تحریر:محمد ثقلین عباس

.
*اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اَلَّذِي جَعَلَنَا مِنَ اَلْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ»»*
مقدمہ خلافت کے اس حصہ میں ھم قرآن و حدیث سے تین اہم شبہات کی مختصر مگر جامع وضاحت پیش کریں گے جن میں:
1_*اگر علی ع مستحقِ خلافت تھے تو انہوں نے اپنی خلافت کے حصول کیلئے تلوار کیوں نہیں اٹھائی؟*
2_*اگر علی ع خود مستحقِ خلافت تھے تو خلفائے ثلاثہ سے تعاون کیوں کیا؟*
3_*اگر علی ع مستحقِ خلافت تھے تو اپنے اختیار کے تحت فدک واپس کیوں نہیں دلوایا؟*
اب تین شبہات کا ھم قرآن و حدیث سے مدلل جواب پیش کرتے ھیں اور تمام صاحبانِ عقل کو ایک دعوت فکر دیتے ھیں جیسا کہ اکثر اوقات تمام تر شبہات کا رخ مکتبِ تشیع کی طرف ھوتا ھے اور الحمدللہ اس پاک و پاکیزہ مکتب نے ہر طرح کے شبہات کا مدلل جواب قرآن و حدیث سے دیا ھے نیز انہی شبہات میں سے ایک انتہائی اہم شبہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع کے متعلق ھے جس کا ہم نے اوپر اشارہ دیا ھے یہ ایک قصہ نہیں بلکہ ایک انتہائی درد بھری *علی ع کی تنہائی* داستانِ حقیقت ھے چونکہ تاریخ اسلام میں جتنی بھی شخصیات گزری ھیں ان میں اگر مظلومیت کا نام ھے تو یہی وصی رسول علی ابن ابی طالب ع کی ذاتِ اقدس ھے اور ایسی شخصیت کہ جس کا پورا گھرانہ وارثانِ جنت ھے اور پورا گھرانہ اسلام پر قربان ھو گیا ، جنابِ خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہر اس اذیت و مصیبت کا علم تھا جو ان کے بعد اس گھرانے کو امت کی طرف سے ملنی تھیں کیونکہ نبی کریم ص نے خطبہ حجتہ الوداع یا غدیر میں بار بار ایسے نہیں بولا تھا کہ *اذکرکم الله فی اہلبیتی اذکرکم الله فی اہلبیتی اذکرکم الله فی اہلبیتی* “تمہیں اھلبیت ع کے متعلق الله کی یاد دلاتا ھوں ، تمہیں اھلبیت ع کے متعلق الله کی یاد دلاتا ھوں ، تمہیں اھلبیت ع کے متعلق الله کی یاد دلاتا ھوں”۔ لیکن امت نے پھر اھلبیت ع کے ساتھ کیا سلوک کیا کسی سے پوشیدہ نہیں ھے ، تو نکات میں اضافہ ھوتا جائیگا لہذٰا ھم اپنے نکتہ پہ آتے ھیں وہ یہ کہ بظاہر ھم پہ اعتراض کیا جا رہا ھوتا ھے کہ آپ لوگ حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ بلافصل وصی رسول مانتے ھو اگر یہ بات تھی تو انہوں نے اپنا حق حاصل کیوں نہیں کیا اب یہ اعتراض ھم پہ نہیں درحقیقت جنابِ رسول خدا ص اور متعدد انبیاء کرام علیہم السلام پہ ھے کیونکہ جنہوں نے تعصب کی عینک اتار دی ھے ان کیلئے تو ان نکات کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ھے اور ایسے شبہات پیدا ہی نہیں ھوتے کیونکہ قرآن مجید میں ہی ایسے شبہات کا بکثرت تذکرہ ملتا ھے لہٰذا ھم اس کی مختصر وضاحت کرتے ھیں۔
جنابِ خاتم النبیین محمد مصطفیٰ ص کی ہجرت پر آنے سے پہلے ھم سابقہ انبیاء کرام ع کی سیرتِ مقدسہ کے متعلق چند نکات بطور نمونہ پیش کرتے ھیں اب اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ امت نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو اذیت دینے سے بھی گریز نہیں کیا بلکہ بے دردی سے چن چن کر شہید کیا اور مختلف اذیتیں دی ھیں اور انہیں مغلوب کرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا حتیٰ کہ لوگوں کو بھی گمراہی کی طرف مائل کیا گیا بطور مثال جب حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف چالیس دن کیلئے کوہ طور پہ گئے تو پیچھے امت نے ان کے وصی حضرت ہارون علیہ السلام کو مغلوب کر دیا اور وہ بے بس ھو گئے اتنے بے بس کہ لوگ بات ہی نہیں سنتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
*وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ…..*
ترجمہ:”اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے: تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہہ کر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے ماں جائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں”
*(سورہ اعراف آیت 150)*
اب اگر غور کیا جائے تو بہت سے شبہات اس سے دور ھو جاتے ھیں کہ امت نے کس طرح حضرت ہارون علیہ السلام کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے بھی مجبور ھو گئے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال بھی ھمارے سامنے ھے انہوں نے بھی لوگوں کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے ایک ملک سے دوسرے کا سفر کیا یعنی بحالت مجبوری میں جیسا کہ قرآن مجید میں ھے :
*فَفَرَرۡتُ مِنۡکُمۡ لَمَّا خِفۡتُکُمۡ فَوَہَبَ لِیۡ رَبِّیۡ حُکۡمًا وَّ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ…..*
ترجمہ:”اسی لئے جب میں نے تم لوگوں سے خوف محسوس کیا تو میں نے تم سے گریز کیا پھر میرے رب نے مجھے حکمت عنایت فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا”
*(سورہ شعراء آیت 21)*
اب تمام شبہات قرآن مجید سے ہی دور ھوتے جا رھے ھیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتِ طیبہ کیسی رہی پھر ھمیں حضرت نوح علیہ السلام کی مثال ملتی ھے کہ جب امت نے انہیں بالکل مجبور اور بے بس کر دیا تو آپ ع یہ کہنے پر مجبور ھو گئے جیسا کہ کلامِ الٰہی میں ھے:
*فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ…..*
ترجمہ:”پس نوح ع نے اپنے رب کو پکارا: میں مغلوب ھو گیا ہوں پس تو انتقام لے”
*(سورہ قمر آیت 10)*
پھر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ھمارے سامنے حضرت لوط علیہ السلام کی مثال موجود ھے کہ ان کا بھی کوئی ساتھ دینے والا نہ رہا مطلب اتنے ساتھی ہی نہ رھے کہ وہ خود کو مضبوط کر سکیں بلکہ وہ بالکل بے بس ھو گئے جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
*قَالَ لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ…..*
ترجمہ:”لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا”
*(سورہ ھود آیت 80)*
تو واضح ھوا کہ امت کس طرح خداوند متعال کے برگزیدہ بندوں کو مغلوب کرتی ھے اور پھر انہی امثال میں سے ایک مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ھے جب لوگوں نے ان کی بات نہ مانی تو انہوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی جیسا کہ قرآن مجید میں ھے:
*وَ اَعۡتَزِلُکُمۡ وَ مَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا…..*
ترجمہ:”اور میں تم لوگوں سے نیز الله کے سوا جنہیں تم پکارتے ھو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا ، مجھے امید ھے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا”
*(سورہ مریم آیت 48)*
اس کی بہت سی مثالیں ھیں پھر ایک اہم مثال جنابِ رسول خدا خاتم النبیین ص کی ھے جب لوگوں کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے اور آپ ص کو مغلوب کرنے لگے تو الله تعالیٰ نے جنابِ رسول خدا ص کو ہجرت کا حکم دیا ان تمام نکات سے ھم واقف ھیں جس سے واضح ھو جاتا ھے کہ اوصیاء کا مغلوب ھونا تعجب خیز نہیں ھے بلکہ ھماری سوچ محدود ھے جو ھمیشہ ایک معترض کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتی ھے جبکہ حقائق بالکل واضح ھیں۔
قارئین محترم!
اب ھمارے سامنے ان انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرتِ مقدسہ ھے جس اوللعزم انبیاء علیہم السلام بھی موجود ھیں اور ان نکات سے ہی تمام شبہات دور ھو جاتے ھیں کہ یہ امتیں بہت کچھ کر جاتی ھیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی مغلوب تک کر جاتی ھیں حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو بے دردی سے شہید کر دیتی ھیں اور ان کے سر تک کاٹ دیتی ھیں جیسا کہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا *تو اب سوچنے کی بات ھے جب امتیں انبیاء کرام علیہم السلام جیسی برگزیدہ ہستیوں کو مغلوب کر سکتی ھیں تو انبیاء کرام کے اوصیاء کو کیوں مغلوب نہیں کر سکتی ھیں؟ یعنی امیر المومنین مولا علی ع کے ساتھ کیا ایسا نہیں ھو سکتا یا ھوا نہیں؟ اب یہاں تک تو یہ شبہات قرآن مجید سے دور ھو گئے ھیں لیکن ھم اس کو اب مزید واضح کریں گے تا کہ کوئی شک و شبہ باقی ہی نہ رھے۔
________________________________________________


