
لايُحِبُّ ٱللَّهُ ٱلْجَهْرَ بِٱلسُّوٓءِ مِنَ ٱلْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
ترجمہ : “اللہ پسند نہیں کرتا بُری بات کا اعلان کرنا مگر مظلوم سے اور اللہ سنتا جانتا ہے “.
(النساء :148)

قارئین کرام چونکہ عزاداران امام حسین علیہ السلام پر ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام تو شہید ہوئے تھے اور شہید تو زندہ ہوتا ہے اور زندہ کا ماتم جائز نہیں تو ان اعتراض کرنے والوں کیلئے عرض کرتا چلوں کہ بیشک امام حسین علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئے اور ان کی شہادت کا اتنا بلند و بالا مقام ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا محال ہے ، لیکن ہم امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ماتم صرف شہید سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ کربلا میں ان پر اور ان کے اہل و عیال پر ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج کرتے ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں دے رہا ہے ۔ آپ سب برادران سے میرا سوال ہے کہ وہ کونسی جنگ ہے جس میں 6 ماہ کے ننھے کمسن بچے کی گردن پر تیر چلایا جاتا ہے ، وہ کونسی جنگ ہے جس میں خواتین اور بچوں پر کھانا اور پانی بند کیا جاتا ہے ، وہ کونسی جنگ ہے جس میں ایک طرف تو لاکھوں کا لشکر ہو اور دوسری جانب انگلیوں پر گنے جانے والے چند لوگ ہوں اور وہ کونسی جنگ ہے جس میں خواتین کے خیمے جلا کر ان کی چادریں پامال کی جاتی ہیں ، افسوس کربلا میں جنگ تھوڑی ہوئی تھی کیونکہ جنگ کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں لیکن یہاں پر نہ تو کوئی اصول تھا اور نہ ہی کوئی ضابطہ یہ تو ظلم تھا جو میدان کربلا میں خاندان رسول ﷺ پر کیا گیا اور ہم اس ظلم کرنے والے ظالموں کیخلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا۔

قارئین محترم آئیے قرآن مجید سے دیکھتے ہیں کہ کسی نے اگر ماتم یا گریہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے روکا تو نہیں؟ اگر ایسا کرنے سے روکا ہے تو یہ کام گناہ شمار ہوگا اور اگر نہیں روکا تو یہ عمل نس قرآنی کی صورت میں اجازت الہی ہے اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ خود قرآن میں بیان کر رہا ہو اور اس کی ممانعت بھی نہ کی ہو اس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے نہ کہ گناہ ۔ مسلمانوں کی لاریب کتاب قرآن مجید میں واضح آیات شریفہ موجود ہیں بطور نمونہ دو آیات ملاخظہ فرمائیں :

فَأَقْبَلَتِ ٱمْرَأَتُهُۥ فِى صَرَّةٍۢ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ
(الزاریات : 29 )
ترجمہ : “پھر سامنے سے آئی اس کی عورت بولتی، پھر پیٹا اپنا ماتھا، اور کہا کہیں بڑھیا بانجھ” ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا ان کے سامنے اپنا چہرہ پیٹنا اور کوئی اُولوالعزم پیغمبر(ع) اپنی بیوی کو خلاف شریعت فعل انجام دیتے ہوئے دیکھ لے لیکن اسے منع نہ کرے ، کیا ایسا کسی پیغمبر (ع) سے ممکن ہے؟ ہر گز نہیں۔۔۔۔!
کیونکہ پیغمبر (ع) تو آتے ہی اسی لیے ہیں کہ وہ خلاف شرع و عقل امور کو ختم کریں اور لوگوں کو احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کریں ۔ اگر وہ اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہوں تو انکی بعثت کا مقصد ہی پورا نہیں ہوگا پس معلوم ہوا کہ زوجہ ابراہیم ع کا یہ فعل غیر شرعی ہرگز نہ تھا بلکہ عین شرعی تھا اور اگر یہ عمل فطرت اور شریعت کے عین مطابق تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت نہیں کی تو ہم بھی اس فعل کو انجام دے سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا سیرت انبیاء اور فطرت انسانی میں شامل ہے۔

وَ تَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰۤاَسَفٰى عَلٰى یُوْسُفَ وَ ابْیَضَّتْ عَیْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِیْمٌ
ترجمہ : “اور یعقوب (ع) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہو گئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے “.

قرآن مجید کی اس آیت سے بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر یعقوب ع نے اپنے زندہ بیٹے کی جدائی میں اس قدر گریہ کیا کہ ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی اور تفاسیر میں تو آتا ہے کہ جناب یعقوب ع چالیس سال تک اپنے بیٹے کی جدائی پر گریہ کرتے رہے اب یہاں پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا جناب یعقوب ع حکم خدا اور اپنی ذمہ داری سے نابلد تھے کہ حضرت یوسف ع کی جدائی پر زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ آپ ع کی آنکھیں کثرت گریہ کی وجہ سے نابینا ہوئیں؟ یا پھر یہ کہ (معاذاللہ) وہ رونے کو خلاف شرع جانتے ہوئے بھی شریعت کی عمداً مخالفت کر رہے تھے؟ یقیناً نہ تو حضرت یعقوب ع حکم خدا سے غافل تھے اور نہ ہی عمداً شریعت کی مخالفت کر رہے تھے بلکہ ان کا یہ عمل عین شریعت اور حکم خدا کے عین مطابق تھا۔ تبھی تو آپ ع اس عمل کو بلا خوف و جھجھک انجام دیتے رہے کیونکہ ایک پیغمبر ع سے جوکہ شریعت کا محافظ ہوتا ہے شریعت کی عمداً خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

اب تک کی قلم فرسائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت کرنا ، ظالم کیخلاف آواز بلند کرنا اور گریہ و زاری کرنا کوئی نیا فعل یا بدعت نہیں بلکہ ایسا کرنا سیرت انبیاء ع ، عین شریعت اور فطرت انسانی میں شامل ہے ۔ ظلم اور ظالم سے نفرت اور مظلوم سے حمایت اور اظہار ہمدردی کی خاطر ہونیوالی عزاداری اور گریہ پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ صرف کم فہمی ، غلط پروپیگنڈوں اور متعصبانہ طرز تفکر کی پیداوار ہیں۔