امام حسین ع کی اولاد کے سلسلے میں مورخوں سوانح نگاروں اور علماء کے درمیان شروع سے ہی اختلاف رہا ہے ایک وقت تھا جب حالات سازگار نہیں تھے اور بنوامیہ شیعوں کے جانی دشمن تھے اس لیے علماء و فقہہ کی مکمل توجہ روایات کے تحفظ پر تھی تحقیق کا اس وقت موقعہ ناں مل سکا جسکا نتیجہ یہ ہوا بعض روایات تسلسل کے ساتھ نقل ہوتی چلی آئیں اور اس میں مزید اضافے یا تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی گئ قدیم علماء نے امام حسین ع کی اولادوں کی جو تفصیل لکھی ہے اس میں مشہور اور واضح قول یہ ہے جو شیخ مفید نے نقل کیا ہے امام حسین ع کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں
ازواج حضرت امام حسین ع
کتب تاریخ و مقاتل میں امام حسین ع کے مندرجہ ذیل ازواج مطہرات کے تذکرے آئے
١.حضرت شہر بانو ع
آپکا نام سلافہ غزالہ خولہ سلامہ برہ شاہ زنان اورجہاں شاہ سمیت 23 نام ذکر ہوئے ہیں لیکن حضرت امیرالمومنین ع نے آپکو شہر بانو ع کہا ہے
آپ شاہ ایران نو شیروان عادل کی پوتی ہیں حضرت فاطمہ زہرا ع نے خواب میں آکر آپ کو عقد امام حسین ع کی بشارت دی تھی
آپ ع کے بیٹے حضرت امام زین العابدین ع ہیں
٢.حضرت رباب ع بنت امراء القیس
حضرت رباب ع بنت امراء القیس بن عدی بن اوس بن جابر والدہ حضرت سکینہ ع و علی اصغر ع ہیں آپ کے والد امراءالقیس جنگ فلخ میں شجاعت دے چکے تھے شجاعت کے باب میں آپکو پورا عرب جانتا تھا عرب کا سب سے بڑا سخی حاتم طائی اکثر امانتیں آپ کے پاس رکھواتا تھا
امراءالقیس یمن کے شیعوں میں سے تھے انکی تین صاحبزادیاں محیاہ (ام فروہ ع) اور رباب ع عقد امیر المومنین ع امام حسن ع اور امام حسین ع میں آکر بامشرف ہوئیں حضرت ام رباب ع کربلا میں موجود تھیں حضرت علی اصغر ع کی شہادت آپکی نگاہوں کے سامنے ہوئی کربلا کے بعد تاحیات آخر آپ سوگ میں رہیں کسی کی بھی خواستگاری قبول نہ کی ابن اثیر کامل میں لکھتا ہے حضرت رباب ع بھی دیگر اسیروں کے ساتھ کربلا سے شام گئیں پھر شام سے مدینے تشریف لائیں جہاں اشراف قریش میں سے بہت سی شخصیات نے آپ سے خواستگاری کی درخواست کی مگر آپ نے جواب دیا میں رسول اللہ ع کے بعد کوئی خسر انتخاب نہیں کروں گی حضرت رباب ع کربلا کے بعد ایک سال سے زائذ زندہ رہیں اور اس مدت میں کبھی سائے میں نہ بیٹھیں حضرت رباب ع نے ٦٣ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں
٣.حضرت ام اسحاق بنت طلحہ تیمیہ
حضرت رباب ع کے بعد امام حسین ع ام اسحاق سے عقد کیا آپکا شجرہ اسطرح ہے
ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان بن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ
شیخ عباس قمی نے ابوالفرج اصفہانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ام اسحاق کی ماں جرباء بنت قسامہ تھیں اسکو جرباء حسن و جمال کی وجہ سے کہتے تھے اسکے پہلو میں کوئی عورت نہیں کھڑی ہو سکتی تھی چاہیے کتنی ہی حسین و جمیل ہو مگر یہ کہ قبیح نظر معلوم ہوتی اسکے حسن جمال کی وجہ سے جرباء کی کنیت ابوالحارث تھی انکا شجرہ اسطرح ہے
ام الحارث بنت قسامہ بن حنظلہ بن وہب بن قیس بن عبید بن طریف بن مالک بن جدعان
علماء نے کہیں آپکو تمیمہ اور کہیں تیمیہ لکھا
١.علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں
ام اسحاق دختر طلحہ بن عبداللہ قوم تمیم سے تھیں