اب ھمارے سامنے متعدد قرآنی آیات اور روایات ھیں جن کو اگر ھم کھول کھول کر بیان کرنا شروع کر دیں تو موضوع ختم نہیں ھونا اور اس موضوع پر ویسے بھی کثیر تعداد میں ثبوت ھیں جو دیئے جا سکتے ھیں لیکن ھم اختصار کو دیکھتے ھوئے کچھ ثبوت بطور نمونہ پیش کرتے جائیں گے جیسا کہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان کی حیات کے آخری ایام ھمارے سامنے ھیں کہ لوگوں نے وقت کے خلیفہ کو کس طرح مغلوب کر دیا وہ بھی مسلمانوں کے مرکز میں اور اتنے صحابہ کرام رض بھی موجود ھیں پھر فوج بھی موجود ھے لیکن اس کے باوجود بھی خلیفہ وقت مغلوب ھیں اور اپنے گھر میں ہی بیٹھ گئے کیا برادرانِ اسلامی نے مولا علی علیہ السلام پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کے متعلق بھی غور کیا ھے کہ جب خلیفہ وقت مغلوب ھو گئے اور جب مزاحمت کرنے کو کہا گیا تو بھی وہ مزاحمت کے قابل نہیں رھے بطور ثبوت ایک روایت نقل کرتے ھیں:
*حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ وَأَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّكَ إِمَامُ الْعَامَّةِ وَقَدْ نَزَلَ بِكَ مَا تَرَى وَإِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْكَ خِصَالًا ثَلَاثًا اخْتَرْ إِحْدَاهُنَّ إِمَّا أَنْ تَخْرُجَ فَتُقَاتِلَهُمْ فَإِنَّ مَعَكَ عَدَدًا وَقُوَّةً وَأَنْتَ عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ وَإِمَّا أَنْ نَخْرِقَ لَكَ بَابًا سِوَى الْبَابِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ فَتَقْعُدَ عَلَى رَوَاحِلِكَ فَتَلْحَقَ بِمَكَّةَ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّوكَ وَأَنْتَ بِهَا وَإِمَّا أَنْ تَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَّا أَنْ أَخْرُجَ فَأُقَاتِلَ فَلَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ خَلَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ بِسَفْكِ الدِّمَاءِ وَأَمَّا أَنْ أَخْرُجَ إِلَى مَكَّةَ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَسْتَحِلُّونِي بِهَا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُلْحِدُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ يَكُونُ عَلَيْهِ نِصْفُ عَذَابِ الْعَالَمِ فَلَنْ أَكُونَ أَنَا إِيَّاهُ وَأَمَّا أَنْ أَلْحَقَ بِالشَّامِ فَإِنَّهُمْ أَهْلُ الشَّامِ وَفِيهِمْ مُعَاوِيَةُ فَلَنْ أُفَارِقَ دَارَ هِجْرَتِي وَمُجَاوَرَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ يُلْحِدُ…..*
ترجمہ:”حضرت مغیرہ بن شعبہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی (رض) کے یہاں آئے، ان دنوں باغیوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آکر عرض کیا کہ آپ مسلمانوں کے عمومی حکمران ہیں ، آپ پر جو پریشانیاں آ رہی ہیں وہ بھی نگاہوں کے سامنے ہیں میں آپ کے سامنے تین درخواستیں رکھتا ہوں آپ کسی ایک کو اختیار کر لیجئے یا تو آپ باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کریں ، آپ کے پاس افراد بھی ہیں ، طاقت بھی ھے اور آپ برحق بھی ہیں اور یہ لوگ باطل پر ہیں یا جس دروازے پر یہ لوگ کھڑے ہیں، آپ اسے چھوڑ کر اپنے گھر کی دیوار توڑ کر کوئی دوسرا دروازہ نکلوائیں، سواری پر بیٹھیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں، جب آپ وہاں ہوں گے تو یہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، یا پھر آپ شام چلے جائیے کیونکہ وہاں اہل شام کے علاوہ حضرت امیر معاویہ بھی موجود ہیں۔ *حضرت عثمان رض نے فرمایا جہاں تک تعلق ھے اس بات کا کہ میں باہر نکل کر ان باغیوں سے قتال کروں تو میں نبی ص کے پیچھے سب سے پہلا وہ آدمی ہرگز نہیں بنوں گا جو امت میں خونریزی کرے* رہی یہ بات کہ میں مکہ مکرمہ چلا جاؤں تو یہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے تو میں نے نبی ص کو فرماتے ہوئے سنا ھے کہ قریش کا ایک آدمی مکہ مکرمہ میں الحاد پھیلائے گا، اس پر اہل دنیا کو ہونے والے عذاب کا نصف عذاب دیا جائے گا، میں وہ آدمی نہیں بننا چاہتا اور جہاں تک شام جانے والی بات ھے کہ وہاں اہل شام کے علاوہ امیر معاویہ م بھی ہیں تو میں دارالہجرۃ اور نبی ص کے پڑوس کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا” گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ھے”
*[مسند امام احمد / جلد 1 / باب: حضرت عثمان رضی الله عنہ کی مرویات / حدیث نمبر: 451]*
نیز جب گھر کا محاصرہ کیا گیا پھر اندر داخل ھو گئے اور خلیفہ وقت کی بیوی نائلہ خاتون کو بھی ان کے سامنے مارا پیٹا گیا حتیٰ کہ ہاتھ کی انگلیاں کاٹ دیں اس کے باوجود بھی خلیفہ وقت اتنے مغلوب ھو چکے تھے کہ کچھ بھی نہ کر سکے اب مقام تفکر ھے یہی بات ھم کہتے ھیں کہ مولا علی علیہ السلام کو بھی امت نے مغلوب کر دیا اس لئے مزاحمت نہیں کر سکے۔
________________________________________________


