نماز میں مٹی کی سجدہ گاه رکھنا

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

.

رسول اللہ (ﷺ) مٹی پر ہی سجدہ کیا کرتے تھے
“امام” بخاری نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ ﷺ نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ ﷺ اعتکاف سے باہر آ جاتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ میں نے اس رات (قدر کی رات) کو دیکھا لیکن پھر بھلا دیا گیا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو، چنانچہ اسی رات بارش ہوئی، مسجد کی چھت چوں کہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر مٹی و پانی لگا ہوا تھا۔
صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۳۲۵ // رقم ۲۰۲۷ // طبع دار السلام ریاض۔
مالک بن انس نے بھی اسکو اپنی موطا مالک (جسکو انکے شاگرد ابن القاسم نے نقل کیا یے) میں نقل کیا۔
کتاب کے محقق زبیر علی زائی لکھتا ہے :
اسکی سند صحیح ہے۔
یہ روایت دوسری موطا مالک میں بھی ہے جسکو دوسرے شاگرد یحیی بن یحیی اللیثی نے مالک سے نقل کیا ہے۔۔۔۔۔ اور بخاری نے بھی اسکو مالک سے لیا ہے۔
فقہ (روایت کے فوائد) :
۴ – رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کا فرش کچا تھا۔
موطا مالک – بروایۃ ابن القاسم // صفحہ ۵۹۷ – ۵۹۸ // رقم ۵۱۶ // طبع اعتقاد پبلشنگ ہاوس دھلی ھندوستان۔
اس حدیث سے صاف ظاھر ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے زمانے میں مسجد نبوی کا فرش مٹی کا تھا اور مٹی پر سجدہ کرنا رسول اللہ (ﷺ) کی پاک سنت ہے جسکو آجکل صرف اھل تشیع ہی ادا کر رہے ہیں۔
تحریر: ذوالفقار مشرقی
.
.
موضوع کو مختصر کرنے کیلئے ہم یہاں کتب اہل سنت سے دلائل کے طور پر اسکین پیجز پوسٹ کر رہے ہیں
.
.
.
.
.
.

“سجدہ گاہ کیوں؟”

“اھلسنت کتب سے جائزہ”

🖋 تحریر: محمد ثقلین عباس

ارشادِ خداوندی ھے:

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ

ترجمہ:” اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو”

(سورہ آل عمران آیت 103 )

✍ مکتبِ جعفریہ پر مختلف اعتراض کئے جاتے ھیں انہی میں سے ایک یہ بھی ھے کہ شیعہ نماز میں سجدہ گاہ استعمال کیوں کرتے ھیں؟ چنانچہ ھم اس کی مختصر مگر جامع وضاحت کرتے ھیں آیا کہ سجدہ گاہ سنت رسول ص ھے یا نہیں اور اس کے متعلق اھلبیت ع اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین کا کیا مؤقف رھا ھے لہٰذا ھم اس کی وضاحت اھلسنت کی معتبر کتب سے ہی پیش کریں گے اور سجدہ گاہ کے متعلق اھلسنت کے جید فقہاء کے اقوال بھی نقل کریں گے تا کہ معترضین کو اس موضوع پر تحقیق کا موقع ملے اور حقائق تک رسائی حاصل کرنے کے بعد دوبارہ اعتراض نہ ھو لہذٰا سب سے پہلے ھم سجدہ یا سجدہ گاہ کے متعلق شیعہ اور اھلسنت مکتب کا مؤقف پیش کرتے ھیں پھر روایات پیش کریں گے۔

 

📒سجدہ گاہ کے متعلق فقہ جعفریہ کا مؤقف📒

مکتبِ اھلبیت شیعہ اثناء عشریہ میں سجدہ کیلئے مندرجہ ذیل شرائط ھیں:

•• سجدہ زمین کے کسی جز پر ھونا چاھئے

•• سجدہ ایسی شے پر ھونا چاھئے جو زمین سے روئیدہ ھوتی ھے بشرطیکہ وہ کھانے یا پہننے میں استعمال نہ ھوتی ھو

