وہ علماء اھل سنت جو امام مھدی علیہ السلام کی ولادت اور آپ کے گیارویں امام حسن عسکری علیہ السلام جو اولاد امام حسین علیہ السلام تھے اس کے قائل ھیں۔

کچھ علماء اھل سنت کی گرانقدر تحریریں پیش ھیں امام مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے حوالے سے

.

اس تحریر میں موجود حوالہ جات کے اسکین پیجز کے لئے یہ لنک دیکھیں

👇🏼

https://invisibleislaam.com/?p=1605

.

▪ سبط بن الجوزي حنفي:

سبط ابن جوزی حنفی: نے اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں ایک فصل امام زمانہ علیہ السلام اور ان کی سوانح حیات سے مخصوص کیا ہے:

📝ذكر أولاده منهم محمد الإمام
فصل في ذكر الحجة المهدي
محمد بن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ، وكنيته أبو عبد الله وأبو القاسم وهو الخلف الحجة صاحب الزمان القائم والمنتظر والتالي وهو آخر الأئمة ، وقال : ويقال له ذو الإسمين محمد وأبو القاسم قالوا : أمه أم ولد يقال لها : صقيل.

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے فرزندوں میں سے ایک امام محمد ہیں۔
ایک فصل حجت اور مہدی کے بارہ میں
محمد ابن حسن ابن علی ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو القاسم ہے۔ یہ وہی خلف حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر اور ائمہ سے آخری فرد ہیں۔ بعض لوگوں نے آپ کے دو نام ذکر کئے ہیں: ایک محمد اور دوسرا ابوالقاسم۔ کہا جاتا ہے آپ کی والدہ ماجدہ کنیز تھیں جن کا نام صقیل تھا۔

📚 تذكرة الخواص، ص363 -364.

▪ مسعودي شافعي :

علی ابن الحسین مسعودی: جو اہل سنت کے شافعی مذہب کے بزرگ علماء میں سے ہیں، انہوں نے معتبر کتاب مروج الذہب میں حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت کی وضاحت کی ہے۔

📝 الإمام الثاني عشر وفي سنة ستين ومائتين قبض أبو محمد الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام في خلافة المعتمد، وهو ابن تسع وعشرين سنة، وهو أبو المهدي المنتظر، والإِمام الثاني عشر عند القطِعية من الإِمامية،

ابو محمد حسن ابن علی ۔ ۔ ۔ سنہ ۲۶۰ ہجری میں معتمد عباسی کے خلافت کے دور میں رحلت فرما گئے۔ آپ حضرت مہدی منتظر کے والد بزرگوار ہیں۔ جو اھل بیت کے بارہویں امام ہیں۔

📚 مروج الذهب ج 4 ص 160

▪ ابن خلکان:

ابن خلکان: جو اہل سنت کے علماء میں سے ہیں، انہوں نےحضرت مہدی کی ولادت کے بارے میں لکھا:

📝 أبو القاسم المنتظر
أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي بن محمد الجواد المذكور قبله ، ثاني عشر الأئمة الاثني عشر
كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس و خمسين ومأتين، ولما توفي أبوه _ وقد سبق ذكره ـ كان عمره خمس سنين، وإسم أمه خمط وقيل نرجس.

أبو القاسم المنتظر محمد بن الحسن العسكري …
آپ پندرہ شعبان سنہ ۲۵۵ ہجری بروز جمعہ پیدا ہوئے، اور جب آپ کے والد بزرگوار کی رحلت ہوئی اس وقت آپ کی عمر پانچ سال تھی۔ آپ کی والدہ کا نام خمط تھا اورنرجس بھی کہتے ہیں۔

📚 وفيات الأعيان، ج4 ، ص176

▪ ابو الفداء:

عماد الدین ابو الفداء تاریخ کی مشہور کتاب المختصر فی اخبار البشر میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں:

📝 وكانت ولادة الحسن العسكري المذكور، في سنة ثلاثين ومائتين، وتوفي في سنة ستين ومائتين في ربيع الأول، وقيل في جمادي الأولي، بسرمن رأي، ودفن إِلي جانب أبيه علي الزكي المذكور، والحسن العسكري المذكور، هو والد محمد المنتظر، صاحب السرداب، ومحمد المنتظر المذكور هو ثاني عشر الأئمة الاثني عشر، علي رأي الإِمامية، ويقال له القائم، والمهدي، والحجة. وولد المنتظر المذكور، في سنة خمس وخمسين ومائتين.

