کیا شیخ مفید ؒ نے سرے سے ” کتاب سلیم بن قیس ؒ ” کو رد کیا ہے

جواب :: قارئین کرام! جواب دینے سے پہلے ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ” سیدہ فاطمه (سلام الله علیها) ” پر امت کی طرف سے جو ظلم و ستم کیا گیا ہے اس بارے میں علماء امامیہ کا اجماع ہے متقدمین سے لے کر معاصرین تک کسی ایک کو بھی اس پر اشکال یا ایراد نہیں ہے۔ جس کو استاد المجتہدین شیخ الطائفہ ابوجعفر الطوسی ؒ نے ” تلخیص الشافی ” میں نقل کیا ہے :
ومما أنكر عليه ضربهم لفاطمة، وقد روي: أنهم ضربوها، بالسياط *والمشــــهور الـــذي لا خــلاف فيــه بــيــن الشـيـعـة،* أن عمر ضرب على بطنها حتى أسقطت، فسمي السقط (محسنا)
مختصر ترجمہ : یہ بات (یعنی اسقاط الجنین الفاطمة ۜ ) مشہور ہے اور اس بات کے بارے میں مذہب تشیع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے یعنی اس پر اجماع ہے ۔
اس کے آگے شیخ طوسی ؒ لکھتے ہیں :
*ولیس لأحد أن ينكر الروایة بذلك* ، لأنا قد بينا الرواية الواردة من جهة العامة من طريق البلاذري وغيره، *ورواية الشيعة مستفيضة به، لا يختلفون في ذلك*
*اسقاط الجنین الفاطمة ۜ* والی روایت ہمارے درمیان اس قدر مشہور اور معروف ہے کسی ایک شخص کو اس روایت پر کوئی ایراد و اشکال نہیں ہے حتی کہ یہ روایت خبر مستفیض ہے اور اس کے بارے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔
📚 تلخیص الشافي ، ج3 ، ص156
اقول : جب کسی ایک شیعہ کو اس پر کوئی اشکال و اختلاف نہیں ہے تو شیخ مفید ؒ پر اعتراض بےجا ہے ۔
قارئین کرام! اب آتے ہیں اصل جواب کی طرف ہمارا پہلا جواب یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ (سلام الله علیها) پر جو ظلم ہوا وہ فقط ” کتاب سلیم بن قیس ؒ ” میں نہیں ہے اور نہ ہی فقط ” ابان بن ابي عیاش ” راوی ہے بلکہ یہ قضیہ ہماری اور بھی معتبر کتابوں میں صحیح الاسناد سے ثابت شدہ ہے جس کو ہمارے بزرگان کافی دفعہ پیش کر چکے ہیں ۔
دوسری بات :
” ظلامة علٰی سیدہ فاطمه ۜ ” اور ” کتاب سلیم بن قیس هلالي ؒ ” کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے اگر بالفرض کتاب ثابت نہیں ہے تو اس کا ملازمہ یہ نہیں بنتا کہ سرے سے سیدہ فاطمه (سلام الله علیها) کے اس قضیہ سے انکار کر دیا جائے ۔
تیسری بات :
اگر شیخ مفید ؒ نے کہا یہ کتاب (سلیم بن قیس ؒ) ثابت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ثابت نہیں بلکہ آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ شیخ مفید ؒ کو ہم معصوم عن الخطاء نہیں مانتے ہیں بلکہ ہم ان کو ایک فقیہ اور مجتہد مانتے ہیں، مجتہد معصوم نہیں ہوتا اور ہم مجتہد کے بارے میں مخطی اور مصیب کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے ہمارے مسلمان بھائی امام ابوحنیفہ، امام مالك، امام شافعي ، امام احمد بن حنبل اور کافی اکابر اصحاب کی غلطیوں کو اجتہاد پر حمل کرتے ہیں ہم ان بزرگان کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے خطاء ممکن ہے کیونکہ مجتہد معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا ہے۔ بعبارة الآخر ہمارا اس مسئلے میں شیخ مفید ؒ کے بارے میں یہی موقف ہے کہ شیخ مفید ؒ کی اجتہادی خطاء ہے جو ہمارے لئے حجت نہیں ہے ۔
چوتھی بات :
