کتب اہلسنت جن کی صحیح اسناد موجود نہیں ، مگر پھر اہلسنت ان کتب کو قبول کرتے ہیں

کتب اہلسنت جن کی صحیح اسناد موجود نہیں ، مگر پھر اہلسنت ان کتب کو قبول کرتے ہیں
1) علل الترمذی کے بارے میں شیخ زبیر علی زئی لکھتے ہیں :
کتاب علل الکبیر کا مطبوعہ نسخہ امام ترمذی سے با سند صحیح ثابت ہی نہیں ، اس کا راوی ابو حامد مجہول الحال ہے ، راقم الحروف نے اگر اپنی کسی سابقہ تحریر میں علل الکبیر کا کوئی حوالہ پیش کیا تھا تو وہ منسوخ اور مرجوع ہے ۔
📚 [ مقالات 6/224 ]
2) علل دارالقطنی کے محقق ڈاکٹر محفوظ الرحمن سلفی مقدمہ میں لکھتے ہیں :
« لاشك أن للدارقطني كتاباً كبيراً في العلل الواردة في الأحاديث النبوية ، وقد حاولت جاهداً أن أبحث عن نسخة مروية بالإسناد حفظتها لنا الأيام من عوادي الدهر ، ولكني لم أتمكن من ذلك ، فالنسخ التي حصلت عليها حتى يومي هذا خالية من إسناد متصل بالمؤلف »
بلاشبہ حافظ دارقطنی کی العلل الواردۃ في الأحادیث النبویۃ کی بابت ایک ضخیم کتاب موجود ہے۔ میں نے اس کا باسند نسخہ تلاش کرنے کی بھرپور تگ و دو کی ہے کہ وقت نے ہمارے لیے حوادثاتِ زمانہ سے اس کی حفاظت کی ہو۔ مگر مجھے اس پر دسترس حاصل نہیں ہوئی۔ مجھے جتنے نسخے بھی تاحال میسر آئے ہیں، وہ مولف تک متصل سند سے خالی ہیں
📚 [ مقدمہ 1/59 ]
3) جز الحمیری پر اصول بدلنے پر محمد خبیب احمد (ادارہ علوم اثریہ) شیخ زبیر علی زئی کی گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس کتاب کی استنادی کمزوری چھپانے کے لیے شیخ مرحوم نے نہایت عجیب اسلوب اختیار ، گویا شیخ سمجھ چکے تھے کہ جو اُصول اُنھوں نے اختیار کیا ہے اس پر جزء الحمیري پورا نہیں اُتر سکتا، لہٰذا اُنھیں اس ’’بے اصل ‘‘ جزء سے بھی براءت کا اعلان کرنا چاہیے تھا، نہ کہ اس کی از سرِ نو تحقیق کرکے اسے دوبارہ شائع کرنا چاہیے تھا! اپنی محنت کے ضیاع کا احساس تورہا، مگر امام ترمذی کی کدوکاوش کو بھلا دیا گیا!
📚 [ ہفت روزہ الاعتصام، لاہور۔جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ۲۵]
ضعیف الاسناد و مقبول کتبِ اہلسنت ( در جواب ضعف فی الاسانید کتاب سلیم بن قیس الھلالي )
1) ” سوالات ابی داؤد ” کے محقق شیخ زیاد محمد مقدمہ میں لکھتے ہیں :
« لم أقف على سند للكتاب في النسخة الفريدة التي بين يدي ، اللهم إلا طرفاً منه، صدرت به بعض أبواب الكتاب ، جاء فيه : أخبرنا ومرة : حـدثنا ـ الحسين ، حدثنا سليمان، قال : سمعت أحمد ـ وتارة : قلت لأحمد »
جو قیمتی نسخہ میرے سامنے ہے، میں اس کی سند پر مطلع نہیں ہوا، سوائے کچھ حصے کے جو کتاب کے بعض ابواب کے شروع میں ہے۔ اس میں ہے: أخبرنا أوحدثنا الحسین حدثنا سلیمان قال: سمعت أحمد وتارۃ: قلت لأحمد۔
📚 [ مقدمہ سوالات ابی داؤد: 123 ]
2) امام بخاری کی ” کتاب الضعفاء” بھی صحیح متصل سند سے ثابت نہیں ، حافظ زبیر علی زئی محض اس کو شہرت کی وجہ سے قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
« لم أجد لہ ترجمۃ۔ ولم ینفرد بأصل الکتاب ونصوصہ کما یظہر من تحقیق ہذا الکتاب۔ ودراسۃ ہذا الکتاب یدل علی أنہ صدوق »
مجھے اس راوی کا ترجمہ نہیں ملا ۔ وہ اصل کتاب اور اس کی نصوص بیان کرنے میں منفرد نہیں، جیسے اس کتاب کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کتاب کا دراسہ اس کے صدوق ہونے پر دلالت کرتا ہے
📚 [ مقدمۃ تحفۃ الأقویاء : 9 ]
3) حافظ زبیر علی زئی کتاب ” الجہاد لابن ابی مبارک ” کے بارے میں لکھتے ہیں :
