اگر رسول اللہ اُس زمانہ میں حیات ھوتے تو حضرت فاطمه س کو ڈرانے کہ جس وجہ سے انکا بچه سقط ھوا) ان لوگوں کا خون مباح قرار دے دیتے۔۔۔

ابن ابی الحدید معتزلی (سنی مذھب) اپنے استاد نقیب ابو جعفر (انکا تعارف مختصراً آخر میں عرض کرتا ھوں) کیساتھ ایک مکالمہ نقل کرتا ھے جو اھل دقت افراد کے لیے لائق مطالعہ ھے۔۔
✍ … فكان أول من سبق إليها هبار بن الأسود بن عبد المطلب بن أسد بن عبد العزى بن قصي و نافع بن عبد القيس الفهري فروعها هبار بالرمح و هي في الهودج و كانت حاملا فلما رجعت طرحت ما في بطنها و قد كانت من خوفها رأت دما و هي في الهودج فلذلك أباح رسول الله ص يوم‌دم هبار بن الأسود .قلت و هذا الخبر أيضا قرأته على النقيب أبي جعفر رحمه الله فقال إذا كان رسول الله ص أباح دم هبار بن الأسود لأنه روع زينب فألقت ذا بطنها فظهر الحال أنه لو كان حيا لأباح دم من روع فاطمة حتى ألقت ذا بطنها فقلت أروي عنك ما يقوله قوم‌ – إن فاطمة روعت فألقت المحسن فقال لا تروه عني و لا ترو عني بطلانه فإني متوقف في هذا الموضع لتعارض الأخبار عندي فيه.
مشرکین میں سے سب سے پہلے جو حضرت زینب کے ناقہ کیطرف آیا وہ ھبار بن اسود تھا س نے ایک نیزہ کو حضرت زینب کے ھودج کیطرف پھینگا جس سے حضرت زینب ڈر گئ جبکہ وہ حاملہ تھی اب جیسے ھی حضرت زینب مدینہ پہنچی انکا بچہ سقط ھو گیا (یعنی حمل ضائع ھو گیا) اس لیے جب مسلمان نے مکہ پر فتح حاصل کی پیامبر گرامی ص نے اعلان کیا جہاں بھی ھبار بن اسود کو پاؤ قتل کر دو۔
ابن بی الحدید شارح نھج البلاغہ اس خبر کو نقل کرنے کے بعد کہتا ھے کہ میں نے اس روایت کو نقیب ابی جعفر رحمۃ الله علیه کے لیے بیان کیا۔
تو انھوں نے کہا: جب رسول اللہ نے حضرت زینب کو ڈرانے اور بچہ سقط ھونے پر ھبار بن اسود کے خون کو مباح قرار دے دیا تو اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اگر پیامبر اس زمانہ میں حیات ھوتے بغیر کی شک کے ان لوگوں کے خون کو جنھوں نے سیدہ فاطمه کو ڈرایا اور انکے بچہ کے سقط کا سبب بنے مباح قرار دے دیتے۔۔
(اب یہ ذرا بغور پڑھیے گا)💢
ابن ابی الحدید کہتا ھے میں نے نقیب سے کہا کیا میں یہ بات جو آپ نے کی اسے آپ سے منسوب کر کے نقل کر سکتا ھوں۔۔
نقیب نے کہا: نہیں مجھ سے نقل نہ کرو لیکن اس خبر کے باطل ھونے کو بھی مجھ سے نقل نہ کرو کیونکہ میں اس بارے کوئ روایات کے تعارض کی وجہ سے کوئ اپنی نظر بیان کرنا نہیں چاھتا۔۔
یعنی اس وقت چھٹی صدی کے آواخر میں بھی اس قضیہ پر اظہار نظر کرنے سے گریز کیا جاتا تھا
اور اس سے یہ بھی معلوم ھوتا ھے یہ قضیہ طول تاریخ میں علماء عامہ و خاصہ کے درمیان زیر بحث رھا ھے۔۔
(جہاں آگ ھو دھواں وھی اٹھتا ھے)
نقیب ابو جعفر کا مختصر تعارف اھل مطالعہ افراد کے لیے)
ابوجعفر یحیی بن أبی زید علوی چھٹی صدی کی ایک نہایت علمی شخصیت گزری ھیں انکا متوفی 613 ھ ھے
انکا لقب نقیب تھا۔۔
ابن ابی الحدید معتزلی نے انکو درک کیا ھے اور ان سے استفادہ کرتا تھا ھے جسکا مشاھدہ آپ ابن ابی الحدید کی مشھور زمانہ کتاب شرح نھج البلاغہ میں کر سکتے ھیں۔
جگہ جگہ ابن ابی الحدید کی ان کیساتھ گفتگو موجود ھے
خاص کر خلافت کے موضوع پر۔۔۔
کہا جاتا ھے یہ زیدیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن علی التحقیق انکا امامیہ ھونا قرین قیاس سمجھا جاتا ھے۔
سید شھباز نقوی(اصفھان)
لعن الله علی ظالمیک یا فاطمه سلام اللہ علیہا
No photo description available.