اب یہاں پہ قابلِ غور نکات ھیں جن کی وضاحت احادیثِ مبارکہ سے کریں گے چونکہ امیر المومنین مولا علی ع کو بعد از شھادتِ رسول خدا ص جو مشکلات پیش آنی تھیں وہ پہلے ہی جنابِ خاتم الانبیاء ص نے واضح کر دیں تھیں حتیٰ کہ اہلسنت و شیعہ دونوں منابع میں اس کے ابواب موجود ھیں ھم یہاں کچھ روایات بطور نمونہ پیش کرتے ھیں جن میں جنابِ رسول خدا ص نے واضح کر دیا تھا کہ میرے بعد امت علی ابن ابی طالب ع سے بیوفائی کرے گی اور انہیں اذیتیں دے گی اور خود رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ہی امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا کہ آپ صبر کیجئے گا جیسا بکثرت روایات موجود ھیں :


*حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: « إِنَّ مِمَّا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِي بَعْدَهُ…..*
*[هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ]*
حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا: بیشک نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جو مجھ سے عہد لئے ان میں سے ھے یہ امت میرے بعد آپ سے غداری کرے گی”
[یہ حدیث صحیح الاسناد ھے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا]
*[المستدرک علی الصحیحین / حدیث 4676]*
نیز حدیث نمبر 4677 بھی اسی کے متعلق ھے۔
________________________________________________


*حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ يَعْنِي النُّمَيْرِيَّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي اخْتِلَافٌ أَوْ أَمْرٌ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ السِّلْمَ فَافْعَلْ…..*
*[إسناده صحیح__احمد شاکر]*
ترجمہ:”حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ھے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب امت میں اختلافات ہوں گے ، اگر تمہارے لئے سلامتی ممکن ہو تو اسی کو اختیار کرنا”
*[مسند امام احمد / جلد 1 / باب: حضرت علی رضی الله عنہ کی مرویات / حدیث نمبر: 695]*
________________________________________________


*حدثنا : القواريري ، حدثنا : حرمي بن عمارة ، حدثنا : الفضل بن عميرة أبو قتيبه القيسي ، قال : حدثني : ميمون الكردي أبو نصير ، عن أبي عثمان ، عن علي بن أبي طالب ، قال : بينما رسول الله (ص) آخذ بيدي ونحن نمشي في بعض سكك المدينة إذ أتينا على حديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، ثم مررنا بأخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى مررنا بسبع حدائق كل ذلك أقول : ما أحسنها ، ويقول لك : في الجنة أحسن منها ، فلما خلا له الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، قال : قلت يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا من بعدي ، قال : قلت يا رسول الله في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك…..*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے……..پھر جب ھم راستے سے ہٹے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رونے لگے ، میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں رو رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا *”اس بغض کی وجہ سے جو تیرے لئے لوگوں کے سینہ میں ھے جس کا اظہار وہ میرے بعد کریں گے”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میرا دین سلامت رھے گا تو آپ ص نے فرمایا آپ ع کا دین سلامت رھے گا”
*[أبو يعلى الموصلي / مسند أبي يعلى الموصلي / باب: مسند علي بن أبي طالب / الجزء 1 / حدیث 561 / رقم الصفحة : 362_361]*
________________________________________________


*أيضا : بينا رسول الله (ص) أخذ بيدي ونحن نمشي في بعض سكك المدينة فمررنا بحديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، ثم مررت بأخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى مررنا بالسبع حدائق كل ذلك أقول : ما أحسنها ، ويقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما خلى له الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، قلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا من بعدي ، قلت : يا رسول الله في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك…..*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے کہ ایک مرتبہ رسول الله ص نے میرا ہاتھ پکڑا اور ھم مدینہ کی ایک گلی میں چل رھے تھے اتنے میں ھم ایک باغیچہ کے پاس سے گزرے میں نے کہا یا رسول الله ص یہ باغیچہ کتنا خوبصورت ھے آپ ص نے فرمایا: جنت میں تمہارے لئے اس سے خوبصورت باغیچہ ھے ، پھر ھم ایک اور باغیچہ کے پاس سے گزرے تو میں نے عرض کی یا رسول الله ص یہ باغیچہ کتنا خوبصورت ھے تو آپ ص نے فرمایا جنت میں تمہارے لئے اس سے خوبصورت باغیچہ ھے یوں ھم سات باغیچوں کے پاس سے گزرے اور ہر بار آپ ص نے یہی فرمایا ، جب آپ ص صاف کھلے راستے میں آ گئے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھے گلے لگا لیا اور درد مندانہ انداز میں رونے لگے ، میں نے عرض کی یا رسول الله ص آپ کیوں رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا: *”تمہارے متعلق لوگوں کے دلوں میں کینہ ھے جو میرے بعد ظاہر ھو گا”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میں دین پر سلامت و ثابت رہوں گا تو فرمایا: “یہ دین پر سلامت رہنے کی وجہ سے ھے”
*[المتقي الهندي / كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال / الجزء 13 / حدیث 36523]*
________________________________________________


*حدثنا : الحسن بن علوية القطان ، ثنا : أحمد بن عمرو محمد السكري ، ثنا : موسى بن أبي سليم البصري ، ثنا : مندل ، ثنا : الأعمش ، عن مجاهد ، عن ابن عباس (ر) ، قال : خرجت أنا والنبي (ص) وعلي (ر) في حشان المدينة ، فمررنا بحديقة ، فقال علي (ر) ما أحسن هذه الحديقة يا رسول الله ، فقال : حديقتك في الجنة أحسن منها ، ثم أومأ بيده إلي رأسه ولحيته ، ثم بكى حتى علا بكاؤه ، قيل ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور قوم لا يبدونها لك حتى يفقدوني…..*
*[الطبراني / المعجم الكبير / باب العين / مجاهد ، عن ابن عباس / الجزء 11 / رقم الصفحة 73 / حدیث 11084]*
________________________________________________