٢.محمد مہدی مازندرانی لکھتے ہیں
ام اسحاق بنت طلحہ بن عبداللہ تیمی تھیں
٣. آغا مہدی لکھنوی لکھتے ہیں
ام اسحاق طلحہ بن عبداللہ تمیہ کی صاحبزادی تھیں مرکز ایمان یمن کے قبیلہ سے قضاعیہ وطنی تعلق تھا
لیکن یمن سے جناب رباب ع کا تعلق تھا اور آپ قضاعیہ تھیں جیسا کہ شجرے سے بالکل واضح ہے ام اسحاق کا قضاعیہ ہونا ثابت نہیں
٤.شیخ عباس قمی نے لکھا ہے کہ
ام اسحاق دختر طلحہ بن عبداللہ تیمیہ ہیں
٥.علامہ سید ابوالقاسم قمی لکھتے ہیں
ام اسحاق بنت طلحہ بن عبداللہ تیمیہ تھیں
٦.صاحب ناسخ التواریخ نے آپکو تمیمیہ لکھا
محمد بن سعد کے دیے ہوئے شجرے کے مطابق آپ تیمیہ قرار پاتی ہیں ام اسحاق کے دادا کے متعلق بھی علماء میں اختلاف ہے بعض نے عبداللہ اور بعض نے عبیداللہ لکھا ام اسحاق پہلے امام حسن ع کے عقد میں تھیں ان سے حسین اثرم اور طلحہ اور فاطمہ بنت امام حسن ع ہوئیں امام حسن ع کی شہادت کے امام حسین ع نے ان سے عقد کیا کیونکہ امام حسن ع کی یہ وصیت تھی عدت پوری ہونے کے بعد امام حسین ع نے ام اسحاق سے عقد کیا جن سے فاطمہ بنت حسین ع کی آمد ہوئی (نفس المہموم)
سید محمد جعفر الزمان نے لکھا ہے کہ
جناب حسین اثرم بن حسن ع کی والدہ ام اسحاق تھیں انکے بارے میں ایک وضاحت ضروری ہے کئی مورخین و صاحبان انساب کو اشتباہ ہوا ہے کہ ام اسحاق نے امام حسن ع کی شہادت کے بعد امام حسین ع سے عقد کیا بالکل غلط ہے
امام حسن ع کی زوجہ ام اسحاق انصار کے قبیلے سے ہیں جبکہ ام اسحاق جو امام حسین ع کی زوجہ ہیں اور جن سے حضرت فاطمہ صغری ع ہیں جو مدینے میں رہ گئ تھیں ان ام اسحاق کا تعلق بنی تمیم سے ہے
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ام اسحاق نام کی دو مختلف شخصیت ہیں اور دونوں کا قبیلہ مختلف ہے
٤.ملومہ قضاعیہ
آپ کے حالات تقریبا” نہ ہونے کے برابر ہیں علماء نے آپکے متعلق مندرجہ ذیل معلومات تحریر کی ہیں
١.علامہ باقر مجلسی اولاد امام حسین ع کے باب میں لکھتے ہیں جعفر لاولد انتقال کیا انکی ماں قوم
قضاعیہ سے تھیں جعفر ع نے اپنے والد بزگوار کی حیات میں قضا کیا
٢.شیخ مفید لکھتے ہیں جعفر بن حسین انکی والدہ قبیلہ قضاعہ کی ایک خاتون ہیں اور جعفر کی باپ کی زندگی میں وفات ہوئی اور صاحب اولاد نہیں تھے
٣.محمد مہدی مازندرانی لکھتے ہیں جعفر بن حسین آپکی والدہ بنو قضاعہ سے تھیں اور آپ کمسنی میں مدینہ ہی میں جناب سیدالشہدا ع کی زندگی میں وفات پا گئے تھے
لیکن سبط جوزی نے آپکا نام سلافہ قضاعیہ لکھا ہے
کتاب انساب میں ملومہ کا بھی ذکر ہوا ہے
لیکن آغا مہدی لکھنوی نے دوسرا رخ پیش کیا ہے آپ ام اسحاق اور زن قضاعیہ کو ہی لکھتے اور مانتے ہیں
اولاد امام میں جو شہزادہ جعفر روز عاشورہ شہید ہوا وہ اسی درد رسیدہ (یعنی ام اسحاق ) عورت کا لال تھا
شیخ صادق کرباسی کے نزدیک آپ نے ٣٠ ہجری سے پہلے مدینے میں وفات پائی لیکن کاش وہ اسکی کوئی دلیل پیش کرتے
٥.عاتکہ بنت زید العدویہ
آپ سے امام حسین ع نے ٣٨ہجری میں عقد کیا تھا آپ کے فرزند کربلا میں شہید ہوئے
شہر حلب میں امام حسین ع کے جن محسن نامی فرزند کا روضہ ہے وہ آپ ہی کے فرزند ہیں
٦.حضرت ام لیلی ع
حضرت علی اکبر ع کی والدہ ہیں آپ امام حسین ع کی دوسری ازواج تھیں تاریخ میں آپ کے مختلف نام مذکور ہیں آمنہ برہ اور مرہ
