حضرت فاطمہ بنت حسن ع
فاطمہ بنت الحسن ع جلیل القدر سیدہ ہیں فاطمہ بنت حسن ع پہلے امام ع کی پوتی ہیں دوسرے امام حسن ع کی بیٹی تیسرے امام حسین ع کی بھتیجی اور بہو ہیں چوتھے امام سجاد ع زوجہ ہیں امام محمد باقر ع کی والدہ ہیں چھٹے امام ع سے بارہویں امام ع تک سات آئمہ طاہرین ع کی دادی ہیں
امام محمد باقر ع کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نانا اور دادا کی طرف سے ہاشمی علوی اور فاطمی ہیں فضیلت کا یہ اجتماع منفرد ہے
حضرت فاطمہ بنت حسن ع کی کنیتیں متعدد ہیں جو مورخین نے لکھی ہیں آپ ع کے چار فرزند تھے محمد حسن حسین اور عبداللہ انہیں کی وجہ سے یہ کنیت مشہور ہیں محمد ام الحسن ام الحسین ام الخیر ام عبداللہ مورخین نے کنیتوں کو الگ سمجھ کر امام حسن ع کی بہت سی بیٹیاں لکھ دیں حالانکہ یہ تمام کنیتیں صرف ایک سیدہ فاطمہ بنت حسن ع کی ہیں
آپکو سیدہ نساء بنی ہاشم کہتے ہیں امام سجاد ع آپ کو صدیقہ کے نام سے مخاطب فرماتے تھے (کافی.مناقب.اعیان الشیعہ)
حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا
فاطمہ بنت حسن ع صدیقہ تھیں اور آل امام حسن ع میں وہ بے مثل خاتون تھیں (کافی .اعیان الشیعہ)
محدث محمد ہاشم مشہدی منتخب التواریخ میں لکھتے ہیں
ام عبداللہ فاطمہ بنت حسن ع زوجہ امام زین العابدین ع والدہ محترمہ امام محمد باقر ع حسن ع اور حسین ع اور عبداللہ ع یہ مخدومہ امام حسن ع کی اولاد میں جلالت قدر کے لحاظ سے ممتاز درجہ رکھتی تھیں
مناقب ابن شہر آشوب میں تحریر ہے کہ
امام محمد باقر ع ہاشمیوں میں ہاشمی علوی میں علوی اور فاطمیوں میں فاطمی تھے اپنی مادر گرامی کی وجہ سے اس لیے آپ وہ پہلی ہستی ہیں جن میں امام حسن ع اور امام حسین ع دونوں کا خون شامل تھا
آپ کی والدہ ماجدہ ام عبداللہ فاطمہ بنت حسن ع ہیں اور امام حسن ع اور امام حسین ع کے اوصاف آپ ع میں مجتمع تھے دعوات الراوندی میں تحریر ہے کہ
امام محمد باقر ع نے ارشاد فرمایا کہ میری والدہ ماجدہ دیوار کے قریب تشریف فرما تھیں اور اچانک دیوار گرنے لگی اور ہم نے دیوار ٹوٹنے کی آواز سنی والدہ ماجدہ نے دیوار کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا
نہیں نہیں حق جناب مصطفی ع کی قسم خدا نے تجھے گرنے کی اجازت تو نہیں دی سیدہ فاطمہ بنت حسن ع کے یہ الفاظ ابھی نکلے ہی تھے دیوار معلق رہ گئیں یہاں تک کہ میری والدہ ماجدہ وہاں سے ہٹ گئیں
امام زین العابدین ع نے راہ خدا ایک سو دینار انکی سلامتی کے صدقیے میں دیئے
حضرت امام جعفر صادق ع اپنی دادی فاطمہ بنت حسن ع میں یوں ارشاد فرمایا آپ صدیقہ تھیں اولاد امام حسن ع میں کوئی آپکا مثل و نظیر نہیں تھا
حضرت فاطمہ بنت حسن ع بمعہ اپنے شوہر امام زین العابدین ع اور بیٹے امام محمد باقر ع کے میدان کربلا میں امام حسین ع کے ساتھ آئی تھیں اس وقت امام محمد باقر ع پانچ برس کے تھے