*وعن علي بن أبي طالب ، قال : بينا رسول الله (ص) آخذ بيدي ونحن نمشي في بعض سكك المدينة إذ أتينا على حديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، فقال : إن لك في الجنة أحسن منها ، ثم مررنا بأخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى مررنا بسبع حدائق ، كل ذلك أقول : ما أحسنها ، ويقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما خلا لي الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، قلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا من بعدي ، قال : قلت يا رسول الله في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك ، رواه أبو يعلي ، والبزار وفيه الفضل بن عميرة وثقه ابن حبان وضعفه غيره ، وبقية رجاله ثقات……*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے……..پھر جب ھم راستے سے ہٹے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رونے لگے ، میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں رو رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا *”اس بغض کی وجہ سے جو تیرے لئے لوگوں کے سینہ میں ھے جس کا اظہار وہ میرے بعد کریں گے”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میرا دین سلامت رھے گا تو آپ ص نے فرمایا آپ ع کا دین سلامت رھے گا”
*[الهيثمي / مجمع الزوائد ومنبع الفوائد / كتاب المناقب / باب مناقب علي بن أبي طالب (ع) / باب بشارته بالجنة / الجزء 9 / حدیث 14690 / رقم الصفحة 156_155]*
________________________________________________


*وقال أبي يعلى : ثنا : القواريري ، ثنا : حرمي بن عمارة ، ثنا : الفضل بن عميرة أبو قتيبه القيسي ، حدثني : ميمون الكردي أبو بصير ، عن أبي عثمان ، عن علي بن أبي طالب ، قال : بينما رسول الله (ص) آخذ بيدي ونحن نمشي في بعض سكك المدينة إذ أتينا على حديقة ، فقلت : يا رسول الله ، ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى مررنا بسبع حدائق ، كل ذلك أقول : ما أحسنها ، ويقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما خلا لي الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، قال : قلت يا رسول الله ، ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا من بعدي ، قال : قلت يا رسول الله ، في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك ، وقال البزار : ثنا : عمرو بن علي ، ومحمد بن معمر ، قالا : ثنا : حرمي بن عمارة به ، لا يروي عن النبي الا بهذا الاسناد ، ولا جاء عن أبي عثمان ، عن علي ، غير هذا ، وصححه الحاكم…..*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے……..پھر جب ھم راستے سے ہٹے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رونے لگے ، میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں رو رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا *”اس بغض کی وجہ سے جو تیرے لئے لوگوں کے سینہ میں ھے جس کا اظہار وہ میرے بعد کریں گے”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میرا دین سلامت رھے گا تو آپ ص نے فرمایا آپ ع کا دین سلامت رھے گا”
*[ابن حجر العسقلاني / المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية / كتاب المناقب / باب فضائل علي عليه السلام / الجزء 16 / شمار 3933 / رقم الصفحة 101]*
________________________________________________


*حدثنا : عمرو بن علي ، ومحمد بن معمر ، قالا : نا : حرمي بن عمارة بن أبي حفصة ، قال : نا : الفضل بن عميرة ، قال : حدثني : ميمون الكردي ، عن أبي عثمان النهدي ، عن علي ، قال : كنت أمشي مع رسول الله (ص) ، وهو آخذ بيدي ، فمررنا بحديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، ثم مررنا بأخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى مررنا بسبع حدائق ، كل ذلك أقول ما أحسنها ، وهو يقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما خلا له الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، فقلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور قوم لا يبدونها لك الا من بعدي ، قلت : في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك ، وهذا الحديث لا نعلمه يروي عن علي الا من هذا الوجه بهذا الاسناد ، ولا نعلم روى أبو عثمان النهدي ، عن علي الا هذا……*
*[البزار / مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار / ومما روى أبو عثمان النهدي ، عن علي / الجزء 2 / شمار 716 / رقم الصفحة :293]*
________________________________________________


35 – *وأنبأني صدر الحفاظ : أبو العلاء الحسن بن أحمد العطار الهمداني ، أخبرنا : أبو القاسم إسماعيل بن أحمد بن عمر الحافظ ، أخبرنا : أبو الحسين أحمد بن محمد بن أحمد ابن عبد الله ، أخبرني : أبو القاسم عيسى بن علي بن عيسى بن داود الجراح ، أخبرنا : أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي ، حدثنا : عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا : حرمي بن عمارة ، قال : حدثني : الفضل بن عميرة القيسي أبو قتيبه ، حدثني : ميمون الكردي أبو نصير ، عن أبي عثمان النهدي ، عن علي بن أبي طالب (ع) ، قال : كنت أمشي مع النبي (ص) في بعض طرق المدينة ، فأتينا على حديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، فقال : ما أحسنها ولك في الجنة أحسن منها ، ثم أتينا على حديقة أخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، فقال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى أتينا على سبع حدائق ، أقول : يا رسول الله ما أحسنها ، فيقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما خلا له الطريق اعتنقني وأجهش باكيا ، فقلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا بعدي ، فقلت : في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك…..*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے……..پھر جب ھم راستے سے ہٹے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رونے لگے ، میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں رو رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا *”اس بغض کی وجہ سے جو تیرے لئے لوگوں کے سینہ میں ھے جس کا اظہار وہ میرے بعد کریں گے”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میرا دین سلامت رھے گا تو آپ ص نے فرمایا آپ ع کا دین سلامت رھے گا”
*[المناقب الخوارزمی / جلد 1 / حدیث 35 / الصفحہ 65]*
________________________________________________


ابنِ عساکر نے تاریخ دمشق میں مندرجہ ذیل روایات نقل کی ھیں ملاحظہ فرمائیں:
*أخبرنا : أبو القاسم بن السمرقندي ، أنا : أبو الحسين بن النقور ، أنا : عيسى بن علي ، أنا : عبد الله بن محمد ، نا : عبيد الله بن عمر القواريري ، نا : حرمي بن عمارة ، حدثني : الفضل بن عميرة القيسي أبو قتيبه ، حدثني : ميمون الكردي أبو نصير ، عن أبي عثمان النهدي ، عن علي بن أبي طالب ، قال : كنت أمشي مع النبي (ص) فأتينا على حديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسن هذه الحديقة ، فقال : ما أحسنها ولك في الجنة أحسن منها ، ثم أتينا على حديقة أخرى ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها من حديقة ، قال : لك في الجنة أحسن منها ، حتى أتينا على سبع حدائق ، أقول : يا رسول الله ما أحسنها ، فيقول : لك في الجنة أحسن منها ، فلما إن خلا به الطريق اعتنقني ، ثم أجهش باكيا ، فقلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك الا بعدي ، فقلت : في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك…..*