آپ کے والد ابومرہ رض صحابی رسول ع تھے حضرت مختار ثقفی رح اور حضرت ام لیلی چچا ذاد تھے
حضرت ام لیلی ع کے متعلق بنوامیہ کے نمک خواروں نے جو کچھ لکھا کر ام لیلی ع کی یزید لعنتی سے رشتہ داری جوڑنے کی جو ناکام کوشش کی گئ اسکا رد اس لنک پر جاکر ملاحظہ فرمائیں
ان ازواج کے علاوہ ارنیب(بروزمسلم) بنت اسحاق اور ہند بنت عامر بن عبداللہ (زوجہ یزید) کے فرضی کرداروں کو بھی ازواج امام حسین ع کے کرداروں میں پیش کیا گیا لیکن اسکی کوئی حقیقت نہیں علماء کی بڑی تعداد نے اسے ضغیف قرار دیا
اولاد امام حسین ع کے بارے میں مورخین کے بیانات
١.شیخ مفید متوفی ٤١٣ھ لکھتے ہیں کہ امام حسین ع کی چھ اولادیں تھیں
١.علی بن حسین اکبر ع جن کی کنیت ابو محمد والدہ کا اسم گرامی شاہ زنان یزدجرد تھا جو شاہ ایران کی دختر تھیں
٢.علی بن حسین اصغر ع جو کربلا میں والد کے ساتھ شہید ہوئے اور انکی والدہ گرامی لیلی بنت ابی مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی تھیں
٣.جعفر بن الحسین ع انکی والدہ قبیلہ قضاعیہ کی ایک خاتون تھیں اور جعفر ع اپنے والد امام حسین ع کی ظاہری زندگی میں ہی انتقال کر گئے تھے
٤.عبداللہ بن حسین ع شیر خوار جو کربلا میں شہید ہوئے
٥.سکینہ بنت الحسین ع جن کی عبداللہ بن حسین ع کی والدہ حضرت ام رباب ع بنت امراء القیس بن عدی کلابی تھیں
٦.فاطمہ بنت الحسین ع جن کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیداللہ تھیں
(ارشاد جلد.٢ اعلام الوری)
٢.ابن شہر آشوب (متوفی ٥٨٨ھ) اپنی مناقب میں اولاد امام حسین ع کا ذکر کرتے لکھتے ہیں امام حسین ع کے بیٹوں کے نام یہ تھے
علی اکبر ع شہید جن کی والدہ برہ بنت عروہ بن مسعود ثقفی ہیں علی (علی اوسط) اور علی اصغر ع جن دونوں کی والدہ شہر بانو ہیں محمد اور عبداللہ شہید ان دونوں کی والدہ ام رباب ع بنت امراء القیس ہیں جناب جعفر کی والدہ قبیلہ قضاعیہ ہیں اسطرح امام حسین ع کی بیٹیوں سکینہ ع جن کی والدہ رباب ع بنت امراء القیس ہیں اور فاطمہ جن کی والدہ ام اسحاق بنت طلحہ اور زینب بنت الحسین ع کے نام نقل ہوئے ہیں
(مناقب جلد.٥)
٣.علی بن حسین اربلی متوفی ٦٤٣ہجری اپنی کتاب کشف الغمہ میں لکھتے ہیں کہ کمال الدین کا بیان ہے کہ
امام حسین ع کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں علی اکبر علی اوسط(امام زین العابدین ع) علی اصغر محمد عبداللہ اور جعفر جن میں سے علی اکبر ع علی اصغر ع اور عبداللہ کربلا میں اپنے بابا کے ساتھ شہید ہو گئے اور بیٹیوں میں زینب ع جناب سکینہ ع جناب فاطمہ ع وغیرہ کے نام نقل ہوئے ہیں
قابل توجہ بات یہ ہے کہ چوتھی بیٹی کا نام نقل نہیں کیا جسکی جانب خود علی بن عیسی اربلی متوجہ تھے اور عبدالعزیز جنابذی سے روایت کرتے ہیں امام حسین ع کی چھ اولادیں تھیں جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور دو بیٹوں کے ذکر میں فقط لکھتے ہیں وہ علی اکبر ع و علی اصغر ع تھے اسی طرح بیٹیوں میں فقط حضرت سکینہ ع اور فاطمہ ع کا ذکر کرتے ہیں پھر مولف مذکور شیخ مفید کا کلام نقل کرتے ہیں (جو شیخ مفید کی کتاب ارشاد سے کھلا تضاد رکھتا ہے اور آخر میں لکھتے ہیں
شیخ مفید اور جنابذی کے اقوال کے مطابق امام حسین ع کے دوفرزند تھے دونوں کے علی ع تھے جبکہ مشہور یہ ہے کہ اس نام سے امام ع کے تین بیٹے تھے اور امام ع کی نسل امام زین العابدین ع سے چلی (کشف الغمہ ج.٢)