•• پتے پر بھی سجدہ ھو سکتا ھے یعنی اس کیلئے خاک اور لکڑی کا موجود ھونا بھی شرط نہیں ھے اگر یہ دونوں موجود ھوں تب بھی اس پر سجدہ ھو سکتا ھے

•• اس کے علاوہ کاغذ (سادہ) پر بھی سجدہ ھو سکتا ھے

•• اسی طرح فرش اگر چٹائی کا ھو تو اس پر بھی سجدہ ھو سکتا ھے کیونکہ وہ زمین کے نباتات سے بنا ھوتا ھے لیکن قالین یا دری وغیرہ پر سجدہ درست نہیں کیونکہ یہ اون یا سوت وغیرہ جیسی چیزوں سے بنا ھوتا ھے جو زمین اور نباتات زمین کے دائرہ سے خارج ھیں۔

»» چنانچہ اس کے متعلق ھم ایک روایت پیش کرتے ھیں جس میں امام جعفر الصادق علیہ السلام نے اس متعلق وضاحت پیش کی:

عن ھشام ابن الحکم قال قلت لأب عبدللهّ اخبرن عما يجوز السجود عليہ و عما لايجوز عليہ؟ قال : السجود لايجوز لاّعلی الأرض أو ما أنبتت لاّرض الا ماأکل أو لبس فقلت لہ:جعلت فداک ماالعلّة ف ذلک؟ قال: لأن عزّوجلّ فلا ينبغ أن يکون علیٰ ما يؤکل و يلبس لأن أبناء الدنيا عبيد ما يأکلون و يلبسون والساجد ف السجود ھو الخضوع ّ سجوده ف عبادة للهّ عزّوجلّ فلا ينبغ أن يضع جبھتہ ف سجوده علیٰ معبود أبناء الدنيا الذين اغتروا بغرورھا والسجود علیٰالأرض أفضل لأنہ أبلغ ف التواضع والخضوع ّ عزّوجلّ

ترجمہ:” ہشام بن حکم کہتے ہيں کہ ميں نے امام صادق ع کی خدمت ميں عرض کيا کہ آپ رہنمائی فرمائيں کہ کن چيزوں پرسجده کرنا صحيح ھے اور کن چيزوں پر صحيح نہیں ھے؟ امام ع نے فرمايا سجده صرف زمين اور اس سے اگنے والی اشياء پر ھو سکتا ھے ليکن کھانے اور پہننے والی اشياء پر سجده نہيں کيا جاسکتا ميں نے عرض کی : ميں آپ پر قربان ھو جاؤں اس کا کيا سبب ھے؟ امام ع نے فرمايا: سجده خداوند عزوجل کیلئے خضوع کا نام ھے پس يہ صحيح نہيں ھے کہ کھانے اور پہننے والی چيزوں پر سجده کيا جائے کيونکہ دنيا پرست افراد خوراک اور لباس کے بندے ھيں جبکہ انسان سجدے کی حالت ميں الله عزوجل کی عبادت ميں مشغول ھوتا ھے پس يہ مناسب نہيں ھے کہ اپنی پيشانی اس چيز پر رکھے جس کو دنيا پرست اپنا معبود سمجھتے ہيں اور وه دنيا کے دھوکہ ميں آگئے ہيں اور زمين پر سجده کرنا افضل ھے کيونکہ اس سے خدا کی بارگاه ميں زياده خضوع کا اظہار ہوتا ھے”

بحوالہ؛
( بحارالانوار ج ٨٥ ، ص ١٤٧ )

.

مکتبِ اھلبیت ع میں سجدہ گاہ کے متعلق ھم نے صرف چند شرائط کو مختصر طور پر پیش کیا

📒اھلسنت و الجماعت کا مؤقف📒

اھلسنت و الجماعت میں سجدہ گاہ استعمال نہیں کی جاتی اور نہ ہی سجدہ گاہ کے متعلق مخصوص شرائط ھیں جس طرح مکتبِ اھلبیت ع میں اس سجدہ گاہ کی مخصوص شرائط ھیں اور تاکید ھے جبکہ اھلسنت برادران کا عقیدہ یہ ھے جو کہ واضح ھے ؛

“اھلسنت فقہاء کے نزدیک سجدہ مٹی پر واجب نہیں ھے بلکہ ہر اس جگہ پر جائز ھے جو نجس نہ ھو”

بحوالہ؛

(الموسوعہ الفقیہ الکویتیہ ، وزارة الاوقاف و الشؤون الاسلامیہ، ج۲۴، ص۲۰۱)

قارئین محترم !