چونکہ امام محمد باقر ع دو معصوموں کی یادگار اور حسنی و حسینی امامت کے وارث تھے اس اعتبار سے آپ کو ابن الخیر تین کہا جاتا تھا اور آپکی والدہ فاطمہ بنت حسن ع کو ام الخیر کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے مورخین نے اس نام سے امام حسن ع کی ایک اور بیٹی تصور کر لی جو کہ غلط ہے آپ کے ایک فرزند عبداللہ تھے اس لیے آپ کو ام عبداللہ بھی کہتے تھے آپ کے ایک فرزند کا نام حسن بھی تھا اس لیے آپکو ام الحسن بھی کہتے ہیں مورخین نے ام الحسن نام کی ایک بیٹی امام حسن ع کی الگ سے تصور کر لی ہے جو غلط ہے آپکے ایک بیٹے کا نام حسین تھا اس لیے آپکو ام الحسین بھی کہتے تھے مورخین نے امام حسن ع کی ایک الگ بیٹی ام الحسین تصور کر لی جو غلط یہ سارے نام ایک ہی بی بی سیدہ فاطمہ بنت حسن ع کے ہیں
امام حسن ع کی صرف ایک بیٹی تھی جسکا نام فاطمہ ع تھا
علامہ ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے کہ
امام حسن ع کی اولاد میں تیرہ لڑکے اور ایک صاحبزادی تھی
١.عبیدلی جو عربوں کے بہت زیادہ نسب نامے جانتا تھا جسکا لقب نسابہ تھا اس نے عمدتہ الطالبین میں امام حسن ع کی پانچ دختران لکھیں ہیں
٢.صحاح الاخبار میں دو دختران لکھی ہیں
٣.کتاب فصول المہمہ میں صرف ایک دختر لکھی ہے
٤.تاریخ ابوالفدا میں آٹھ دختران لکھی ہیں تاریخ خمیس میں بھی آٹھ دختران لکھی ہیں لیکن ابن قتیبہ نے تاریخ الانساب میں صرف ایک بیٹی ام عبداللہ لکھی ہے
٥.علامہ سبط ابن جوزی نے تذکرہ الخواص میں واقدی اور محمد بن ہشام کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام حسن ع کی آٹھ بیٹیاں تھیں لیکن نام صرف تین کے لکھے ہیں ١.فاطمہ ٢.سکینہ ٣.ام حسن
٦.شیخ مفید نے ارشاد میں چار بیٹیاں لکھی ہیں ١.ام عبداللہ ٢.فاطمہ ٣.ام سلمہ ٤.رقیہ
٧.کشف الغمہ نے صرف ایک دختر لکھی
٨.ابن خشاب نے لکھا کہ صرف ایک بیٹی تھی
٩.حنابذی کا قول ہے کہ پانچ دختران تھیں
١٠.محمد بن سعد نے طبقات میں پانچ دختران لکھیں ١.فاطمہ ٢.ام الحسن ٣.ام الخیر ٣.ام سلمہ ٤.ام عبداللہ
١١.ابی بصر بخاری سرالسلسلتہ العلویہ میں چھ دختران لکھتے ہیں
١٢.اخبار الخلفا مقریزی میں پانچ دختران لکھی ہیں
١٣.مولا حسن ظفر نے سیرت الحسن ازعلی ماندرانی کے حوالے سے صرف ایک دختر فاطمہ بنت حسن کا نام لکھا ہے
١٤.علامہ محمد باقر نے الدمتہ الساکبہ میں تین دختران لکھی ہیں ١.ام الحسن رقیہ بنت حسن ٢.ام الحسین فاطمہ کبرا بنت حسن ع ٣.ام سلمہ صغرا بنت حسن ع
١٥.علامہ محمد ہاشم مشہدی منتخب التواریخ میں چھ
دختران لکھتے ہیں ١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.فاطمہ ٤.ام عبداللہ ٥.ام سلمہ ٦.رقیہ
١٦.سید عبدالمجید حائری ذخیرتہ الدارین میں تحریر کرتے ہیں کہ ام الحسن اور ام الحسین دختران امام حسن ع کی والدہ ام بشر بن مسعود انصاری تھیں یہ دونوں مخدومہ عاتکہ بنت مسلم بن عقیل جس کی عمر سات سال تھی کربلا میں تھیں خیام کی تاراجی کے وقت شہید ہوئیں امام حسن ع کا سلسلہ نسب آپکے دو فرزندوں جناب زید اور حضرت مثنی اور ایک بیٹی ام عبداللہ سے چلا
١٧.مولانا علی نقی جانپوری نے سات دختران کا نام لکھا ١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.فاطمہ کبرا ٤.فاطمہ صغرا ٥.ام عبداللہ ٦.ام سلمہ ٨.رقیہ
