امام حسن عسکری علیہ السلام پر جرح؟

بقلم: سید علی اصدق نقوی
ابن جوزی اپنی کتاب الموضوعات میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد جس کی سند میں امام عسکری علیہ السلام اور ان کے آباء موجود ہیں لکھتا ہے:
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع وَالْحسن بن عَليّ صَاحب الْعَسْكَر هُوَ الْحسن بن عَليّ بن مُحَمَّدِ بن مُوسَى بن جَعْفَر أَبُو مُحَمَّد العسكري أحد من تعتقد فِيهِ الشِّيعَة الْإِمَامَة. روى هَذَا الحَدِيث عَن آبَائِهِ وَلَيْسَ بشئ.
یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔ اور حسن بن علی صاحبِ العسکر سے مراد حسن بن علی بن محمد بن موسی بن جعفر، ابو محمد العسکری ہیں جو ان میں سے ایک ہیں جن کی امامت کا اعتقاد شیعہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ حدیث اپنے آباء و اجداد سے روایت کی ہے مگر وہ (حسن عسکری علیہ السلام) کوئی چیز نہیں۔
– الموضوعات، 1، ص 415
اسی کا تکرار سیوطی نے اپنی کتاب میں اس طرح کیا ہے تاکہ وہم نہ رہے کہ کلمات “وَلَيْسَ بشئ.” میں ضمیر راجع ہے حدیث کی طرف یا راوی کی طرف یعنی یہ کلمات حدیث کے لیئے ہیں یا راوی پر جرح ہے جیسا کہ کتب جرح و تعدیل میں مسلسل ملتا ہے۔ پس جلال الدین سیوطی نے اسی حدیث کو ذکر کرکے لکھا ہے:
مَوْضُوع: الْحَسَن العسكري لَيْسَ بِشَيْء.
یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے، اور حسن عسکری کوئی چیز نہیں۔
– كتاب اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، 1/396
علم جرح و تعدیل میں کسی کی بابت کہنا کہ وہ “کوئی شیء نہیں” یا “کوئی چیز نہیں” کلمات جرح و تضعیف میں سے ہے۔
ایسے اقوال کے بعد یہی اہل سنت اور بالخصوص صوفیہ مانند سیوطی اور اس کے پیروکار یہ ادعاء رکھتے ہیں کہ ہم ہی نے اہل بیت علیہم السلام کی حقیقی تکریم و تعظیم کی ہے اور ان سے دین لیا ہے حالانکہ کتب کی طرف رجوع کیا جائے تو حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ ابن جوزی ان کے یہاں علم حدیث کا ماہر ہے جبکہ سیوطی بھی تصوف اور علم حدیث دونوں کا ماہر ہے اور سیوطی کا شاذلی صوفی سلسلہ ان افراد سے منسوب ہے جو امام علی، امام صادق، امام رضا علیہم السلام اور دیگر ائمۂ اہل بیت علیہم السلام سے باطنی فیض اخذ کرنے کے مدعی تھے۔ پر کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف کوئی ان سے باطنی فیض اخذ کرے اور دوسری طرف انہی ذوات والا کو “ليس بشيء” یا دیگر الفاظ جرح سے یاد کرے دے، واللہ المستعان۔