چنانچہ ھم نے سجدہ اور سجدہ گاہ کے متعلق مکتبِ تشیع و اھلسنت کے مؤقف کو مختصراً پیش کیا اب ھم اگلے حصہ میں یہ ثابت کریں گے کہ اھلسنت کی معتبر کتب سے نہ صرف سجدہ گاہ ثابت ھے بلکہ سنت رسول اکرم ص ھے اور صحابہ و تابعین اس پر عمل پیرا رھے اور اھلسنت فقہاء نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ھے اور اسے سنت ، بہترین عمل قرار دیا ھے

 

📒سجدہ گاہ کا ثبوت اھلسنت کی معتبر کتب سے📒

 

سجدہ گاہ کے متعلق کچھ اھلسنت فقہاء نے تاکید بھی کی اور اپنی کتب میں اس کے پورے پورے ابواب قائم کئے جس سے ثابت ھوتا ھے کہ اھلسنت و الجماعت میں بھی یہ عمل سنت سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس عمل کو کیوں ترک کر دیا گیا ھم اس پہ بات نہیں کریں گے ھم صرف یہ واضح کرتے ھیں جب جنابِ رسول اکرم ص سے یہ عمل ثابت ھے اور پھر صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین اس عمل کو بجا لاتے رھے اور اس کے بجا لانے کی تاکید بھی کرتے رھے تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں؟؟؟

جب صحابہ کرام رض سے محبت کا دم بھرا جاتا ھے تو پھر ان کی سیرت ترک کیوں؟؟؟

✍ اھلسنت محدثین نے اپنی کتب میں ایک مکمل باب باندھا ھے جس کا عنوان ” الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ ” ھے چنانچہ سب سے پہلے ھم “خمرہ” کی وضاحت کرتے ھیں پھر احادیث بیان کریں گے۔

 

📘”خمرہ کیا ھے ؟؟؟”📘

اھلسنت کے عظیم محدث ابنِ الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ھ حدیث کے ظمن میں لکھتے ھیں کہ خمرہ وہی سجدہ گاہ ھے جو ھمارے زمانے کے شیعہ استعمال کرتے ھیں ملاحظہ فرمائیں:

الخمره: السجادة وهي مقدار ما يضع عليه الرجل حر و جهه في سجوده من حصير اؤ نسيجة من خوص وهي التي يسجد عليها الآن الشيعة

“خمرہ وہ چھوٹا ٹکڑا ھے جس پر سجدے میں آدمی کا فقط سر آ سکتا ھے ، خمرہ سجدہ گاہ ھے جس پر ھمارے زمانے کے شیعہ سجدہ کرتے ھیں”

(جامع الاصول فی احادیث الرسول ، ج ٥ ، ص ٤٦٧ ، ح ٣٦٥٦ )

✍ اسی طرح اھلسنت محدث و مؤرخ علامہ وحید الزماں اپنی کتاب لغات الحدیث میں خمرہ کی وضاحت کرتے ھوئے ایک تو امام ابنِ الاثیر الجزری کا اوپر والا قول نقل کیا کہ یہ وہی سجدہ گاہ ھے جس پر شیعہ سجدہ کرتے ھیں پر آگے مزید وضاحت کرتے ھیں کہ یہ سنت عمل ھے لہٰذا اس پر عمل کرنا ضروری ھے چاھے کوئی شیعہ کہے یا رافضی کہے ملاحظہ فرمائیں :

“اس حدیث (خمرہ) سے سجدہ گاہ رکھنا مسنون ٹھہرا اور جن لوگوں نے اس سے منع کیا ھے اور رافضیوں کا طریق قرار دیا ھے ان کا قول صحیح نہیں ھے ، میں تو کبھی بھی اتباع سنت کیلئے پنکھ جو بوریے سے بنا ھوتا ھے بجائے سجدہ گاہ کے رکھ کر اس پر سجدہ کرتا ھوں اور جاہلوں کی طعن و تشنیع کی کچھ پرواہ نہیں کرتا ھمیں سنت رسول اللہ ص سے غرض ھے کوئی رافضی کہے یا کوئی خارجی”

بحوالہ؛
(لغات الحدیث ، باب: خ ، صفحہ ٢٥٤ )

قارئین محترم !

