میت کو غسل دیتے وقت پاؤں قبلہ رو کرنا کیسا؟

محمد ثقلین عباس
*[عام الناس کی طرف سے ایک اعتراض کہ فقه جعفریه والے دورانِ غسل میت کے پاؤں قبلہ رخ کرنے کے قائل ہیں بھلا پاؤں قبلہ رو کرنا کیسی لاجک ھے جو (قبلہ کی) توہین کے زمرے میں آئے؟]*
الجواب:
*قارئین کرام!* یہ بات ذہن میں رھے کہ ہم شریعت کے محتاج ہیں نہ کہ شریعت ہماری محتاج ھے کہ میں یہ کہتا ہوں یا میری عقل یہ کہتی ھے یا یہ ہونا چاہئے وہ ہونا چاہئے ، ہمیں باپ دادا نے یہ بتایا وہ بتایا یعنی جب ہم ذاتی قیاس کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں تبھی عام الناس میں یہ مسائل جنم لیتے ہیں لہذٰا یہ رویہ مناسب نہیں ھے۔ اب ہوتا کیا ھے؟ بعض اوقات ہم اپنے ناقص علم ، ناقص عقل کو ترجیح دیتے ہوئے علمی و تحقیقی روش سے ہٹ کر دوسروں پر بے جا تنقید اور فتوؤں کے انبار لگا دیتے ہیں حالانکہ پہلے ہمیں یہ دیکھنا اور کنفرم کر لینا چاہئے کہ جس مسئلے پر ہم دوسروں پر تنقید کر رھے ہیں اس بارے میں ہماری فقه کے مطابق کیا جواب ھے؟ ہماری فقه کیا کہتی ھے؟ کیا یہ روش بہتر نہیں رھے گی؟ کیونکہ یہ علم و تحقیق کا دور ھے نہ کہ وہ گزشتہ زمانہ جب اپنی ذاتی رائے سے عام الناس کو گمراہ کیا جاتا تھا۔ لہذٰا ضروری ھے کہ ہر مسئلے میں تنقید سے پہلے علمی دلیل ہونی چاہئے۔
اب میت کو غسل دیتے وقت اس کے پاؤں کس سمت ہونے چاہئیں آیا قبلہ رخ کر سکتے ہیں یا نہیں اگر کر سکتے ہیں تو یہ توہین میں شمار نہیں ہو گا؟ اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ اعتراض عام الناس کی طرف سے ہوتا ھے جنہیں دین کی الف ب کا پتہ نہیں ہوتا ورنہ ایک اہل علم اہلسنت یہ اعتراض کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کو پتہ ھے کہ اہلسنت کے نزدیک میت کے پاؤں قبلہ رو کرنے میں کوئی حرج نہیں ھے بلکہ اہلسنت محققین نے اجازت دی ھے۔ اب عام الناس کو یہ بات سمجھ لینی چاھئے کہ *میت کے پاؤں قبلہ رو کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کا چہرہ قبلہ رو کرنا مقصود ہوتا ھے* مثلاً ایک شخص کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو وہ اس طرح لیٹ کر پڑھ سکتا ھے کہ اس کے پاؤں قبلہ رخ کر پیٹھ کے بل لٹا دیا جاتا ھے اور سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا جاتا ھے تا کہ چہرہ قبلہ رخ میں رھے اب کیا اس حالت میں قبلہ کی توہین ہو گی؟ نہیں نا *کیونکہ اس کا مقصد چہرہ قبلہ رخ کرنا ھے نہ کہ پاؤں۔* لہذٰا اس شبہ کو دور کرنے کے لئے اب ہم اہلسنت علماء کے کچھ فتاوی نقل کرتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
____________________________________________________
● *دعوت اسلامی اہلسنت علماء کا فتوی*
میت کو غسل دیتے وقت اس کے پاؤں کس طرف ہونے چاہیے؟
مجیب: ابو مصطفیٰ ماجد رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-90
تاریخ اجراء: 25 جمادی الاولیٰ 1442 ھ/31دسمبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض شہروں میں میت کو غسل دیتے وقت ان کے پاؤں کو قبلے کی طرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میت کا منہ کعبہ شریف کی طرف ہونا چاہیے کیا یہ صحیح ہے اور اگر نہیں تو میت کو غسل دیتے وقت کیسے لٹایا جائے؟ رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