(الف)… شیخ مفید ؒ نے کہہ دیا کہ ” اس کتاب میں تخلیط اور تدلیس ہے ” لیکن مواضع تخلیط اور تدلیس کو بیان نہیں کیا لہذا یہ شیخ مفید ؒ کا دعوی بغیر دلیل ہے جو ہم پر حجت نہیں ہے کیونکہ اس کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں جو شیعہ اصول کے خلاف ہو ۔
(ب)… اس کے مقابلے میں ہمارے ایک بڑے عالم شیخ یعقوب کلیني ؒ کے شاگرد شیخ محمد بن إبراهیم نعماني ؒ نے اپنی کتاب ” الغیبة ” میں لکھا ہے :
*ليس بين جميع الامایة ممن حمل العلم ورواه عن الأئمة عليهم السلام خلاف في أن كتاب سليم بن قيس الهلالي أصل من أكبر كتب الأصول التي رواها أهل العلم وحملة حديث أهل البيت عليهم السلام وأقدمها لأن جميع ما اشتمل عليه هذا الأصل إنما هو عن رسول الله وأمير المؤمنين صلوات الله عليهما والمقداد وسلمان الفارسي وأبي ذر ومن جرى مجراهم ممن شهد رسول الله وأمير المؤمنين صلوات الله عليهما وسمع منهما. وهو إليها وتعول عليها*
اس بات ہر امامیہ کے یہاں کوئی اختلاف نہیں کہ کتاب سلیم بن قیس الھلالی ایک اصل ہے بڑے اصولوں میں سے جنکو علماء و راویوں نے روایت کیا ہے اھل بیتؑ سے اور یہ ایک قدیم اصول ہے۔ سب کچھ جو اس میں نقل ہوا ہے وہ رسول الله ؐ، امام علی ؑ، مقداد ؓ، سلمان فارسی ؓ، ابو ذر ؓ اور ان جیسوں سے نقل ہوا ہے جنہوں نے رسول الله ؐ اور امیر المومنین ؑ کو دیکھا اور ان سے روایات لیں، یہ ایک ایسا اصول ہے جس پر امامیہ کا انحصار ہے اور اسکی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
📙 کتاب الغیبة ، ص 103
ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ اس کتاب سیلم بن قیس الھلالی ؒ میں ایسی کوئی چیز ہے نہیں جس کی طرف شیخ مفید ؒ نے بغیر دلیل کے اشارہ کیا ہے لہذا یہ کتاب مذہب تشیع کے اصولوں میں سے ایک اہم اصولی کتاب ہے ۔
اور اس کے علاوہ شیخ حر العاملی ؒ نے ” خاتمة مستدرك الوسائل ” میں لکھا ہے :
*الفائدة الرابعة في ذكر الكتب المعتمدة التي نقلت منها أحاديث هذا الكتاب، وشهد بصحتها مؤلفوها وغيرهم، وقامت القرائن على ثبوتها، وتواترت عن مؤلفيها، أو علمت صحة نسبتها إليهم بحيث لم يبق فيها شك ولا ريب، كوجودها بخطوط أكابر العلماء وتكرر ذكرها في مصنفاتهم وشهادتهم بنسبتها، وموافقة مضامينها لروايات الكتب المتواترة، أو نقلها بخبر واحد محفوف بالقرينة، وغير ذلك، وهي:*
چوتھا فائدہ ، ان قابلِ اعتماد و اعتبار کتابوں کا تذکرہ جن سے میں نے اس کتاب میں احادیث نقل کی ہیں اور ان کے مؤلفین نے ان کی صحت کی گواہی دی ہے ، قرائن بھی ان کے ثابت ہونے پر دلالت کرتے ہیں ، ان کتابوں کی ان کے مؤلفین تک نسبت تواتر سے ثابت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور وہ یہ کتابیں ہیں :
ان میں سے ایک کتابِ سلیم بن قیس الھلالی ہے ۔
📚 خاتمة مستدرك الوسائل ، ج30 ص153،157
اس کے علاوہ علامہ مجلسی ؒ نے اپنی کتاب میں لکھا :
*و کتاب سليم بن قيس في غاية الاشتهار و قد طعن فيه جماعة ، و الحق أنه من الأصول المعتبرة*
ترجمہ : اور کتاب سلیم بن قیس ؒ مشہور کتاب ہے اور اس پر ایک جماعت نے طعن کیا ہے اور میرے نزدیک حق یہ ہے کہ یہ کتاب سلیم بن قیس الھلالی اصول المعتبرہ میں سے ہے ۔
📕 بحارالانوار ، ج1 ص32
لہذا اکثر علماء امامیہ کا نظریہ کتاب سلیم ابن قیس الهلالی ؒ کے بارے میں مثبت ہے باقاعدہ *اس کتـــاب ( کتاب ســـلیم ابن قیـــس) کو ہمارے علماء نے اصــــول المــعــتبرہ میں شمار کیا ہے* ۔
تحریر و تحقیق : آغا سیف نجفي (حفظہ الله)