بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم
“دو نمازیں ملا کر پڑھنا جمع بین الصلاتین”
📒تحریر:محمد ثقلین عباس📒
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اَلَّذِي جَعَلَنَا مِنَ اَلْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ»»
نماز جو ایک اہم عبادت ھے اور پروردگارِ عالم سے ملاقات کا ایک ذریعہ ھے کیونکہ جب ایک مسلمان خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتا ھے وہ الله تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ھے مسلمانوں کا کوئی مکتب ایسا نہیں ھے جو نماز کی اہمیت و فضیلت کا منکر ھو نیز یہ ایک ایسی عبادت ھے کہ جسے ترک کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ھوتا کیونکہ خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتے ھیں:
اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ….. (روم 31)
ترجمہ:”نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ھونا”
تو اس آیت کی رو سے نماز تو ادا کرنی ہی کرنی ھے چاھے اٹھ کر پڑھیں ، چاھے بیٹھ کر یا چاھے اشارے سے پڑھیں نیز مسلمان روزانہ پانچ نمازیں ادا کرتے ھیں اور مکتبِ اھلبیت علیھم السلام کا بھی یہی عقیدہ ھے کہ افضل یہی ھے کہ ہر نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کیا جائے ، تو اب اس میں یعنی پانچ اوقات میں مسلمانوں کے مابین کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ھے البتہ اختلاف ھے تو دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا یعنی جمع بین الصلاتین پہ ھے آیا کہ دو نمازیں یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء بغیر کسی وجہ کے اکٹھے پڑھ سکتے ھیں یا نہیں ، تو مکتبِ تشیع کا اس کے متعلق واضح عقیدہ ھے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ھے پڑھی جا سکتی ھیں اور یہ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ھے جیسا کہ سورہ اسرائیل کی آیت ۷۸ سے واضح ھے جس کی وضاحت اہلسنت مفسر فخرالدین رازی نے تفسیرِ کبیر میں بیان کی ھے اور کہا ھے کہ تین اوقات میں جمع بین الصلاتین میں کوئی حرج نہیں ھے، باقی اس کے جواز میں بکثرت روایات موجود ھیں نیز اب ھم اہلسنت کی معتبر کتب سے کچھ روایات نقل کرتے ھیں جس سے جمع بین الصلاتین کا ثبوت ملتا ھے وہ بھی بغیر کسی وجہ کے دو نمازیں جمع کرنا ثابت ھے تو اب کچھ روایات بطور نمونہ پیش خدمت ھیں۔
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر1🔷
حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ عَنِ ا بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعًا جَمِيعًا وَثَمَانِيًا جَمِيعًا…..
آدم، شعبہ، عمرو بن دینار، جابر بن زید، حضرت ابن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مغرب اور عشاء کی) سات رکعتیں ایک ساتھ پڑھیں اور (ظہر وعصر) کی آٹھ رکعتیں ایک ساتھ پڑھیں”
[صحیح البخاری / حدیث 538]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 2🔷
اخبرنا محمد بن عبد العزيز بن ابي رزمة واسمه غزوان، قال: حدثنا الفضل بن موسى، عن الاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان” يصلي بالمدينة يجمع بين الصلاتين بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء من غير خوف ولا مطر، قيل له: لم؟ قال: لئلا يكون على امته حرج….
“حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے ، ان سے پوچھا گیا: آپ ایسا کیوں کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: تاکہ آپ کی امت کے لئے کوئی پریشانی نہ ھو”
[سنن النسائی ، حدیث 603 / باب: بَابُ: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 3🔷
اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابي الزبير، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:” صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا من غير خوف ولا سفر…
“حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھی”
[قال الشيخ الألباني: صحيح]
بحوالہ:
(سنن النسائی حدیث 602)
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 4🔷
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابي الزبير المكي، عن سعيد بن جبير، عن عبد الله بن عباس، قال:” صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا في غير خوف ولا سفر…..
“حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کیا”
[سنن ابو داؤد ، حدیث 1024 / باب: باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 5🔷
اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا ابن جريج، عن عمرو بن دينار، عن ابي الشعثاء، عن ابن عباس، قال:” صليت وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانيا جميعا وسبعا جميعا…..
“حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں ، اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں”
قال الشيخ الألباني: صحيح
[سنن النسائی ، حدیث 604 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 6🔷
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا قَالَ قُلْتُ لَهُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ قَالَ وَأَنَا أَظُنَّ ذَلِكَ…..
“حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ (ظہر اور عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھی ہیں اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں بھی اکٹھی پڑھی ھیں ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا اے ابو الشعثاء ! میرا خیال ھے کہ نبی ﷺ نے ظہر کی نماز کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں ، اسی طرح مغرب کو اس کے آخر وقت میں عشاء کو اول وقت میں پڑھ لیا ہو گا ؟ (اسی کو انہوں نے جمع بین الصلاتین سے تعبیر کردیا) تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا خیال بھی یہی ھے”
[مسند احمد بن حنبل / حدیث 1918]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 7🔷
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ الْجُمَحِيُّ قَالَ ثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَدِينَةِ مُقِيمًا غَيْرَ مُسَافِرٍ سَبْعًا وَثَمَانِيًا…..
“حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں مقیم ہونے کی حالت میں نہ کہ مسافر ہونے کی حالت میں (مغرب اور عشاء کی) سات اور (ظہر اور عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھی تھیں”
[مسند احمد بن حنبل / حدیث 1929]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 8🔷
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ سَفَرٍ وَلَا خَوْفٍ قَالَ قُلْتُ يَا أَبَا الْعَبَّاسِ وَلِمَ فَعَلَ ذَلِكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ…..
“حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا : اس وقت نہ کوئی خوف تھا اور نہ ہی بارش ، کسی نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ اس سے نبی ﷺ کا مقصد کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت تنگی میں نہ رھے”
[مسند احمد بن حنبل حدیث 2557]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 9🔷
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ…..
“سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر ملا کر پڑھی اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی بغیر خوف اور بغیر سفر کے”
[صحیح مسلم / حدیث 1628 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 10🔷
وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَعَوْنُ بْنُ سَلاَّمٍ جَمِيعًا عَنْ زُهَيْرٍ- قَالَ ابْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ- حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ. قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ فَسَأَلْتُ سَعِيدًا لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ…..
“سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز مدینہ میں بغیر خوف اور سفر کے ملا کر پڑھی۔ ابو الزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں ایسا کیا؟ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی پوچھا تھا جیسا تم نے مجھ سے پوچھا انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ آپ کی امت میں کسی کو تکلیف نہ ھو”
[صحیح مسلم / حدیث 1629 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 11🔷
وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ- يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- حَدَّثَنَا قُرَّةُ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَةِ فِي سَفْرَةٍ سَافَرَهَا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ…..
“جبیر کے فرزند سعید نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو ایک سفر میں جمع کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کو گئے تھے غرض ملا کر پڑھی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء۔ سعید نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تکلیف نہ ھو”
[صحیح مسلم / حدیث 1630 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 12🔷
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرٍ عَنْ مُعَاذٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَكَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا…..
“سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک کو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر ملاتے اور مغرب اور عشاء ملاتے”
[صحیح مسلم / حدیث 1631 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 13🔷
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش ، عن حبيب بن ابي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:” جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر”، فقيل لابن عباس: ما اراد إلى ذلك؟ قال: اراد ان لا يحرج امته…..
“حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا ، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں”
[سنن ابو داؤد ، حدیث 1025 / باب: باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 14🔷
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ- يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ أَبُو الطُّفَيْلِ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. قَالَ فَقُلْتُ مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ قَالَ: فَقَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ…..
“سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع کیا۔ میں نے کہا (یہ قول ہے عامر بن واثلہ کا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ آپ کی امت کو تکلیف نہ ھو”
[صحیح مسلم / حدیث 1632 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 15🔷
وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ- وَاللَّفْظُ لأَبِي كُرَيْبٍ- قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ كِلاَهُمَا عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ مَطَرٍ. فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ قَالَ: قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ قَالَ كَيْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ. وَفِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ قِيلَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ…..
“سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا وکیع کی روایت میں ھے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو حرج نہ ہو اور ابی معاویہ کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا: کس ارادہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا؟ انہوں نے کہا: چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر تکلیف نہ ھو”
[صحیح مسلم / حدیث 1633 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 16🔷
وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا. قُلْتُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ. قَالَ وَأَنَا أَظُنُّ ذَاكَ…..
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آٹھ رکعتیں اکٹھا کر کے (یعنی ظہر اور عصر ملا کر) اور سات رکعتیں اکٹھا کر کے (یعنی مغرب اور عشاء ملا کر) میں نے کہا: اے ابوالشعثاء! میں گمان کرتا ہوں کہ آپ نے ظہر میں تاخیر کی اور عصر اول وقت پڑھی اور مغرب میں تاخیر کی اور عشاء اول وقت پڑھی، انہوں نے کہا کہ میں بھی یہی گمان کرتا ہوں”
[صحیح مسلم / حدیث 1634 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 17🔷
وَحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ…..
“سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی مدینہ میں سات رکعت ملا کر اور آٹھ رکعت ملا کر ظہر اور عصر ملا کر اور مغرب اور عشاء ملا کر”
[صحیح مسلم / حدیث 1635 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 18🔷
وَحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْخِرِّيتِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ يَوْمًا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ وَجَعَلَ النَّاسُ يَقُولُونَ الصَّلاَةَ الصَّلاَةَ- قَالَ- فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ لاَ يَفْتُرُ وَلاَ يَنْثَنِي الصَّلاَةَ الصَّلاَةَ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتُعَلِّمُنِي بِالسُّنَّةِ لاَ أُمَّ لَكَ. ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ فَحَاكَ فِي صَدْرِي مِنْ ذَلِكَ شيء فَأَتَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُهُ فَصَدَّقَ مَقَالَتَهُ…..
“شقیق کے بیٹے عبداللہ نے کہا کہ ہم میں ایک دن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وعظ کہا عصر کے بعد جب آفتاب ڈوب گیا اور تارے نکل آئے اور لوگ کہنے لگے نماز، نماز، پھر ایک شخص آیا قبیلہ بنی تمیم کا کہ وہ دم نہ لیتا تھا، نہ باز رہتا تھا، برابر کہے جاتا تھا نماز، نماز، تب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تو مجھے سنت سکھاتا ھے؟ تیری ماں مرے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ میرے دل میں خلش رہی تو میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول سچا ھے”
[صحیح مسلم / حدیث 1636 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 19🔷
وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لاِبْنِ عَبَّاسٍ الصَّلاَةَ فَسَكَتَ. ثُمَّ قَالَ الصَّلاَةَ. فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ الصَّلاَةَ فَسَكَتَ. ثُمَّ قَالَ لاَ أُمَّ لَكَ أَتُعَلِّمُنَا بِالصَّلاَةِ وَكُنَّا نَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ…..
”عبداللہ بن شقیق عقیلی نے کہا: ایک شخص نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نماز پڑھو آپ رضی اللہ عنہ چپ رھے اس نے پھر کہا: نماز آپ رضی اللہ عنہ چپ ہو رھے ، پھر اس نے کہا: نماز تو آپ رضی اللہ عنہ چپ ہو گئے پھر اس سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تیری ماں مرے تو ہم کو نماز سکھاتا ھے؟ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے”
[صحیح مسلم / حدیث 1637 / باب: الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 20🔷
حَدَّثَنَا….. مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى سَبْعًا جَمِيعًا وَثَمَانِيًا جَمِيعًا…..
