ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

یہاں ہم کتب اہل سنت سے نماز ہاتھ کھول کر پڑھنے سے متعلق روایات و دلائل پیش کریں گے

.

جس نے رسول اللّه ص والی نماز دیکھنی ہے وہ عبد اللہ بن زبیر کی نماز دیکھے (سنن ابی داود)

نوٹ: عبد اللہ بن زبیر ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے (ابن ابی شیبہ)

حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرتے اور پھر ہاتھوں کو کھلا چھوڑ دیتے۔

المعجم الکبیر امام طبرانی ج۲۰ ص۷۴۔

حضرت ابوبکر ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے

امام إبراهيم بن محمد الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

📜 مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَلَاةً مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيِّ وَذَلِكَ أَنَّهُ أَخَذَ مِنْ مُسْلِمِ بْنِ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ وَأَخَذَ مُسْلِمٌ مِنَ ابْنِ جُرَيْجِ وَأَخَذَ ابْنُ جُرَيْجٍ مِنْ عَطَاءٍ وَأَخَذَ عَطَاءٌ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَخَذَ ابْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ.

📝 میں نے کسی شخص کو محمد بن ادریس شافعی سے زیادہ عمدہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہ اس لیے کہ انہوں نے (نماز کا طریقہ) مسلم بن خالد زنجی سے اخذ کیا، مسلم نے ابن جُریج سے اخذ کیا، ابن جریج نے عطاء سے اخذ کیا، عطاء نے عبد اللہ بن زبیر سے اخذ کیا، ابن زبیر نے ابو بکر صدیق سے اخذ کیا، ابو بکر نے نبی ﷺ سے اخذ کیا، نبی ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے اخذ کیا۔❝

📚 [رواه أبو نعيم في «حلية الأولياء» (٩/ ١٣٥) وإسناده صحيح]

👈امام بخاری کے استاد ابوبکر ابن ابی شیبہ لکھتے ہیں کہ عبداللّہ ابن زبیر(حضرت ابوبکر کے نواسہ) ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے

📚 المصنف ابن ابی شیبہ اسنادہ صحیح

چونکہ ابن زبیر نے اپنے نانا حضرت ابوبکر سے نماز سیکھی اور ابوبکر نے رسولﷺ سے اور رسولﷺ نے حضرت جبرائیلؑ سے تو ثابت ہوا کہ یہ تمام ہستیاں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتی تھیں۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر کے ماننے والے تمام مسلمان بھائی خلیفہ راشد کی پیروی کرتے ہوئے آئندہ ہاتھ باندھنے کی بجائے چھوڑ کر نماز پڑھیں۔

.

شیعوں کی نماز نبی ص پاک والی

.

سنن أبي داود میں اور اس کی سند بھی صحیح ہے

♻میں فقط اسی حصہ کا ترجمہ کرتا ہوں جو ہمارا مطلوب ہے!♻

وہ حصہ یہ ہے

(كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ ….)

نبی پاک جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں کے ساتھ والے حصوں تک بلند کرتے تھے پھر تکبیر کہتے تھے

👈پھر ہر عضوے کو اپنی اپنی جگہ پر عادی حالت میں قرار دیتے تھے👉
پھر قرائت فرماتے تھے پھر تکبیر اور پھر ہاتھوں کو اپنے کانوں کے ساتھ والے حصوں تک بلند کرتے تھے پھر رکوع کرتے تھے۔۔۔ آخر تک

📚 سنن أبي داود (1/ 194)

🔰730 – حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى – وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ – قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ، فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: ” كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ ” [ص:195]، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
_________
[حكم الألباني] : صحيح

علامہ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ایک باب ہے. ” من کان یرسل یدیہ فی الصلاۃ ” یعنی کون کون نماز میں ارسال یدین کرتا تھا ۔ اس باب میں انھوں نے اصحاب رسول اور تابعین کے ان افراد کا ذکر کیا ہے جو نماز میں ہاتھ کھول کر حالت قیام میں رکھتے تھے.