١٨.علامہ محمد مہدی مازندرانی نے معالی السبطین میں سات دختران کے نام لکھے ہیں ١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.فاطمہ کبرا ٤.فاطمہ صغرا ٥.ام عبداللہ ٦.ام سلمہ ٨.رقیہ
١٩.علامہ صدرالدین قزوینی ریاض القدس میں پانچ دختران کے نام لکھے ہیں ١.ام الحسین ٢.ام الحسن ٣.رملہ ٤.فاطمہ ٥.ام سلمہ اور دوسری جگہ پر چھ دختران لکھتے ہیں
٢٠. شیخ عباس قمی احسن المقال میں لکھتے ہیں واقدی اور قلبی نے آٹھ دختران شمار کی ہیں ابن جوزی نے چار دختران بیان کی ہیں ابن شہر آشوب نء چھ دختران لکھی ہیں شیخ مفید نے سات دختران تحریر کی ہیں ١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.فاطمہ ٤.ام عبداللہ ٥.فاطمہ ٦.ام سلمہ ٧.رقیہ ٨.سکینہ ٩.ام الخیر ١٠.ام عبدالرحمن ١١.رملہ
پہلی فاطمہ جو زید کی سگی بہن ہیں دوسری ام عبدالل جو زوجہ امام زین العابدین ع ہیں تیسری بیٹی ام سلمہ ہیں چوتھی رقیہ ہیں امام حسن ع کی دختران میں سے ان چار کے علاوہ کسی کی شادی نہیں ہوئی اگر ہوئی ہے تو اسکی اطلاع نہ ہو سکی
٢١.میرزا محمد تقی سپہرکاشانی نے ناسخ التواریخ میں امام حسن ع کی گیارہ دختران کے نام لکھتے
ہیں ١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.فاطمہ صغرا ٤.فاطمہ کبری ٥.سکینہ٦. ام الخیر ٧.ام سلمہ ٨.ام عبدالرحمن ٩.ام سلمہ ١٠.رقیہ ١١.رملہ
تمام مورخین کی بیانات کی روشنی میں دختران امام حسن ع کے ناموں کی فہرست گیارہ ہوتی ہے
اب ہم اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں
١.ام الحسن ٢.ام الحسین ٣.ام عبداللہ ٤.فاطمہ صغری ٥.ام الخیر ٦.فاطمہ کبرا یہ چھ نام ایک ہی بیٹی فاطمہ بنت حسن ع کے ہیں جو مورخین نے اپنی غلط فہمی کی بنا پر اپنی اپنی پسند سے نام اختیار کیے ہیں
بعض مورخین نے فاطمہ ع نام کی دو بیٹیاں لکھی ہیں
١.فاطمہ صغرا ٢.فاطمہ کبرا
مورخین نے یہ دونوں نام امام حسین ع کی دختران کو دیکھ کر لکھے ہیں عجیب بات ہے ام اسحاق زوجہ امام حسن ع سے فاطمہ بنت حسن ع کو دکھایا گیا ہے پھر کسی اور موقع پر فاطمہ بنت حسین ع کو بھی ام اسحاق سے دکھایا ہے انہوں نے یہ قیاس کیا کہ ام اسحاق جب امام حسن ع کی زوجہ تھیں اس وقت فاطمہ ع بنت حسن ع کی ولادت ہوئی اور جب شہادت امام حسن ع کے بعد وہ عقد امام حسین ع میں آئیں تو پھر ایک بیٹی کی ولادت ہوئی اسکا نام بھی فاطمہ رکھا گیا یہ فاطمہ بنت حسین ع ہے نبی اور امام ع کی زوجہ بحکم قرآن دوسرا عقد نہیں کر سکتی اور معصوم بھی معصوم کی بیوہ سے عقد نہیں کر سکتا
ام اسحاق نام کی دو الگ الگ خواتین ہیں
١.ام اسحاق انصاریہ
٢.ام اسحاق بنت طلحہ ابن عبیداللہ
ام اسحاق انصاریہ امام حسن ع کی زوجہ ہیں اور ام اسحاق بنت طلحہ ابن عبیداللہ امام حسین ع کی زوجہ ہیں
اسطرح فاطمہ نام کی صرف ایک دختر امام حسن ع کی تھی اور وہ ام اسحاق کی بیٹی نہیں ہیں
اب باقی پانچ دختران ١.ام سلمہ ٢. رقیہ ٣.رملہ ٤.سکینہ ٥.ام عبدالرحمن بچتی ہیں ام سلمہ اور رقیہ امام حسن ع کی بیٹیاں نہیں پوتیاں ہیں