یہ کتاب امام عبداللہ بن مبارک کی طرف منسوب ہے اور اس کے بنیادی راوی سعید بن رحمہ کی وجہ سے غیر ثابت اور مشکوک ہے ۔(اس کتاب کو محض سند کی وجہ سے ضعیف قرار دینا شیخ کی زیادتی ہے ، جیسے مخالفین کتاب سلیم کے ساتھ کرتے ہیں وہی کچھ شیخ مرحوم نے کتب اہلسنت کے ساتھ کیا ) ۔
📚 [ فضائل جہاد : 15 ]
حافظ ابن حبان اس راوی کے بارے میں لکھتے ہیں :
« يروي عن محمد بن حمير ما لم يتابع عليه ، أهل الشام، لا يجوز الاحتجاج به لمخالفته الأثبات في الروايات »
وہ محمد بن حمیر سے ایسی چیزیں روایت کرتا ہے جس میں اس کی متابعت نہیں۔ اس سے شام کے باشندگان روایت کرتے ہیں۔ اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ وہ احادیث بیان کرنے میں اثبات راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔
📚 [ المجروحین 1/412 ]
علامہ ذھبی بھی ابن حبان کی جرح کو اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں
📚 [ میزان الاعتدال 3/199 ]
4) امام بخاری کی کتاب ” جز رفع الیدین” کی سند میں ایک راوی محمود بن إسحاق الخزاعي مجہول التوثیق ہے ، اس کی توثیق ثابت نہیں ، ذھبی نے اس کا مختصر تعارف نقل کیا مگر توثیق نہیں کی :
« محمود بن إسحاق البخاري القواس.سمع من: محمد بن إسماعيل البخاريّ، ومحمد بن الحسن بن جعفر صاحب يزيد بن هارون.وحدَّث، وعُمِّر دهرا.أرخه الخليلي، وقال: ثنا عنه محمد بن أحمد الملاحميّ. »
محمود بن اسحاق البخاری القواس. انہوں نے محمد بن اسماعیل البخاری اور یزید بن ہارون کے شاگرد محمد بن حسن بن جعفر سے سنا، حدیثیں بیان کی اور ایک (طویل) زمانہ زندہ رہے ،خلیلی نے انکی تاریخ وفات بیان کی اور فرمایا ہمیں محمد بن احمد ملاحمی نے ان سے حدیث بیان کی ہے
📚 [ تاریخ اسلام ]
ضعیف الاسناد کتبِ اہلسنت
1) امام بخاری کی کتاب ” ادب المفرد ” کا راوی ابو الخیر احمد بن محمد بن الجلیل بن خالد جو کہ ان کا شاگرد بھی اس کتاب کو ان سے روایت کرتا ہے اور یہ شخص مجہول التوثیق ہے ، ذھبی لکھتے ہیں :
« احمد بن محمد بن الجلیل روی عن البخاری کتاب الادب »
احمد بن محمد نے امام بخاری سے کتاب ادب المفرد روایت کی ہے ۔
📚 [ المشتبہ فی الرجال 1/268 ]
علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی اسی سند سے کتاب کا ذکر کیا :
« کتاب الادب المفرد للبخاری ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدثنا ابو الخیر احمد بن محمد بن الجلیل قال حدثنا البخاری »
📚 [ معجم الفھرس رقم 232 ]
2) امام بخاری کی کتاب “جز القراۃ” کا راوی محمود بن اسحاق الخزاعی ہے جو کہ مجہول التوثیق ہے لہذا اس کتاب کی سند بھی معتبر نہیں ۔شیخ زبیر نے اسے ثقہ ثابت کرنے کے کوشش تو کی ، لیکن جب اسکی توثیق ثابت نہ کر پائے تو اعتراض کرنے والوں پر برس پڑے ، لکھتے ہیں :
اس کتاب کے مرکزی راوی محمود بن اسحاق ہیں ۔ بعض کذا—–/بین کا چودھویں، پندرویں صدی میں (محمود بن اسحاق کو ) کو انہیں مجہول کہنا سرے سے مرد—–/ود ہے
📚 [ نصر الباری ص : 17 ]
3) غنیتہ الطالبین کتاب جو شیخ عبد القادر جیلانی کی طرف منسوب ہے اور اہلسنت اس کو شیخ عبد القادر کی کتاب تسلیم کرتے ہیں یہ صحیح سند سے ثابت نہیں جیسا کہ اقرار شیخ زبیر نے کیا ہے , مگر اس کے باوجود وہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اس سے حوالے نقل کرتے ہیں ، لکھتے ہیں :
مروجہ غنیتہ الطالبین کے نسخے کی صحیح و متصل سند میرے علم نہیں ہے ، حافظ ذھبی اور ابن رجب حنبلی دونوں اسے شیخ عبد القادر کی کتاب قرار دیتے ہیں .