3973 ۔ یونس سے مروی ہے کہ حسن بصری اور مغیرہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی نماز میں ہاتھ کھول کر (لٹکائے ) رکھتے تھے ۔

3974 ۔ عمر بن دینار نے کہا کہ عبداللہ بن زبیر جب نماز پڑھتے تو دونوں ہاتھ کھلے رکھتے تھے (لٹکائے رکھتے تھے )

محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

3975۔ عبداللہ بن یزید سے منقول ہے کہ اس نے کہا ، میں نے سعید بن مسیب کو نماز میں ہاتھ باندھے ہوئے کبھی نہیں دیکھا ، وہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے ۔

4۔ عبداللہ بن عیزا نے کہا کہ میں سعید بن جبیر کے ساتھ طواف کر رہا تھا کہ انہوں نے ایک شخص کو

ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ یعنی یہ اس پر اور یہ اس پر رکھ کر (باندھ) کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، چنانچہ سعید بن جبیر اس شخص کے پاس گئے اور اس کے ہاتھوں کو کھول دیا پھر واپس آگئے.

المصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلوۃ جلد 2 صفحہ 311 باب 209

اہل سنت امام مالک ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے

ھاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے بہت سے دلائل ھیں

.

۱۔قاضی شوکانی نیل الاوطار باب وضع الیمین علی الشمال کے ذیل میں روایت بیان کرتے ہیں

ابن منذر نے ابن زبیر، حسن بصری نخعی کے متعلق روایت کی ہے کہ وہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے اور یمینی کو یسری پر نہیں رکھتے تھے۔

نووی نے لیث بن سعد سے نقل کیا ہے۔اور مہدی نے بحر میں قاسمیہ و ناصریہ اور امام محمد باقر سے بھی ارسال [یعنی ہاتھ کھول کرنماز پڑھنا] نقل کیا ہے ابن قاسم نے امام مالک سے ارسال نقل کیا ہے۔ ابن حکم نے امام مالک سے ایک روایت خلاف وضع نقل کی ہے اور جبکہ امام مالک اور ان کے اصحاب کے نزدیک پہلی روایتِ نماز میں ہاتھ کھولنا ہی مشہور ہے۔

ابن سید الناس نے اوزاعی سے نقل کیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ ہاتھ کھولے یا باندھے۔

قاضی شوکانی نیل الاوطار من اسرار منتقی الاخبار ج۳ ص۵۱

۲۔علامہ بدر الدین عینی عمدۃ القاری شرح بخاری میں قریب انھی الفاظ کے ساتھ ابن منذر کی روایت بیان کرتے ہیں جسے قاضی شوکانی نے بیان کیا۔

ابن منذر نے ابن زبیر، حسن بصری نخعی،،ابن سیریں سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ہاتھ کھول کر نماز ادا کرتے تھے
اور
امام مالک کے نزدیک بھی ہاتھ کھولنا مشہور ہے اگر قیام میں طوالت ہوجائے تو راحت کے لیے داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھلیتے تھے۔

عمدۃ القاری شرح بخاری ج۵ ص ۲۷۹

۳۔حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری شرح بخاری میں روایت نقل کرتے ہیں:

.

ابن قاسم نے امام مالک سے ہاتھ کھولنے کی روایت بیان کی ہے۔ اور آپ کے اصحاب کی اکثریت قیامِ نماز میں ہاتھ کھولنے کی روایت بیان کرنے کی جانب گئے ہیں۔آپ سے فرض اور نوافل کی نمازوں میں فرق بیان کیا گیا ہے، البتہ ان بعض نے ہاتھ باندھنے کو ناپسند کیا ہے۔ ابن حاجب نے نقل کیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا تھکاوٹ کی بنا پر راحت کے لیے تھا۔

فتح الباری شرح بخاری ج۲ ص۲۹۳

تسہیل القاری شرح صحیح بخاری (پارہ ۳، ص ۸۴۰-۸۴۷) میں لکھا ھے

کہ

نماز میں ھاتھ باندھنا واجب نھیں ھے اور اگر یہ عمل واجب ھوتا تو اھلبیت کرام اسے ترک کیوں کرتے؟

لہذا اھلبیتؑ کا اس عمل کو ترک کرنا اس کے سنت نہ ھونے کی دلیل ھے.