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ (ظہر اور عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھی ہیں اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں بھی اکٹھی پڑھی ھیں”
[مسند احمد بن حنبل / حدیث 2465]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 21🔷
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ حَدَّثَنِي صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي غَيْرِ مَطَرٍ وَلَا سَفَرٍ قَالُوا يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا أَرَادَ بِذَلِكَ قَالَ التَّوَسُّعَ عَلَى أُمَّتِهِ…..
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا : اس وقت نہ کوئی سفر تھا اور نہ ہی بارش ، کسی نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ اس سے نبی ﷺ کا مقصد کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت تنگی میں نہ رہے اور اس کے لئے کشادگی ہو جائے”
[مسند امام احمد ، جلد 2 / باب: عبداللہ بن عباس کی مرویات / حدیث نمبر: 1325]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 22🔷
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَاكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ….
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ اس سے نبی ﷺ کا مقصد کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت تنگی میں نہ رھے”
[مسند احمد بن حنبل / حدیث 2557]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 23🔷
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَنَحْنُ آمِنُونَ لَا نَخَافُ شَيْئًا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ…..
“حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان حالت امن میں تھے، کسی چیز کا قطعاً کوئی خوف نہ تھا، لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے واپس لوٹنے تک دو دو رکعتیں کر کے نماز پڑھی (قصر فرمائی)”
[مسند امام احمد / جلد 2 / باب: عبداللہ بن عباس کی مرویات / حدیث نمبر: 1406]
________________________________________________
🔶ثبوت نمبر 24🔷
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي الْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ قَالَ كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ…..
حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ھے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا : اس وقت نہ کوئی خوف تھا اور نہ ہی بارش، کسی نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ اس سے نبی ﷺ کا مقصد کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی امت تنگی میں نہ رھے”
[مسند احمد بن حنبل/ حدیث 3323]
________________________________________________
🔶 کیا دو نمازیں جمع کرنا گناہِ کبیرہ ھے؟؟ 🔷
بعض اہلسنت بھائی کہتے ھیں کہ بغیر کسی وجہ کے دو نمازیں جمع کرنا گناہِ کبیرہ ھے اور وہ اس کے ثبوت میں ایک انتہائی ضعیف حدیث کا سہارا لیتے ھیں ، جس کی وضاحت درج ذیل ھے:
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَی بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْکَبَائِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ وَهُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ لِلْمَرِيضِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ…..
ترجمہ:”حضرت عبدالله بن عباس رض سے روایت ھے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ھوا”
امام ترمذی کہتے ھیں : حنش ہی ابو علی رحبی ھیں اور وہی حسین بن قیس بھی ھے یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ھے احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ھے اور اسی پر اہل علم کا عمل ھے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ھے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ھیں بعض اہل علم کہتے ھیں کہ بارش کے سبب بھی دو نمازیں جمع کی جاسکتی ھیں شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ھے البتہ شافعی مریض کے لئے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کرنے کو درست قرار نہیں دیتے”
[سند میں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ھے]
🔶 وضاحت :”سفر میں دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کو ناجائز ھونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ھے ، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ھے قطعاً استدلال کے قابل نہیں ، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین کی جو احادیث دلالت کرتی ھیں ، وہ صحیح ھیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ھے اور اگر بالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو عذر سے مراد سفر ہی تو ھے ، نیز دوسرے عذر بھی ھو سکتے ھیں”
[قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا التعليق الرغيب (1 / 198) ، الضعيفة (4581) ، / ضعيف الجامع بترتيبى برقم (5546) صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 188]
________________________________________________
قارئین محترم!