میت کو غسل دیتےوقت اس کے پاؤں قبلہ کی طرف بھی کرسکتے ہیں اوراس کےعلاوہ کسی دوسری طرف بھی کرسکتے ہیں ،اصح قول کے مطابق کسی خاص جانب پاؤں کرنے کی کو ئی قید نہیں ہے،بلکہ جس طرح آسانی ہو ،میت کو لٹایا جاسکتا ہے ۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ میّت کو نہلانے کے لئے جو تختے پر لٹائیں تو شرقاً غرباً لٹائیں کہ پاؤں قبلے کو ہوں، یا جنوباً شمالاً کہ دہنی کروٹ قبلہ کو ہو؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ میّت کو نہلانے کے لئے جو تختے پر لٹائیں تو شرقاً غرباً لٹائیں کہ پاؤں قبلے کو ہوں، یا جنوباً شمالاً کہ دہنی کروٹ قبلہ کو ہو؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے جوابا ارشا دفرمایا:’’سب طرح درست ہے، مذہبِ اصح میں اس باب میں کوئی تعیین وقید نہیں، جو صورت میسر ہو اُس پر عمل کریں۔ (فتاویٰ رضویہ ،جلد9،صفحہ91،رضافاؤندیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
____________________________________________________
● *دارالافتاء دیوبند علماء کا فتوی*
سوال نمبر: 148993
عنوان:میّت کو قبلہ رخ لٹانا کیا حدیث سے ثابت ہے؟
سوال:سوال یہ کہ کیا مرنے کے بعد میّت کو قبلہ رُخ پَیر کر کے لٹانا کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ جب زندگی میں قبلہ کی طرف تھوکنا بھی حرام ہے تو پھر مرنے کے بعد قبلہ رُخ پَیر کر کے لٹانا کیسے جائز ہو جاتا ہے ؟ کیا کوئی حدیث ہے اس کی دلیل میں؟
جواب نمبر: 148993
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 689-684/M=6/1438
اس بابت حدیث میں صراحت نہیں مل سکی البتہ فقہی نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ میت پر جب موت کے آثار شروع ہوجائیں تو اس کا سرشمال کی جانب اور پیر جنوب کی جانب اور رُخ قبلے کی طرف کردیا جائے یہ طریقہ افضل ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ چت لٹاکر پیر قبلے کی طرف کردیا جائے اور سر کو قبلے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر کچھ اونچا کردیا جائے یہاں مقصود پیر کو قبلے کی طرف کرنا نہیں بلکہ چہرہ قبلے کی طرف کرنا مقصود ہے اور قبلے کی طرف تھوکنا حرام نہیں البتہ خلافِ ادب ہے، پس مذکورہ اعتراض درست نہیں، یوجہ المحتضر القبلة علی یمینہ ہو السنة وجاز الاستلقاء علی ظہرہ وقدماہ إلیہا وہو المعتاد في زماننا ولیکن یرفع رأسہ قلیلاً لیتوجہ للقبلة․․ الخ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
____________________________________________________
● *دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن*
میت کو غسل کے وقت کیسے لٹایا جائے؟
سوال
میت کو غسل دیتے وقت پاؤں کس طرف کرنے چاہییں؟
جواب
میت کو غسل دیتے وقت جس طرح سہولت اور آسانی ہو لٹاسکتے ہیں، اور بعض نے یہ کہا ہے: قبلہ کی طرف منہ کر کے عرضًا لٹا دیں، جیسا کہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور بعض نے کہا کہ: قبلہ کی طرف لمبائی میں لٹادیں۔ اس صورت میں پیر اور منہ قبلہ کی طرف ہوں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جس طرح بھی سہولت ہو، میت کو غسل دینے میں لٹا سکتے ہیں؛ کیوں کہ بعض جگہ غسل کی جگہ قبلہ رخ نہیں ہوتی اور تنگ بھی ہوتی ہے۔
(میت کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا جلد۱ ص ۴۴، ۴۵)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204201005
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
____________________________________________________
● *میت کو غسل دیا جاۓ تو میت کے پاٶں کس طرف کرنے چاہئیے؟*
السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ..