.

پھر مؤلف نے لکھا
کہ بالجملہ امام محمد باقرؑ، امام مالک، ابراھیم نخعی (ابو حنیفہ کے استاد کے استاد) عبداللہ بن زبیر، حسن بصری، لیث بن سعد اور اوزاعی وغیرھم سے روایت ھے کہ نماز میں ھاتھ کھولنا نبی اکرم صہ کا مسنون عمل ھے.

.
امت کے ان بزرگوں کا عمل سنت رسول صہ سے ماورا نھیں ھو سکتا.

.

نووی شرح صحیح مسلم میں (جلد اول ص ۷۳) لکھتے ھیں:

مالک سے دو روایتیں ھیں:
ایک روایت یہ ھے کہ ھاتھوں کو سینہ کے نیچے باندھے اور دوسری روایت یہ ھے کہ نماز میں دونوں ھاتھوں کو کھول دے اور ایک ھاتھ کو دوسرے ھاتھ پر نہ رکھے اور اس کے جمھور اصحاب کی بھی یہی روایت ھے اور یہی ان کے نزدیک زیادہ مشھور ھے. اور لیث بن سعد کا مذھب یہی ھے. نیز مالک سے یہ بھی منقول ھے کہ نوافل میں ھاتھ باندھنے چاھیے اور فرائض میں ھاتھ کھولنے چاھیے. اور اس کے بعد بصری اصحاب نے اسی کو قول کو ترجیع دی.

کتاب روضہ ندیہ میں مرقوم ھے کہ ھاتھ کھولنے کا عمل بعض تابعین مثلا حسن (المتوفی ۱۱۰ھ)، ابراھیم، ابن مسیب، ابن سیریں (التوفی ۱۱۰ھ اور سعید بن جبیر (التوفی ۹۵ھ) سے منقول ھے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ھے.
اگر انھیں ھاتھ باندھنے کی روایت پھنچی ھے تو وہ اس پر محمول ھے کہ انھوں نے اسے سنت ھدی میں سے نھیں سمجھا، بلکہ اسے دیگر عادات کی طرح سے لوگوں کی عادت سمجھا ھے، اس لیے وہ ارسال یدین کی طرف مائل ھوئے تھے اور وضع کو بھی جائز سمجھتے ھوں گے، لیکن انھوں نے اصل بنا پر عمل کیا تھا، کیونکہ ھاتھ باندھنا ایک جدید امر ھے جوکہ دلیل کا محتاج ھے.