*أخبرناه : أبو الحسن بن قبيس ، نا : وأبو منصور بن خيرون ، أنا : أبو بكر الخطيب ، أنا : الحسن بن أبي بكر ، أنا : عبد الله بن اسحاق بن ابراهيم البغوي ، نا : عبد الله بن أحمد بن كثير الدورقي أبو العباس وأحمد بن زهير ، قالا : أنا الفيض بن وثيق بن يوسف بن عبد الله بن عثمان بن أبي العاص ، قال أحمد بن زهير : قدم علينا سنة أربع وعشرين ومئتين ، نا : الفضل بن عميرة ، حدثني : ميمون الكردي مولى عبد الله بن عامر أبو نصير ، عن أبي عثمان النهدي ، عن علي بأبي طالب (ر) ، قال : مررت مع رسول الله (ص) بحديقة ، فقلت : يا رسول الله ما أحسنها ، قال : لك في الجنة خير منها ، حتى مررت بسبع حدائق ، وقال أحمد بن زهير : بتسع حدائق كل ذلك أقول له : ما أحسنها ، ويقول لك : في الجنة خير منها ، قال : ثم جذبني رسول الله (ص) وبكى ، فقلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور رجال عليك لن يبدوها لك الا من بعدي ، فقلت : بسلامة من ديني ، قال : نعم بسلامة من دينك…..*


*أخبرنا : أبو العز بن كادش ، أنا : أبو محمد الجوهري ، أنا : علي بن محمد بن أحمد بن نصير ، نا : عمر بن محمد القابلاني ، نا : أحمد بن بديل ، نا : المفضل بن ضمرة الأسدي ، نا : يونس بن خباب ، عن عثمان بن حاضر ، عن أنس بن مالك ، قال : خرجنا مع رسول الله (ص) فمر بحديقة ، فقال علي (ر) : ما أحسن هذه الحديقة ، قال : حديقتك في الجنة أحسن منها ، حتى مر بسبع حدائق كل ذلك يقول علي : يا رسول الله ما أحسن هذه الحديقة فيرد عليه النبي (ص) : حديقتك في الجنة أحسن منها ، ثم وضع النبي (ص) رأسه على احدى منكبي علي فبكى ، فقال له علي : ما يبكيك يا رسول الله ، قال : ضغائن في صدور أقوام لا يبدونها لك حتى أفارق الدنيا ، فقال علي (ر) : فما اصنع يا رسول الله ، قال : تصبر ، قال : فإن لم أستطع ، قال : تلقى جميلا ، قال : ويسلم لي ديني ، قال : ويسلم لك دينك…..*
*[ابن عساكر / تاريخ دمشق / حرف العين / 4933_علي بن أبي طالب واسمه عبد مناف بن عبد المطلب / الجزء 42 / رقم الصفحة 322 _323 _324]*
________________________________________________


…. *وفي رواية أخرى : فلما خلا له الطريق اعتنقني وأجهش باكيا ، فقلت : يا رسول الله ما يبكيك ، قال : ضغائن في صدور قوم لا يبدونها لك الا من بعدي ، فقلت : في سلامة من ديني ، قال : في سلامة من دينك…..*
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ھے……..پھر جب ھم راستے سے ہٹے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے معانقہ کیا اور پھر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم رونے لگے ، میں نے عرض کی: یا رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں رو رھے ھیں؟ تو آپ ص نے فرمایا *”اس بغض کی وجہ سے جو تیرے لئے لوگوں کے سینہ میں ھے جس کا اظہار وہ میرے بعد کریں گے”* میں نے عرض کی یا رسول الله ص کیا میرا دین سلامت رھے گا تو آپ ص نے فرمایا آپ ع کا دین سلامت رھے گا”
ابن الدمشقي / جواهر المطالب في مناقب الإمام علي بن أبي طالب ع / الجزء 1 / رقم الصفحة 230
________________________________________________
نوٹ:[مکتبِ اھلبیت ع میں معتبر کتب میں ان وجوہات کے پورے پورے ابواب موجود ھیں جن کی آئمہ اھلبیت علیھم السلام نے مفصل وضاحت کی کیونکہ یہی سوالات ان سے بھی پوچھے جاتے رھے ، نہج البلاغہ میں بھی متعدد خطبات میں وضاحت موجود ھے جیسا کہ مشہور خطبہ شقشقیہ ھے اس کے علاوہ شیخ صدوق رح کی ان موضوعات پہ گراں قدر کتاب ھے مثلاً علل الشرائع ، اس کے علاوہ عیون اخبار الرضا ، معانی الاخبار ، الامالی شیخ الطوسی ، احتجاج طبرسی ، مجمع الفضائل یا مناقب ابن آشوب وغیرہ میں اس پر کافی روایات ھیں جن کو نقل کرنا مشکل ھے ھم بطور نمونہ ایک دو چھوٹی روایات نقل کرتے ھیں ورنہ اگر الگ سے ان روایات پر بحث کرنا شروع کر دیں یا خطبہ شقشقیہ کو نقل کریں تو یہ اتنے طویل موضوع ھیں کہ بڑی بڑی کتب لکھی جا سکتی ھیں لہٰذا ھم دو روایات بطور نمونہ پیش کرتے ھیں]


*حدثنا أحمد بن الحسين، عن أبيه، عن محمد بن أبي الصهبان، عن محمد ابن أبي عمير، عن بعض أصحابنا قال: قلت لأبي عبد الله ” ع ” لم كف علي ” ع ” عن القوم؟ قال: مخافة ان يرجعوا كفارا…..*
امام جعفر الصادق علیہ السلام سے عرض کیا گیا حضرت علی علیہ السلام نے قوم سے کیوں ہاتھ روکے رکھا جنگ نہیں کی؟ تو آپ ع نے فرمایا صرف اس لئے کہ آپ ع کو خطرہ تھا کہ اگر ھم نے ان سے جنگ کی تو یہ سب کے سب پھر کافر ھو جائیں گے”
*[علل الشرائع / شیخ صدوق / باب: / حدیث نمبر 11 / الصفحہ 151 __اردو ترجمہ / جلد 2 الصفحہ 114]*
________________________________________________