امام حسن عسکری کی ولادت سنہ ۲۳۰ ہجری اور وفات سنہ ۲۶۰ ہجری شہر سامرہ میں ہوئی۔ اور آپ اپنے والد علی الزکی ( امام ہادی علیہ السلام ) کے پہلو میں دفن ہوئے۔
آپ: امام محمد مہدی منتظر کے والد ہیں۔

▪ ابن حجر عسقلانی:

ابن حجر عسقلانی، جو کہ علماء اہل سنت کی تاریخ میں علم رجال، درایہ،حدیث،و تاریخ اور نسب شناشی میں بزرگ شخصیتوں میں سے ایک تھے۔وہ اپنی کتاب،
لسان المیزان میں جعفر ابن علی بن محمد کےحالات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئےجعفر ابن علی ابن محمد کا تعارف امام مہدی کے بھائی کے طور پر کراتے ہیں اور خود امام امام حسن عسكري عليه السلام کا تعارف امام مہدی علیہ السلام کے والد کے طور پر کراتے ہیں:

📝 جعفر بن علي بن محمد بن علي بن محمد بن علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب الحسيني أخو الحسن الذي يقال له العسكري و هو الحادي عشر من الأئمة الإمامية ووالد محمد

صاحب السرداب جعفر ابن علی ابن محمد ابن علی ابن محمد ابن علی الرضا ابن موسی ابن جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی زین العابدین ابن حسین ابن علی ابن ابو طالب الحسینی جو کہ امام حسن ع کے بھائی ہیں کہ جنہیں ” عسکری” کہا جاتا ہے جو اھل بیت کےگیارہویں امام ہیں اور امام مہدی علیہ السلام کے والد ماجد بھی ہیں اور (امام مہدی علیہ السلام نے بحکم خدا غیبت اختیار کی تھی۔

📚 لسان الميزان، جلد 2، صفحه 460.

▪ کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی
(متوفی قرن ہفتم ہجری):

انھوں نے “مطالب السوال فی مناقب آل الرسول” کے آخری باب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے،

ان کا اعتقاد ہے کہ امام مہدی امام حسن العسکریؑ کے فرزند ارجمند ہیں اور اب بھی قید حیات میں ہیں۔ اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے انھوں نے یہاں اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو ذکر کرنے کے علاوہ مہدویت کے حوالے سے بعض شبہات کا جواب بھی دیا ہے۔

▪ کنجی شافعی (متوفی قرن ہفتم ہجری) نے بھی اسی نظریئے کو اپنی کتاب “البیان فی اخبار صاحب الزمان ” میں بیان کیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع آوری میں شیعہ روایات کو نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے، خواہ ان کی سند صحیح ہی کیوں نہ ہو، یہ صرف ان کے لئے مفید ہے اور غیر شیعہ روایات سے استدلال اس مسئلے کی اہمیت کو زیادہ اجاگر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے:

📝 مہدیؑ کے باقی ہونے میں کوئی ممنوعیت نہیں ہے کیونکہ اولیاء خدا میں سے عیسٰیؑ، الیاسؑ اور خضر ؑ زندہ ہیں، ساتھ ہی دشمنان خدا ہونے کے باوجود شیطان اور دجال بھی زندہ ہیں، ان کا زندہ ہونا قرآن و سنت سے ثابت ہے، جب ان کے حوالے سے سب کا اجماع ہے، لہذا امام مہدیؑ کا بھی طولانی مدت تک زندہ رہنا بھی کوئی بعید نہیں ہے۔

▪ (اسماعیل بن کثیر 774ہجری):

انھوں نے اپنی کتاب “النھایہ فی الفتن و الملاحم” میں ایک باب “فصل فی ذکر المھدی الذی یکون فی آخر الزمان” کھولا ہے، اس فصل کی ابتداء میں وہ لکھتے ہیں:

📝 مہدیؑ خلفاء راشدین اور ہدایت کرنے والے اماموں میں سے ہوگا، رسول خداؐ سے ان کے بارے میں روایات منقول ہیں، ان روایات کی صراحت یہ ہے کہ حضرت آخرالزمان میں آئیں گے اور میری نظر میں ان کا ظہور عیسٰیؑ کی آمد سے پہلے ہوگا، مہدی موعود ؑ رسول خدا کی ذریت سے فاطمہ زہراؑ کی اولاد میں سے ہوں گے۔

▪ سعدالدین تفتازانی (متوفی793ہجری):

انھوں نے اپنی کتاب “شرح المقاصد” کی بحث امامت میں امام مہدیؑ کے ظہور کو موضوع بحث قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:

📝 صحیح (السند) روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاطمہؑ کی نسل سے ایک پیشوا ظہور کریں گے، وہ دنیا کو ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔

▪ جلال الدین سیوطی (متوفی911ہجری)

یہ اہل سنت کے بارز اہل قلم علماء میں سے ہیں، اس نے تفسیر، حدیث اور علوم قرآنی جیسے مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مہدیؑ ان بارہ خلیفوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام جابری سمرہ کی حدیث میں آیا ہے۔
مہدی ؑ عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں میں سے ایک نہیں ہوسکتے، “لامھدی الا عیسی بن مریم” والی حدیث ضعیف ہے

📝 کیونکہ مہدی ؑ کے ظہور پر متواتر روایات دلالت کرتی ہیں اور وہ رسول خدا کے فرزندوں میں سے ہوں گے اور عیسٰی ؑ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

▪ حنبلی علماء کی نظر میں امام مہدیؑ:

▪امام احمد بن حنبل (متوفی241ہجری)

