
اور اس کے لیے ان کو تا قیامت مہلت دی جاتی ھے۔۔
.
المختصر لفظ ‘شیعہ “قرآن میں بھی کئی معنیٰ میں استعمال ہوا ھے۔۔ سورہ صافات کی آیت نمبر میں ابراھیم کے لیے ” وان من شيعته لابراهيم…الخ” آیا تو ” پیروکار” کے مفہوم میں استعمال ہوا ھے۔۔ سورہ قصص میں حضرت موسی کے سلسلہ میں” هذا من شيعتي و هذا من عدوي “آیا تو ” دوست” کے معنی میں آیا۔۔ اگر اس لفظ کے لیے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو یہی معنی ہمیں دیکھنے کو ملتا ھے۔۔


شاہ عبد العزیز محدث دھلوی لکھتے ہیں ” یہ بھی جاننا چاہیے کہ شیعہ اولی کہ فرقہ سنی اور تفضیلیہ کے ہیں زمانہ سابق میں لقب ان کا شیعہ تھا جب غلاة اور روافض اور زیدیوں اور اسماعیلیوں نے اس لقب سے اپنے آپ کو ملقب کیا اور قباحت اعتقادی و عملی ان سے صادر ہوئی تو خوفاً عن الالتباس الحق بالباطل یعنی اس خوف سے کہ حق و باطل ایک صورت کے نہ ہوجائیں فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اس لقب کو اپنے حق میں ناپسند کیا اور اہلسنت و جماعت اپنا لقب قرار دیا”


نیز یہی شاہ صاحب لکھتے ہیں” اب واضح ہوا کہ کتب تاریخ قدیمہ میں جس قدر کہ فلان من شيعة او من شيعة علي واقع ھے اور حالانکہ ہیں وہ روساء سنت و جماعت سے سب سچ ہے وفي تاريخ الواقدي و الاستيعاب شئ كثير من هذا الجنس فليتنبه به”..


تو ثابت یہ ہوا کہ زمانہ قدیم میں اہلسنت ” شیعہ” کےلقب سے موسوم تھے۔۔
ابن تیمیہ نے لکھا ھے جب لوگوں میں دو گروہ پیدا ہوگیے تو ایک گروہ وہ تھا جنہوں نے عثمان کے دوستوں کی مشایعت کی( مراد معاویہ و ساتھی ھیں) اور دوسرا گروہ وہ جنہوں نے علی کی مشایعت کی۔۔


لہذا محض لفظ ” شیعہ” سے سادہ عوام کو تو دھوکا دیا جاسکتا ھے مگر یہ مماثلت الفاظ کے استحصال کے علاوہ اور کچھ نہیں۔۔





علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانہ میں جو شہر آباد ہوئے ان میں سے بصرہ اور کوفہ ایک مدت تک اسلامی آثار کے منظر رہے۔۔


شبلی لکھتے ہیں ” غرض ١۷ ھجری میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ عمر نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا چالیس ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے”۔۔


نیز شبلی رقمطراز ہے کہ ” یہ شہر حضرت عمر ہی کے زمانہ میں اس عظمت و شان کو پہنچا کہ حضرت عمر اس کو راس الاسلام فرماتے تھے اور درحقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا تھا اور زمانہ بعد میں اس کی آبادی برابر ترقی کرتی گئی”..


اب مخالفین سے ہمارا سوال ھے کہ ثابت کردیں کہ ۱۷ ھجری سے لے کر حضرت علی کی خلافت تک اور پھر امام حسین کے دور تک جس شہر کوفہ کی بنیاد عمر کے دور میں پڑی تھی وہاں کی ساری آبادی حضرت علی کو پہلا خلیفہ جب کہ خلفاء ثلاثہ کی خلافت کو باطل سمجھتے تھے؟
اس کے برعکس کتب اہلسنت ایسے شواہد سے بھری پڑی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ھے کہ حضرت علی کی رکاب میں لڑنے والوں کی اکثریت اہلسنت و الجماعت کے عقیدہ کی حامل اور کوفہ کے اغلب لوگ بھی اسی عقیدہ کے حامل تھے۔۔ ملاحظہ ہو کچھ نمونے مشتے از خوارے۔۔
(۱)شاہ عبد العزیز محدث دھلوی لکھتے ہیں کہ ” شیعہ اولی کو دو فرقے اعتبار کرتے ہیں۔۔ اول فرقہ مخلصین کہ اہل سنت و جماعت ہیں صحابہ اور تابعین کی کہ ہمیشہ حضرت علی کی صحبت میں رہے اور ان کی خلافت کے ناصر و مدد گار تھے جتنے اخیار مہاجرین و انصار سے تھے اور ان سب کا یہی مذہب تھا کہ حضرت امیر امام برحق ہیں بعد شہادت عثمان کے اطاعت ان کی کافہ انام پر فرض تھی اور اپنے وقت میں یہ سب سے افضل تھے جو کوئی خلافت کے معاملہ میں ان سے خلاف ہو خطا کار و باغی ھے اور جو ان کو لائق خلافت نہ جانے بیہودہ اور گمراہ”