📚 [ فتاوی علمیہ 2/43 ]
ذھبی لکھتے ہیں : قال شیخ عبد القادر جیلانی فی کتاب « الغنیة »
ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں :
« شیخ عبد القادر ، له کتاب الغنیة لطالبی »
لطیفہ : غنیتہ الطالبین دو محدثین کی توثیق سے قابل اعتبار ہے مگر کتاب سلیم بن قیس الھلالی کم از کم 26 محدثین کی توثیق سے قابل اعتبار نہیں ہے
یا جو آج کے دور میں اس کتاب کو شیخ عبد القادر کی کتاب سمجھتے ہیں وہ بغیر سند کے ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ یا وہ سند کا نام دھوکہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کتاب کو قبول کرنے کے اصول کچھ اور ہیں ؟
فضل الصلوة علي النبي ﷺ – امام اسماعیل بن اسحاق القاضی (المتوفی ۲۸۸ھ)۔
اس کتاب کا ترجمہ اور تحقیق پاکستان کے عالم حافظ زبیر علی زائی نے کی لیکن اس کتاب کی سند کے حوالے سے مقدمہ میں اسکے ایک راوی ” ابو الحسن ھبۃ اللہ بن عبدالصمد الکاملی المصری” کے بارے میں یوں لکھا ہے :
” کہیں مقامات پر آپکی متابعت دوسرے راویوں نے کی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صدوق تھے۔ یاد رہے کہ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے اور امام عبدالغنی المقدسی کا کسی جرح کے بغیر آپکو شیخ کہنا بھی آپ کی توثیق کی طرف اشارہ ہے “
⛔️فضائل درود و سلام (اردو ترجمہ فضل الصلوة علي النبي ﷺ) – اسماعیل بن اسحاق القاضی (تحقیق زبیر علی زائی) // صفحہ ۳۵ -۳۶ // طبع دہلی ہندوستان۔
واہ کیا اصول ہے :
ایک راوی جسکی کوئی صریح توثیق ہی نہیں ملتی ہے۔ اسکی زبردستی توثیق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ آپ کی دوسری روایات میں متابعت راویوں نے کی ہیں اور آپ پر کوئی جرح نہیں ملتی اور ایک محدث نے اسکو اپنا شیخ قرار دیا۔
اگر ایسے مجہول الحال راوی کو زبردستی صدوق بنایا جا سکھتا ہے تو شیعہ تراث میں سے ابراھیم بن ھاشم پر کس منہ سے اعتراضات کیا جاتا ہے !
اگر یہ مجہول ہے تو کتاب خودبخود غیر معتبر قرار پائے گی 😅
اہل سنت عوام پر فیصلہ چھوڈ دیتے ہیں ؟
کتاب الضعفاء – امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفی ۲۵۶ھ)
اس کتاب کی تحقیق پاکستان کے محقق زبیر علی زائی نے ” تحفة الاقوياء في تحقيق كتاب الضعفاء ” کے نام سے کی ہے۔ کتاب کی سند موجود ایک راوی ” ابو عبدللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی ” کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
لم أجد له ترجمة (اسکا ترجمہ مجھے نہیں ملا یعنی مجھے نہیں معلوم یہ کون ہے)
⛔️تحفة الاقوياء في تحقيق كتاب الضعفاء – بخاری // صفحہ ۹ // طبع مکتبہ الاسلامیہ لاہور پاکستان۔
ثابت ہوا یہ کتاب بھی سند کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔
المسند حمیدی – عبداللہ بن زبیر الحمیدی (المتوفی ۲۱۹ھ)۔
اس کتاب کی تحقیق حبیب الرحمان الاعظمی نے کی ہے۔ مقدمے میں وہ اس کتاب کی سند کے حوالے سے ایک راوی ” عبدالغفار بن محمد ” کے بارے میں خطیب البغدادی کا اسکے بارے میں حوالہ نقل اس طرح لکھا ہے :
ويذكره بما بوجب ضعفه
(خطیب بغدادی نے اس کے بارے میں ایسا کلام ذکر کیا ہے جس سے اسکا ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہے)
⛔️مسند حمیدی – عبداللہ بن زبیر الحمیدی // صفحہ ۱۲ // طبع المکتبہ المدنیہ دیوبند ہندوستان۔
لہذا اس کتاب کی سند میں یہ راوی ضعیف ہے لہذا سندی منہج کے مطابق یہ کتاب بھی غیر معتبر قرار پائے گی !