ام سلمہ امام حسن ع کے فرزنذ حسین اثرم کی دختر ہیں اور رقیہ زید بن حسن کی دختر ہیں مورخین نے پوتیوں کو دختر تصور کرکے نام بار بار لکھنے شروع کر دیئے
رملہ نام کی کسی بیٹی کا وجود ہی نہیں ہے یہ غلط فہمی اس لیے ہوئی کہ امام حسن ع کی ایک زوجہ ام فروہ ع کا ایک نام مورخین نے رملہ لکھا ہے مورخین نے آنکھیں بند کرکے امام حسن ع کی بیوی کا نام دختران کی فہرست میں درج کر دیا
امام حسن ع کی ایک دختر سکینہ ع کا نام دو تین مورخین نے بعد میں لکھنا شروع کیا یہ امام حسین ع کی دختر ہیں اور اس نام پر اصرار کی کوئی وجہ نہیں
ام عبدالرحمن بھی امام حسن ع کی زوجہ کا نام ہے جو عبدالرحمن بن حسن عکی والدہ ہیں مورخین نے بعد میں غلط فہمی کی بنا پر ام عبداللہ کی مماثلت میں ام عبدالرحمن کی بیٹی تصور کر لیا جو گمراہ کن ہے
اس تجزیے کے بعد یہ بات سو فیصد صیح ہے کہ امام حسن ع کی صرف ایک دختر فاطمہ بنت حسن تھی جو ام الحسن بھی ہیں ام الحسین بھی ہیں ام عبداللہ بھی ہیں ام الخیر بھی ہیں
علامہ باقر نجفی نے دمعتہ الساکبہ میں گیارہ دختران کی فہرست کو اسطرح مختصر کیا ہے
١.ام الحسن کا نام رقیہ تھا
٢.ام الحسین کا نام فاطمہ صغرا تھا
اس فہرست کو اور مختصر کیا جا سکتا ہے رقیہ اور ام سلمہ امام حسن ع کی دختر نہیں ہیں بلکہ پوتیاں ہیں اور صرف ایک بیٹی تھی فاطمہ ع جو امام زین العابدین ع کی زوجہ ہیں
سید مظہر حسن سہانپوری لکھتے ہیں کہ امام حسن ع کی صرف ایک دختر والدہ امام محمد باقر ع تھیں جو ام الحسن ہیں دیگر دختران کے جو نام لکھے گئے ہیں وہ صغر سنی میں وفات پا گئیں (شہید المسموم فی تاریخ امام حسن ع )
باب الصغیر دمشق (شام) کے ایک قبرستان میں ایک روضہ میمونہ بنت امام حسن ع کا بنا ہوا ہے مورخین نے امام حسن ع کی اس بیٹی کا نام تک نہیں لکھا تذکرہ کیسا میمونہ بنت امام حسن ع کربلا میں موجود تھیں یا نہیں یہ تحقیق نہ ہو سکی
حضرت فاطمہ بنت حسن ع کی والدہ کون تھیں ؟
اس مسئلے میں بھی مورخین اختلاف کا شکار ہیں انکی متعدد آرائیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
١.فاطمہ کی والدہ ام کلثوم بنت فضل بن عباس عبدالمطلب ہیں (طبقات ابن سعد)
ام عبداللہ یا ام عبدالرحمن یہ امام محمد باقر ع کی والدہ گرامی تھیں انکی والدہ کا نام سافیہ تھا(طبقات ابن سعد)
٢.ام عبداللہ(والدہ امام محمد باقر ع) کی والدہ ایک کنیز تھیں جنکا نام صافیہ تھا(تذکرہ الخواص)
٣.فاطمہ بنت حسن ع کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبداللہ تیمی تھیں(عمدتہ الطالب۔منہتی الامال)
٤.بعض لوگ کہتے ہیں امام محمد باقر ع کی والدہ ام الحسن بنت امام حسن ع تھیں اور انکی والدہ ام بشیر دختر ابومسعود بن عقبہ تھیں(منتخب التواریخ)
٥.فاطمہ کی ماں ام اسحاق بنت طلحہ بن عبداللہ تیمی تھیں(شیخ مفید.شیخ محمد عباس قمی)
تجزیہ
ام کلثوم بنت فضل ابن عباس بن عبدالمطلب ان سے امام حسن ع نے عقد کیا اور چند روز کے بعد طلاق دے دی(اسدالغالبہ جلد ہفتم)