٤.یاقوت حمودی اپنی کتاب معجم البلدران میں شام کے ایک شہر حلب کی توصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں اس شہر کے مغرب میں کوہ جوش کے دامن میں محسن بن حسین ع کی قبر ہے جو عراق سے شام آتے ہوئے اسیروں کی گزرگاہ تھی یہ بچہ شاید وہاں شہید ہوا(معجم البلدان ج٢)
٥.سپیر کاشانی لکھتے ہیں کہ چار فرزند علی اکبر ع(شہید کربلا) علی اوسط (امام زین العابدین ع) علی اصغر ع عبداللہ ع دو بیٹیاں سکینہ ع اور فاطمہ ع تھیں (ناسخ التواریخ ج٦)
دوسرے مقام پر بحارالانوار میں موجود (جناب فاطمہ صغری ع) کی روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”جہاں تک میری تحقیق ہے اگر اولاد امام حسین ع میں دو نام فاطمہ ع نام کی لڑکیاں تھیں تو یہ بات لازمی ہے کہ ان میں چھوٹی صغری مدینہ میں تھیں اور دوسری فاطمہ کبری ع کربلا میں امام حسین ع کے ساتھ تھیں حضرت فاطمہ ع کے ذکر پر مشتمل اس قسم کی روایات اکثر کتب سیرت میں کثرت سے ملتی ہیں جن کے پیش نظر انکا وجود مدینہ میں ثابت ہوتا ہے (ناسخ التواریخ ج٦)
٦.محمد باقر بہببانی نجغی لکھتے ہیں
امام حسین ع کے نو فرزند کربلا میں شہید ہوئے علی اکبر ع ابراہیم ع محمد حمزہ علی اصغر ع جعفر عمرو زید اور عبداللہ رضیع بیٹیاں چار تھی فاطمہ کبری ع (زینب )فاطمہ صغری ع رقیہ اور سکینہ ع(الدمعتہ الساکبہ)
٧.کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السوول میں بھی یہ تعداد درج کی ہے
٨.شیخ قمی نے امام زین العابدین ع علی اکبر ع جعفر عبداللہ سکینہ کا فاطمہ کا ذکر کیا(منتہی الامال ج.١)
٩.صدر الدین قزوینی نے پندرہ اولادیں لکھی ہیں امام زین العابدین ع حضرت علی اکبر ع جعفر عبداللہ فاطمہ سکینہ زید ابراہیم محمد حمزہ قاسم ابوبکر عمرو رقیہ (زینب)اور فاطمہ صغری ع
(ریاض القدس ج.٢)
١٠.فرہاد میرزا نے تعداد اولاد کے سلسلے میں لکھا ہے کہ مشہور ہے آپکے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں بقول چھ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں(قمقام جلد.١)
١١.میرزا محمد شیرازی نے آٹھ اولادیں لکھیں ہیں امام زین العابدین ع علی اکبر ع جعفر عبداللہ ع فاطمہ سکینہ زبیدہ اور زینب(ریاض الانساب جلد.٢)
١٢.محمد بن رضا بن محمد مومن نے دس اولادیں لکھی ہیں امام زین العابدین ع علی اکبر ع جعفر علی اصغر محمد عبداللہ زینب فاطمہ سکینہ چوتھی بیٹی کا نام نہیں لکھا (جنات الخلود)
توضیح
ان تمام بیانات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے علماء امام زین العابدین ع حضرت علی اکبر ع جعفر ع علی اصغر ع اور عبداللہ رضیع ع کے فرزندان امام حسین ع ہونے میں کافی حد تک متفق ہیں باقی عمر حمزہ محمد احمد ابراہیم ابوبکر اور زید کے نام آتے ہیں جنکو علماء کرام نے درج کیا ہے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہ تسامح کتابت کی غلطی کے سبب ہو سکتا ہے کہ حسن کی بجائے ایک دو نقطے لگانے سے لفظ حسین بن گیا اور قلمی نسخوں کی غلط نقول کے سبب اس طرح رائج ہو گیا کیونکہ امام حسن ع کی اولادوں میں اس نام کے فرزند موجود ہیں
