قاتلین امام حسین ع کون ؟ لفظ ” شیعہ ” کی حقیقت

▪جب محرم آتا ہے تو مخالفین تشیع کے پیٹ میں مروڑے شروع ہوجاتے ہیں۔۔ روتے ہم ہیں، سینہ کوبی ہم کریں لیکن تکلیف انہیں ہوتی ہے لہذا طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں دراصل اعتراضات سے ان کا مقصد اپنے اسلاف کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ “شیعوں” نے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کو قتل کیا اور دلیل کے طور شیعہ کتب احتجاج طبرسی ، اعیان الشیعہ ، لہوف، حماسہ حسینی وغیرہ سے وہ اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن میں “کوفہ کے شیعوں” کا تذکرہ آیا ہے ان حوالہ جات سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ھے کہ شیعوں(یعنی نظریہ امامت کے پیروکار) نے امام حسین علیہ السلام اور آپکے اقارب و اصحاب کو شہید کیا ۔ لیکن اگر تاریخ کے اوراق پلٹ لیے جائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محض الفاظ کی مماثلت سے مخالفین تشیع اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں سادہ لوح افراد کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر فریقین کی کتب کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ھے کہ لفظ شیعہ کی اپنی ایک خاص تاریخ ہے لہذا کتب شیعہ سے محض لفظ ” شیعہ” ثابت کرنا کوئی تحقیقی کام نہیں .. اگر واقعی ایسے لوگوں میں ظرف ہیں تو قاتلین حسینؑ کو “شیعہ” بمعنی ” قائلین نظام امامت و مکتب غدیر سے تعلق رکھنے والے” ثابت کریں.
المختصر لفظ “شیعہ” قرآن میں بھی کئی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ صافات کی آیت میں ابراھیم کے لیے ” وان من شيعته لابراهيم…الخ ” آیا تو “پیروکار” کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔۔ سورہ قصص میں حضرت موسی کے سلسلہ میں” هذا من شيعتي و هذا من عدوي ” آیا تو ” دوست” کے معنی میں آیا ۔۔ اگر اس لفظ کے لیے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو یہی معنی ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔
▪ شاہ عبد العزیز محدث دھلوی لکھتے ہیں ” یہ بھی جاننا چاہیے کہ شیعہ اولی کہ فرقہ سنی اور تفضیلیہ کے ہیں زمانہ سابق میں لقب انکا شیعہ تھا جب غلاة و روافض و زیدیوں اور اسماعیلیوں نے اس لقب سے اپنے آپ کو ملقب کیا اور قباحت اعتقادی و عملی ان سے صادر ہوئی تو خوفاً عن الالتباس الحق بالباطل یعنی اس خوف سے کہ حق و باطل ایک صورت کے نہ ہوجائیں فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اس لقب کو اپنے حق میں ناپسند کیا اور اہلسنت و جماعت اپنا لقب قرار دیا”
حوالہ : [ تحفہ اثنا عشریہ – صفحہ ۴٠ ]
▪نیز یہی شاہ محدث دہلوی صاحب لکھتے ہیں ” اب واضح ہوا کہ کتب تاریخ قدیمہ میں جس قدر کہ فلان من شيعة او من شيعة علي واقع ھے اور حالانکہ ہیں وہ روساء سنت و جماعت سے سب سچ ہے وفي تاريخ الواقدي و الاستيعاب شئ كثير من هذا الجنس فليتنبه به”..
حوالہ : [ تحفه اثنا عشرية – صفحہ ۴٠ ]
تو ثابت یہ ہوا کہ زمانہ قدیم میں اہل سنت ” شیعہ ” کے نام سے موسوم تھے ۔۔ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ
▪جب لوگوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے ایک گروہ وہ تھا جنہوں نے عثمان کے دوستوں کی مشایعت کی(مراد معاویہ ساتھی ہیں) اور دوسرا گروہ وہ جنہوں نے علی کی مشایعت کی۔۔
حوالہ : [ منهاج السنہ – الجزء الثانی – صفحہ ۳۹ ]
لہذا محض لفظ “شیعہ” سے سادہ عوام کو تو دھوکا دیا جا سکتا ہے مگر یہ مماثلت الفاظ کے استحصال کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔۔
کتب اہلسنت ایسے شواہد سے بھری پڑی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ھے کہ حضرت علی کی رکاب میں لڑنے والوں کی اکثریت اہلسنت و الجماعت کے عقیدہ کی حامل اور کوفہ کے اغلب لوگ بھی اسی عقیدہ کے حامل تھے۔۔ ملاحظہ ہو کچھ نمونے مشتے از خوارے۔۔