بعض مورخین نے فاطمہ بنت حسن ع اور فاطمہ بنت حسین ع دونوں سیدانیوں ام اسحاق کو بتایا ہے حالانکہ دونوں کی مائیں الگ ہیں ام اسحاق بھی دو خواتین کے الگ الگ نام ہیں
عماد ذادہ اصفہانی زنان پغیمبر اسلام میں لکھتے ہیں امام محمد باقر ع کی والدہ فاطمہ بنت حسن ع کی والدہ حفصہ(ہند) بنت عبدالرحمن بن ابوبکر تھیں تجزیہ کے مطابق جب منذر بن زبیر نے اس عورت کے عیب بیان کیے تھے یہ عورت عبداللہ بن زبیر اور منذر بن زبیر کی سگی ماموں زاد بہن تھی منذر ابن زبیر کے کہنے سے امام حسن ع نے اسکو طلاق دے دی تھی عماد زادہ اصفہانی کو نہ معلوم کہاں سے الہام ہو گیا یہ فاطمہ بنت حسن ع کی والدہ تھیں جبکہ یہ بالکل غلط ہے
ہماری تحقیق کے مطابق فاطمہ بنت حسن ع حضرت ام فروا بنت امراءالقیس کی بیٹی ہیں
بعض مورخین نے فاطمہ بنت حسن ع کی والدہ کو کنیز تسلیم کیا ہے یہ بھی غلط ہے
حضرت فاطمہ بنت حسن ع حضرت ام فرواء بنت امراءالقیس کی بیٹی ہیں اور حضرت قاسم ع کی سگی بہن ہیں
حضرت قاسم ع کی لاش پر بہن کا گریہ
علامہ مرزا قاسم علی کربلائی نہر المصائب جلد سوئم میں لکھتے ہیں کہ جب امام حسین ع حضرت قاسم ع کی لاش خیمے کی طرف لائے اس وقت کے حال میں یوں لکھا
چناچہ مناقب وغیرہ میں مقبول ہے کہ بعد اس کے حضرت شہادت و مقارت پر یتیمان و برادر مسموم کی شدت سے رؤے یہاں تک کہ اہل بیت ع ان حضرات کے بیتاب ہو کر خیموں سے نکل آئے راوی کہتا ہے کہ میں نے ایک صاحبزادی کو دیکھا روتی ہوئی باسرعریاں پریشان خیمہ پر آئیں اور حسرت سے یہ کہتی تھیں اے بھائی خداوند قہار قتل کرے اس قوم اشرار کو جس نے تجھ سے ماہ انور کو تشنہ لب قتل کیا اور مجھ یتیمہ کو بے برادر کر دیا پس بیتاب ہو کے آئیں اور منھ کے بل ایک لاش پر گر پڑیں اس سے لپٹ کر بین جگر خراش کرتی تھیں اور زار زار روتی تھیں پس میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ ستم دیدہ کون ہے انہوں نے کہا یہ خواہر قاسم ع ہے اس وقت امام حسین ع نے اس مظلومہ کو تسلی دے کر خیمہ گاہ کی طرف پھیر دیا
حضرت فاطمہ بنت حسن ع نے روز عاشور مصائب پر صبر کیا اپنے بھائیوں کی شہادت پر ماتم کیا آیت اللہ سید محمد حسینی شیرازی لکھتے ہیں اپنے بھائیوں قاسم ع اور عبداللہ ع کی شہادت پر گریہ کیا تمام اہل بیت ع کے شہداء کی شہادت پر غمگین تھیں اصحاب کرام کی شہادت کی خبر پر پراضطراب تھیں اپنے علیل شوہر حضرت امام زین العابدین ع
کی تیماداری پیاس کی شدت برداشت کی ہاتھوں میں رسی باندھی گئ اللہ کی راہ میں کوفہ اور شام کے سفر کی صعوبات اور قید خانے کی مصیبتیں پر صابر راہ خدار ہیں (امہات المعصومین ع)
حضرت رسول ع خدا کی دعائیں اور حضرت فاطمہ بنت حسن ع
وقت زوال نوافل کی ہر دو رکعت کے بعد پڑھی جانے والی دعا کو روایت کیا ہے عبداللہ بن حسن المثنی بن امام حسن ع نے فاطمہ بنت حسن ع سے انہوں نے روایت کیا ہے اپنے والد امام حسن ابن علی ع سے کہ پغیمبر ع یہ دعا زوال کی نوافل میں ہر دو رکعت کے درمیان پڑھتے تھے
کتاب.سوانح شہزادہ قاسم ابن حسن ع
صفحہ.١١٤