اہل سنت کے امام ابو الحسن الدارقطنی (المتوفی ۳۸۵ھ) علل الحدیث کے بڑے امام رہے ہیں۔ انکی اس فن پر ایک مفصل کتاب تھی (یہ دس جلدوں میں موسسۂ الریان ریاض سعودیہ کی طرف سے طبع ہوئی ہے)۔ لیکن افسوس کے ساتھ اس کتاب کا جو قلمی نسخہ ہمارے پاس آیا ہے اسکی کوئی سند ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ کتاب اس طرح شروع ہوتی ہے۔
اول حديث ابي بكر الصديق عن النبي ﷺ
عمر عن ابي بكر
سئل الشيخ ابو الحسن علي بن عمر بن احمد بن مهدي الحافظ عن حديث عمر بن الخطاب…….
پہلی روایت ابوبکر “صدیق” کی نبی ﷺ سے۔
عمر بن خطاب نے جو ابوبکر سے روایت کی ہے۔
سوال کیا گیا ابو الحسن علی بن عمر (الدارقطنی) سے اس حدیث کے بارے میں جو عمر بن خطاب سے منقول ہے کہ۔۔۔
(اسی طرح کتاب کے مخطوط نسخہ میں دیکھا جا سکھتا ہے)۔

اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب کے ناسخ سے لئے کر مولف تک کوئی سند موجود ہی نہیں ہے اور نا ہی اس بات کا علم ہے کہ دارقطنی سے اس حدیث کے بارے میں سوال کرنے والا کون ہے ؟

علماء اہل سنت مثلاً غلام مصطفی ظہیر امن پوری نے اس کتاب کے اثبات کے لئے دوسرے محدثین کی اس کتاب تک سندوں کا سہارا لیا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے اور پھر تواتر کا دعوہ کرکے جان بجانے کی کوشش کی ہے ؟
زیل میں اسکی تحقیق کا عکس لگایا گیا ہے (انکی یہ تحقیق آنلائن پی ڈی ایف کی صورت میں مل سکھتی ہے)۔












کیا کسی کتاب پر اختلاف ہونے کی وجہ سے کتاب ہی غیر معتبر قرار پاتی ہے ؟
.
کتاب الغنیۃ لطالبی طریق الحق اہل سنت کے عالم عبدالقادر جیلانی کی معروف کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں بھی اہل سنت کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے آیا یہ عبدالقادر جیلانی کی ہی کتاب ہے یا کسی اور کی۔ اس کتاب کی سند بھی موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکھتا ہے کہ اس کتاب کا مولف کون ہے ؟
پاکستان کے محدث زبیر علی زائی سے جب اس کتاب کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اسکے اختلاف کے بارے میں تصریح فرمائی :
” غنیۃ الطالبین کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن حافظ ذہبی اور ابن رجب الحنبلی اسکو شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب قرار دیتے ہیں.
تنبیہ : مروجہ غنیۃ الطالبین کے نسخے کی صحیح و متصل سند میرے علم میں نہیں ہے، واللہ العالم”

کیا اس اختلاف کی وجہ سے یہ کتاب قابل اعتبار ہوگی ؟؟؟



