امام علی ابن ابی طالبؑ کی رائے عثمان بن عفان کے بارے میں

امام ابن شبہ النمیری (المتوفی ۲۶۲ھ) نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے ;
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا كَانَ قَدِمَ قَوْمٌ مِنْ مِصْرَ مَعَهُمْ صَحِيفَةٌ صَغِيرَةُ الطَّيِّ، فَأَتَوْا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ غَيَّرَ وَبَدَّلَ، وَلَمْ يَسِرْ مَسِيرَةَ صَاحِبَيْهِ، وَكَتَبَ هَذَا الْكِتَابَ إِلَى عَامِلِهِ بِمِصْرَ : أَنْ خُذْ مَالَ فُلَانٍ وَاقْتُلْ فُلَانًا وَسَيِّرْ فُلَانًا،
فَأَخَذَ عَلِيٌّ الصَّحِيفَةَ فَأَدْخَلَهَا عَلَى عُثْمَانَ فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذَا الْكِتَابَ؟ فَقَالَ: «إِنِّي لَأَعْرِفُ الْخَاتَمَ» ، فَقَالَ: اكْسِرْهَا فَكَسَرَهَا. فَلَمَّا قَرَأَهَا قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ مَنْ كَتَبَهُ وَمَنْ أَمْلَاهُ» . فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَتَتَّهِمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» . قَالَ: مَنْ تَتَّهِمُ؟ قَالَ: «أَنْتَ أَوَّلُ مَنْ أَتَّهِمُ» ، قَالَ: فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَامَ وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أُعِينُكَ وَلَا أُعِينُ عَلَيْكَ حَتَّى أَلْتَقِيَ أَنَا وَأَنْتَ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ
عبدالملک اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتا ہے کہ جب عثمان بن عفان پر وہ واقعات (بغاوت) رونما ہوگئے تو مصر کے کچھ افراد مدینہ آگئے ایک خط کے ساتھ اور وہ سیدھے علی ابن ابی طالبؑ کے پاس گئے اور ان سے کہا : اس آدمی (عثمان) نے سنت محمدی ﷺ اور اسکے دو ساتھیوں (ابوبکر و عمر) کو تبدیل کیا، اس نے یہ خط اپنے مصر کے گورنر کو ارسال کیا ہے اور کہا ہے کہ فلان کا مال کھانا، فلان کو قتل کرنا اور فلان کو جلائے وطن کرنا۔
علی ابن ابی طالبؑ اس خط کے سستھ عثمان کے پاس گیا اور ان سے کہا : کیا آپکو اس خط کا علم ہے ؟ عثمان نے جواب دیا : ہاں، یہ میری مہر ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اسکو کھولو اور پڑھ کر سناؤ۔عثمان بن عفان نے کہا : للہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے یہ خط لکھا ہے یا لکھوایا ہے۔ علیؑ نے اس سے کہا : کیا اپکو اپنے خاندان میں سے کسی پر شک ہے ؟ عثمان نے جواب دیا : ہاں۔ علیؑ نے کہا کون ؟ اس نے جواب دیا : تم۔
راوی کہتا ہے کہ یہ سن پر علیؑ وہاں سے غصہ ہوکر کھڑے ہوگئے اور کہا : اللہ کی قسم ! میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرونگا اقر نا ہی تمہارے خلاف کچھ کروں گا یہاں تک کہ ہم دونوں اللہ کے پاس حاضر نہ ہوجائیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ :
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَقَّاصِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَجَعَ أَهْلُ مِصْرَ إِلَى الْمَدِينَةِ قَبْلَ أَنْ يَصِلُوا إِلَى بِلَادِهِمْ، فَنَزَلُوا ذَا الْمَرْوَةِ فِي آخِرِ شَوَّالٍ، وَبَعَثُوا إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ أَعْتَبَنَا، ثُمَّ كَتَبَ يَأْمُرُ بِقَتْلِنَا، وَبَعَثُوا بِالْكِتَابِ إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَدَخَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْكِتَابِ فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عُثْمَانُ؟ فَقَالَ: «الْخَطُّ خَطُّ كَاتِبِي، وَالْخَاتَمُ خَاتَمِي، وَلَا وَاللَّهِ مَا أَمَرْتُ وَلَا عَلِمْتُ» . قَالَ: فَمَنْ تَتَّهِمُ قَالَ: «أَتَّهِمُكَ وَكَاتِبِي» . فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَرُدُّ عَنْكَ أَحَدًا أَبَدًا
محمد بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب اہل مصر واپس مدینے سے جا رہے تھے تو شوال کے آخر تک وہ ایک مقام ذو المروۃ تک پہنچے، انہوں نے کسی کو علی ابن ابی طالبؑ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا : عثمان بن عفان پہلے ہماری قدر کیا کرتا لیکن اب ہمارے قتل کا حکم دے رہا ہے۔ انہوں نے ایک خط بھی بھیجا ثبوت کے طور پر اور علیؑ عثمان کے پاس گیا اس خط کے ساتھ، علیؑ نے اس سے کہا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جقاب دیا : یہ میرے کاتب کا خط ہے اور اس پر میری مہر ہے۔ اللہ کی قسم میں نے ایسا کوئی خط حکم نہیں دیا ہے اور نا ہی اسکا علم ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مجھے آپ پر اور اپنے کاتب پر شک ہے۔یہ سن کر علیؑ کو غصہ آگیا اور کہا : اللہ کی قسم میں کسی کو بھی نہیں روکوں گا جو اپ پر حملہ کرے گا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِينَ حُصِرَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُمِلَتْ حَتَّى وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِدْرِهَا وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَتْ: «أَجِرْ لِي مَنْ فِي الدَّارِ» . قَالَ: نَعَمْ إِلَّا نَعْثَلًا وَشَقِيًّا، قَالَتْ: «فَوَاللَّهِ مَا حَاجَتِي إِلَّا عُثْمَانُ وَسَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ» . قَالَ: مَا إِلَيْهِمَا سَبِيلٌ. قَالَتْ: «مَلَكْتَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَسْجِحْ» قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَمَرَكِ اللَّهُ وَلَا رَسُولُهُ.