نبی کریم ص کے بعد نمازیں تبدیل ہوتی رہی مگر جب علی علیہ السلام نے آکر نماز پڑھاٸ تو صحابہ کو نبی کریم ص کی پڑھاٸ گٸ نماز کی یاد آگٸ
.
بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ ہو
.
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ أَخِي عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ:” دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟، فَقَالَ: لَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ، وَهَذِهِ الصَّلَاةُ قَدْ ضُيِّعَتْ”، وَقَالَ بَكْرُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انہوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔
.
[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
بـعض عُـلماء کا پـرانا قـول یہی ہے
امام ابن المنذر النیسابوری نے اپنی کتاب ” الاوسط میں لــکھتے ہـیں : اور کہنے والا یہ کـہتا ہے کہ ہاتـھ رکـھنے کے سـلسلے میں نـبی نام سے کوئی حـدیث ثابت نہیں ۔ “
( الاوسط : ۳ / ۹۴ )
“مـیں کہتا ہوں” کہ اسی طـرح اس باب مـیں کـسی ایـک صحابی سے بـھی کـچھ ثابت نہیں ہے
حوالہ 📚 عبادات میں بدعات اردو ص 130
نبی کریم ﷺ وآلہ کی وفات کے بعد نماز کی حالت
.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، عَنْ غَيْلَانَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:” مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ الصَّلَاةُ، قَالَ: أَلَيْسَ ضَيَّعْتُمْ مَا ضَيَّعْتُمْ فِيهَا؟”.
ترجمہ: “ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا۔ لوگوں نے کہا، نماز تو ہے۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے”.
(صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 529)
.
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ أَخِي عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ:” دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟، فَقَالَ: لَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ، وَهَذِهِ الصَّلَاةُ قَدْ ضُيِّعَتْ”، وَقَالَ بَكْرُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ.
ترجمہ: “ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انہوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔
(صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 530)
سلفی متفی “شیخ” عبدالعزیز بن باز کے مطابق ہاتھ کھول کر پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی
.
“شیخ” عبدالعزیز بن باز سعودیہ کے سابق مفتی اعظم تھے جنکا شمار سلفیوں کے جید علماء میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جگہ نماز کے مسائل میں یوں لکھتے ہیں :
یہ بات جان لینی چاہئے کہ رکوع سے پہلے یا بعد میں دائیں ہاتھ دے بائیں ہاتھ کو پکڑنے اور دونوں کو سینہ پر یا کسی دوسری جگہ رکھنے کے سلسکے میں جو باتیں اوپر گزری ہیں، اھل علم کے نزدیک وہ تمام از قبیل سُنن ہیں، واجبات نہیں۔ اس لے اگر کوئی شخص ہاتھ چھوڈ کر نماز پڑھتا ہے اور رکوع سے پہلے یا بعد میں ہاتھ نہیں باندھتا تو اسکی نماز صحیح ہے، بس اتنی بات ہے کہ اس نے افضل کو ترک کردیا۔
⛔صلوٰۃ الرسول – عبدالعزیز بن باز (اہتمام مغمد لقمان سلفی) // صفحہ ۳۱ – ۳۲ // طبع مرکز علامہ عبدالعزیز باز بہار ھندوستان۔
.
اس تحریر میں چند جلیل القدر تابعین سے ثبوت پیش خدمت ہے :
حافظ ابو زرعہ الدمشقی م281ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَحْيَى المَعَافِرِيِّ عَنْ حَيْوَةَ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّهُ لَمْ يَرَ أَبَا أُمَامَةَ – يَعْنِي ابْنَ سَهْلٍ – وَاضِعًا إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى قَطٌّ، وَلَا أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، حَتَّى قَدِمَ الشَّامَ، فَرَأَى الْأَوْزَاعِيَّ، وَنَاسًا يَضَعُونَهُ
( كتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص622 وسندہ صحیح )
بکر بن عمرو المعافری کہتے ہیں : کہ انہوں نے کبھی ابو امامہ (اسعد) بن سہل رضی اللہ عنہ کو نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نا ہی اہل مدینہ میں سے کسی کو یہ عمل کرتے دیکھا یہاں تک کہ جب وہ شام گئے تو وہاں انہوں نے امام اوزاعی رحمہ اللہ وغیرہ کو ہاتھ باندھتے دیکھا ۔
ابو امامہ بن سہل کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا ہے یہ انصار میں سے ہیں مدینہ کے فقہاء میں سے ہیں یہ کبار تابعین میں سے ہیں انکے والد صحابی رسول سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں ۔
ابو امامہ بن سہل اپنے والد ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان اور دیگر کئی صحابہ سے احادیث روایت کرتے ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 3/518 )
بکر بن عمرو المعافری یہ ثقہ ثبت راوی ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 6/203 )
حيوة بن شريح یہ بھی ثقہ فقیہ ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 6/405 )
عبد الله بن يحيى المعافري یہ بھی ثقہ راوی ہیں ۔
( كتاب الكاشف 1/607 )
عبد الرحمن بن إبراهيم القرشي یہ ثقہ حافظ ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 11/515 )
مصنف أبو زرعة الدمشقي یہ بھی ثقہ محدث ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 13/312 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس اثر کی سند صحیح ہے جلیل القدر بدری انصاری صحابی رسول کے بیٹے ہاتھ کھول کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔
امام الحافظ ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَيْزَارِ قَالَ: «كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَرَأَى رَجُلًا يُصَلِّي وَاضِعًا إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى، هَذِهِ عَلَى هَذِهِ، وَهَذِهِ عَلَى هَذِهِ، فَذَهَبَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ جَاءَ»
( كتاب المصنف – ابن أبي شيبة – ت الحوت 1/344 وسندہ صحیح )
عبداللہ بن عیزار فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے ساتھ طواف کررہا تھا انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے نماز میں اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا ہوا تھا چنانچہ وہ اسکے پاس گئے اور اسکے ہاتھ کھلوا کر واپس آگئے ۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کبیر تابعی ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں مفسر قرآن ہیں اور شہید ہیں ۔
یہ سیدہ عائشہ ، ابو موسیٰ اشعری ، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہم وغیرہ سے روایت بیان کرتے ہیں حافظ حدیث ہیں ثقہ ثبت فقیہ ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 4/322 )
( تقريب التهذيب 1/ 374 )
عبيد الله بن العيزار المازني یہ ثقہ راوی ہیں ۔
( الجرح و التعديل لابن أبي حاتم 5/330 )
يحيى بن سعيد القطان یہ ثقہ متقن حافظ ہیں ۔
( تقريب التهذيب 1/1055 )
( الكاشف في معرفة 4/482 )
مصنف أبو بكر بن أبي شيبة یہ جلیل القدر ثقہ حافظ محدث ہیں ۔
( تقريب التهذيب 1/540 )
( تهذيب الكمال 16/34 )
اس تفصیل سے ثابت ہوا اس اثر کی سند صحیح ہے مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ تابعی کبیر امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ نا صرف خود ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے بلکہ اسکی دعوت بھی دیتے تھے اور سختی سے عمل کرواتے تھے ورنہ دوران نماز کسی کے ہاتھ کھولنا کوئی معمولی بات نہیں ۔