*أخبرنا محمد بن محمد، قال: أخبرني المظفر بن محمد، قال:حدثنا أبو بكر محمد بن أبي الثلج، قال: حدثنا أحمد بن موسى الهاشمي، قال: حدثنا محمد بن حماد الشاشي، قال: حدثنا الحسن بن الراشد البصري، قال: حدثنا علي بن الحسن الميثمي، عن ربعي، عن زرارة، قال: قلت لأبي عبد الله (عليه السلام): ما منع أمير المؤمنين (عليه السلام) أن يدعو الناس إلى نفسه، ويجرد في عدوه سيفه؟ فقال: تخوف أن يرتدوا ولا يشهدوا أن محمدا رسول الله (صلى اللة عليه واله)…..*
ترجمہ:”حضرت زرارة رضی الله عنہ سے روایت ھے وہ بیان کرتے ھیں کہ میں نے ابی عبد الله امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا: وہ کیا وجہ تھی جس بنا پر امیر المومنین ع نے لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں دی اور اپنے دشمن کے مقابلے میں تلوار نہیں اٹھائی؟ تو آپ ع نے فرمایا: اس خوف سے کہ کہیں لوگ مرتد نہ ھو جائیں اور محمد رسول اللّه کی گواہی دینے سے بھی انکار کر دیں”
*[الامالی شیخ الطوسی / الصفحہ 230_229 / اردو ترجمہ صفحہ 345]*
________________________________________________
اس کے علاوہ کچھ مزید روایات جنہیں نقل نہیں کر رھے فقط سکین لگائے ھیں وہ مندرجہ ذیل کتب سے ھیں :
خصائص الکبریٰ/ امام جلال الدین سیوطی / جلد 2 / صفحہ 279
مدارج النبوت / محدث دہلوی / جلد 2 / صفحہ 500
سیرت النبی / علامہ شبلی نعمانی _ سید سلمان ندوی / جلد 3 / صفحہ 452
تاریخ الخلفاء امام جلال الدین السیوطی / صفحہ 452
ازالتہ الخفاء / محدث دہلوی / صفحہ 487_486
عیون اخبار الرضا / شیخ صدوق / جلد 2 / صفحہ 177
مجع الفضائل / ابن شہر آشوب / جلد 2 / صفحہ 155__150
احتجاج طبرسی / شیخ طبرسی رح / صفحہ 301_302_302_315_316
________________________________________________
قارئین محترم!
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور روایات سے اس متعلق تمام شبہات دور ھو جاتے ھیں اسی لئے ھم نے کہا کہ اعتراض کرنے سے پہلے ان حقائق سے بھی آشنا ھونا چاھئے ویسے بھی لوگوں کو امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع جیسی عظیم ہستی قیامت تک سمجھ نہیں آنی کیونکہ جن کے ہاں ان کا رتبہ ہی ایسا ھو کہ جیسے وہ ایک عام سے امتی ھوں لوگ کیا جانیں خاتونِ جنت جنابِ زہرا سلام الله عیلھا کے شوہر اور امام حسن و حسین ع کے باپ کی عظمت جن کا مقام کسی سے پوشیدہ نہیں ھے لہٰذا ھم نے تمام حقائق کو مختصر بیان کیا باقی ھدایت دینا پروردگارِ عالم کا کام ھے ھم فقط دعوت فکر دے سکتے ھیں۔
________________________________________________


اب اکثر اوقات یہ سوال بھی کیا جاتا ھے کہ جب خلافت امیر المومنین مولا علی ع کا حق تھا تو وہ خلفاء کے ساتھ تعاون کیوں کرتے رھے؟ اب مقام تفکر ھے جن لوگوں کو نظام کی سمجھ بھی نہ آئے تو اس حوالے سے ھم دو نکات پیش کرتے ھیں تا کہ سادہ لوح عوام کیلئے اس شبہ کو سمجھنے میں آسانی ھو :

امیر المومنین مولا علی ع خلفیة الله اور وصی رسول ھیں خداوند متعال نے ان کا انتخاب بھی امت کی رہنمائی کیلئے کیا ھے تو اب امیر المومنین کا کام امت کی رہنمائی کرنا تھا جنابِ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ھیں:
*في كل خلف من أمتي عدول من أهل بيتي ينفون عن هذا الدين تحريف الضالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ألا وإن أئمتكم وفدكم إلي الله عز وجل فانظروا من توفدون…..*
“ہر زمانے میں میرے اھلبیت ع میں سے عادل افراد میری امت میں موجود ہوں گے کہ جو گمراہ افراد کی تحریف ، باطل نسبتوں اور جاہلوں کی غلط تاویلوں کو دین سے دور کریں گے ، آگاہ ھو جاؤ کہ تمہارے امام تم کو خداوند کے پاس لے کر جانے والے ھیں ، پس غور کرنا کہ کس کو تم روانہ کرنے والے ھو (یعنی ہر کسی کو اپنا امام تسلیم نہ کرنا)”
*[الصواعق المحرقة / امام ابن حجر ھیثمی / جلد 2 / الصفحة 441]*
لہذٰا یہ اعتراض بنتا ہی نہیں کیونکہ خداوند عالم کی طرف سے منتخب ان ہستیوں کا کام ہی لوگوں کی بھلائی چاہنا اور اصلاح و رہنمائی کرنا ھے۔