ھم نے خمرہ کی تھوڑی سی وضاحت کی اور اھلسنت فقہاء و محدثین نے بھی یہ اقرار کیا کہ خمرہ وہی سجدہ گاہ ھے جس پر شیعہ سجدہ کرتا ھے لہٰذا خمرہ کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ھے اب ھم احادیث پیش کرتے ھیں اور ثابت کرتے ھیں کہ جناب رسول اکرم ص بھی سجدہ گاہ پر سجدہ کیا کرتے ھیں یعنی خمرہ۔

 

📒کچھ روایات بطور ثبوت پیش خدمت ھیں📒

 

✍ ثبوت نمبر 1

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.
“ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا ، کہ کہا ہم سے شعبہ نے ، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے ، انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ گاہ (خمرہ) پر نماز پڑھا کرتے تھے۔”

(صحیح البخاری _ باب : الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ ، حدیث ٣٨١)

✍ ثبوت نمبر 2

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ وَأَنَا حَائِضٌ وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدَ. قَالَتْ وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.
“ہم سے مسدد نے بیان کیا خالد سے ، کہا کہ ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا عبداللہ بن شداد سے ، انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور حائضہ ہونے کے باوجود میں ان کے سامنے ہوتی ، اکثر جب آپ ص سجدہ کرتے تو آپ ص کا کپڑا مجھے چھو جاتا انہوں نے کہا کہ آپ ص خمرہ پر نماز پڑھتے تھے”

( صحيح البخاري ، کتاب الصلاۃ ، حدیث ٣٧٩ )

✍ ثبوت نمبر 3

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ- اسْمُهُ الْوَضَّاحُ- مِنْ كِتَابِهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ خَالَتِي مَيْمُونَةَ- زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا كَانَتْ تَكُونُ حَائِضًا لاَ تُصَلِّي، وَهْيَ مُفْتَرِشَةٌ بِحِذَاءِ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ يُصَلِّي عَلَى خُمْرَتِهِ، إِذَا سَجَدَ أَصَابَنِي بَعْضُ ثَوْبِهِ.
“ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہمیں ابوعوانہ وضاح نے اپنی کتاب سے دیکھ کر خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں خبر دی سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد سے، انہوں نے کہا میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں سنا کہ میں حائضہ ہوتی تو نماز نہیں پڑھتی تھی اور یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (گھر میں) نماز پڑھنے کی جگہ کے قریب لیٹی ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خمرہ پر نماز پڑھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے کا کوئی حصہ مجھ سے لگ جاتا تھا”

( صحیح البخاری ، باب: کتاب الحیض ، حدیث ٣٣٣ )

✍ ثبوت نمبر 4

حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ انْطَلَقْتُ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَقُلْتُ أَلاَ تَخْرُجُ بِنَا إِلَى النَّخْلِ نَتَحَدَّثْ فَخَرَجَ. فَقَالَ قُلْتُ حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. قَالَ اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ الأُوَلِ مِنْ رَمَضَانَ، وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي تَطْلُبُ أَمَامَكَ. فَاعْتَكَفَ الْعَشْرَ الأَوْسَطَ، فَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي تَطْلُبُ أَمَامَكَ. فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا صَبِيحَةَ عِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ فَقَالَ: ((مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَرْجِعْ، فَإِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَإِنِّي نُسِّيتُهَا، وَإِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ فِي وِتْرٍ، وَإِنِّي رَأَيْتُ كَأَنِّي أَسْجُدُ فِي طِينٍ وَمَاءٍ)). وَكَانَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ جَرِيدَ النَّخْلِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ شَيْئًا، فَجَاءَتْ قَزْعَةٌ فَأُمْطِرْنَا، فَصَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ وَالْمَاءِ عَلَى جَبْهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَرْنَبَتِهِ تَصْدِيقَ رُؤْيَاهُ.

“ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انہوں نے بیان کیا کہ` میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ تشریف لے چلے۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب قدر سے متعلق آپ نے اگر کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو اسے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے، لیکن جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں (شب قدر) وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبرائیل علیہ السلام دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ (رات) آگے ہے۔ پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے۔ کیونکہ شب قدر مجھے معلوم ہو گئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی۔ مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ایک پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا 👈 پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر دیکھا 👉 آپ کا خواب سچا ہو گیا”
القسم الحدیث : صحیح
{»»»»» الطِّين کا مطلب مٹی ھے ««««««}
(صحیح البخاری ، باب السُّجُودِ عَلَى الأَنْفِ وَالسُّجُودِ عَلَى الطِّينِ ، حدیث ٨١٣ _
[أطرافه 669، 836، 2016، 2018، 2027، 2036، 2040]

✍ ثبوت نمبر 5

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَقَالَ جَاءَتْ سَحَابَةٌ فَمَطَرَتْ حَتَّى سَالَ السَّقْفُ، وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ، فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ، حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ.
“ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ھوئے دیکھا مٹی کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر صاف ظاہر تھا”

( صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب ، حدیث ٦٦٩ ، ٨٣٦)

✍ ثبوت نمبر 6

:جابر بن عبدلله انصاری کہتے ہيں :”کنت أصل الظہر مع رسول للهّ فأخذ قبضة من الحصاء لتبرد ف کف أضعھا لجبھت أسجد عليھا لشدة الحرّ
جب ميں رسول لله کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا تو اپنی مٹھی ميں سنگ ريزے اٹھا ليتا تھا تاکہ وه ميرے ہاتھ ميں ٹھنڈے ہو جائيں اور انہيں سجده کے وقت اپنی پيشانی کے نيچے رکھ سکوں کيونکہ گرمی بہت شديد تھی”

(سنن بيہقی جلد ١ ص ٤٣٩ کتاب الصلوة باب ماروی فی التعجيل بھا فی شدة الحر)

✍ ثبوت نمبر 7

محمد ابنِ سعد المتوفی 210 ھ اپنی کتاب ”الطبقات الکبری” ميں نقل کرتے ھیں:
”کان مسروق اِذا خرج يخرج بلبنةٍ يسجد عليھا ف السفينة”
مسروق ابن اجدع جس وقت سفر کے لئے نکلتے تھے تو اپنے ساتھ ايک کچی اينٹ رکھ ليتے تھے تاکہ کشتی ميں اس پر سجده کرسکيں”

(الطبقات الکبریٰ ج ٦ ، ص ٧٩ ، طبع بيروت ، مسروق بن اجدع کے حالات)

✍ ثبوت نمبر 8

نافع کہتے ھیں:
ان ابن عمرکان اذا سجد و عليہ العمامة يرفعھا حتیٰ يضع جبھتہ بالأرض
“عبد الله بن عمر سجده کرتے وقت اپنے عمامے کو اوپر کرليا کرتے تھے تاکہ اپنی پيشانی کو زمين پر رکھ سکيں”

(سنن بيہقی جلد ٢ ، ص ١٠٥ ، مطبوعہ حيدرآباد دکن ، کتاب الصلوة باب الکشف عن السجدة فی السجود)

✍ ثبوت نمبر 9

اسی طرح مندرجہ ذیل صحابہ کرام و صحابیات سے منقول ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خمرہ پر سجدہ کرتے تھے اور ان روایات کے راوی بھی ثقہ ھیں:

1_حضرت عبداللہ ابنِ عمر

2_حضرت عبداللہ ابنِ عباس

3_حضرت جابر بن عبداللہ انصاری

4_حضرت عائشہ

5_حضرت ام سلمہ

6_حضرت ام حبیبہ

7_حضرت ام سلیم

8_حضرت میمونہ

9_انس ابن مالک

••عن ابنِ عمر قال :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

••و عن عائشة قالت:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

••و عن ام سلیم :
انَ رَسُولُ اللَّهِ كَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

••و عن ام سلمة إن النبي ص كَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

••و عن ام حبيبة زوج النبي ص:
إن النبي ص كَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

••و عن جابر عن النبي ص أنه كَانَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ.