امام الحافظ ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَنَّهُ سُئِلَ عنِ الرَّجُلِ يُمْسِكَ يَمِينَهُ بِشِمَالِهِ قَالَ: «إِنَّمَا فُعِلَ ذَلِكَ مِنْ أَجْلِ الدَّمِ»
( كتاب المصنف – ابن أبي شيبة – ت الحوت 1/344 وسندہ صحیح )
ابن عون کہتے ہیں ابن سیرین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا آدمی نماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا ؟ انہوں نے فرمایا یہ عمل خون سے بچنے کے لئے کیا گیا تھا ۔
محمد بن سیرین رحمہ اللہ کبیر تابعی ہیں صحابی رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام تھے یہ ثقہ ثبت فقیہ ہیں ۔
یہ سیدنا ابو ہریرہ ، ابن عباس ، عمران بن حصین ، عبداللہ بن عمر ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 4/606 )
( تقريب التهذيب 2/85 )
عبد الله بن عون یہ ثقہ حافظ ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 6/365 )
( تقريب التهذيب 1/533 )
ابن علية یہ ثقہ ثبت حافظ امام ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 9/108 )
( تقريب التهذيب 1/825 )
مصنف أبو بكر بن أبي شيبة یہ جلیل القدر ثقہ حافظ محدث ہیں ۔
( تقريب التهذيب 1/540 )
( تهذيب الكمال 16/34 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا اس اثر کی سند صحیح ہے اور تابعی کبیر محمد بن سیرین رحمہ اللہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے آپ کی طرف ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کی نسبت دیگر علماء نے بھی کی ہے ۔
حافظ ابوبکر ابن المنذر نیشاپوری م319ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رُوِّينَا عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يُرْسِلُ يَدَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَابْنُ سِيرِينَ، سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ
ہم نے عبداللہ بن زبیر ، حسن بصری ، ابراہیم النخعی ، محمد بن سیرین ، سعید بن جبیر سے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا روایت کیا ہے ۔
( كتاب الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف 3/92 )
مزید امام نووی م676ھ اور امام ابوبکر القفال الشاشی م507ھ رحمہما اللہ نے بھی آپکی طرف ارسال کی نسبت کی ہے ۔
امام الحافظ عبدالرزاق صنعانی م211ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَجْعَلَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُسْرَى إِلَى جَنْبِهِ، وَيَجْعَلَ كَفَّهُ الْيُمْنَى بَيْنَ عَضُدِهِ الْيُسْرَى، وَبَيْنَ جَنْبِهِ، وَكَرِهَ أَنْ يَقْبِضَ بِكَفِّهِ الْيُمْنَى عَلَى عَضُدِهِ الْيُسْرَى، أَوْ كَفِّهِ الْيُسْرَى عَلَى عَضُدِهِ الْيُمْنَى”
( كتاب المصنف – عبد الرزاق – ت الأعظمي 2/276 وسندہ صحیح )
ابن جریج امام عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اس چیز کو مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی نماز میں اپنا بایاں ہاتھ پہلو پر اپنے رکھے اور دایاں ہاتھ اپنے پہلو اور اپنی کلائی کے درمیان رکھے اور وہ یہ بھی مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی اپنی دائیں ہتھیلی کے ذریعہ بائیں کلائی کو پکڑ لے یا بائیں ہتھیلی کے ذریعہ دائیں کلائی کو ۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ یہ مفتی حرم تھے جلیل القدر کبیر تابعی تھے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ انکے بارے میں فرماتے تھے کہ میں نے ان سے افضل کوئی شخص نہیں دیکھا یہ ثقہ فقیہ فاضل ہیں ۔
یہ سیدہ عائشہ ، ام سلمہ ، ابو ہریرہ ، ابن عباس ، زید بن ارقم ، ابن زبیر ، جابر بن عبداللہ ، ابن عمر ، ابن عمرو سمیت کئی صحابہ کرام سے روایت کرتے ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
( سير أعلام النبلاء 5/79 )
( تقريب التهذيب 1/677 )