یہ انتہائی اہم نکتہ ھے لیکن سمجھنا انتہائی آسان ھے وہ یہ کہ امیر المومنین مولا علی ع کا خلفاء کے ساتھ تعاون کس بنیاد پر تھا یا کس نوعیت کا تھا؟ کیونکہ مولائے متقیان علی ع کو خلفاء کی ضرورت نہیں تھی بلکہ خلفاء کو مولا علی علیہ السلام کی ضرورت تھی کیونکہ ھمارے نزدیک خلیفہ وہ ھوتا ھے جو حجت الہیٰ اور علم لدنی کا مالک ھو جو لوگوں کو تمام احکاماتِ شریعت سیکھائے اور لاگو کرے نہ کہ خود ان احکامات سے نا واقف و نا آشنا ھو لیکن ھم دیکھتے ھیں کہ خلفائے ثلاثہ سے شرعی احکام کے متعلق فیصلوں میں غلطیاں ھو جاتی تھیں صحاحِ ستہ ان روایات سے بھرپور ھیں پھر ان کی اصلاح کرنا بھی امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع کا فریضہ تھا اگر علی ع بھی اصلاح نہ کرتے تو کون کرتا؟
اسی لئے تو حضرت عمر بھی ان فیصلوں سے پناہ مانگتے تھے جن میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع کی ذاتِ اقدس نہ ھو بطور نمونہ:
*…..يحيي بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن وقال في المجنونة التي أمر برجمها وفي التي وضعت لستة أشهر فأراد عمر رجمها فقال له علي إن الله تعالي يقول وحمله وفصاله ثلاثون شهرا الحديث وقال له إن الله رفع القلم عن المجنون الحديث فكان عمر يقول لولا علي لهلك عمر…..*
حضرت سعید بن مسیب کہتے ھیں کہ عمر رض ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتا تھا کہ ایک علمی مشکل پیش آ جائے اور اس کو حل کرنے کیلئے ابو الحسن علی ابن ابی طالب ع موجود نہ ھوں ، ان موارد میں سے ایک پاگل عورت تھی کہ عمر نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا اور ایک دوسری تھی کہ جس نے چھ ماہ کے بچے کو جنم دیا تھا اور عمر اس پر بھی حد جاری کرنا چاہتا تھا ، علی ع نے فرمایا: “خداوند نے فرمایا ھے: حمل اور دورھ پلانے کی کل مدت تیس مہینے ھے پھر مولا علی ع نے فرمایا: خداوند نے پاگل سے تکلیف کو اٹھا دیا ھے ایسے موارد میں ہی عمر کہا کرتا تھا: *”اگر علی ع نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ھو جاتا”*
*[الاستيعاب في معرفة الأصحاب / يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر / الجزء 3 / الصفحة 1103]*
نیز متعدد امثال موجود ھیں جن کو نقل کرنا بھی نا ممکن ھے پھر ان وجوہات کے باوجود بھی کچھ کم فہم لوگ *نہج البلاغہ کے ایک خطبہ* سے بھی استدلال کر رھے ھوتے ھیں جس میں مولا علی علیہ السلام خلیفہ ثانی کو امت کی بھلائی کیلئے مشورہ دے رھے ھیں ھم اس کی وضاحت خود برادرانِ اسلامی کی کتب سے ہی پیش کر دیتے ھیں کہ جب جنگی مواقع ھوتے تو اس وقت بھی سب کو امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع سے رجوع کرنا پڑتا جیسا کہ جنگ کا مشہور واقعہ ھے کہ حضرت عمر نے متعدد اصحاب سے مشورہ لیا لیکن کسی نے مفید مشورہ نہیں دیا *امام ابن ابی العاصم الکوفی نے اپنی گراں قدر کتاب الفتوح* میں اس کی وضاحت کی ھے جب خلیفہ ثانی کو حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ نے خط بھیج کر حالات کی کشیدگی سے آگاہ کیا تو حضرت عمر پریشانی کی حالت میں خطبہ کیلئے تشریف لائے اور مختلف اصحاب سے مشورہ لینا شروع کیا جن میں حضرت عثمان بن عفان ، حضرت طلحہ بن عبید الله ، عبد الرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن العوام وغیرہ نے مشورہ دیا لیکن حضرت عمر کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کیا جائے بالآخر حضرت عمر کو مولا علی علیہ السلام کی ضرورت پڑی اور کہا:
*يا أبا الحسن ! لم لا تشير بشيء كما أشار غيرك ؟*
اے ابو الحسن ! دوسروں کی طرح آپ کیوں کوئی رائے نہیں دے رھے؟
تو امیر المومنین مولا علی علیہ السلام نے اسلام کی بقاء اور مسلمانوں کی بھلائی کیلئے خلیفہ ثانی کی رہنمائی کرنا شروع کی اور فرمایا:
*إن كتبت إلي الشام أن يقبلوا إليك من شامهم لم تأمن من أن يأتي هرقل في جميع النصرانية فيغير علي بلادهم ويهدم مساجدهم ويقتل رجالهم ويأخذ أموالهم ويسبي نساءهم وذريتهم ، وإن كتبت إلي أهل اليمن أن يقبلوا من يمنهم أغارت الحبشة أيضا علي ديارهم ونسائهم وأموالهم وأولادهم وإن سرت بنفسك مع أهل مكة والمدينة إلي أهل البصرة والكوفة ثم قصدت بهم قصد عدوك انتقضت عليك الأرض من أقطارها وأطرافها ، حتي إنك تريد بأن يكون من خلفته وراءك أهم إليك مما تريد أن تقصده ، ولا يكون للمسلمين كانفة تكنفهم ولا كهف يلجؤون إليه ، وليس بعدك مرجع ولا موئل إذ كنت أنت الغاية والمفزع والملجأ ، فأقم بالمدينة ولا تبرحها فإنه أهيب لك في عدوك وأرعب لقلوبهم ، فإنك متي غزوت الأعاجم بنفسك يقول بعضهم لبعض : إن ملك العرب قد غزانا بنفسه لقلة أتباعه وأنصاره ، فيكون ذلك أشد لكلبهم عليك وعلي المسلمين ، فأقم بمكانك الذي أنت فيه وابعث من يكفيك هذا الامر والسلام…..*
“اگر شام کے لوگوں کو خط لکھو گے تو وہ تمہاری مدد کے لئے شام سے نکلیں گے تو اس سے اس بات کا خطرہ ھے کہ نصرانی ہرقل کی سالاری میں سر زمینِ شام پر حملہ کر کے وہاں کی مساجد کو منہدم، مردوں کو قتل، اموال کو غارت اور عورتوں کو قید کر لیں گے اور اگر اہل یمن کو خط لکھ کے مدد کے لئے بلاؤ گے تو وہ حبشہ کے لوگوں سے محفوظ نہیں ہوں گے کہ وہ انکی سر زمین پر حملہ آور ہوں گے اور انکے اموال کو غارت، انکی عورتوں کو قید اور انکے بچوں کو قتل کر دیں گے اور اگر خود تم مکہ اور مدینہ کے لوگوں کے ساتھ بصرہ اور کوفہ کی طرف حرکت کرو گے تا کہ دشمن تک پہنچ سکو تو تمہارے بعد مسلمانوں کیلئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہو گی کہ جسکا وہ سہارا لیں، پس تم خود مدینہ میں ہی رہو کہ اس سے دشمن کے دل میں وحشت اور خوف زیادہ ہو جائے گا کیونکہ اگر خود تم ایرانیوں سے جنگ کیلئے جاؤ گے تو وہ کہیں گے کہ عربوں کا راہبر تنہا رہ گیا ھے اور اسکے لشکر کی تعداد کم رہ گئی ھے تو اس سے وہ زیادہ جوش کے ساتھ لشکر اسلام سے جنگ کریں گے، پس اپنے لشکر کو دشمن کی طرف بھیجو اور خود یہاں ہی رہو”
*[كتاب الفتوح / العلامة أبي محمد أحمد بن أعثم الكوفي / الصفحة 290__295]*
قارئین محترم!
پس ثابت ھوا کہ امیر المومنین مولا علی ع نے اسلام کی بقاء و استحکام اور مسلمانوں کی بھلائی و رہنمائی کے طور پر یہ سب کیا اور یہ کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع جنہوں نے کفار کے ساتھ وہ حشر کیا کہ جنابِ رسول خدا کے زمانے میں کوئی ایک بھی خاندان نہ تھا جس میں علی ع کی تلوار سے بچا ھوا کوئی سالم مرد موجود ھو کیا وہ علی ع خلفاء کے دور میں کفار کو اسلام پر غالب ھوتا دیکھ کر بھی معاذ الله ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے؟ ہرگز نہیں علی ابن ابی طالب ع سے جس قدر ممکن ھوا 25 سال اسلام کی بقاء و بھلائی کیلئے کوشاں رھے۔
________________________________________________


اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ھیں حتیٰ کہ کتب میں پورے پورے ابواب موجود ھیں لیکن ھم فقط تین روایات بطور نمونہ پیش کرتے ھیں:


*حدثنا علي بن أحمد بن محمد الدقاق قال: حدثني محمد بن أبي عبد الله الكوفي عن موسى بن عمران النخعي عن عمه الحسين بن يزيد النوفلي، عن علي بن سالم عن أبيه، عن أبي بصير عن أبي عبد الله ” ع ” قال: قلت له لم لم يأخذ أمير المؤمنين ” ع ” فدك لما ولى الناس ولأي علة تركها؟ فقال: لان الظالم والمظلوم كانا قدما على الله عز وجل، وأثاب الله المظلوم، وعاقب الظالم. فكره ان يسترجع شيئا قد عاقب الله عليه غاصبه وأثاب عليه المغصوب…..*
“حضرت ابو بصیر رضی الله عنہ سے روایت ھے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جب امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع خلیفہ ھوئے تو فدک واپس کیوں نہیں لیا اسے کیوں چھوڑ دیا؟ آپ ع نے فرمایا کہ ظالم و مظلوم دونوں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچیں گے تو الله تعالیٰ مظلوم کو ثواب دے گا اور ظالم پر عتاب کرے گا تو آپ ع نے اس کو پسند نہ کیا کہ جس پر مظلوم کو ثواب ھے اور ظالم کو عتاب اس کو واپس لے لیں”


*حدثنا أحمد بن علي بن إبراهيم بن هاشم رحمه الله قال حدثنا أبي، عن أبيه إبراهيم بن هاشم، عن محمد بن أبي عمير، عن إبراهيم الكرخي قال: سألت أبا عبد الله ” ع ” فقلت له لأي علة ترك علي بن أبي طالب ” ع ” فدك لما ولى الناس فقال: للاقتداء برسول الله صلى الله عليه وآله لما فتح مكة وقد باع عقيل بن أبي طالب داره فقيل له يا رسول الله ألا ترجع إلى دارك؟ فقال صلى الله عليه وآله وهل ترك عقيل لنا دارا إنا أهل بيت لا نسترجع شيئا يؤخذ منا ظلما. فلذلك لم يسترجع فدك لما ولى…..*
“امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ جب امیر المومنین ع خلیفہ ھوئے تو آپ ع نے فدک کیوں چھوڑا ؟ آپ ع نے فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ھوئے ، اس لئے کہ جب آپ ص نے مکہ فتح کیا تو اس وقت تک عقیل آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا گھر فروخت کر چکے تھے ، آپ ص سے کیا گیا یا رسول الله ص اپنے گھر کیوں نہیں چلتے ؟ آپ ص نے فرمایا کہ کیا عقیل نے چھوڑا ھے؟ سنو! ھم اھلبیت ع اس چیز کو واپس نہیں لیتے جسے ھم سے بطور ظلم لے لیا گیا ھو ۔ بس اسی وجہ سے امیر المومنین ع نے بھی جب خلیفہ ھوئے تو فدک کو واپس نہیں کیا”


*حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال: حدثنا أحمد بن سعيد الهمداني قال حدثنا علي بن الحسن بن علي بن فضال عن أبيه عن أبي الحسن ” ع قال: سألته عن أمير المؤمنين لم لم يسترجع فدكا لما ولى الناس؟ فقال: لأنا أهل بيت لا نأخذ حقوقنا ممن ظلمنا الا هو ونحن أولياء المؤمنين إنما نحكم لهم ونأخذ حقوقهم ممن ظلمهم ولا نأخذ لأنفسنا…..*
الحسن بن علي بن فضال سے روایت هے وہ کہتا هے کہ امام علي رضا علیه السلام سے سائل نے کہا کہ میں نے امام ع سے امیر المومنین علیه السلام کے سلسلے میں سوال کیا کہ جب آپ ع کو حکومت ملی تو آپ ع نے فدک واپس کیوں نہیں لیا؟ تو امام علي رضا ع نے جواب دیا کہ ہم اھلبیت ع کو جب الله عزوجل حکومت دیتا ھے تو هم اپنے اوپر ظلم کرنے والے سے اپنے لئے اپنے حقوق واپس نہیں لیتے بلکه الله ہمارا حق واپس لیتا ھے اور هم تو مومنین کے ولی و سرپرست ھیں ، هم بس انهیں کی خاطر حکومت قبول کرتے ھیں اور انهیں کے حقوق ظالمین سے واپس لیتے ھیں اور ہم اپنے لئے کچھ نهیں لیتے”
*[علل الشرائع / شیخ صدوق / الباب _ 124 :العلة التي من اجلها ترك أمير المؤمنين فدك لما ولي الناس / الصفحہ 155__ اردو ترجمہ جلد 2 / الصفحہ 117_116]*
*اس کے علاوہ مزید وضاحت کیلئے مندرجہ ذیل کتب سے رجوع فرمائیں:*
عیون اخبار الرضا / شیخ صدوق / جلد 2 / صفحہ 188
مجع الفضائل / ابن شہر آشوب / جلد 2 / صفحہ 155__150
________________________________________________
قارئین محترم!
ھم نے فقط چند حقائق بطور نمونہ پیش کئے ھیں ورنہ اس موضوع پر ابھی مزید کلام کیا جا سکتا ھے کیونکہ یہ اتنا وسیع ھے کہ اس کو جتنا پھیلاتے جائیں اتنا ہی بکھرتا جائے تو اب دعوت فکر ھے ان لوگوں کیلئے جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب ع جیسی برگزیدہ و مظلوم ہستی پر اعتراض کرتے ھیں اور ھم نے ثابت کیا کہ امیر المومنین ع کی شخصیت پر اس طرح کا اعتراض کرنے سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام پر بھی اعتراض کیا جائے نیز حضرت عثمان بن عفان پر بھی پھر یہی اعتراض بنتا ھے لیکن ھم نے تو کبھی اس طرح اعتراض نہیں کیا کیونکہ ھمارے اندر اتنی بصیرت ھے کہ ھم حالات کی نوعیت کا اندازہ لگا سکتے ھیں باقی معترضین کا کام ھمیشہ اعتراض کرنا ھوتا ھے جن کا جواب ھم دیتے رہیں گے باقی ھدایت کا دروازہ ہر کسی کیلئے کھلا ھوا ھے کہ وہ اھلبیت علیھم السلام سے تمسک و وابستگی اختیار کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں یہ بھی نہ بھولیں کہ ھدایت دینا پروردگارِ عالم کا کام ھے اور جو بھی اس قابل بننا چاھتے ھیں انہیں تعصب سے نکلنا ھو گا۔











































































.
.
.
.
حضرت علی علیه السلام ارشاد فرماتے ہیں اللهﷻ کی قسم میرے برداشت کرنے اور صبر سے کام لینے کی وجہ میرا یہ خوف تھا کہ کہیں ایمان کے کچے نئے نئے مسلمان آپس میں ہی ایک دوسرے پر نہ چڑھ دوڑیں اور واپس کفر کی طرف کہیں نہ پلٹ جاویں۔