کیا فرماتے ہیں علماۓ دين و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب میت کو غسل دیا جاۓ تو میت کے پاٶں کس طرف کرنے چاہئیں کیونکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبلہ رخ کریں اور بعض کہتے ہیں کہ مشرق کی طرف کرنے چاہئیں يا کوٸی جہت نہیں کسی طرف بھی کرسکتے ہیں۔
براۓ کرم وضاحت سے اس مسٸلے میں رہنمائی فرمائیں؟
(الساٸل فقیر محمد یٰسین سکندری)
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
الجوابــــــــــــ:
*صورت مسئولہ میں یہ کوئ ضروری نہیں کہ میت کو غسل دیتے وقت قبلہ کی طرف پاؤں پھیلاکر ہی لٹایاجائے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ جس رخ لٹا کر نہلانے میں آسانی ہو اسی رخ لٹائیں خواہ اس طرح کہ قبلہ کو پاؤں ہوں، جس طرح لیٹ کر نماز پڑھنے والا پاؤں کرتا ہے، یا جس طرح قبر میں رکھتے ہیں-*
ایسا ہی بہار شریعت حصہ4صفحہ133،، اور فتاویٰ امجدیہ جلد1صفحہ332 پر ہے)
(فتاویٰ عالمگیری جلد1صفحہ158 میں ہے)
کيفية الوضع عند بعض اصحابنا الوضع طولّا کما في حالة المرض اذا اراد الصلاة بايماء ومنهم من اختيار الوضع كما يو ضع في القبر ولا صح انه يوضع كما تيسر كذا في الظهيرية)
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد1صفحہ275)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
____________________________________________________
● *امام احمد رضا خان بریلوی کا فتوی*
امام احمد رضا خان بریلوی بھی اس متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
“سب طرح درست ھے مذہب اصح میں اس باب میں کوئی تعیین وقید نہیں ھے جو صورت میسر ہو اُس پر عمل کریں….”
*[فتاوی رضویہ // احمد رضا بریلوی // ج 9 // الصفحة 92]*
____________________________________________________
● *اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع دیوبندی کا فتوی*
سوال (650) : غسل کے وقت مردہ کا منہ کس طرف ہو؟
جواب: غسل کے وقت تختہ پر مردہ کو رکھنے کی دو صورتیں لکھی ہیں *ایک تو قبلہ کی جانب پاؤں کر کے لٹانا دوسرا قبلہ کی طرف منہ کرنا جیسے قبر میں رکھتے ہیں اور دونوں صورتوں میں سے جو صورت ہو سکے جائز ھے۔*
*[امداد الفتاوی// ج 1 // صفحہ 571]*
____________________________________________________
● اس کے علاوہ فتاوی حقانیة میں بھی یہی صورتیں نقل ہوئی ہیں ملاحظہ فرمائیں:
*[فتاوی حقانیة ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحق و دیگر مفتیان دارالعلوم حقانیة // ج 3 // الصفحة 455]*
● اس کے علاوہ یہی صورتیں نقل ہوئی ہیں کتاب الفتاوی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی // ج 3 // الصفحة 137]
نیز مولانا صاحب اگلے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال (867) کا جواب:
*”اصل میں پاؤں کو قبلہ رُخ رکھنا نہیں ھے بلکہ چہرہ کو قبلہ رُخ رکھنا ھے”*
[کتاب الفتاوی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی // ج 3 // الصفحة 137]
● نیز مفتی محمود صاحب نے بھی مندرجہ بالا صورتیں بیان کی ہیں ملاحظہ فرمائیں:
*[فتاوی مفتی محمود // ج 3 // الصفحة 35]*
● اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب سے رجوع فرمائیں جن کو ہم نے بطور سکین بھی لگا دیا:
*[فتاوی ہندیہ المعروف به فتاوی عالمگیریہ ، ج 1 ، الصفحة ، // احکام میت ، ڈاکٹر عبدالحئی خلیفہ مجاز اشرف علی تھانوی ، الصفحة 26 // فتاوی امجدیہ ، مفتی امجد علی اعظمی ، مسئلہ 457 ، صفحہ 331 332 // فتاویٰ فقیہ ملت ، جلد 1 ، صفحہ 275 // بہار شریعت ، حصہ 4 ، صفحہ 133….]*
التماس دعا: محمد ثقلین عباس