القسم الحدیث : صحیح

بحوالہ؛
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، ج ٢ ، کتاب الصلاۃ ، بات: الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ ، ح ٢٢٦٨_٢٢٦٢)

✍ ثبوت نمبر 10

حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ إسْمَاعِيلَ بْنِ سُمَيْعٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ‏:حدَّثَنِي مَنْ رَأَى حُذَيْفَةَ مَرِضَ، فَكَانَ يُصَلِّي وَقَدْ جُعِلَ لَهُ وِسَادَةٌ، وَجُعِلَ لَهُ لَوْحٌ يَسْجُدُ عَلَيْهِ‏.
حضرت مالک بن عمیر فرماتے ھیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا کہ جس نے حضرت حذیفہ کو بیماری کی حالت میں دیکھا تھا کہ وہ نماز میں ایک تختی پر سجدہ کیا کرتے تھے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من رخص في الصلاة على العود واللوح ، حدیث ٢٨٥٠)

✍ ثبوت نمبر 11

‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ رَزِينٍ مَوْلَى آلِ عَبَّاسٍ، قَالَ‏:
‏ أَرْسَلَ إلَيَّ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنْ أَرْسِلْ إلَيَّ بِلَوْحٍ مِنَ الْمَرْوَةِ، أَسْجُدُ عَلَيْهِ‏.
حضرت زرین کہتے ھیں کہ حضرت علی بن عبداللہ بن عباس نے میری طرف یہ پیغام بھیجا کہ میں ان کیلئے پتھر کی ایک تختی بھیجوں جس پر وہ سجدہ کریں”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من رخص في الصلاة على العود واللوح ، حدیث ٢٨٥١)

📒_جب کپڑے پر سجدہ ھوتا ہی نہیں تو ھم پر اعتراض کیوں؟؟؟؟؟_📒

جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اھلبیت علیھم السلام ، صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین کے نزدیک جب کپڑے پر سجدہ ھوتا ہی نہیں تو پھر ھم پر اعتراض کیوں؟؟؟ جبکہ سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے پر اھلسنت نے بھی اجماع کا دعویٰ کیا ھے جیسا کہ علامہ وحید الزماں نے تیسیر الباری شرح صحیح بخاری میں بھی اس اجماع کا اعتراف کیا ھے ؛
“ابنِ ابطال نے کہا تمام فقہاء نے اس پر اتفاق کیا سجدہ گاہ پر نماز درست ھے مگر عمر بن عبدالعزیز سے منقول ھے کہ ان کیلئے مٹی لائی جاتی وہ اس پر سجدہ کرتے”

(کتاب الصلاۃ ، پارہ ٢ ، صفحہ ٢٧٥)

چنانچہ اس سے ثابت ھوتا ھے کہ سجدہ گاہ کی سنت پر صرف شیعہ امامیہ اثنا عشریہ قائم ھیں باقی جہاں کپڑے کی اجازت ھے وہ روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ یہ عمل گرمی سے بچنے کیلئے تھا ، اب ھم کچھ وہ روایات درج کرتے ھیں کہ جن میں کپڑے پر سجدہ کرنے کی ممانعت وارد ھوئی ھے۔