امام حسین ع کی صاحبزادیوں کے سلسلے میں سکینہ اور فاطمہ کا نام زیادہ ہے لیکن متعدد روایات میں زینب ام کلثوم اورفاطمہ صغری ع کے بھی تذکرے موجود ہیں رقیہ جناب سکینہ ع کا ہی لقب ہے جن علماء نے زبیدہ نام درج کیا ہے وہ بھی دراصل قلمی نسخوں میں کتابت کے سہو کی کرشمہ سازی ہے زینب کو خط شکستہ میں لکھیں تو وہ زبیدہ سے مشاہبہ نظر آتا ہے اس لیے سوئے کتابت کے سبب یہ فرضی نام رائج ہو گیا تہران میں مقبرہ زبیدہ بنت امام حسین ع کے نام سے موجود ہے کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت شہر بانوکے ساتھ زوالجناح پر سوار ہو کر یہاں آئیں تھیں زبیدہ نام بنی ہاشم لغت میں شامل نہیں کسی نے اپنی صاحبزادی کا یہ نام نہیں رکھا اگر انکی ایران آنے کی روایت صیح تسلیم کر لی جائے تو ہو سکتا ہے آپ زینب بنت الحسین ع ہوں لیکن تحقیق کی گنجائش پھر بھی باقی ہے
فاطمہ ع اور سکینہ ع کو تمام علماء امام حسین ع کی بیٹیاں تسلیم کیا دیگر روایات میں زینب ام کلثوم فاطمہ کبری فاطمہ صغری کا بھی ذکر آیا ہے
امام حسین ع کی فاطمہ ع نامی صاحبزادیوں پر بحث
مورخین نے جس طرح امام زین العابدین ع اور حضرت علی اکبر ع کے سلسلے میں علی اکبر اور علی اوسط کی بحث پیدا کی ہے اس طرح امام حسین ع کی صاحبزادیوں میں الحجھ کر رہ گئے ہیں
امام حسین ع اپنی ہر صاحبزادی کا نام فاطمہ ع رکھتے تھے جس طرح ہر صاحبزادے کا نام علی ع رکھا کتب و تاریخ و مقاتل میں زینب ع ام کلثوم ع سکینہ ع کے جو نام آئے ہیں یہ لقب ہیں انکے نام فاطمہ ع ہی تھے اب رہا یہ مسئلہ کونسی صاحبزادی بڑی تھی اور پھر ان صاحبزادیوں کی ترتیب کیا تھی اسکے لیے شدید تحقیق کی ضرورت ہے کربلا میں سوائے فاطمہ صغری ع کے امام حسین ع کی سب صاحبزادیاں موجود تھیں جن کے نام یہ ہیں
١.فاطمہ بنت حسین ع (زینب ع)
٢.فاطمہ بنت حسین ع (وسطی )
٣.ام کلثوم بنت حسین ع
٤.سکینہ بنت حسین ع
١.اب یہاں مسلہ یہ پیدا ہوا کہ متعدد علماء نے فاطمہ بنت حسین ع کو فاطمہ صغری ع بھی لکھا ہے (بحارالانوار جلد.٤٣)
تو انکو فاطمہ صغری ع اس لیے کہا گیا کربلا میں جو فاطمات موجود تھیں مثلا” فاطمہ بنت علی ع فاطمہ بنت حسن ع ان میں آپ صغیر تھیں اس لیے کربلا کی خواتین کے ذکر میں آپ صغری ع ہیں لیکن امام حسین ع کی اولاد کے ذکر میں صغری سے مراد وہ فاطمہ صغری ع ہوں گی جو مدینے میں رہ گئیں تھیں اور بیمار تھیں
٢.بیانات مقاتل سے صراحت ہوتی ہے کہ امام حسین ع کی فاطمی نامی دو بیٹیوں نے مقتل کے روایات بیان کیے ہیں انکو بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے
فاطمہ بنت حسین ع کہتی ہے میں درخیمہ پر کھڑی دیکھ رہی تھی ظالم گھوڑوں سے لاشوں کو پامال کر رہے ہیں اب ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے اسی وقت ایک شخص میرے قریب آنے لگا اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا جس سے وہ چادریں چھین رہا تھا میں دوڑی وہ میرے پیچھے آنے
لگا یہاں تک کہ اس نے میری پشت پر تازیانہ مارا اور میرے گوشوارے چھین لیے میں بے ہوش ہو گئ جب ہوش آیا تو میرا سر پھوپھی حضرت زینب ع کی گود میں تھا میں نے کہا کیا پھوپھی مجھے چادر کا ٹکڑا مل سکتا ہے تو پھوپھی نے کہا بیٹی میرے سر پر بھی چادر نہیں ہے
شیخ مفید کے بیان کے مطابق یہ فاطمہ ع صبیحہ تھیں یعنی ان کی عمر تقریبا” نو برس تھی (الارشاد)
یعنی یہ فاطمہ ع ان فاطمہ ع کے علاوہ ہیں جنہوں نے کوفہ میں فصیح و بلیغ خطبہ دیا تھا جو زوجہ حسن مثنی ہیں اور عبداللہ بن حسن (شہید کربلا) کی والدہ ہیں اسطرح دو فاطمہ ع کربلا میں ثابت ہو جاتی ہیں