معرفۃ الرجال لابن محرز📚
یہ کتاب دراصل ابن معین کے ایک شاگرد ” احمد بن محمد بن قاسم بن محرز ” نے لکھی ہے جو سوالات اس نے ابن معین سے کئے تھے راویوں کے متعلق۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ راوی ابن محرز خود مجہول ہے۔ اسکی توثیق کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی۔
⛔️کتاب معرفۃ الرجال – ابن محرز // صفحہ ۳ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
زبیر علی زائی نے بھی اپنی ایک کتاب میں اسکی جہالت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چناچہ وہ یوں لکھتے ہیں :
احمد بن محمد بن قاسم بن محرز کی توثیق نامعلوم ہے۔
⛔️فتاویٰ اعلمیہ المعروف توضیع الاحکام – زبیر علی زائی // جلد ۲ // صفحہ ۳۹۵ // طبع مکتبہ الفہیم مئو ناتھ بھنجن یو پی ہندوستان۔
کتاب السنۃ – عبداللہ بن احمد بن حنبل📚
یہ اہل سنت کے امام احمد بن حنبل کے بیٹے کی تالیف ہے۔ اس کتاب کا مرکزی راوی جو عبداللہ بن احمد بن حنبل سے روایت کرتا ہے اسکا نام ” ابو عبداللہ محمد بن ابراھیم بن خالد الھروی ” کے بارے میں معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔ توثیق کی دور کی بات ہے !
چناچہ اس کتاب کے سلفی محقق ڈاکٹر محمد بن سعید بن سالم القحطانی نے اس کے بارے میں حاشیہ پر یوں لکھا :
لم أعثر له على ترجمة فيما اطلعت عليه من المصادر.
ہمیں اسکا ترجمہ کسی بھی مصدر (کتاب) میں نہیں ملا جو ہمارے پاس موجود ہے۔
⛔️کتاب السنۃ – عبداللہ بن احمد بن حنبل // مقدمہ // صفحہ ۱۰۴ // طبع دار ابن الجوزی ریاض سعودیہ۔
لہذا یہ کتاب بھی سندی اعتبار سے ثابت نہیں۔
کتاب الادب المفرد – محمد بن اسماعیل بخاری📚
یہ کتاب بھی اہل سنت کے امام بخاری کی معروف تالیف ہے۔ لیکن اس کتاب کو جس راوی نے بخاری سے روایت کیا ہے اسکا پورا نام ” ابو الخیر احمد بن محمد بن الجلیل بن خالد بن حریث الکرمانی ” ہے۔
⛔️الادب المفرد – بخاری // صفحہ ۴۹ // طبع ادبی دنیا دہلی ہندوستان۔
⛔️صحیح الادب المفرد للبخاری – البانی // صفحہ ۶ // طبع دار العلم ممبئی ہندوستان۔
⛔️سیرت الامام البخاری – عبدالسلام مبارکپوری // صفحہ ۱۵۲-۱۵۳ // طبع ادارہ البحوث الاسلامیہ بنارس ہندوستان۔
اس راوی کے علاوہ کسی نے اسکو امام بخاری سے نقل نہیں کیا ہے جیسا کہ مولانا عبدالسلام مبارکپوری نے اسکی اسناد کا ذکر کیا ہے اور بد قسمتی سے اس راوی کی بھی توثیق دنیا کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔
کتاب جزء القراء – محمد بن اسماعیل بخاری📚
یہ بھی اہل سنت کے امام بخاری کی ایک تالیف ہے اور اس کتاب کا مرکزی راوی بھی ” محمود بن اسحاق الخزاعی ” ہے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں ہی اسکی سند ذکر کی گئی ہے۔
⛔️جزء القراء – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۴۲ // طبع مکتبہ فہیم یو پی ہندوستان۔
یہ راوی مجہول ہے، اسکی کوئی تصریح توثیق کسی کتاب میں نہیں ملتی ہے۔ جیسا کہ جزء رفع الیدین والے پوسٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔
علل الکبیر – ترمذی (المتوفی ۲۷۹ھ)📚
یہ کتاب بھی اہل سنت امام ابو عیسی ترمذی کی معروف کتاب ہے۔ اسکا مرکزی راوی ” ابی حامد التاجر ” ہے جس نے اسکو امام ترمذی سے نقل کیا ہے۔
⛔️علل الکبیر – ترمذی // صفحہ ۳۱ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
لیکن افسوس کے ساتھ اس راوی کی کوئی توثیق کسی کتاب میں نہیں آئی ہے۔ لہذا یہ کتاب بھی سندی منہج کے مطابق ضعیف ہی ہے۔