✍ ثبوت نمبر 12

حضرت ابوبکر کے نزدیک کپڑے پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ھے»»
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر بھی سجدہ گاہ استعمال کرتے تھے اور کپڑے پر سجدہ کرنے سے منع کرتے تھے جس سے سجدہ گاہ کی اہمیت واضح ھوتی ھے جیسا کہ سعودی عرب کے نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر رواس قلعہ جی اپنے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں زمین پر نماز کیادائیگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
“حضرت ابوبکر کی رائے یہ تھی کہ سجدہ رب کےسامنے بندے کے تذلل کی صحیح عکاسی کرتا ھے اور تذلل کا یہ اظہار اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک بندہ مومن اپنی پیشانی کو زمین پر سجدے میں رکھ کر خاک آلود نہ کرے اس لئے حضرت ابوبکر نمدوں (اونی کپڑے کی ایک قسم) پر سجدہ کرنے سے روکتے تھے اور خود زمین پر اس طرح سجدہ کرتے یا نماز پڑھتے کہ پیشانی مٹی تک پہنچ جائے”
بحوالہ؛
(فقہ حضرت ابوبکر ڈاکٹر رواس قلعہ جی جلد:1 صفحہ: 175 )

✍ ثبوت نمبر 13

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَكَنِ بْنِ أَبِي كَرِيمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ أَنَّهُ كَانَ إذَا قَامَ إلَى الصَّلاَةِ حَسِرَ الْعِمَامَةَ عَنْ جَبْهَتِهِ‏.
“حضرت محمود بن ربیع کہتے ھیں کہ حضرت عبادہ بن صامت جب نماز کیلئے کھڑے ھوتے تو اپنے امامے کو اپنی پیشانی سے پیچھے کھسکا لیا کرتے تھے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٠)

✍ ثبوت نمبر 14

‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ‏:إذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَحْسِرَ الْعِمَامَةَ عَنْ جَبْهَتِهِ‏.
“حضرت علی ع فرماتے ھیں کہ جب تم میں سے کوئی نماز کیلئے کھڑا ھو تو اپنے عمامے کو پیشانی سے پیچھے کر لے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧١)

✍ ثبوت نمبر 15

‏حَدَّثَنَا إسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ‏:
‏ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لاَ يَسْجُدُ عَلَى كَوْرِ الْعِمَامَةِ‏.
حضرت نافع فرماتے ھیں کہ ابنِ عمر عمامے کے پیچ پر سجدہ نہیں کرتے تھے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٢)

✍ ثبوت نمبر 16

‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:
‏ أَصَابَتْنِي شَجَّةٌ فَعَصَبْت عَلَيْهَا عِصَابَةً، فَسَأَلْت عَبَيْدَةَ‏:
‏ أَسْجُدُ عَلَيْهَا‏؟‏ قَالَ‏:لاَ‏.
“حضرت محمد فرماتے ھیں کہ ایک مرتبہ میرے سر پر زخم ھوا ، میں نے اس پر پٹی باندھ لی ، میں نے عبیدہ سے پوچھا کہ کیا میں اس پر سجدہ کر سکتا ھوں ؟؟
انہوں نے کہا نہیں”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٣)

✍ ثبوت نمبر 17

‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْقُرَشِيِّ؛ قَالَ‏:
‏رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم رَجُلاً يَسْجُدُ عَلَى كَوْرِ الْعِمَامَةِ، فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ أَنِ ارْفَعْ عِمَامَتَكَ فَأَوْمَأَ إلَى جَبْهَتِهِ‏.
“عیاض بن عبد اللہ قرشی فرماتے ھیں کہ نبی کریم ص نے ایک آدمی کو دیکھا جو عمامے کے پیچ پر سجدہ کر رھا تھا آپ ص نے اسے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ اپنا عمامہ بلند کر لو”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٤)

✍ ثبوت نمبر 18

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إبْرَاهِيمَ؛ أَنَّهُ كَانَ يُحِبُّ لِلْمُعْتَمِّ أَنْ يُنَحِّيَ كَوْرَ الْعِمَامَةِ عَنْ جَبْهَتِهِ‏.
“مغیرہ کہتے ھیں کہ حضرت ابراہیم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ عمامہ باندھا ھوا شخص نماز کیلئے عمامے کو پیشانی سے پیچھے کر لے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٥)

✍ ثبوت نمبر 19

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، قَالَ‏:أُبْرِزُ جَبِينِي أَحَبُّ إلَيَّ‏.
“حضرت ابرہیم فرماتے ھیں کہ پیشانی کو کھلا رکھنا مجھے زیادہ پسند ھے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٦)

