کے فرمان سے ایسا ثابت ہے کہ بلکہ قرآن و نبی کے فرمان کے مطابق دین اہلبیت سے لو ۔
عمری کی مجبوری ہے وہ جھوٹ اور فراڈ سے اپنے آپ کو مطمئن کریں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہیں۔