▪شاہ عبد العزیز محدث لکھتے ہیں کہ ” شیعہ اولی کو دو فرقے اعتبار کرتے ہیں ۔۔ اول فرقہ مخلصین کہ اہل سنت و جماعت ہیں صحابہ اور تابعین کی کہ ہمیشہ حضرت علی کی صحبت میں رہے اور ان کی خلافت کے ناصر و مدد گار تھے جتنے اخیار مہاجرین و انصار سے تھے اور ان سب کا یہی مذہب تھا کہ حضرت امیر امام برحق ہیں بعد شہادت عثمان کے اطاعت ان کی کافہ انام پر فرض تھی اور اپنے وقت میں یہ سب سے افضل تھے جو کوئی خلافت کے معاملہ میں ان سے خلاف ہو خطا کار و باغی ھے اور جو ان کو لائق خلافت نہ جانے بیہودہ اور گمراہ”
حوالہ : [ تحفہ اثنا عشریہ – صفحہ ٢٦ ]
▪ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فتنہ کے وقت لوگ دو قسم کے شیعہ ٹھہرے شیعہ عثمانیہ اور شیعہ علویہ۔ اور ایسا نہیں ھے کہ سبھی لوگ جنہوں نے علی کی معیت (رکاب) میں لڑا وہ آپ کو عثمان پر فضیلت دیتے بلکہ ان کی اکثریت عثمان کو علی پر فضیلت دیتے تھے ۔۔ جس طرح کہ تمام اہلسنت کا قول ہے” اس سے پہلے اسی اقتباس میں ابن تیمیہ کہتے ہیں عام شیعہ اولی جو کہ علی سے محبت کرتے تھے ابوبکر و عمر کو علی پر فضیلت دیتے تھے۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجزء الرابع – صفحہ ۶۲ ]
▪ ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ متقدمین شیعہ جو کہ علی کی صحبت میں رہتے تھے یا اس زمانہ میں تھے ابوبکر و عمر کی تفضیل کے متعلق اختلاف نہ کرتے تھے ۔۔ ان کے درمیان اختلاف تفضیل علی و عثمان میں تھا۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجزء الاول – صفحہ ۷۰ ]
: [ منہاج السنہ – الجزء الثانی – صفحہ ۳۶ ]
▪ ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ اصحاب علی جو کہ شیعہ اولی ہیں وہ علی پر ابوبکر و عمر کی تقدیم میں شک نہیں کرتے تھے۔۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجزء الثانی – صفحہ ۳۲ ]
▪ ابن تیمیہ مزید لکھتا ہے جو شیعہ اولی حضرت علی کے زمانہ میں تھے وہ ابوبکر و عمر کی فضیلت کے قائل تھے۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجزء ۲ – صفحہ ۳۶ ]
▪ ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ جو لوگ حضرت علی کی ہم رکاب ہوکر لڑ رہے تھے وہ آپ سے پہلے لوگوں کی امامت کے قائل تھے اور ان لوگوں میں یہ یہ رائج تھا کہ ابوبکر علی سے افضل ہیں۔ آگے لکھتا ہے کہ علی کے زمانہ میں معاویہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ اس لیے نہ تھی کہ انھوں نے ابوبکر، عمر ، عثمان کی بیعت کی ھے بلکہ اس لیے تھی کہ انھوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجز ۶ – صفحہ ۱۸۲ ]
▪ ابو اسحاق (المتوفی۹۵ ھجری جو کہ کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں۔ اور جس نے شمر ذی الجوشن سے روایت کی ہے دیکھیں سیر اعلام النبلا ترجمہ ابو اسحاق السبیعی) کی گواہی کوفہ کے لوگوں کے عقیدہ کے بارے میں۔۔۔عثمان ذھبی لکھتا ہے کہ ابن بطہ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں جو کہ ابو العباس ابن مسروق سے مشہور ہیں کہ ابو اسحاق سبیعی جب کوفہ آئے تو شمر بن عطیہ نے ہمیں تعظیماً کھڑا ہونے کا حکم دیا ابو اسحاق ہم سے بات چیت کرنے لگے انھوں نے کہا جب میں کوفہ سے نکلا تھا تو میں نے کوفہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں پایا جو سیدنا ابوبکر و عمر کی عظمت میں شک رکھتا ہو۔۔ اب میں واپس لوٹا ہوں تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔۔
حوالہ : [ المنتقی – صفحہ ۵۳۸ ]
▪ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ اہل عراق کا مذہب اوزاعی کا مذہب اور اہل شام کا مذہب تھا اور وہ اہل حدیث کی تعظیم کرتے تھے اور وہ مذہب شیعہ ( یعنی جنھیں مخالفین روافض کہتے ہیں) سے ” ابعد الناس” یعنی بالکل الگ تھے۔۔۔
حوالہ : [ منہاج السنہ – الجز ۶ – صفحہ ۲۲۴ ]
اور کون نہیں جانتا ہے یہی جو “شیعہ” علی کی رکاب میں لڑ رہے تھے انھوں نے ہی پھر امام حسن کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ تھے ۔۔ پس کتب شیعہ سے محض لفظ “شیعہ” دکھا کر سادہ لوح افراد کو تو بیوقوف بنایا جاسکتا ھے پر زیرک قاری کو نہیں ۔۔۔جب تک یہ ٹھوس شواہد اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں شیعہ حضرات مخالفین کو آئینہ دکھاتے رہیں گے ۔۔۔