اللہ تعالی نے قرآن میں سورۃ الزمر : آیت ۳۳ میں یوں فرمایا ہے :
وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُون
ترجمہ : اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں۔
اس آیت کا مصداق اہل سنت اپنے پہلے خلیفہ ابوبکر کو قرار دیتے ہیں اور حوالے کے طور پر مسند البزار کی ایک لمبی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ جسکا کچھ حصہ اس طرح ہے :
عن أسيد بن صفوان صاحب رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لما توفي أبو بكر سجي بثوب فارتجت المدينة بالبكاء ودهش كيوم قبض رسول الله صلي الله عليه وسلم وجاء علي بن أبي طالب مسترجعا مسرعا وهو يقول اليوم انقطعت خلافة النبوة … فسماك الله في كتابه صديقا فقال والذي جاء بالصدق محمد صلي الله عليه وسلم وصدق به أبو بكر
اسید بن صفوان جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی تھے، ان سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب ابوبکر کی وفات ہوئی تو وہ کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے، تو مدینہ شہر اسی طرح آنسوؤں سے لرز اٹھا اور حیران رہ گیا جس طرح اس دن تھا جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے اور علی ابن ابی طالبؑ عجلت کے ساتھ واپس آگیا اور فرمایا : “آج نبوت کی خلافت ختم ہو گئی… اللہ نے آپ کا نام صدیق اپنی کتاب میں رکھا۔ پس فرمایا : “وہ جو سچے دین کے ساتھ آیا ہے وہ محمد ﷺ ہے اور جس نے اسکی تصدیق کی ابوبکر ہے۔
نور الدین ھیثمی (المتوفی ۸۰۷ھ) نے اسکو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد یوں لکھا :
رواه البزار وفيه عمر ابن إبراهيم وهو كذاب .
اسکو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اسکی سند میں عمر بن ابراھیم ہے جو جھوٹا تھا۔

اسی طرح ابن حجر عسقلانی (المتوفی ۸۵۲ھ) نے اس کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھا :
ومن طريق لين إلي علي بن أبي طالب الذي جاء بالصدق محمد صلي الله عليه وسلم والذي صدق به أبو بكر .
اور ایک کمزور روایت جو علی بن ابی طالبؑ سے آیا ہے اس میں ہے کہ وہ جو سچے دین کے ساتھ آیا ہے وہ محمد ﷺ ہے اور جس نے اسکی تصدیق کی ابوبکر ہے۔

لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس حدیث کی رو سے اس آیت کا مصداق ابوبکر کو قرار دینا جائز نہیں بلکہ جناب عائشہ کے مطابق انکے خاندان کے بارے میں کوئی آیت نازل ہی نہیں ہوئی سوائے واقعہ افک کے حوالے سے۔
محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی ۲۵۶ھ) نے اس طرح نقل کیا ہے :
حدثنا : موسى بن إسماعيل ، حدثنا : أبو عوانة ، عن أبي بشر ، عن يوسف بن ماهك قال : كان مروان على الحجاز إستعمله معاوية فخطب فجعل يذكر يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد أبيه ، فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئاً فقال : خذوه فدخل بيت عائشة فلم يقدروا فقال : مروان إن هذا الذي أنزل الله فيه : والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني فقالت عائشة من وراء الحجاب : ما إنزل الله فينا شيئاً من القرآن ألا إن الله أنزل عذري.
یوسف بن ماہک نے کہا کہ مروان بن حکم معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے حجاز کا حاکم تھا۔ اس نے خطبہ سنایا تو یزید بن معاویہ کا ذکر کرنے لگا تاکہ معاویہ کے بعد لوگ اسکی بیعت کرلیں۔ عبدالرحمان بن ابی بکر نے اس میں کچھ گفتگو کی تو مروان نے اسکی گرفتاری کا حکم دیا۔ وہ اپنی بہن عائشہ کے گھر میں چلے گئے، وہاں ان کو کوئئ پکڑ نہ سکا۔ اسکے بعد مروان کہنے لگا : تو وہی ہے جس کے باپ کے بارے میں اللہ نے یہ آیت اتاری : والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني ( اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا).
اس کا جواب عائشہ نے پردے کے پیچھے سے یوں دیا کہ اللہ نے ہمارے بارے میں کوئی آیت نازل ہی نہیں کی البتہ میری پاک دامنی میں نازل کی ہے (جو سورۃ توبہ میں ہے واقعہ افک کے حوالے سے).

لہذا اس حدیث سے بلکل واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر کے لئے قرآن میں کوئی خاص آیت نازل ہی نہیں ہوئی۔ نہ ہی اوپر والی آیت جو زیر بحث ہے اور نا ہی غار حرا والی آیت۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں ” جس نے اسکی تصدیق کی ” کا مصداق کون ہے ؟
مفسرین اہل سنت مثلاً مجاہد بن جبر (یہ عبداللہ بن عباس کا تفسیر میں شاگرد تھا) کے مطابق یہ تصدیق کرنے والے سے مراد علی بن ابی طالبؑ ہے۔
احمد لعمرانی جنہوں نے تفسیر میں ایک موسوعہ جمع کیا ہے۔ مجاھد کے تفسیر میں اس آیت کے زیل میں یوں نقل کرتے ہیں :
عن مجاهد في قوله عز وجل ﴿والذي جاء بالصدق وصدق به﴾ ” قال النبي و علي بن أبي طالب .
مجاھد نے اللہ کے اس قول ( وہ جو سچے دین کے ساتھ آیا اور جس نے اسکی تصدیق کی) سے مراد نبی ﷺ اور علی بن ابی طالب ہے۔









