اھـل سنت کے بـڑے ثقہ مـعتبر مـورخ ابن سعد
اپـنی کـتاب ” طـبقات ” مـیں ایـک روایت نقل
کرتے ہیں 

اخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِی هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ تَطْلُبُ مِیرَاثَهَا وَ جَاءَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یطْلُبُ مِیرَاثَهُ وَجَاءَ مَعَهُمَا عَلِی، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: “لا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ”، وَمَا كَانَ النَّبِی یعُولُ فَعَلَی، فَقَالَ عَلِی: وَرِثَ سُلَیمَانُ دَاودَ، وَقَالَ زَكَرِیا: یرِثُنِی وَیرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ هَكَذَا وَأَنْتَ وَاللَّهِ تَعْلَمُ مِثْلَمَا أَعْلَمُ، فَقَالَ عَلِی: هَذَا كِتَابُ اللَّهِ ینْطِقُ ! فَسَكَتُوا وَانْصَرَفُوا. 

سیدہ پاک ع ابوبکر کے پاس تشریف لائیں اور اپنی میراث ان سے طلب فرمائی۔ عباس بن عبد المطلب بھی ابوبکر کے پاس آئے اور ان نے بھی اپنی میراث کو طلب کی، اور مولا علی ع انکے ساتھ تھے۔
ابوبکر نے کہا کہ: رسول پاک ص نے فرمایا تھا کہ: ہم انبیاء اپنے مرنے کے بعد کوئی میراث نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چیز چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتی ہے، اور جو کام رسول پاک انجام دیتے تھے، میں بھی وہی کام انجام دوں گا۔
مولا علی ع نے فرمایا کہ: نبی سلمان نے نبی داود سے میراث حاصل کی ہے، اور نبی زکریا نے بھی فرمایا تھا کہ: اے اللہ مجھے ایک ایسا جانشین عطا فرما کہ جو مجھ سے اور آل یعقوب سے میراث پائے۔ ابوبکر نے جوابا کہا کہ: زکریا ایسے ہی تھے اور خدا کی قسم تم بھی میری طرح سب کچھ جانتے ہو۔ مولا علی ع نے فرمایا کہ: یہ خداوند کی کتاب ہے کہ جو کلام کرتی ہے۔
اسـکے بعد سب خامـوشی سے وہاں سے واپـس
آ گـئے 



نوٹ ،، مـولا عـلی علیه سلام نے بھرے مـجمع میں یہ بات قرآن مجید سے ثابـت کردی کہ انبیاء کرام کـی مالی وارثت ھوتے ہیں،، اس پر لا نورث ما صدقہ ما ترکنا کی عبارت کی کوئی حیثیت نہیں رہی 