ماجشون سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بیوی، ام حبیبہ پردہ میں علی ابن ابی طالبؑ کے پاس گئی جب عثمان بن عفان کو گھر میں قید کیا گیا تھا اور علیؑ اس وقت منبر پر تھے تو انہوں علیؑ سے فرمایا : میں عثمان کے گھر کے تمام افراد کو اپنے امن میں رکھتی ہوں۔ علیؑ نے جواب دیا : نعثل (عثمان کا لقب) اور شقی (سعد بن العاص کا لقب) کے بغیر۔ ام حبیبہ نے کہا : میں ان دونوں کو ہی اپنے حفاظت میں لینا چاہتی ہوں۔ علیؑ نے جواب دیا کہ ان دونوں کو آزاد نہیں کیا جا سکھتا ہے۔ ام حبیبہ نے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے تمہارے پاس طاقت ہے لہذا انکو معاف کرو۔ علیؑ نے جواب دیا کہ اللہ اور اسکے رسول نے آپکو اسکی اجازت نہیں دی ہے۔
اسکی سند صحیح ہے۔
⛔️تاریخ مدینہ – ابن شبہ // جلد ۲ // صدحہ ۲۱۲ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں نعثل سے مراد کون ہے ؟
غریب الحدیث (حدیث میں مشکل الفاظ) کے عالم ابن الاثیر الجزائری (المتوفی ۶۰۶ھ) نے یوں لکھا ہے :
(نَعْثَلَ)
(هـ) فِي مَقْتَل عُثْمَانَ «لَا يَمْنَعنَّك مكانُ ابنِ سَلَامٍ أَنْ تَسُبَّ نَعْثَلًا» كَانَ أَعْدَاءُ عُثْمَانَ يُسَمُّونَهُ نَعْثَلا، تَشْبِيهًا بِرَجُلٍ مِنْ مِصر ، كَانَ طَوِيلَ اللِّحْيَةِ اسمُه نَعْثَل.
وَقِيلَ: النَّعْثَلُ: الشَّيْخُ الأحْمَقُ، وذَكَرُ الضِباع.
وَمِنْهُ حَدِيثُ عَائِشَةَ «اقتُلوا نَعْثَلا، قَتَل اللَّه نَعْثَلًا» تَعْني عُثْمَانَ. وَهَذَا كَانَ مِنْهَا لمَّا غاضَبَتَهْ وذَهَبَتْ إِلَى مَكَّةَ.
(نعثل)
عثمان کے مقتل میں یہ روایت آئی ہے کہ ابن سلام کا مقام آپکو نعثل کو برا کہنے سے نہیں روکے گا۔ عثمان کے مخالفین اسکو نعثل کے نام سے پکارتے تھے کیونکہ وہ مصر کے ایک آدمی جیسا تھا جسکی لمبی داڑھی تھی اور اسکا نام نعثل تھا۔
یہ بھی کہا کہ نعثل سے مراد بوڈھا احمق ہے، حیا کا ذکر۔
اور اس میں وہ حدیث ہے عائشہ کی کہ انہوں نے فرمایا : نعثل کو قتل کرو، اللہ نعثل کو قتل کرے، یعنی عثمان۔ انہوں نے یہ تب کہا جب وہ ان سے ناراض ہوگئی اور مکہ کی طرف رونہ ہوگئی۔
⛔️نھایۃ فی غریب الحدیث – ابن الجزائری // صفحہ ۸۳۵ // طبع دار ابن الجوزی ریاض سعودیہ۔
فوائد :
۱ – علی ابن ابی طالبؑ پہلے عثمان کو بچانا چاہتا تھا لیکن جب اس نے عثمان کی ہٹ دھرمی دیکھی تو اس نے اسکی کوئی معاونت نہ کی۔
۲ – عثمان کو لقب نعثل جناب عائشہ نے ہی دیا تھا۔