بغیر کسی وجہ کے دو نمازوں کو جمع کرنا برادرانِ اسلامی کی معتبر ترین کتب سے ثابت ھے نیز یہ سنت رسول الله ص ھے اگر کوئی اس سنت پر عمل کر رہا ھے تو اعتراض بنتا ہی نہیں ھے بلکہ سنت کی مخالفت جرم ھے لہٰذا ضروری ھے کہ ھمیں دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے روایات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں نیز جنہوں نے ان احادیث سے اپنے مطلب نکالے ھیں فقط آئمہ کے دفاع میں تو انہیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جنابِ رسول الله ص کے مقابلے میں اپنی آرا لانا اور دوسروں پر مسلط کرنا بھی تعجب خیز ھے لہٰذا ضروری ھے کہ جمع بین الصلاتین کوئی بدعت نہیں ھے بلکہ سنت ھے باقی افضل وقت کا کوئی منکر نہیں ھے سب کا اس پہ اجماع ھے۔
.
سوال
.
کیا جمع بين الصلاتين شیعہ کتب سے صحیح سند کے ساتھ روایت موجود ہے ؟
.
حجت تمام کرنے کیلئے یہاں ہم بردار عزیز سیف نجفی صاحب کی تحریر سے جواب نقل کر رہے ہیں
.
جمع بين الصلاتين شـیعہ کـــتب سے صحـــیح ســــند کے ساتھ
اس کے بارے ایـــک مختصر جـــواب شیعہ کـــتب سے
شيـــخ صـــدوق (رضوان الله عليه) اپـــنی کتــاب میں صحیح سنـــد کے ساتھ لکھتے ہیں
وروى عبد الله بن سنان عن الصادق عليهالسلام «أن رسول الله صلىاللهعليهوآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان [واحد] وإقامتين»
تـــرجـــمہ:عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا(ص) ملا کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو‼ ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ‼ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھا کرتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حوالہ: من لا يحضره الفقيه – الشيخ الصدوق – ج ١ – الصفحة ٢٨٧
http://lib.eshia.ir/11021/1/287
اس سـند کو آیــــت اللہ خوئـــی نے معجم الرجال میں صحــــیح کہا ہے
حــوالہ: معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج ١١ – الصفحة ٢٢٦
http://lib.eshia.ir/14036/11/226
1️⃣ اس کے علاوہ علامه محمد تقي المجلسي (رضوان الله عليه): اپـــنی کتــاب میں لکھتے ہیں
«و روى عبد الله بن سنان» في الصحيح «عن الصادق عليه السلام إلخ» و يدل على جواز الجمع بين الصلاتين في وقت واحد في الحضر من غير علة و في معناه أخبار كثيرة ، و في بعضها ليتسع الوقت على أمته فما وقع من التفريق محمول على الاستحباب.
ترجـــمہ: علامہ مجـــلسی مذکورہ روایت عـــبداللہ بن ســــنان سے لکھنے کے بعد اس کو صحــــیح کہا
عـــلامہ مجـــلسی لکھتے ہیں مذکورہ روایت ایک وقـــت میں دو نمازوں کو جمع کرنے پر دلالت کرتا ہے بغــــیر کسـی سفـر کے اس مورد میں کافی روایات ہیں، اور بعض روایات میں ہے نماز میں جمع کرنے کا اصل مقصد امـــتی سے تنـــگی دور کرنا چاھتے تھے اور ملا کر دو نمازیں پڑھنا مستحــب ہے
حـــوالہ: روضة المتّقين في شرح من لا يحضر الفقيه – محمد تقي المجلسي (الأول) – ج ٢ – الصفحة ٢٣٥
http://lib.eshia.ir/71453/2/235
2️⃣علامہ محــدث بحراني (رضوان الله عليه)اپـــنی کتــاب میں لکھتے ہیں
وما رواه الصدوق في الفقيه في الصحيح عن عبد الله بن سنان عن الصادق (عليه السلام) أن رسول الله (صلّى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين
ترجـــمہ: محدث بحرانی لکھتے ہیں شـــیخ صدوق نے اپـــنی کتاب من لایحضر الفقــیہ میں عبد اللہ بن سنان سے صحیح روایت کو نقل کیا رســـول خدا ملا کـــر پڑھتے تھے ظــھر اور عصر کو ‼ایک آذان اور دو اقامتیں‼ اور اس طرح مغرب اور عــشاء کو ملا کر پڑھا کرتے تھے ‼ایـــک آذان اور دو اقامــــت کے ساتھ ‼
حـــوالہ: الحدائق الناضرة – المحقق البحراني – ج ٦ – الصفحة ١٩٢
http://lib.eshia.ir/10013/6/192
3️⃣علامہ بهبهاني (رضوان الله عليه) اپـنی کــتاب میں لکھتے ہیں
صحيحة ابن سنان عن الصادق عليه السّلام: «أنّ رسول اللَّه جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علَّة بأذان [واحد] وإقامتين»
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حوالہ: مصابيح الظّلام في شرح مفاتيح الشّرائع – محمد باقر الوحيد البهبهاني – ج ٦ – الصفحة ٤٩٣
http://lib.eshia.ir/10438/6/493
4️⃣علامہ محقق النراقي (رضوان الله عليه) اپـــنی کتاب میں سند صحیح کے ساتھ لکھتے ہیں
صحيحة ابن سنان : (إن رسول الله صلّى الله عليه وآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين).