٣.محمد باقر بہبانی نے فاطمہ بنت حسین ع اور زینب بنت حسین ع کو ایک ہی شمار کیا ہے (الدمعتہ الساکبہ)
٤.علامہ اثیر جاڑوی نے فاطمہ ع نامی تین صاحبزادیوں کا ذکر کیا ہے فاطمہ کبری ع فاطمہ وسطی ع اور فاطمہ صغری ع (حاشیہ بر معالی السبطین حصہ ٢)
٥.شیخ صادق کرباسی نے بھی ان تین فاطمات کا تذکرہ اپنے موسوعے میں کیا ہے لیکن تینوں کرداروں کے حالات غلط ملط کر دیے ہیں انہوں نے فاطمہ صغری ع کو زوجہ حضرت حسن مثنی ع لکھ دیا ہے پھر وہ فاطمہ ع کو بھی کربلا میں دکھا رہے ہیں فاطمی وسطی ع کے لیے لکھا ہے وہ مدینہ میں رہ گئیں تھیں(معجم انصار الحسین ع النساء جلد ٣)
خلاصہ گفتگو یہ کہ امام حسین ع کی مندرجہ ذیل بیٹیوں کا وجود ثابت ہوتا ہے
١.فاطمہ کبری ع بنت حسین ع
جو فاطمہ بنت حسین ع بھی ہیں اور انہی کو بعض نے فاطمہ صغری بنت حسین ع لکھا ہے آپ زوجہ حضرت حسن مثنی ع ہیں آپکا ہی خطبہ بازار کوفہ میں معروف ہےآپکا نام زینب ع بھی لکھا گیا
٢.فاطمہ وسطی بنت حسین ع
جن کا مورخین نے ذکر واضح انداز میں نہیں کیا غارت گری خیام والی روایت سے اور دربار یزید والی روایت سے
(جس میں آپ نے فرمایا جب یزید کے دربار میں ایک شخص نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا اے امیر اس لڑکی کو مجھے بخش دے تو میں اپنی بڑی بہن سے لپٹ گئی یعنی کہ آپ سے بھی بڑی ایک بہن موجود تھی وہ ہی زوجہ حسن مثنی ع ہیں ) پتہ چلتا ہے کہ آپ نو برس کی کم سن تھیں حضرت قاسم ع کا عقد آپ سے ہی ہوا ہو گا کیونکہ قدیم مرثیوں میں آپکی عمر نو برس بتائی گئ ہے آپ فاطمہ وسطی ع ہیں لیکن مصائب میں فاطمہ کبری ع مشہور ہیں
٣.آپکا وجود امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق ع کی روایت سے ثابت ہے آپ بیمار تھیں اور مدینہ میں رہ گئ تھیں
٤.ام کلثوم بنت حسین ع
شیخ صدوق نے اپنی امالی میں آپکا ذکر متعدد مقامات پر کیا ہے
٥.سکینہ بنت حسین ع
آپ کی عمر چار برس تھی اور زندان شام میں آپکی قبر ہے آپ ہی رقیہ ہیں
حضرت امام حسین ع کے بیٹے
١.حضرت امام زین العابدین ع
١٥ جمادی اول ٣٦ ہجری کو مدینے میں آمد ہوئی آپ امام حسین ع کی اولاد اکبر ہیں آپکی شادی ٥٦ ہجری میں فاطمہ بنت حسن ع سے تھی ٥٧ ہجری میں آپ کے بیٹے امام محمد باقر ع کی آمد ہوئی امام زین العابدین ع ٢٥ محرم ٩٥ ہجری میں زہر سے شہید ہوئے
٢.حضرت علی اکبر ع
آپکی والدہ حضرت ام لیلی ع ہیں حضرت علی اکبر ع کربلا کے شہید ہیں
٣.حضرت جعفر بن حسین ع
آپکے بارے میں تمام مورخین کااتفاق ہے آپ نے امام حسین ع کی ظاہری زندگی میں ہی مدینے میں وفات پائی
٤.حضرت محمد بن حسین ع
عقد الفرید میں جناب محمد بن حسین ع سے روایت ہے کہ امام حسین ع کی شہادت کے بعد ہمیں یزید کے پاس لایا گیا ہم بارہ نوجوان تھے سب سے بڑے علی بن الحسین ع تھے سب کی گردنیں پس پشت بندھی ہوئی تھی ابن قتبیہ الامامت والسیات میں بھی یہ ہی تحریر کیا ہے
٥.عمرو بن حسین ع
لہوف میں ہے کہ یزید نے عمرو بن حسین ع اور علی بن حسین ع کو بلوایا عمرو کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی یزید نے عمرو بن حسین ع سے کہا میرے بیٹے خالد سے کشتی کرو گئے آپ نے نفی میں جواب دیا پھر فرمایا ایک صورت میں کشتی کروں گا اگر میرے ہاتھ چھری دو طبری نے اس حکایت کو عمرو بن حسین ع کے حوالے سے نقل کیا