(۲) ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فتنہ کے وقت لوگ دو قسم کے شیعہ ٹھہرے شیعہ عثمانیہ اور شیعہ علویہ۔۔ اور ایسا نہیں ھے کہ سبھی لوگ جنہوں نے علی کی معیت ( رکاب) میں لڑا وہ آپ کو عثمان پر فضیلت دیتے بلکہ ان کی اکثریت عثمان کو علی پر فضیلت دیتے تھے جس طرح کہ تمام اہلسنت کا قول ھے” اس سے پہلے اسی اقتباس میں ابن تیمیہ کہتے ہیں عام شیعہ اولی جو کہ علی سے محبت کرتے تھے ابوبکر و عمر کو علی پر فضیلت دیتے تھے۔۔


(۳) یہی ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ متقدمین شیعہ جو کہ علی کی صحبت میں رہتے تھے یا اس زمانہ میں تھے ابوبکر و عمر کی تفضیل کے متعلق اختلاف نہ کرتے تھے ۔۔ ان کے درمیان اختلاف تفضیل علی و عثمان میں تھا۔۔




(۴) ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ اصحاب علی جو کہ شیعہ اولی ہیں وہ علی پر ابوبکر و عمر کی تقدیم میں شک نہیں کرتے تھے۔۔۔


(۵) ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں جو شیعہ اولی حضرت علی کے زمانہ میں تھے وہ ابوبکر و عمر کی فضیلت کے قائل تھے۔۔


(۶) ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ حضرت علی کی ہم رکاب ہوکر لڑ رہے تھے وہ آپ سے پہلے لوگوں کی امامت کے قائل تھے اور ان لوگوں میں یہ یہ رائج تھا کہ ابوبکر علی سے افضل ہیں۔۔۔ آگے لکھتے ہیں کہ علی کے زمانہ میں معاویہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ اس لیے نہ تھی کہ انھوں نے ابوبکر، عمر ، عثمان کی بیعت کی ھے بلکہ اس لیے تھی کہ انھوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی۔۔








(۷) ابو اسحاق ( المتوفی ۹۵ ھجری۔۔۔جو کہ کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں۔اور ۔۔جس نے شمر ذی الجوشن سے روایت کی ھے۔۔دیکھیں سیر اعلام النبلا ترجمہ ابو اسحاق السبیعی) کی گواہی کوفہ کے لوگوں کے عقیدہ کے بارے میں۔۔۔عثمان ذھبی لکھتے ہیں کہ ابن بطہ اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں جو کہ ابو العباس ابن مسروق سے مشہور ہیں کہ ابو اسحاق سبیعی جب کوفہ آئے تو شمر بن عطیہ نے ہمیں تعظیماً کھڑا ہونے کا حکم دیا۔۔ ابو اسحاق ہم سے بات چیت کرنے لگے۔۔ انھوں نے کہا جب میں کوفہ سے نکلا تھا تو میں نے کوفہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں پایا جو سیدنا ابوبکر وعمر کی عظمت میں شک رکھتا ہو۔۔ اب میں واپس لوٹا ہوں تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔۔


(۸) ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ اہل عراق کا مذہب اوزاعی کا مذہب اور اہل شام کا مذہب تھا اور وہ اہل حدیث کی تعظیم کرتے تھے اور وہ مذہب شیعہ ( یعنی جنھیں مخالفین روافض کہتے ہیں) سے ” ابعد الناس” یعنی بالکل الگ تھے۔۔۔


اور کون نہیں جانتا یہی جو ” شیعہ” علی کی رکاب میں لڑ رہے تھے انھوں نے ہی پھر امام حسن کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ تھے۔۔
پس کتب شیعہ سے محض لفظ ” شیعہ” دکھا کر سادہ لوح افراد کو تو بیوقوف بنایا جاسکتا ھے پر زیرک قاری کو نہیں ۔۔۔جب تک یہ ٹھوس شواہد اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں شیعہ حضرات مخالفین کو آئینہ دکھاتے رہیں گے ۔۔۔






مولوی عبد الشکور فاروقی لکھنوی “اسود ابن ابی بختری” کے ترجمہ کے ذیل میں کیا لکھتے ہیں۔