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبـداللہ بن ســــنان امــام جعـفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حـوالہ: مستند الشيعة – المحقق النراقي – ج ٤ – الصفحة ١٤٠
http://lib.eshia.ir/10153/4/140
5️⃣ صاحب جواهر(رضوان الله علیه) اپـــنی کتاب میں عبداللہ بن ســـنان سے سنـــد صحیح کے ساتھ لکھتے ہیں
ففي صحيح عبد الله ابن سنان عن الصادق (ع) (أن رسول الله صلّى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان وإقامتين)
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حـوالہ: جواهر الكلام – الشيخ الجواهري – ج ٩ – الصفحة ٣٣
http://lib.eshia.ir/10088/9/33
6️⃣علامہ آقا رضا همداني (رضوان الله عليه): اپنـــی کتاب میں سند صحیح کے ساتھ لکھتے ہیں
وصحيحة عبد اللَّه بن سنان عن الصادق عليه السّلام «أنّ رسول اللَّه صلَّى اللَّه عليه وآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علَّة بأذان وإقامتين».
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حوالہ: مصباح الفقيه – آقا رضا الهمداني – ج ١١ – الصفحة ٢٤٠
http://lib.eshia.ir/10156/11/240
7️⃣آية الله العظمى سيد محسن الحكيم (رضوان الله عليه) اپـــنی کتـاب میں سند صحیــح کے ساتھ لکھتےہیں
كصحيح ابن سنان عن الصادق (عليه السلام): إن رسول الله (صلى الله عليه وآله) جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان واحد وإقامتين.
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
حــوالہ: مستمسك العروة – السيد محسن الحكيم – ج ٥ – الصفحة ٥٥٢
http://lib.eshia.ir/10152/5/552
8️⃣آية الله العظمى سيد أبوالقاسم الخوئي (رضوان الله عليه) اپنــی کتاب میں سند صحیح کے ساتھ لکھتے ہیں
وصحيحة عبد الله بن سنان عن الصادق عليه السلام أن رسول الله صلى الله عليه وآله جمع بين الظهر والعصر بأذان وإقامتين ، وجمع بين المغرب والعشاء في الحضر من غير علة بأذان واحد وإقامتين .
تـــرجـــمہ: سند صحیح کے ساتھ عبداللہ بن ســــنان امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا رســول خدا (ص) جَمع کر کے پڑھا کرتے تھےظھر اور عصر کو ایـــک آذان اور دو اقامة کے ساتھ اور اس طرح جَمعہ کر کے پڑھتے تھے مغـــرب اور عـــشاء کو بغــــیر عذر کے حضر میں ‼ایـــک آذان اور دو اقـــامة کے ساتھ‼
كتاب الصلاة – السيد الخوئي – ج ٢ – الصفحة ٢٩٨
http://lib.eshia.ir/10126/2/298
طالـــب دعا:ســـیف نــجفی
.
.