مشہور تابعی اور راوی جناب عطیہ العوفی کی تضعیف اور فدک کے حوالے سے علمی خیانت کا مدلل جواب

قارئین محترم معترضین کا شروع سے ہی یہ وطیرہ رہا ھے کہ وہ اپنی کتب میں چھپی سچائ کو علمی خیانت سے پیش کرتے ہیں
اور بعض حقائق واضح ہونے کے باوجود بھی اس کے انکار پر ڈٹ جاتے ہیں
ہم نہ صرف ان کے استدلال کا رد کریں گے بلکہ عطیہ کی توثیق بھی ان کی کتب سے ثابت کریں گے
فدک کی روایات ان کی کتب میں موجود ہیں یہ جتنا بھی پردہ ڈالنا چاہیں ڈال نہیں سکتے
اس تحریر کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ حقائق کو واضح کرنا ھے
بات صرف عطیہ العوفی پر ہی ہوگی
محترم قارئین یہاں مسند ایو یعلی سے دو روایت پیش کرتا ہوں اس کے بعد جناب عطیہ پر بات کریں یہ دو روایات پیش کرنے کا مقصد آپ پوری عبارت پڑھ کے جان جائیں گے
کہ یہ کس طرح میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرتے ہیں
جناب عطیہ کی پہلی روایت مسند ابو یعلی سے پیش خدمت ھے
روایت نمبر 1
حدثنا ابو کریب حدثنا معاویة بن ھشام عن شیبان عن فراس عن عطیة العوفی عن ابی سعید الخدری عن النبی ﷺ قال من یرائ یرائ اللہ بہ و من سمع سمع اللہ بہ
جناب عطیہ ابی سعید خدری سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ریا کاری کرتا ھے اللہ اس کو ریا کاری کی سزا دیتا ھے جو دکھاوا کرتا اللہ اس کا بدلہ عذاب دکھاوا دیتا ھے
مسند ابو یعلی موصلی ج ٢ حدیث ١٠٥٩ ص ٣٢٣
اس روایت کو صاحب تخریج نے و بھذا الاسناد ابو کریب حسن حدیث کہا ھے یعنی اس روایت میں عطیہ کے وجود کے ساتھ بھی یہ روایت حسن ھے
حدیث نمبر 2
عن فضیل عن عطیہ عن ابی سعید قال ولما نزلت ھذا الایات وآت ذالقربی حقہ دعا النبی فاطمہ و واعطاھا فدک
عطیہ جناب ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آیت وآت ذالقربی نازل ہوئ
تو رسول اللہ ﷺ نے جناب سیدہ ؑ کو فدک عطاء فرما دیا
مسند ابو یعلی الموصلی ج ٢ ص ٣٣٤ ح ١٠٧٥حیدر
اس روایت میں صاحب تخریج نے جناب عطیہ کو ضعیف قرار دیا ھے
یہ کسی منافقت ھے کہ اسی شخص سے ایک روایت حسن اور دوسری روایت ضعیف پیش کی جارہی ھے
اور کہا جارہا ھے و بھذاءبالاسناد ابو کریب ابو کریب بعد کا روای ھے اور جناب عطیہ مشہور تابعی ہیں
دراصل یہاں معاملہ فدک کا ھے لہذا یہاں ان کا خود ساختہ اصول حدیث بولتا ھے کہ روای اگر اپنے عقیدے کی متابعت میں کوئ روایت پیش کرے تو وہ نہیں مانی جاۓ گی
ارے خدا کے بندے عقیدہ کی متابعت تب ہو جب عطیہ ڈائریکٹ رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرے جبکہ روایت کرنے والے اصل راوی تو ابو سعید الخدری ؓ ہیں
جن کی توثیق کے شیعہ سنی دونوں قائل ہیں
خیر بات لمبی ہو رہی ھے ہم اب کتب اھلسنت سے جناب عطیہ کی توثیق ثابت کریں گے
التحقیق الکافی علی عطیہ بن سعد العوفی
عطیہ پر مدلس ہونے کی جرح کلبی کے حوالے سے ھے جو کہ خود کذاب ھے
جب ہم فریقین سے فدک پر بات کرتے ہیں کیونکہ اس روایت کے ایک راوی جناب عطیہ بن سعد العوفی بھی ہیں
تو ان کو ہمیشہ سے ہی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرنے کی عادت ھے
یہ تحریر انشاء اللہ امید ھے کہ جناب عطیہ کی ثقاہت ثابت کرنے کے لیے کار گر ثابت ہو گی
پہلے کچھ جناب عطیہ العوفی کا تعارف پیش کرتے ہیں اس کے بعد اگلی بات شروع کریں گے
ابن سعد اور جناب طبری نے اپنی کتب میں نقل کیا ھے