✍ ثبوت نمبر 20

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدٍ؛ أَنَّهُ كَرِهَ السُّجُودَ عَلَى كَوْرِ الْعِمَامَةِ‏.
“حضرت محمد اس بات کو نا پسند فرماتے تھے کہ پیشانی کے پیچ پر سجدہ کیا جائے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٧)

✍ ثبوت نمبر 21

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَعْفَر بْنِ بُرْقَانِ، عَنْ مَيْمُونٍ، قَالَ‏:
‏ أُبْرِزُ جَبِينِي أَحَبُّ إلَيَّ‏.
“حضرت ممیمون فرماتے ھیں پیشانی کو کھلا رکھنا مجھے زیادہ پسند ھے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٨)

✍ ثبوت نمبر 22

‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ؛ أَنَّهُ كَرِهَ السُّجُودَ عَلَى كَوْرِ الْعِمَامَةِ‏.
ابنِ سیرین اس بات کو نا پسند خیال کرتے تھے کہ عمامے کے پیچ پر سجدہ کیا جائے”

(المصنف ابنِ ابی شیبہ ، باب: من كره السجود على كور العمامة ، ح ٢٧٧٩)

✍ ثبوت نمبر 23

صالح سبائی کہتے ہيں:
اِنّ رسول للهّ رأی رجلاً يسجد علیٰ جنبہ و قد اعتم علیٰ جبھتہ فحسر رسول للهّ علیٰ جبھتہ
“رسول اللہ ص نے اپنے پاس ايک ايسے شخص کو سجده کرتے ديکھا جس نے اپنی پيشانی پر عمامہ باندھ رکھا تھا تو آنحضرت ص نے اس کے عمامے کو ہٹا ديا”

( سنن بيہقی جلد ٢ ص ١٠٥ )

✍ ثبوت نمبر 25

“قتادہ سے مروی ھے کہ میں نے سعید بن مسیب سے کپڑے پر نماز پڑھنے کو پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بدعت ھے”

(طبقات ابن سعد ، حصہ پنجم ، تابعین و تبع تابعین ، صفحہ ١٢٩ )

✍ ثبوت نمبر 26

نافع کہتے ھیں:
ان ابن عمرکان اذا سجد و عليہ العمامة يرفعھا حتیٰ يضع جبھتہ بالأرض
“عبد الله بن عمر سجده کرتے وقت اپنے عمامے کو اوپر کرليا کرتے تھے تاکہ اپنی پيشانی کو زمين پر رکھ سکيں”

(سنن بيہقی جلد ٢ ، ص ١٠٥ ، مطبوعہ حيدرآباد دکن ، کتاب الصلوة باب الکشف عن السجدة فی السجود)

قارئین کرام !
مندرجہ بالا تمام روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ سجدہ گاہ سنت نبوی ص ھے جو کہ اھلبیت رسول علیھم السلام ، صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین سے ثابت ھے اور اس پر عمل ھوتا رھا ھے چنانچہ یہی وجہ ھے کہ اھلسنت فقہاء نے بھی اس کی اجازت دی اور سجدہ گاہ استعمال کرنے پر اتفاق بھی ظاہر کیا ھے اور جہاں تک کپڑے پر سجدہ کرنے کا تعلق ھے تو اس کے متعلق بھی روایات درج کر چکے اور اھلسنت فقہاء نے بھی یہی کہا کہ بہترین عمل یہی ھے کہ زمین یعنی مٹی پر سجدہ کیا جائے یا خمرہ سجدہ گاہ استعمال کی جائے لہٰذا اس مسئلے کو ابھارنا درحقیقت حقائق سے چشم پوشی ھے ، جو روایات ھم نے اوپر درج کی ھیں اس کے علاوہ بھی کافی ساری روایات ھیں جن کو فی الحال طوالت کے باعث چھوڑ دیا انشاء اللہ پھر کبھی موقع ملا تو دوسرا تحقیقی جائزہ پیش کریں گے ، باقی خداوند متعال تمام مومنین و مسلمانوں کو ھدایت دیں اور انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھیں آمین۔

🌹 صل علی محمد و آل محمد 🌹