یہ حنبلی مذہب کے سربراہ ہیں اور ان کے سب سے قدیمی اور مفصل حدیثی کتاب کے مؤلف بھی ہیں۔ انھوں نے اس حدیثی مجموعے میں امام مہدیؑ کے حوالے سے متعدد روایات نقل کی ہیں، بعد میں ان احادیث کو الگ سے ایک کتابی صورت دی گئی ہے، “احادیث المہدی ؑ من مسند احمد بن حنبل” کے یہ عنوان سے یہ کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں 136 احادیث کو مسند احمد سے استخراج کیا گیا ہے اور ان کو چند ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، اس میں امامؑ کے ظہور کی نشانیاں، ظہور کا وقت اور اس وقت کی وضعیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

▪ ابن طولون دمشقی (متوفی935ہجری):

یہ حدیث، فقہ اور تاریخ میں صاحب نظر شمار ہوتے ہیں، انہوں نے بھی مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی ہے، ان کی ایک کتاب “الائمہ الاشاعہ” ہے، اس کا ایک حصہ انھوں نے “الحجۃ المھدی” سے مختص کیا ہے،

📝 یہاں انہوں نے امام مہدیؑ کے حوالے سے بحث میں امام مہدیؑ کی ولادت اور آپ کے زندہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

▪ عبدالوہاب شعرانی (متوفی973ہجری):

یہ اپنی کتاب “الیواقیت و الجواھر” میں امام مہدی ؑ کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

📝 وہ (امام مہدیؑ) امام عسکریؑ کے بیٹوں میں سے ہیں، ان کی ولادت نیمہ شعبان 255 ہجری کو ہوئی اور وہ عیسٰیؑ کی آمد تک زندہ رہیں گے۔

▪ سلیمان بن ابراہیم قندوزی (متوفی1294ہجری):

انھوں نے اپنی مشہور کتاب “ینابیع المودۃ” کو اہل بیتؑ کے فضائل کے بیان سے مختص کیا ہے، اس کا زیادہ تر حصہ امام مہدیؑ سے مربوط ابحاث پر مشتمل ہے،

📝 اس کتاب میں انھوں نے ان آیات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کی تاویل و تفسیر امام مہدیؑ سے مختص ہیں، علاوہ ازیں ان کے حوالے سے بہت ساری روایات کو مختلف منابع سے نقل کیا ہے، ساتھ ہی وہ روایات جن میں بارہ خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے اور ان کے بارے میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ موصوف نے اسی کتاب کے ایک اور باب میں امام ؑ سے جو خارق العادہ امور انجام پائے ہیں، ان کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کا بھی ذکر کیا ہے،جنہوں نے غیبت کے زمانے میں امام مہدی ؑسے ملاقات کی ہے۔

▪ ابوالبرکات آلوسی (متوفی1371ہجری):

انھوں نے اپنی کتاب “غایۃ المواعظ” میں قیامت واقع ہونے کی نشانیوں میں امام مہدی ؑ کے ظہور کو بھی ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر علماء اور دانشوروں کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ امام مہدیؑ کا ظہور و خروج بھی ان نشانیوں میں سے ہیں۔

▪ قرطبی مالکی (متوفی671ہجری):

ان کا شمار مشہور اہل سنت علماء اور اہل قلم میں ہوتا ہے، ان کی بہت ساری کتابیں ہیں، ان میں سے ایک “التذکرۃ فی احوال الموتی و امور الآخرۃ” ہے اس کتاب میں انہوں نے چند ابواب کو امام مہدیؑ سے مختص کیا ہے۔ انھوں نے اہل سنت منابع سے متعدد روایات کو امام مہدیؑ کے حوالے سے ذکر کیا ہے، ان احادیث میں سے بعض کی وضاحت میں انھوں نے خود بھی امام مہدی ؑ سے مربوط کچھ مطالب ذکر کئے ہیں۔ انھوں نے سورہ توبہ کی تینتیسویں آیت جس میں اللہ تعالٰی نے دین اسلام کے غلبے کا وعدہ دیا ہے

▪ ابن صباغ مالکی (متوفی855ہجری):

یہ اپنے زمانے کے مالکی فرقے کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ ان کی ایک کتاب “الفصول المھمۃ فی معرفۃ احوال” میں امام مہدیؑ کی شخصیت، ان کے ظہور کی کیفیت، ان کی تشکیل حکومت کا ذکر کرنے کے بعد ایسی شخصیت کی آمد کے حوالے سے تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے معتقد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی بارہویں فصل میں انھوں نے امام ؑ کی شرح حال، ان کی خصوصیات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مباحث من جملہ امام مہدی ؑ کے حوالے سے متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بھی امام مہدیؑ کی ولادت باسعادت اور ان کے قید حیات میں ہونے کے معتقد ہیں۔

اتنی مدلل تحریر کا مقصد یہ ھے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بارواں امام ماننا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا بیٹا تسلیم کرنا یہ صرف شیعہ کا عقیدہ نھی بلکہ بھت سارے بزرگ علما اھل سنت بھی یھی عقیدہ رکھتے تھے جن ملا عبد الرحمان جامی اور اور دیگر علماء نے باقاعدہ امام مہدی علیہ السلام اور بارہ امام کے موضوع پر کتب بھی لکھی ھیں