کہ عطیہ کے والد سعد بن جنادۃ صحابی رسول ص تھے اور سب سے پہلے طائف میں آپ نے اسلام قبول کیا، اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ ابن سعد بیان کرتا ہے کہ آپ نے حضرت علی ع سے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایک بیٹا عنایت کیا ہے پس آپ اس کا نام رکھیں۔ حضرت علی ع نے فرمایا یہ خدا کی طرف سے عطيہ ہے سو حضرت علی ع نے اس کا نام عطيہ رکھ دیا۔ طبقات جلد ٨ ص ٤٢١
تاریخ طبری جلد ١١ ص ٦٤١
اس کے بعد ہم پیش کریں گے کہ جناب عطیہ پر مدلس ہونے کا رد اس کے بعد جناب عطیہ کی ثقات کو کتب اھلسنت سے سکین کی شکل میں پیش کریں گے انشاء اللہ عزوجل
پوسٹ لمبی ھے لہذا قارئین سے التماس ھے کہ اگر کوئ محنت کر کے تحقیق سامنے پیش کرے تو اس کی حوصلہ افزائ ضرور کی جاۓ اور اس کی تحقیق کو پڑھا جاۓ
جہاں تک عطیہ کی تدلیس کا معاملہ ھے اور جہاں تک عطیہ کی تدلیس کی جرح کا تعلق ہے تو اُس کی بنیاد صرف ایک شخص کی روایت پے ہے جس کا نام ہے محمد بن السائب الکلبی ، ابن حبان نے کتاب المجروحین میں لکھا ہے کہ عطیہ نے ابی سعید الخدری سے احادیث کی سماعت کی اور جب ابی سعید الخدری وفات پا گئے تو عطیہ نے کلبی کی روایات کو سُنا اور اور کلبی کو ابو سعید کی کُنیت دے کر اُس سے روایت کرنا شروع کر دیا۔ عطیہ کہتا ہے میں نے یہ حدیث ابو سعید سے سُنی ہے ، لوگوں کو وھم ہوتا کہ ابو سعید الخدری نے بیان کی ہے جب کہ اُس کی مُراد کلبی سے ہوتی تھی۔
جنہوں نے عطیہ پے تدلیس کی تہمت کو قبول کیا ہے انہوں نے کلبی کی اسی حکایت پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن احمد سے روایت ہے کہ اُس نے اپنے ابا جی سے سُنا کہ اُس نے عطیہ کو ضعیف قرار دیا اور کہا کہ اُس تک یہ اطلاع پہنچی ہے کہ عطیہ کلبی کو ابو سعید کہہ کر اُس سے روایت کرتا تھا، اسی طرح ایا اور روایت جس کو نقل کیا ہے اس میں امام احمد بن حنبل نے جس طریق سے اُس کو خبر پہنچی وہ بتاتا ہے کہ عبداللہ نے اپنے باپ سے اُس نے ابو احمد الزبیری سے اُس کو سفیان الثوری نے بتایا کہ کلبی نے کہا عطیہ نے اُسے یعنی کلبی کو ابو سعید کی کنیت دی۔وقال عبد الله بن أحمد حدثنا أبي ثنا أبو أحمد الزبيري سمعت الثوري قال: سمعت الكلبي قال: كناني عطية بأبي سعيد.الكامل لابن عدي جلد ٥ /٢٠٠٧
اسی طرح ابن حبان نے ایک اور روایت ابن نضیر کے واسطہ سے نقل کی کہ ابو خالد کو کلبی نے کہا کہ عطیہ نے مجھے ابو سعید کی کنیت دی ہے اور وہ مجھ سے ایسے روایت کرتا ہے حدثنا ابو سعید۔۔۔۔ المجروحين لابن حبان جلد ٢ صفحہ ١٦٨
پس معلوم ہوا جن افراد نے عطیہ پے تدلیس کی تہمت لگائ ہے اُن کی جرح کا دارومدار تنہا کلبی کی روایت پر ہے، احمد بن حنبل نے بھی وہی سند بیان کی جس کی بناء پر اُس نے عطیہ کی تضعیف کا کہا اور وہ سفیان ثوری کے واسطہ سے کلبی کی ہی روایت ہے۔
اب یہاں بہت سنگین صورتحال ہے کیوں کہ اہل سنت پر جب کوئ بات آتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ کلبی متھم بالکذب ہے جو کہ جرح مفسر ہے تھذیب الکمال جلد ٢٥ صفحہ ٢٤٦ نمبر ٥٢٣٤ اور اس لئے اُس کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مگر عجیب دوغلا پن اور منافقت ہے کہ جب کلبی نسب حضرت عمر کے متعلق بتاتا ہے کہ اُن کے ماں باپ بہن بھائ چچا بھتیجی، ماموں بھانجی تھے الصلابة في معرفة الصحابة٣/٢١٢ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد محترم جناب عفان کے حالات زندگی بیان کرے تو یہی کلبی متروک الحدیث اور جب اس رواة الحدیث کی وجہ سے آپکو خطرہ ہونے لگے تو اسی جھوٹے راوی پے اعتماد کر لیا جاتا ہے۔