٦.ابراہیم بن حسین ع
آپ تقریبا” ٤٨ہجری میں متولد ہوئے کربلا میں امام حسین ع کی شہادت آپ ع کے سامنے ہوئی احتمال اس بات کا ہے کہ آپ نے دشمنوں کے اجتماعی حملے شہادت پائی ہو (کتاب المناقب ابن شہر آشوب)
٧.زید بن حسین ع
ابن شہر آشوب نے آپکو فرزندان امام حسین ع میں شمار کیا جو کربلا میں شہید ہوئے (کتاب المناقب=
٨.عبداللہ الرضیع بن حسین ع
آپ ام اسحاق بن طلحہ تمییہ سے تھے کربلا میں شہید ہوئے بعض علماء کے نزدیک حضرت علی اصغر ع اور عبداللہ رضیع اک ہی ہیں
٩.علی اصغر بن حسین ع
آپکی والدہ حضرت رباب ع تھیں آپ کی عمر وقت شہادت صرف چھ ماہ تھی آپ شہداء کربلا میں سے ہیں
حضرت امام حسین ع کی بیٹیاں
١.حضرت فاطمہ کبری بنت حسین ع
شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن کی وجہ سے انکو حورالعین کہا جاتا تھا یہ ہی وہ خاتون محترمہ ہیں جن سے ایک روایت کے مطابق عاشور کو امام حسین ع نے آخری وصیتیں فرمائیں ان ہی سے فرمایا امام زین العابدین ع تک امامت کے ودائع اور وصیتیں منتقل کریں
البتہ امام حسین ع کی وصیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے آپ نے کس سے وصیت فرمائی ایک قول کے مطابق حضرت ام سلمہ ع سے جبکہ تیسرے قول کے مطابق حضرت زینب ع سے وصیت فرمائی تھی (قاموس الرجال ج.١١)
دراصل ان سب سے وصیتیں کی گئیں ہیں جو انکی شخصیت اور کردار کے لحاظ کے مطابق تھیں
ذبیحہ اللہ محلاتی لکھتے ہیں
فاطمہ بنت حسین ع کے بطن مبارک سے حسن مثنی ع کے تین بیٹے ہوئے ایک بیٹے کا نام عبداللہ محض دوسرے کا نام ابراہیم الغمر اور تیسرے بیٹے کا نام حسن مثلث تھا جبکہ ابونصربخاری سے نقل ہوا ہے حضرت حسن مثنی کے ان تین بیٹوں کے علاوہ دو بیٹیاں بنام زینب و ام کلثوم بھی تھیں (ریاحین الشریعہ ج.٣.)
جب ولید بن عبدالملک نے حکم دیا کہ ازواج رسول ع کے حجرے گرا کر انہیں مسجد کا حصہ کر دیا جائے تو فاطمہ بنت الحسین ع حرہ مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں گھر تعمیر کروانے کا حکم دیا اور فرمایا یہاں ایک کنواں کھودا جائے مگر کنواں کھودنے پر اک سخت پھتر ظاہر ہوا جو زمین کھودنے پر مانع تھا تمام ماجرا آپ سے بیان کیا گیا آپ وہاں تشریف لائیں وضو انجام دیا اور وضو کا باقی ماندہ پانی اس پھتر پر ڈالا جو سبب بنا کہ پھتر آسانی سے شکستہ ہوا اور اسطرح کنواں کھودنے میں حائل مشکل دور ہوئی اور اس کنواں سے پانی نکلا جسے لوگ تبرک کے طور پر لیتے تھے اور لوگوں نے اس کنویں کا نام زمزم رکھا(حاشیہ مقتل مقرم)
٢.حضرت فاطمہ بنت حسین ع (وسطی)
ریاض القدس محرق القلوب المنتخب روضتہ الشہدا وغیرہ کے مطابق حضرت قاسم بن حسن ع کا عقد فاطمہ بنت حسین ع (وسطی)سے ہوا تھا
انہی فاطمہ بنت حسین ع سے روایت ہے کہ
فاطمہ بنت حسین ع کہتی ہے میں درخیمہ پر کھڑی دیکھ رہی تھی ظالم گھوڑوں سے لاشوں کو پامال کر رہے ہیں اب ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے اسی وقت ایک شخص میرے قریب آنے لگا اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا جس سے وہ چادریں چھین رہا تھا میں دوڑی وہ میرے پیچھے آ
لگا یہاں تک کہ اس نے میری پشت پر تازیانہ مارا اور میرے گوشوارے چھین لیے میں بے ہوش ہو گئ جب ہوش آیا تو میرا سر پھوپھی حضرت زینب ع کی گود میں تھا میں نے کہا کیا پھوپھی مجھے چادر کا ٹکڑا مل سکتا ہے تو پھوپھی نے کہا بیٹی میرے سر پر بھی چادر نہیں ہے