عبد الملك بن جريج یہ بھی ثقہ فقیہ فاضل ہیں ۔
( تقريب التهذيب 1/624 )
( الكاشف في معرفة 3/323 )
مصنف امام عبدالرزاق صنعانی حافظ ثقہ ثبت ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 9/564 )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس اثر کی سند صحیح ہے ابن جریج کی عطاء سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے ۔
امام الحافظ ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، «أَنَّهُ كَانَ يُرْسِل يْديه فِي الصَّلَاةِ»
( كتاب المصنف – ابن أبي شيبة – ت الحوت 1/344 وسندہ صحیح )
یونس بن عبید بیان کرتے ہیں کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ ہاتھ کھول کر نماز ادا کرتے تھے ۔
امام حسن بصری کسی تعارف کے محتاج نہیں جلیل القدر کبیر تابعی ہیں درجنوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شاگرد ہیں جن میں سیدنا علی ، سیدنا انس بن مالک ، ابن عباس ، عمران بن حصین ، جابر بن عبداللہ ، نعمان بن بشیر ، معقل بن یسار وغیرہ شامل ہیں آپ ثقہ فقیہ مشہور فاضل ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 4/564 )
( تقريب التهذيب 1/202 )
یونس بن عبید رحمہ اللہ انکا شمار بھی صغار تابعین میں ہوتا ہے انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور حسن بصری و ابن سیرین سمیت کئی جلیل القدر کبار تابعین کے شاگرد ہیں یہ ثقہ ثبت حافظ ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 6/288 )
هشيم بن بشير یہ بغداد کے بہت بڑے حفاظ حدیث ہیں ثقہ ثبت ہیں ۔
( سير أعلام النبلاء 8/288 )
مصنف أبو بكر بن أبي شيبة یہ جلیل القدر ثقہ حافظ محدث ہیں ۔
( تقريب التهذيب 1/540 )
( تهذيب الكمال 16/34 )
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اس اثر کی سند صحیح ہے ثابت ہوا کہ درجنوں صحابہ کے شاگرد اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے والے کبیر تابعی حسن بصری بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھا کرتے تھے امام ابن ابی شیبہ نے ھشیم کے طریق سے ابراہیم نخعی کا اثر بھی ذکر کیا لیکن وہاں پر ھشیم مغیرۃ سے معنعن بیان کر رہے ہیں اور ھشیم کثیر التدلیس اور ارسال کرتے ہیں اس لیے اس طریق پر ہمارا دل مطمئن نہیں ہے ہم نے وہ ذکر نہیں کیا مزید یہ کہ اگر کوئی یہاں بھی یہ اعتراض کرے کہ ھشیم یونس سے بھی تو معنعن بیان کررہے ہیں تو یہاں تدلیس کا احتمال کیوں نہیں ہے ؟؟
تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ھشیم یونس سے مکثر ہیں بلکہ اعلم الناس ہیں یعنی یونس بن عبید کی حدیث کو لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے اور سب سے زیادہ روایت کرنے والے ہیں لہذا یہاں تدلیس کا احتمال نہیں ہے ۔
عبد الرحمن بن مهدي يقول: هشيم أعلم الناس بحديث سيار ومنصور، ويونس، وحصين
حافظ عبدالرحمن ابن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ھشیم بن بشیر لوگوں میں سب سے زیادہ سیار ، منصور ، یونس اور حصین کی حدیث کے جاننے والے ہیں ۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 9/ 115)
ابن مہدی کے قول کی تائید امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول سے بھی ہوتی ہے چنانچہ انکے بیٹے روایت کرتے ہیں :
وقال عبد الله بن أحمد بن حنبل: سألت أبي فقلت: من أروى الناس عن يونس ؟ فقال: هشيم أروى الناس عن يونس، ۔۔۔۔الخ
میں نے اپنے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ لوگوں میں یونس سے سب سے زیادہ کون روایت کرتا ہے ؟ انہوں نے کہا ھشیم لوگوں میں سب سے زیادہ یونس سے روایت کرتے ہیں ۔
(تهذيب الكمال 30/ 272)
مزید اسکی تائید امام ابراہیم الحربی رحمہ اللہ کے قول سے بھی ہوتی ہے چنانچہ فرماتے ہیں :