جیسے کہ صیح مسلم میں لیث ابن سلیم کی روایات ہیں جس کو تمام علماۓ رجال نے ضعیف لکھا ھے
امام یحیی ابن معین نے عطیہ کی تعدیل کی ھے اور پوچھا گیا عطیہ کی حدیث کیسی ھے کہا صالح ھے اور اسی بات کو ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ابن معین کے قول کی مناسبت سے نقل کیا ھے
ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب جلد ٧ صحفہ ٢٢٥
اسی طرح ثابت ہو جاتا ھے کہ ابن معین کے نزدیک عطیہ کی روایت سے احتجاج کرنا درست ھے کیونکہ ابن معین نے ابی خالد الدقاق کی روایت میں عطیہ کے متعلق کہا ھے لیس بہ باس
کلام یحیحی ابن معین فی الرجال روایت ابن طھمان ص ٨٤
اس کے علاوہ ابن شاھین نے نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ھے تاریخ الثقات ممن نقل عنھم العلم ابن شاھین صحفہ ٢٤٧
اس کے علاوہ ابن خزیمہ نے عطیہ کی روایت اپنی صیح میں درج کی ہیں جو کہ ثقہ ہونے پر دلالت رکھتی ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ کتاب ابن خزیمہ بھی قابل احتجاج ھے اسی طرح عطیہ امام ترمذی کے نزدیک بھی صدوق ھے
جیسا کہ ابن حجر نے تعجیل المنفة ص ١٥٣ میں لکھا ھے
طبری نے بھی عطیہ سے روایات کو لیا ھے بلکہ ان روایات کو قوی کا درجہ دیا ھے جس میں عطیہ ھے اور ابن تیمیہ کے نزدیک تفسیر طبری صیح تفسیر ھے جیسا کہ وہ کہتا ھے وأما التفسیر التی فی ایدی الناس
اب ہم ان علماء اھلسنت کے اقوال کو پیش کریں گے جنہوں نے جناب عطیہ کی توثییق کی ھے
اور ثبوت سکین کی صورت میں نیچے پیش کیے جائیں گے
چونکہ روایت میں یہ بھی ملتا ھے جب عطیہ ایران یا فارس کی طرف گئے تو اس وقت حاکم وقت کے حکم سے گرفتار کیے گئے حاکم وقت نے کہا علی ؑ کو گالیاں دو تو چھوڑ دوں گا نہیں تو تمہارے سر کے بال اور آبرو مونڈوا دوں گا لیکن جناب عطیہ نے اپنے سر اور آبرو مونڈوا لیے لیکن علی ع کو گالی نہ دی
سلام ہو ایسے تابعین پر
اہل سنت منابع کے طرازِ اول کے علماءِ رجال و محدثین نے عطیہ عوفی کو ثقہ اور صالح قرار دیا ہے جن میں نامور شخصیات کو بیان کیے دیتا ہوں
۱۔ یحیی ابن معین نے صالح قرار دیا۔
۲۔ ابن جریر طبری نے ثقہ لکھا ہے۔
۳۔ ابن سعد نے طبقات میں توثیق کی ہے۔
٤۔ ابن عدی نے الکامل میں تحریر کیا ہے کہ عطیہ کی احادیث کو لکھا اور نقل کیا جائے گا۔
۵۔ یزید بن ہیثم نے تصریح کی ہے کہ عطیہ کی احادیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔
٦۔ ملا علی قاری نے جلیل القدر تابعی قرار دیا ہے۔
٧۔ ابن حجر عسقلانی نے صدوق قرار دیا ہے۔ البتہ بہت سے موارد میں عطیہ سے خطائیں وارد ہوئی ہیں۔
٨۔ ابو بکر بزّار نے تصریح کی ہے کہ عطیہ شیعہ تھے اور تمام بزرگان عطیہ سے حدیث لیتے اور نقل کرتے ہیں۔
٩ عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے۔
١٠۔ سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب مرآۃ الزمان میں عطیہ کو صرف ابن سعد كا قول كر كـ عطيہ کی وثاقت کو بیان کیا ہے
نیچے دئیے گئے سکین جو کہ کتب اھلسنت سے پیش کیے گئے ہیں وہ ثابت کریں گے کہ جناب عطیہ بن سعد العوفی ایک ثقہ راوی اور تابعین میں سے ہیں جن کا نام خود حضرت علی ؑ نے عطیہ رکھا اس لیے ان کی ثقاہت کے لیے یہی قول کافی ھے
کہ قال علی ؑ ھذا عطیة اللہ
تحریر و تحقیق سید ساجد بخاری