شیخ مفید کے بیان کے مطابق یہ فاطمہ ع صبیحہ تھیں یعنی ان کی عمر تقریبا” نو برس تھی (الارشاد)
٣.حضرت زینب بنت امام حسین ع
ایک روایت کے مطابق آپ ہی فاطمہ بنت حسین ع زوجہ حسن مثنی ع ہیں
٤.حضرت ام کلثوم بنت حسین ع
شیخ صدرق فرماتے ہیں ان دنوں میں جب اہل خرم زندان کوفہ میں تھے عبیداللہ زیاد ملعون نے جناب ام کلثوم کی طرف قاصد بھیجا کہ خدا کا شکر ہے اے کلثوم تمہارے مرد قتل کر دیے گئے اور خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا جناب ام کلثوم نے جوابا” فرمایا اے قاصد زیاد ابن ملعون سے کہو اے ابن زیاد بتاو حضرت رسول ع خدا کو جواب دینے کے لیے تیار رہو کہ آنحضرت ع قیامت میں انتقام لیں گے اس دشمنی کا جسکا تو نے حضرت حسین ع کو قتل کرکے ثبوت دیا ہے (ریاض القدس ج ٢)
٥.حضرت فاطمہ صغری بنت حسین ع
صادق کرباسی نے آپکی سن ولادت ٥٠ھ اور وفات ١٢٦ھ لکھی ہے(معجم انصار حسین ع ۔النساء)
اسکا کوئی حوالہ یا دلیل پیش نہیں کی حضرت فاطمہ صغری ع کی عمر واقعہ کربلا کے وقت ٦ سے ٨ برس مشہور ہے مورخین نے آپکی والدہ کا تذکرہ نہیں کیا خیال یہ ہی کیا جاتا ہے (حضرت فاطمہ صغری ع کی والدہ کا نام حضرت ام اسحاق ہے )کہ حضرت ام لیلی ع آپکی والدہ تھیں اور آپ نے حضرت علی اکبر ع کی آغوش میں پرورش پائی تھی اس وجہ سے آپکو ان سے بے حد محبت تھی
امام حسین ع نے مدینے سے نکلتے وقت کہا تھا اگر حالات سازگار ہوئے تو تمہارے لینے کے لیے حضرت علی اکبر ع یا عباس ع کو بھیجوں گا (ریاض القدس )
علامہ مجلسی نے بحار میں امام جعفر صادق ع
روایت نقل کی ہے ایک کبوتر میدان کربلا میں آیا اور عصر عاشور کے وقت اپنے پروں کو خون فرزند رسول ع میں تر کیا اور اڑ کر مدینہ آیا جناب فاطمہ صغری بنت حسین ع کے کمرے کی منڈیر پر آکر بیٹھا جناب فاطمہ صغری ع نے کبوتروں کے خون آلود پروں کو دیکھا تو بے چین ہو کر رونے لگئیں اور اشعار پڑھے
حضرت امام محمد باقر ع فرماتے ہیں اس پرندے کے پروں پر خون اور خون سے مخصوص خوشبو سونگھ کر حضرت فاطمہ صغری ع نے اہل مدینہ کو بتایا کہ امام حسین ع شہید کر دیے گئے ہیں
جب اہل مدینہ کے گورنر کو اطلاع ملی تو اسکا سب سے پہلا تبصرہ یہ تھا دختر حسین ع بھی ہاشمیہ ہے اور ہاشمی جادو کے تماشے دیکھا رہی ہے (ریاض الاحزان )
علامہ کثوری نے ماتین فی مقتل الحسین ع جلد ١ میں اس روایت پر محققانہ تبصرہ کیا ہے مرزا دبیر نے اپنے مرثیوں میں حضرت فاطمہ صغری ع کے متعلق بہت سی روایات نظم کی ہیں جس سے ایک مکمل کتاب ترتیب پاسکتی ہے اردو کے قدیم مرثیے اور مثنویات وغیرہ میں جناب فاطمہ صغری ع کے تفصیلی تذکرے موجود ہیں بمبئی کے ایک شاعر نے صغرا نامہ کے عنوان سے طویل مثنوی لکھی ہے جس میں دس مجالس ہیں اور ہر مجلس میں فاطمہ صغرا ع کی نئی روایت نظم کی گئ ہے مدینہ میں آج بھی وہ مقام موجود ہے جسکے بارے میں سنا جاتا ہے کہ وہاں حضرت فاطمہ ع رویا کرتی تھیں
٦.حضرت سکینہ(رقیہ) بنت حسین ع
آپ کی دنیا میں آمد ٤٦ ہجری میں ہوئی مشہور ہے کہ کربلا میں آپکی عمر چار سال تھی زندان شام میں آپکی شہادت ہوئی آپکا روضہ شام میں ہے
ماخذ
١.انسائیکلوپیڈیا امام حسین ع جلد.١
٢.حیات شہزادہ حضرت علی اکبر ع مصنف Allama Irtiza Abbas Naqvi