وقال سليمان بن إسحاق الجلاب أيضا، عن إبراهيم الحربي: كان حفاظ الحديث أربعة، كان هشيم شيخهم، كان هشيم يحفظ هذه الأحاديث – يعني المقطوعة – حفظا عجبا، كان يقول: يونس عن الحسن كذا وكذا، مغيرة عن إبراهيم مثله، فلان عن فلان مثله، قلت له: هذا كله حفظا ؟ قال: نعم
سلیمان بن اسحاق الجلاب کہتے ہیں ابراہیم الحربی رحمہ اللہ نے فرمایا احادیث کے حفاظ تو صرف چار ہی ہیں اور ھشیم ان سب کے سردار ہیں ھشیم کا عجیب حافظہ تھا وہ ان احادیث مقطوعہ (اقوال تابعین) کو ایسے حفظ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ یونس نے حسن بصری سے روایت کیا انہوں نے یہ یہ بات کہی اسی طرح مغیرہ عن ابراہیم سے اسی طرح فلاں فلاں سے میں نے کہا کیا انہیں یہ سب حفظ تھا انہوں نے کہا ہاں ۔
(تهذيب الكمال (30/ 272)
اس سے معلوم ہوا کہ ھشیم اقوال تابعین کے بہت بڑے حافظ تھے بلخصوص یونس عن حسن ، مغیرہ عن ابراہیم وغیرہ
کئی محدثین و فقہاء نے بھی امام حسن بصری علیہ الرحمہ کی طرف ارسال الیدین کی نسبت کی ہے حافظ ابن المنذر رحمہ اللہ کا کلام گزر چکا ہے اس کے علاوہ امام حسن بصری کی فقہ پر جو موسوعہ لکھا گیا ہے اس میں بھی آپ کی طرف ارسال الیدین کی نسبت کی گئی ہے ۔
━─━─━─━─━─━─━─━─━─━─━─━─━─━─━
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جلیل القدر تابعین ، صحابی کے بیٹے ، جنہوں نے درجنوں صحابہ کرام کی مجلس اختیار کی انکے پیچھے نماز پڑھیں وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے تھے لہذا ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا ہرگز بدعت یا خلاف سنت نہیں ہے ورنہ کبار تابعین کے بارے میں یہ گمان لازم آئے گا کہ وہ خلاف سنت عمل نا صرف کرتے بلکہ کرواتے بھی تھے معاذاللہ جیسا کہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا اثر گزرا مزید یہ کہ امام سعید بن مسیب ، ابراہیم النخعی رحمہما اللہ سے بھی ارسال الیدین مروی ہے لیکن انکی اسناد میں کلام ہے اس لئے ہم نے ذکر نہیں کیا ۔
خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین
.
.
.
مولا علی علیہ السلام کی نماز دیکھ کر صحابہ کرام رض کو رسول الله ﷺ کی نماز یاد آ گئی
.
📖حضرت عمران بن حصین رض سے روایت ہے، انھوں نے ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ بصرہ میں نماز ادا کی تو فرمایا: اس شخص ( حضرت علی ع ) نے ہمیں وہ نماز یاد دلادی ہے جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے کہا کہ آپ ﷺ جب نماز میں سر اٹھاتے اور سر جھکاتے تو اس وقت اللہ اکبر کہتے تھے۔
📚(صحیح بخاری/ انٹرنیشنل نمبرنگ : 784 )
📖حضرت مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رض نے حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ جب بھی سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے اور جب بھی سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے ، اسی طرح جب دو رکعات سے اٹھتے تو تکبیر کہتے ، چنانچہ نماز مکمل ہونے کے بعد حضرت عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ انھوں نے مجھے حضرت محمد ﷺ کی نماز یاد دلادی ہے یا انھوں نے ہمیں محمد ﷺ کی نماز پڑھائی ہے۔
📚(صحیح بخاری/ انٹرنیشنل نمبرنگ : 786 )
✍🏻برادران اہلسنت کی صحیح بخاری جیسی معتبر کتاب میں اس قسم کی روایت کا ہونا اللہ کا انتظام ہے اور پڑھنے والے کے لئے کھلا ہوا پیغام ہے کہ جس کو بھی رسول اللہ ﷺ جیسی نماز پڑھنا ہو وہ دوسروں کا دامن چھوڑ کر مولا علی علیہ السلام کے نقش قدم کی پیروی کرے۔ پچھلی پوسٹ میں وہ روایت بھی دکھا چکا ہوں جس میں ایک صحابی نے اقرار کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد نماز بدل دی گئی تھی ۔ اب ان دونوں روایتوں کو ملا کر پڑھئے تو آپ خود نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز بدلنے والے کون ہیں اور رسول اللہ ﷺ جیسی نماز پڑھانے والا کون ہے۔